آیت چچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ولیمے کے بعد یہ اپنے گھر نہیں گئی تھی۔جانا بھی کیا تھا چچا کے پورشن سے ہی دوسرا دروازہ نکلتا تھا۔آیت اپنی ساس کے ساتھ سبزی کاٹ رہی تھی۔ابھی اس کی شادی کو اتنے دن نہیں ہوئے تھے مگر پھر بھی یہ اپنی ساس کے ساتھ کچن کے کام کروانے لگ گئی تھی۔
“ارے بیٹا تم یہ کام کیوں کر رہی ہو۔حویلی میں نوکر بھرے پڑے ہیں ۔میری بچی تمہارے کرنے کے یہ کام نہیں ہیں ۔خیر سے خان بیگم ہو۔”
“چچی میری قسمت میں یہ خطاب محبت کے تحت تو نہیں آیا ۔”
“بیٹا ایسا مت سوچا کرو تم۔ایسا سوچو گی تو مستقبل کی زندگی کیسے گزرے گی۔تم مجھے دیکھو تمہارے چچا نے آج تک مجھ سے پیار کے دو لفظ نہیں بولے۔مگر رہنا تو مجھے ان کے ساتھ ہی ہے نہ اس لیئے ان کی ہر جلی کٹی بات کو برداشت کر لیتی ہوں چپ چاپ میں ۔”
“چچی یہ آپ کی ہمت ہے۔میں ایک عام لڑکی کی طرح خواب دیکھا کرتی تھی کہ ایک دن اس حویلی کی لڑکیوں کے لیئے کچھ کروں گی مگر دیکھیں میں خود ہی قید ہوکر رہ گئی ہوں۔یہ تو بابا جانی کی مہربانی ہے جہنوں نے مجھے تعلیم حاصل کے کی اجازت دے دی ورنہ شاید میری حالت آج بہت بدتر ہوتی۔”
“تیرے دادا نے پھر تجھ سے تجھے پڑھانے کی بہت بڑی قیمت بھی تو وصول کی ہے نہ۔میرے بچی تجھے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ولید میرے ہاتھوں میں بڑا نہیں ہوا۔اس کی دادی جب تک زندہ رہی ان کے پاس ہی رہتا تھا وہ۔پندرہ برس کا تھا وہ تو تیری دادی اس دنیا سے گئی اور وہ میرے ہاتھ آیا ۔اس کو تو تیری دادی یہ بھی اکثر کہا کرتی تھی کہ میں اس کی ماں نہیں ہوں ۔بچپن سے اسے دستار کا حقدار بنا کر سب فیصلے اس سے کروا کے تیرے دادا نے میرے بیٹے کی زندگی خراب ہی کر دی ہے۔”
“چچی آپ کا دل نہیں کرتا کہ اس حویلی کی جو لڑکی۔ہو اس کو مکمل اختیار حاصل ہو اپنے فیصلے لینے کا۔ہم تو ویسے بھی اپنے ماں باپ کے آگے کچھ نہیں بولتے مگر ایک بار ہم سے پوچھ لیا جائے کہ ہماری بھی کیا مرضی ہے تو کیا ہمارا مان نہیں رہ جائے گا۔”
“ارے میری بچی یہ شکر کر میں تیری ساس ہوں۔اگر تیری دادی جیسی کوئی عورت ہوتی تو پھر تجھے زندگی اور بہت مشکل لگتی۔بس کوشش کر ولید کو اپنی طرف کرنے کی۔میں چاہتی ہوں جلدی جلدی تیری اولاد ہوجائے ۔ولید کا دھیان اولاد کی طرف لگے کا نہ ایک بار تو پھر اسے کچھ یاد نہیں رہے گا۔”
“چچی اولاد ہی تو ہر چیز کا حل نہیں ہوتا نہ۔یہ ہمارا معاشرہ ہے یہاں پانچ پانچ بچوں والی عورتوں کو مرد چھوڑ دیتے ہیں ۔ان کی بھی تو اولاد ہوتی ہے نہ۔ہم غلط کہتے ہیں کہ اولاد پائوں کی زنجیر بنتی ہے ۔”
“بی بی جی آپ کی بڑی بہن آئی ہیں ۔”
ملازمہ نے آکر تارا کے آنے کی اطلاع دی۔تارا آیت کی بڑی بہن تھی۔
“چچی مجھے ولید نے سب سے ملنے سے منع کیا ہے۔”
“اسے کوئی نہیں بتائے گا۔میں کہہ دوں گی تارا مجھ سے ملنے آئی تھی۔تو جا اسے اپنے کمرے میں لے جا۔”
آیت کمرے میں آئی جہاں ملازمہ تارا کو بٹھا گئی تھی۔
“تارا آپا۔۔۔۔۔۔۔”
آیت بہن کا سہارا پاتے ہی شدید روئی۔
“ارے پاگل کیوں تو رہی ہے سب ٹھیک تو ہے نہ۔میری بچی ایسے تو نہ کر نہ۔”
“آپا آپ کہاں تھی۔معلوم ہے آپ کو میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ہمارا بھائی شاہ بخت اتنا خود غرض کیسے ہوسکتا ہے۔اپنی خوشیوں کی خاطر اس نے مجھے قربان کر دیا آپا۔”
“مجھے نہیں بتایا ماں نے۔وہ تو کہہ رہی تھی کہ ولید کو تم پسند ہو باقاعدہ رشتہ مانگا تھا اس نے خود ماں اور ابا سے۔”
“نہیں آپا اسے میں پسند نہیں ہوں۔آپ جانتی ہیں شادی کی پہلی رات اس نے جانوروں جیسا سلوک کیا میرے ساتھ۔میرے چہرے پر تھپڑ مارے جس سے محسوس کی گئی ذلت میں ساری عمر نہیں بھولوں گی۔اس نے مجھے ضد میں خان بیگم بنا دیا ہے۔وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔بات بات پر مارنے لگتا ہے۔میں نہیں جانتی تھی آپا ہمارا چھوٹا ولی بہت بڑا ہوگیا ہے۔مہر کی محبت کی سزا میں کاٹ رہی ہوں۔وہ مجھے کہیں آنے جانے نہیں دیتا ۔ہم نے کل گھومنے جانا ہے پتا نہیں وہاں جاکر میرا کیا حال کرے گا۔”
“ارے مت رو۔مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ اتنا برا کیا ہے بابا جانی نے تیرے ساتھ۔تو ان کی پوتی تھی۔کیا ابا نہیں بولے ۔ان کا تو خون تھی نہ تو۔”
“وہ پہلے کبھی بولتے تھے جو اب بولتے۔آپ کو پتا ہے ولید سے مجھے سخت خوف آتا ہے۔”
“تو کیا کر سکتی ہے ۔ کچھ بھی تو نہیں۔میں بھی تیرے لیئے کیا کرسکتی ہوں۔میری قسمت دیکھ نہ مجھے بڑی عمر کے بندے سے بیاہ دیا گیا۔میرا قصور صرف اتنا تھا نہ کہ میں خوبصورت نہیں تھی۔ رنگ سنوالا تھا میرا۔مگر شکر ہے فراز بہت اچھے ہیں ۔کم کھا لیتی ہوں مگر عزت ہے بہت ان کے نزدیک۔”
“آپا مہر کو اتنا خوش رکھا ہے شاہ بخت نے۔وہ ہائوس جاب کر رہی ہے۔اسے تو پڑھنے کا شوق بھی نہیں تھا مگر میرے سب خواب ریزہ ریزہ کر دیئے بھائی نے۔”
“بس میرا بچہ۔ہم عورتیں ہیں ہماری آواز کوئی سننے والا نہیں ۔ہم سے اگر ہماری مرضی پوچھی جائے اور ہم انکار کر دیں تو ہمیں ماں باپ کا نافرمان کہا جاتا ہے۔ہمیں باغی بنا دیا جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ اپنے گھر کی چاردیواری سے باہر نکل ۔یہی چار دیواری تو ایک عورت کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔مگر جب کسی عورت کی شادی کرو تو کم از کم اس کی پسند تو پوچھو ۔زندگی تو اس نے بات گزرانی ہے سب کچھ اس نے سہنا ہے۔اب جو ہوچکا ہے وہ ہوچکا ہے۔کوشش کرو کہ ولید کو سمجھو۔اس کی زبان دادی کی زبان ہے جو ہم سب جانتے ہیں ۔جوان خون ہے وہ اپنی طرف مائل کرو اسے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔کچھ دن اس کو خاموشی سے سمجھو۔یہی وقت ہوتا ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کا۔پھر چار پانچ سال بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ابھی شادی کی شروعات ہے تھوڑا برداشت کر لو۔”
“آپا مجھے کبھی کبھی لگتا ہے میری برداشت ختم ہوجائے گی۔ابھی تو شادی کو اتنا عرصہ ہی نہیں ہوا۔”
“کوشش کرو ولید سے بات کرو۔جب آپ آپس میں بات نہیں کرتے نہ تو بہت سی غلط فہمیاں ہوجاتی ہیں جو آپ کو جینے نہیں دیتی۔اس سے باتیں کرو اسے بتائو کہ وہ تمہارا شوہر ہے اور تم۔اس کی بیوی ۔اب کیا اہمیت ہے تمہاری اس کی زندگی میں ۔”
دونوں بہنیں باتیں ہی کر رہی تھی جب چچی جان ان کے کمرے میں آئی۔
“تارا بیٹا تو جلدی سے میرے کمرے میں آجا۔وہ آج ولید جلدی ہی آگیا ہے۔”
تارا فورا سے اٹھی مگر دروازے میں ولید نظر آگیا۔اس وقت تارا کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
“کیسے ہو ولی۔”
“میں ٹھیک ہوں آپا آپ کیسی ہو۔”
“میں بھی بلکل ٹھیک۔تم تو یونیورسٹی جاتے ہو نہ ابھی گیارہ بجے ہیں جلدی ہی آگئے ہو تم۔”
“جی وہ کل میں نے نکلنا تھا مری کے لیئے ۔مگر سوچا آج چلے جاتے ہیں۔اس لیئے میں جلدی گھر آگیا۔آپ بیٹھیں نہ۔کھانا کھا کر جائیے گا۔”
“نہیں پھر کبھی آئوں گی تم۔لوگ جانے کی تیاری کرو۔”
آیت کا حلق خشک تھا کہ نجانے اب ولید کیا کرے گا۔مگر حیرت انگیز طور پر ولید نے کچھ بھی نہیں کیا۔تارا چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد ولید آیت کو لے کر مری کے لیئے نکلا۔انہیں ایبٹ آباد سے مری جاتے ہوئے چھ گھنٹے لگ گئے۔مری پہنچ کر بھی ولید نے آیت کو کچھ نہ کہا۔مری آتے ہی ولید کہیں نکل گیا۔آیت نے اس کو کاٹیچ کو دیکھا۔یہ بہت خوبصورت ویران جگہ پر بنا ہوا کاٹیج تھا۔ولید رات کو آٹھ بجے آیا مگر اس وقت مری میں سردی بہت تھی اور اندھیرا ہوچکا تھا۔آیت کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کو کاٹیچ بابا جانی کی ہے کیونکہ بابا جانی انہیں کبھی باہر نہیں لائے تھے نہ انہیں ہوسٹل کے بغیر کہیں جانے کی اجازت تھی۔اس جگہ ایک نوکر تھی جو نزدیک ہی چار گھروں کے فاصلے پر رہتی تھی۔ولید کے آتے ہی وہ بھی چلی گئی۔ولید نے اپنی جیکٹ اتاری۔اس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا جو اس نے سائٹ پر رکھا۔آیت کو حیرت تھی کہ اسے ولید نے تارا کے آنے پر کچھ بھی نہیں کہا ۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ولید اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔باہر برف باری ہورہی تھی۔ولید نے آیت کو کھانے کا کہا اور کمرے میں چلا گیا۔آیت کھانا لا کر ولید کے سامنے رکھتے ہی باہر چلے گئی۔نو بچے کاوقت تھا۔کاٹیج کے اندر والے دروازے کے باہر لان تھا جس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی دیواریں تھی۔ہر طرف درخت تھے اور رات کے اس وقت اگر باہر دیکھا جاتا تو ایک بہت عجیب سا منظر تھا۔آیت آرام سے صوفے پر بیٹھ کر ٹی وہ لگائے بیٹھی تھی جب ولید کھانے کے برتن لے کر آیا ۔
“خان آپ مجھے کہہ دیتے میں اٹھا لیتی برتن۔”
“چپ مجھے تمہاری آواز بھی نہیں سننی۔میں آکر پوچھتا ہوں تم سے کہ کیا حرکت کی ہے تم۔نے۔میرے کہنے کے باوجود تم نے اپنے گھر والوں سے تعلق رکھا۔”
ولید کچن میں چلا گیا اور واپس آیا ۔آیت جانتی تھی کہ ولید جیسا انسان اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
“تم جانتی ہو آیت مجھے بچپن سے ان لوگوں سے نفرت ہے جو میری بات نہیں مانتے۔آج تم نے نجانے ہماری کتنی ہی باتیں اپنی بہن کے سامنے کی ہوں گی جس کی وجہ سے میری کتنی بے عزتی ہوئی ہوگی تم جانتی ہو۔”
“خان میں نے آپ کی کوئی بات نہیں کی۔”
“کیا کہا تھا میں نے مجھے زبان چلانے والے لوگ ہرگز پسند نہیں ۔”
ولید کے چیخنے ہر آیت کو اچھا خاصا ڈر لگا۔ولید اپنی عمر کے لڑکوں سے اچھا خاصا بڑا تھا۔آیت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔
“تمہیں پتا پے مجھے دھوکا دینے والے کتنے برے لگتے ہیں ۔”
ولید آیت کے نزدیک آنا شروع ہوا۔
“خان یقین کریں میں نے کچھ بھی جان پوچھ کر نہیں کیا۔”
“وہ تو میں جانتا ہوں تم۔کچھ بھی جان پوچھ کر تھوڑی کرتی ہو بھلا۔تم تو بہت سمجھدار ہو نہ مجھ سے بڑی ہو اس لیئے تم میں عقل تھوڑی زیادہ یے۔”
“نہیں خان پلیز ایسا نہیں ہے۔” آیت کو اس وقت ولید سے سخت خوف آرہا تھا۔ولید بے آیت کا بازو دبوچا اور اسے گھسیٹے ہوئے مین دروازے تک لایا۔
“آج کی رات باہر برف باری میں گزار کر تمہیں اب اس بات کا احساس ہوگا کہ تم نے کس کی بات نہیں مانی۔تم پر مجھے جتنا غصہ ہے نہ وہ تمہاری حالت دیکھ کر ہی ختم ہوجائے گا۔”
“نہیں خان نہیں ۔میں کچھ نہیں کروں گی آپ جو کہیں گے میں مانوں گی میرے ساتھ ایسا کچھ بھی مت کریں ۔”
“اب تو بہت دیر ہوگئی ہے نہ بے بی۔مجھے بلکل نہیں پسند کہ میری بیوی مجھے بچہ سمجھے۔اسے بھی تو پتا چلنا چاہیے نہ کہ اس کا شوہر ولید خان کیسا پے”ولید نے دروازہ کھولا اور آیت اور باہر دھکا دیا۔آیت کا روم روم کانپ گیا۔سردی بہت تھی۔اندر سردی نہیں تھی اس لیئے آیت نے پتلی سے سویٹر پہن رکھی تھی۔رات کی خاموشی اور اردگرد درخت۔باہر لگی چھوٹی چھوٹی دیواریں جن سے کوئی بھی اندر آسکتا تھا۔آیت کو لگا اگر ولید نے اسے یہاں چھوڑ دیا تو شاید یہ زندہ نہ رہ پائے۔”
“خان نہیں خان میں کبھی اپنے گھر والوں سے نہیں ملوں گی۔مجھ پر رحم کریں خان۔میں کبھی آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گی۔”
“ارے نہیں میری۔جان تم جیسے لوگ باتوں کی زبان نہیں سمجھتے۔ایک بار تم یہ۔ل سزا پالو گی تو تمہیں احساس ہوجائے گا کہ تم نے اب میرے میرے ساتھ ہی رہنا ہے۔”
ولید نے دروازہ بند کر دیا۔آیت فورا سے دروازے کے پاس آئی اور دروازہ بجانے لگی۔
“خان پلیز مت کریں۔دیکھیں آپ کی بھی تو بہن ہے نہ۔وہ میرے بھائی کے ساتھ رہتی ہے اس کے ساتھ کبھی کسی نے برا نہیں کیا خان۔میرے ساتھ ایسا مت کریں خان۔”
ولید سب کچھ سنے بغیر ہی کمرے میں چلا گیا۔آیت کہنے کو تو 25 برس کی تھی مگر اس کو اندھیرے سے ایک عام سے انسان کی طرح ڈر لگتا تھا۔اپنی دوستوں کو یہ ہوسٹل میں بھی رات کو کمرے کی لائٹ نہیں بند کرنے دیتی تھی۔برف باری تیز ہوگئی تھی۔آیت کے دانت بج رہے تھے مگر اس سے زیادہ اردگرد کا خوف آیت پر بھاری تھا۔ہم افسانوں کی دنیا میں پڑھتے ہیں کہ ایسے حالت میں لوگ اپنا ہوش و حواس گنوا دیتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔آیت اپنی آنکھیں کھولے کھڑی تھی۔اردگرد سے آتی جانوروں کی آوازیں برف سے ڈھکے درخت۔آیت دروازہ بجا بجا کر تھک گئی تھی۔الو کی آواز فضا میں اس وقت انتہائی خوفناک لگ رہی تھی کہیں دور سے غرانے کی آوازیں بھی آرہی تھی جیسے بھیڑیے اکٹھے ہوگئے ہوں۔۔آیت اس لمحے برف سے ڈھکے فرش پر بیٹھ گئی۔اسے جس کی محبت کی خاطر اس شادی کو قبول کرنا پڑا وہ عیش میں رہ رہی تھی اور یہ کیسے یہاں رہ رہی تھی۔
“تم نے اچھا نہیں کیا بھائی۔کم از کم اتنا تو دیکھ لیتے کہ بے شک تم مجھے بے زبان سمجھتے ہو مگر جانور کو بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔جسے تم۔سب نے میرا محافظ بنایا ہے دیکھو آج وہ کیسے مجھے تکلیف دے رہا ہے۔بھائی اتنے بے حس تو نہیں ہوتے یا شاید یہ میری غلطی فہمی ہے۔”
آیت اپنی آنسو صاف کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ بھی رگڑ رہی تھی۔یہ ایک ڈاکٹر تھی مگر آج سب پڑھائی کسی کام کی نہیں تھی جب یہ اپنے لیئے آواز نہیں اٹھا سکتی تو۔بابا جانی نے اس کی شادی کی اور اس کے بعد اسے بھول ہی گئے۔اس کی ماں کتنی آسانی سے اسے بھول گئی۔کاش وہ دیکھ پاتی ان کی بیٹی کا حال میں ہے۔رات کو بجانے کب آیت کی خوف کے مارے آنکھ لگ گئی۔انسان تو انسان ہے سخت مشکل حالت میں بھی اس کی آنکھیں بند ہو ہی جاتی ہیں اور آیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...