(Last Updated On: )
چاپ گرتے پتوں کی، مل رہی ہے خوشبو میں
رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں
میرے پاؤں کے نیچے دلدلیں ہیں سایوں کی
شام آ پڑی شاید پربتوں کے پہلو میں
وصف دیوتاؤں کے، ڈھونڈتے ہو کیا مجھ میں
کون تاب سورج کی، پا سکا ہے جگنو میں
عدل ہے یہ آمر کا، اس طرح اسے سہہ جا
آندھیاں تلیں جیسے برگ کے ترازو میں
تالیاں بجا کر رو، دیکھ اس تماشے کو
المیے کا ہیرو ہے، مسخرے کے قابو میں
سہہ رہا ہوں برسوں سے یورشیں زمانے کی
لوچ ہے شجر کی سی میرے دست و بازو میں
٭٭٭