اکبر: (خود کلامی) آج یہ کیسے خیالات میرے دل میں آرہے ہیں ہم اور چوری۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔ مگر موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔۔۔ مگر ہمارے ہاتھ ہاں ہمارے ہاتھ۔۔۔ ان نوٹوں کے؟ کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ اک ذرا ہمت کی ضرورت ہے اگر ہم خود تھوڑی سی ہمت کریں تو۔۔۔۔ بیس سال سے جو خواب دیکھتے آئے ہیں وہ حقیقت بن سکتا ہے۔۔۔ یہ دفتر کا اگر میں جیبوں میں بھر کے چل دوں تو اس وقت کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔۔۔ کوئی دیکھنے والا نہیں۔۔۔ روپیہ نہیں تھا اسی لئے تو ہم اپنی زمینوں کو نئی زندگی نہ دے سکے۔۔ مگر یہ ضمیر کی آواز۔۔۔ کوئی اندر سے کہتا ہے نہیں نہیں مگر اندر والے کی بات کیوں مانوں۔۔ یہ سنہری موقعہ ہے۔۔ ایسا موقعہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔۔ اور مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا۔۔ آہ کیسی الجھن ہے۔۔ اف پسینہ۔۔ تو کیا ہم بزدل ہیں۔۔۔ مگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔۔۔ ہاں نہیں۔۔ ہاں نہیں۔۔ یہ کیسی جنگ ہو رہی ہے میرے اندر۔۔ اب دیر کی تو ہمیشہ کے لئے اندھیرا ہے زندگی میں۔۔۔ نہیں میں چراؤں گا۔۔۔ میں یہ روپیہ چوری کروں گا۔۔۔ (گھبرا کر) کون طفیل تم۔۔۔۔
طفیل : ہاں بڑے بابو میں
اکبر: تم۔۔ تم۔۔ یعنی تم
طفیل: دروازے کے پیچھے سے آپ کی باتیں سن رہا تھا
اکبر: سن رہے تھے۔ سب باتیں سن رہے تھے۔ سب باتیں جو ہم اپنے آپ سے کر رہے تھے
طفیل : جی ہاں
اکبر: کسی سے کہنا نہیں
طفیل : (ہنستا ہے) کہنا نہیں۔۔۔ اتنی بڑی بات اور کسی سے نہ کہوں
اکبر: مگر مگر طفیل
طفیل : طفیل نہیں۔۔۔ مسٹر طفیل
اکبر : مسٹر طفیل
طفیل : اب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسٹر طفیل کیا چیز ہے
اکبر : مگر تم تو۔۔ تم تو بڑے سیدھے سادے بڑے فرمانبردار ہو
طفیل : (ہنستا ہے) فرمانبردار۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر میں دیکھنا کیسی فرمانبرداری کرتا ہوں
اکبر : مجھے معاف کر دو۔۔ میری عزت
طفیل : آپ کی عزت۔۔ آپ کی عزت کی خاطر اپنے چانس کو چھوڑ دوں۔ جس وقت یہ خبر یہ اتنی بڑی خبر بوس کو پہنچاؤں گا تو۔۔ فوراً فوراً اسپیشل انکریمنٹ
(ٹیلی فون کی گھنٹی)
اکبر: ہیلو ہیلو میں اکبر بول رہا ہوں
آفتاب : ابو
اکبر: آفتاب
آفتاب : آپ نوکری سے استعفیٰ دے دیجئے
اکبر: ایں
آفتاب : مجھے کمپنی کی طرف سے انکل نے لون دلوا دیا ہے
اکبر: لون
آفتاب : جی ہاں۔۔۔ زمینوں کے لئے۔۔ زمینوں کی نئی زندگی کے لئے
اکبر : کیا واقعی؟
آفتاب : ابھی resignation لکھ کر دے دیجئے۔ میں چیک لے کر بینک جا رہا ہوں
(ریسیور رکھنے کی آواز)
اکرم : (داخل ہوتا ہے) آداب عرض
اکبر : آپ
اکرم : مجھے پہچانا نہیں آپ نے۔۔۔ یہ میرا کارڈ ہے
اکبر: اکرم طور نمائندہ فرینڈز اینڈ کو
اکرم : آپ کے ساتھ چار ٹریکٹروں کے لئے کراسپانڈینس ہو رہی تھی نا
اکبر: مگر یہ اچانک اس وقت
اکرم : آپ کے صاحبزادے کو روپیہ مل گیا ہے اس لئے پہلی فرصت میں
اکبر: روپیہ مل گیا ہے آفتاب کو۔۔۔ مگر آپ کو کیا معلوم۔۔۔ اور اس قدر جلد
یعنی ابھی ابھی تو اس کا فون۔۔۔ کیوں طفیل
طفیل : ہاں بڑے بابو ابھی ابھی آپ کے صاحبزادے صاحب نے فون پر اطلاع دی تھی
اکرم : ایک سچے ایجنٹ کی یہ تو خوبی ہے کہ کسٹمر کی ایک ایک بات کی خبر رکھے۔ بلکہ خود کسٹمر کو خبر نہ ہو۔۔ ایجنٹ کو خبر ہو۔۔۔ جب ہے بات
طفیل : بڑے ہی کمال کے ایجنٹ ہیں آپ
اکرم: تو آج کنٹریکٹ سائن ہو جانا چاہئیے
اکبر : ضرور ضرور۔ ہم آپ ہی کی معرفت کنٹریکٹ خریدیں گے
(ہنسی)
طفیل : بڑے بابو آپ کی زمینوں پر پہلی فصل آئے تو ہمارے پھل بھیجنے کا بھی خیال رکھئے گا۔
اکبر : ضرور۔۔ ضرور۔۔۔ چھ مہینے کا اناج تمھارے گھر میں بھروا دیں گے۔
طفیل : بڑی بڑی مہربانی بڑے بابو
اکبر: چھ مہینے چھ سنہری مہینے۔۔ سنہری بالیاں گندم کی۔۔ زمین زمیندار کی نئی زندگی۔۔ اپنی زمین۔۔ اپنی فصلیں۔۔ اپنے کھیت گاؤں۔۔ میرے خوابوں کی بستی۔۔۔ جہاں سادگی ہے۔۔ معصومیت ہے۔۔ محبت ہے۔۔۔ گھنے درختوں کی چھاؤں۔۔۔ اب کیا نہیں ہو گا میرے لئے۔۔۔ سب ہی کچھ تو ہو گا۔۔۔ جو زمین سے پیار کرتے ہیں آسمان ان سے پیار کرتا ہے۔۔ دھرتی جو ماں کی مامتا ہمیں دیتی ہے۔۔ اب میں دور چلا جاؤں گا۔۔ اس زندگی سے دور جو مجھے پسند نہیں۔
وہاں گھنے درخت ہیں، مویشیوں کے گلے ہیں، بانسری ہے، پنگھٹ ہے، پنگھٹ پر لہراتے ہوئے آنچل ہیں۔۔۔
(گنگناتا ہے)
٭٭٭
ماخذ:
https://raisfroughe.wordpress.com/ /
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...