کلثوم : بال بال بچا ہے آج کبوتر نہیں تو بلی کھا ہی گئی تھی اسے
آفتاب : اوہو
کلثوم : اس وقت سے سہما بیٹھا ہے اپنے کابک میں
آفتاب: اچھا
کلثوم : ذرا آنکھ بچی اور بیچارے پر ایسی جھپٹی کہ سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
آفتاب : بلی جو ٹھیری
کلثوم : وہ تو کچھ اس نے ہمت کی جو پھڑپھڑا کر اس کے پنجوں سے نکل گیا۔
آفتاب : ایسے وقت ہمت آہی جاتی ہے۔
کلثوم : نہیں تو جان سے گیا تھا
آفتاب : قسمت اچھی تھی جو بچ گیا
کلثوم : اور کیا ورنہ بلی کا حملہ خالی نہیں جاتا ہے
آفتاب: بیچارہ کبوتر
کلثوم: معمولی سا زخم آیا تھا۔ میں نے ہلدی چونا لگا دیا ہے
آفتاب: کبوتروں کا مقدر ہی زخم کھانا ہے
کلثوم : اے کیا کتابوں کی سی باتیں کرنے لگا تو
آفتاب : کتابوں کی نہیں امی جان۔۔۔ زندگی کی باتیں کر رہا ہوں اس دنیا میں جو کبوتر بن کے جینا چاہتے ہیں انھیں زخم کھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔
کلثوم : کھڑے کھڑے میں نے اسے گھر سے نکلوا دیا
آفتاب : گھر سے نکلوا دیا۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، باہر تو کتے بھی ہوتے ہیں۔
کلثوم : اونہہ تم نے بلی کی فکر کی۔ ارے بیٹے اس کے لئے گھر بہت اور گھروں میں کبوتر بہت
آفتاب : آج میں انکل کے ہاں گیا تھا
کلثوم : خیریت سے ہیں
آفتاب : جی خیریت سے ہیں
کلثوم : اور رضیہ
آفتاب : وہ بھی خیریت سے ہیں بالکل خیریت سے
کلثوم : آج کیسے تمھارا جی چاہ گیا وہاں جانے کو
آفتاب : نوکری کے لئے کہا تھا میں نے ان سے
کلثوم : نوکری کس کے لئے
آفتاب : اپنے لئے
کلثوم : تم نوکری کرو گے۔۔ پڑھو گے نہیں۔ یہ بیٹھے بٹھائے آخر کیوں
آفتاب : انکل نے فیکٹری میں مجھے جگہ دلوا دی ہے ایسی جگہ کہ جتنی محنت کرو اتنی ترقی
کلثوم : اچھا
آفتاب : میں آپ کا بیٹا ہوں امی
کلثوم : ہاں میرے لال
آفتاب : دعا کیجئے کہ خدا مجھے محنت کی توفیق دے
کلثوم : یا الٰہی تو ہی بے سہاروں کا سہارا ہے۔ میرے بچے میں ہمت پیدا کر کہ اسے کامیابیاں عطا ہوں
آفتاب : میری اچھی سی امی
کلثوم : میرا بچہ
آفتاب : میں نے نوکری اس لئے کی ہے امی کہ خوب بہت سا روپیہ کماؤں گا جب میرے پاس بہت سا روپیہ ہو جائے گا تو پتہ ہے کیا کروں گا۔
کلثوم : سہرا باندھو گے
آفتاب : اوں ہوں
کلثوم : تو پھر
آفتاب: آپ بتائیے
کلثوم : اے چل بھی۔۔ کیوں پہیلیاں بھجواتا ہے
آفتاب : بتا دوں
کلثوم : ہوں
آفتاب : وہ روپیہ میں ابو کی زمینوں پر خرچ کروں گا۔
کلثوم : زمینوں پر؟
آفتاب : جی۔۔۔ ابو جو کہا کرتے ہیں نا کہ زمینوں کو نئی زندگی، تو میں ان کی زمینوں کو نئی زندگی دے کر ہی دم لوں گا۔
کلثوم : مگر
آفتاب: اور ان کے لئے ٹریکٹر بھی خریدوں گا۔ لہلہاتی ہوئی کھیتیوں کا جو خواب ابو دیکھتے ہیں وہ پورا ہو کر رہے گا۔ یہ میرا عہد ہے۔
کلثوم : مگر سیانی بیٹی جو گھر میں بیٹھی ہے مجھے تو اس کی فکر ہے
آفتاب: نوشابہ کے بیاہ کا ابھی خیال نہ کیجئے
کلثوم : کیسے نہ کروں۔۔۔۔ یہ تو خوب تم نے کہا آفتاب شاباش ہے۔ بھائیوں کو ایسا ہی ہونا چاہئیے۔
آفتاب : میری پوری بات تو سن لیجئے
کلثوم : کیا بات سن لوں نوکر ہوتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں بدلنے لگا۔
آفتاب : آپ تو اتنی جلدی سے ناراض ہو جاتی ہیں
کلثوم : ناراض نہ ہوں تو کیا خوش ہوں ایسی باتوں پر
آفتاب : مجھے کہنے تو دیجئے
کلثوم : اچھا کیا کہہ رہا ہے
آفتاب : ہم ابھی نوشابہ کی شادی نہیں کریں گے ان لوگوں سے کہلوا دیجئے ہمارے ہاں دیر ہے
کلثوم : پھر
آفتاب : پھر یہ کہ میں اسے پڑھاؤں گا۔ آجکل شادی سے پہلے لڑکیوں کو اس قابل کر دینا چاہئیے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔ کیا معلوم کل کیا حالات ہوں۔ اگر ڈگری پاس ہو تو بیٹی بھی گھر کے لئے ایک سہارا بن سکتی ہے۔
نوشابہ : (آتی ہے) میں نے اسے دانہ بھی کھلایا اور پانی بھی پلایا، اب ٹھیک ہے۔
(اچانک) ارے تم آ گئے آفتاب وہ بلی جو ہے نے۔۔۔ وہ دیکھنے میں تو ایسی معلوم نہیں ہوتی تھی۔۔۔ مگر
آفتاب : میں نے پہلے دن ہی منع کیا تھا مگر تم اڑ گئیں کہ بلی تو گھر میں رہے گی۔ اب دیکھ لیا بڑوں کا کہنا نہ ماننے کا نتیجہ
نوشابہ : تم بڑے ہو
آفتاب : ہوں ایک سال اور کچھ مہینے۔۔ ہے کہ نہیں امی جان
کلثوم : ایک سال پانچ مہینے
نوشابہ : سال ڈیڑھ سال بڑا ہونے کو بڑا ہونا نہیں کہتے۔
آفتاب: تم میرا نام نہ لیا کرو۔ بھائی جان کہا کرو
نوشابہ : خوشامد سے کہتے تو مان بھی جاتی۔ اب تو ہر گز نہیں کہوں گی
کلثوم : توبہ ہے تم دونوں نے لڑنا شروع کردیا۔ میری جان بڑی مصیبت میں ہے کس کی سنوں کس کی نہ سنوں
آفتاب : آپ انصاف کی بات کہئیے کیا میں بڑا نہیں ہوں
نوشابہ : جب دیکھو اپنی بڑائی لے کے بیٹھ جاتے ہیں نوشابہ چائے بناؤ ہم بڑے ہیں وہ کرو ہم برے ہیں۔ آپ تو ڈیڑھ سال بڑے ہیں کوئی دس سال بڑا بھائی بھی ہوتا تو میں اس کی اتنی خدمت نہ کرتی۔
آفتاب : اچھا تو یہ بات ہے
نوشابہ : ہاں یہ بات ہے
آفتاب : امی جان سن رہی ہیں آپ
کلثوم: مجھے اپنے جھگڑے میں نہ گھسیٹو
آفتاب : یہ جب مجھے بڑا نہیں مانتیں تو امی جان وہ اسکیم بھی کٹ
کلثوم: تم جانو اور یہ جانے۔ میں کیا جانوں۔۔۔ نا بابا میں نہیں بولتی
نوشابہ : اسکیم؟
آفتاب : ہاں اسکیم تھی تمھارے لئے۔ مگر اب تو وہ کٹ ہو گئی
نوشابہ : نہیں تمھیں بتانا پڑے گا۔ کیا اسکیم ہے
آفتاب: ہے نہیں تھی جناب
نوشابہ : بتائیے نا اللہ بتائیے
آفتاب : بھائی جان کہو
نوشابہ : پہلے بتائیے
کلثوم : اونہہ خواہ مخواہ بات بڑھائے جا رہا ہے کہتا نہیں کہ نوکری مل گئی ہے
نوشابہ : نوکری
کلثوم : اب یہ تجھے کالج میں داخلہ دلائے گا۔ کہتا ہے میری بہن کے پاس ڈگری ضرور ہونی چاہئیے
نوشابہ : ہائے اللہ۔۔۔ میرے اچھے بھائی جان
(سب ہنستے ہیں)
(میوزک)
( چینج اوور)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...