لوگ پوچھتے ہیں سفیان شاہ کون ہے؟
کیا پہچان ہے اس کی؟
وہ جنہیں کھوج ہے سفیان شاہ کی بشمول میرے جو حقیقت سے ناواقف ہیں۔
آئیں ہم جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ
آخر پیر سفیان شاہ ہے کون؟
*****
دنیا میں رشتوں کو دو طریقوں سے categorized کیا جاتا ہے۔
سگا اور سوتیلا!
انہی پیمانوں پہ رشتوں کو پرکھا جاتا ہے۔ہم بہت سی کہانیاں سنتے ہیں اور بہت سے حقائق بتاتے ہیں سوتیلے رشتوں کے حوالے سے جو بہت تلخ ہوتے ہیں مگر ہم صرف تصویر کا ایک رخ کیوں دیکھیں؟
دھندلا اور تلخ!
آئیں ہم آپ کو آج تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہیں۔رشتوں کا معیار اور ان کی پرکھ صرف سگے اور سوتیلے کے اصول پہ نہیں بلکہ عزت اور اعتبار کے پیمانوں پہ ہوتی ہے۔تبھی سفیان شاہ جیسے لوگ پروان چڑھتے ہیں۔
پیر سفیان شاہ!ایک متمول گھرانے کا چشم و چراغ، پیر اذلان شاہ کی پہلی اولاد اور گدی کا وارث۔
اس کی پیدائش پہ اس کی ماں کا انتقال ہوجاتا ہے مگر سفیان اسے اپنی زندگی کا روگ نہیں بناتا پھر اس کی زندگی میں آتی ہے ایلاف شاہ۔
اس کے والد کی نئی ہم سفر کہنےکو پیر سفیان کی سوتیلی ماں مگر یہ تو ہمارے پیمانے ہیں،سفیان شاہ کا تو نہیں۔
باپ کے حوالے سے وہ ایلاف کی عزت کرتا ہے اور اپنے باپ کے کومے میں جانے کے بعد خاندانی سازشوں کی سرکوبی کرنے کیلئے وہ اپنی سوتیلی ماں کی آواز پہ لبیک کہتا ہے۔
وہ اپنی ماں کا مکمل مان رکھتا ہے اس کے ہر فیصلے پہ مہر لگاتا ہے۔اسے یہ پرواہ نہیں کہ گیارہ سال کی عمر میں وہ اپنے اسکول اور دوستوں کو چھوڑ آیا ہے۔وہ اسکول میں بھی ہر کسی کا ہر دلعزیز ہے۔
وہ رحمدل ہے
وہ مہربان ہے
اور
ایلاف شاہ!
بھلے سے اس نے سفیان کو جنم نہیں دیا مگر پروان تو اسی نے چڑھایا ہے نا اور ماں کون ہوتی ہے بھلا؟
ماں تو وہ ہوتی ہے جب پریشانی ہو
تو اولاد کو ہمت دے،حوصلہ دے،مشکل آن پڑے تو اسے اس سے لڑنا سکھائے۔
اولاد عزت دے تو بدلے میں وہ عزت کے ساتھ محبت بھی دیتی ہے اس کی ہر خوشی میں خوش ہوتی ہے۔
ماں تو بہت اعلی ظرف ہوتی ہے تو
ایلاف شاہ بھی تو ایسی ہے پھر کونسی طاقت روک سکتی ہے کہ وہ سفیان شاہ کی ماں نہیںجو بیٹے کی خواہش پہ اس کے ساتھ اپنی ڈگری مکمل کرتی ہے۔
اپنی سگی اولاد کو چھوڑ کر اور سفیان شاہ جو اپنے بہن بھائیوں پہ جان چھڑکتا ہے پھر کیوں ہم ایک ایسے شخص پہ بات کریں۔
میری اور آپ کی دنیا میں کتنے لوگ ہیں سفیان شاہ اور ایلاف شاہ جیسے،سننے میں یہ تو جیسے پریوں کے دیس کی کہانی ہے مگر یہ حقیقت اسی دنیا کی ہے۔
حقیقت کو کھوجا جاتا ہے۔
سچائی کا نور مل جائے تو اسے پھیلایا جاتا ہے۔یہ باتیں کسی پرانے زمانے کی نہیں،اسی دور کی ہیں۔
ہماری مشرقی سنہری روایات کا بانکپن ہیں یہ جو رشتوں کو اتنا خالص اور پاکیزہ رکھتی ہےبغیر کسی فائدے اور نقصان کے سو جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ سفیان شاہ کون ہے؟
تو اب انہیں معلوم ہوچلا ہے اور آخر میں بس اتنی کہوں گی۔رشتہ چاہے کوئی بھی ہو اس پہ اثر آپکی سوچ اور تربیت کا ہوتا ہے۔ہم انسان ہیں سب سے اعلی مخلوق تو اس لئے کہ ہمیں اپنے ظرف کو وسیع رکھنا چاہئے۔ اسی سے رشتوں میں گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
یہی ہمارا اصل ہے اور ہماری بنیاد
اور نسل انسانی کی بقا۔اپنی اولاد کو آپ نے پالنا تو ہے ہی تو کیوں نا تھوڑے ظرف کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔
ہاں ٹھیک ہے یہ آسان نہیں دل کو مارنا پڑتا ہے کیوں کہ دل مارے بغیر کچھ نہیں ملتا نہ نور اور نہ سکون۔
اس نوٹ کے ساتھ ہی وہ ویڈیو ختم ہوچکی تھی۔
ڈیزی گہری سانس لیتے ہوئے پیچھے ہوئی۔
” کیا کروگی اسکا اب؟”
” مائیک سے بات ہوئی ہے آج رات یہ آن ائیر ہوجائیگی،موٹیویشنل اسٹوری کے پروگرام میں۔” ثنا نے جواب دیا تھا۔
قصہ جہاں سے شروع کیا تھا ختم بھی وہاں سے کرنا تھا۔زخم جہاں سے لگایا تھا مرہم بھی وہاں سے لگانا تھا۔
ثنا کو اس کا حل یہی لگا تھا جو سچ تھا اس نے بتانا تھا۔
ایلاف سفیان کی جتنی بھی سگی ہوتی مگر حقیقت یہی تھی کہ سفیان کی شناخت کے خانے میں عالیہ شاہ کا نام تھا اور روز محشر وہ اسی نام سے پکارا جانے والا تھا۔
یہی سچ ہے
______________________________
” ایک بات پوچھوں آپ سے؟ ” سفیان نے جھجکتے ہوئے پوچھا تھا۔
“کیا بات ہے سفی؟” ایلاف نے پیار سے پوچھا تھا۔
“اس رات آپ کو کیسا لگا تھا؟کیا آپ نے بھی ویسا ہی محسوس کیا تھا جیسے میں نے کیا ان دو دنوں میں۔” سفیان نے ایلاف کے چہرے کو تکتے ہوئے پوچھا تھا۔
اس رات کا گواہ وہ بھی تھا مگر دلوں کے بھید تو خدا جانتا ہے نا۔
” وہ رات سفیان۔۔۔بہت سیاہ تھی۔بدنامی کی چادر میں لپٹی ہوئی اور ذلت کے ٹوکروں سے سجی ہوئی۔ وہ میری زندگی میں ایک اور کالی رات تھی مگر آخری رات تھی۔پتہ ہے سفیان رات جتنی بھی سیاہ اور چھپی ہوئی ہوتی ہے اس سے پھوٹنے والا سویرا اتنا ہی اجلا روشن اور چمکیلا ہوتا ہے۔بالکل واضح! کھلا، نور کی طرح پتہ ہے کیسے؟میں بتاؤںیہ جو رات ہوتی ہے نا اگر اس میں بدکاری کا سیاہ رنگ ہوتا ہے تو دل کو جھکانے والی اور سجدے میں جا کے بلک بلک رب کو پکارنے والی سنہری عبادتیں بھی اسی رات میں کی جاتی ہیں۔مسافر ہم ہی ہوتے ہیں اس رات کے بس راستہ چننا ہوتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اس رات میں بہت مایوس تھی سب نے مجھے چھوڑ دیا تھا مگر اللہ ہے نا جو ایک بار کسی کا ذمہ لے لے تو مکمل لیتا ہے اس نے میرا وسیلہ پیر اذلان شاہ کو بنایا تھا ہر جگہ اس رات بھی اللہ نے مجھے بھٹکنے نہیں دیا کیونکہ میں بہت پہلے ہی اللہ سے اقرار کر چکی تھی۔ عہد کیا تھا کہ مالک ہر حال میں مجھے سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق دینا،سو اللہ میری کیوں نا سنتا؟ اس برستی بارش میں تمہارے باپ نے مجھ سے کہا تھا ایلا ایک بار میرے ساتھ چلو میرا یقین کرواور میں نے کرلیا تھا۔اس رات اگر میں یقین نہ کرتی تو یقین کرو سفیان وہ کالی رات اپنی پوری تاریکی کے ساتھ مجھے کھا جاتی اور اس رات سے جڑا نور مجھے کبھی نہ ملتا۔تمہارے باپ نے اس برستی بارش میں مجھ سے جو وعدہ کیا تھا وہ آج تک نبھا رہا ہے۔سفیان جو موقع مانگے اسے موقع دے دینا چاہئے۔ہم انسان ہیں خدا نہیں،اگر کوئی غلطی پہ شرمندہ ہے تو اسے معاف کردو ،گلے لگا لو۔یہ نہ ہو تمہاری بے رخی اسے تاریک راستوں کا مسافر کردے۔” ایلاف نے اسے اپنی زندگی کا نچوڑ بتا دیا تھا۔
اس رات کسی نے اس کی گواہی نہیں دی تھی،پیر اذلان شاہ نے دی تھی۔
اس کے باپ کی دستار اور خاندانی لوح دکھا کے ثابت کیا تھا کہ ایلاف محبوب ہر لحاظ سے ان کے ہم پلہ ہے۔
” آپ کو یہ کہاں سے ملیں؟ ” ایلاف کو حیرت ہوئی تھی۔
” یہ مجھے آپ کے ماموں نے دی ہیں۔ ” اذلان نے کہا تھا اور ایلاف حیرت سے اس کی شکل دیکھنےلگی تھی۔
طفیل ماموں! یہ کب ملے ان سے اور
وہ بھی تو مجھے مجرم سمجھتے تھے۔
” آپ ان سے کہاں ملے؟ ” ایلاف نے حیرت سے پوچھا۔
” آپ کو کیا لگتا ہے؟ اگر ایک اتفاق آپ کو ہماری زندگی میں لے ہی آیا تھا تو ہم چپ کر کے رہ جاتے۔نہیں! ایلا آپ کے بارے میں جاننا ہمارا حق تھا۔اس رات آپ کے ماموں نے جو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں آپ کی مامی کی باتوں پہ یقین آگیا تھا بلکہ اس لئے کہ وہ آپ کو اس گدھ سے بچانا چاہتے تھے اور یہ آپ کیلئے آپ کے ماموں نے دیا تھذ۔” اذلان نے ایک خط اس کی جانب بڑھایا تھا۔
” تھا!اس کا مطلب؟” ایلاف چونکی۔
” وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ایلا ہوسکے تو ان کا جرم معاف کردینا۔” اذلان شاہ نے کہا تھا۔
ایلاف کی آنکھ سے دو آنسو ٹوٹ کے چپکے سے گالوں پہ بہہ گئے تھے۔
سو اس کا آخری رشتہ بھی اس دنیا سے منہ موڑ گیا تھا اسے ایک مضبوط پناہ میں دے کر۔
“جان سے پیاری بچی،ایلاف! میں جانتا ہوں تم مجھ سے بہت خفا ہو۔ہونا بھی چاہئے مگر میری بچی زندگی میں کبھی وہ فیصلے لینے پڑتے ہیں جو اندھیرے میں چھوڑے گئے تیر کی مانند ہوتے ہیں۔اس رات میں تمہیں کیسے اس بھٹے والے کے چنگل میں جانے دیتا، وہاں جاتیں تو اپنی مرضی سے سانس بھی نہ لے پاتیں۔پیر اذلان شاہ جس سے نہ جان نہ پہچان تھی۔ اللہ پہ توکل کرتے ہوئے تمہیں اس سے بیاہ دیا اور آج دیکھو یہ فیصلہ کتنا درست ثابت ہوا ہے ۔اس وقت یہی مناسب لگا مجھے اذلان سے تم چاہتیں تو آزادی لے سکتی تھیں۔ کہیں بھی جا سکتی تھیں۔ اپنے خواب پورے کرسکتی تھیں مگر دوسری طرف ایسا کچھ نہ تھا وہاں صرف موت ہی تمہیں اس قید خانے سے نکالتی۔ہوسکے تو اپنے اس ماموں کو معاف کردینا جو بہت مجبور تھا۔اسے ایک مرتے ہوئے شخص کی خواہش سمجھ لو،ہمیشہ خوش رہو!” ایلاف کے آنسوؤں سے پورا خط بھیگ گیا تھا۔
تو بالاخر اس در سے بھی وہ سرخرو ہوئی تھی۔
______________________________
” سفی یہاں آؤ،جسٹ کم!جلدی!” ایلاف ٹی وی کے سامنے بیٹھے بیٹھے بولی تھی۔
اس وقت ثنا کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری چل رہی تھی جو اسٹارٹ تو سوشل ریلیشن سے ہوئی تھی اور سفیان شاہ کا بتایا گیا تھا۔
سفیان ڈاکومنٹری دیکھ کے ایک گہری سانس لے کے رہ گیا تھا۔
“تو ثنا سکندر تمہیں عقل آہی گئی ٹھوکر کھا کے،یہ ٹھوکر اس محبت کو کھا گئی ثنا جسے ابھی ہمارے درمیان کھلنا تھا۔”
سفیان شاہ سوچ کے رہ گیا تھا۔
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔آج ثنا کی فرسٹ ڈاکومنٹری پریزینٹیشن تھی۔ ڈائس پہ ثنا کھڑی تھی،گرے اسکارف پہنے سیاہ چمکتی آنکھوں میں اداسی کی چمک لئے وہ موجود تھی۔
یہ پرزینٹیشن اس کی پہلی اور آخری ثابت ہونے والی تھی۔
“Quite colours of the lady of the east” یہ ڈاکومنٹری نہیں مشرق کے اسرار کی کہانی ہے۔
کہنے کو تو یہ تین عورتوں کی کہانی ہے جو مختلف سماج سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان میں ایک قدر ایسی ہے جو انہیں یکساں کرتی ہے۔
وہ ہے ہمت !کبھی نہ ہار ماننے والی طاقت۔پاکستان کی ایلاف شاہ ہو،سری لنکا کی پاروتی ہو یا بنگلہ دیش کی بملا کماری ہو۔ تین مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی یہ تین عورتیں ہمت کے پہاڑ ہیں۔ عظمت کے مینار ہیں
مگر ان سب میں ممتاز ہمیں ایلاف شاہ دکھتی ہے۔
پتا ہے کیوں؟
اس کیلئے آپ کو ڈاکومنٹری دیکھنی ہوگی مگر میں آپ کو اتنا کہوں گی کہ ایلاف شاہ توازن کی وہ خوبصورت مثال ہے جو ہم سب اپنی زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں مگر صرف خواہش کر کے رہ جاتے ہیں ہمیں کوئی واضح راستہ نہیں ملتا ایسے لوگوں کے بشمول میرے میں یہی کہوں گی کہ اگر کچھ مرتبہ چاہئیے تو عاجزی کا ہنر سیکھئے ایلاف اذلان شاہ سے۔
” I am not saying that lady Ailaf is my country mate,but I am saying this because she is defiantly an inspiring lady with all quite colours of east and faith on God.thankyou!”
ثنا کی سپیچ ختم ہوئی تو تالیوں کی گونج نے اس کا استقبال کیا پھر ڈاکومنٹری دکھائی گئی تھی اور ثنا کا دعوا سچ ثابت ہوا تھا۔
ایلاف ہر جگہ چھائی ہوئی تھی
______________________________
” ثنا تم اور اسکارف!کیا آج تمہارا کوئی فیسٹیول ہے کیا?” ڈیزی یہی سمجھی تھی
اتنے عرصے میں ثنا نے پہلی بار اسکارف لیا تھا۔
” آج میں نے اپنے کنٹری کو پریزینٹ کیا ہے ڈیزی تو کچھ تو ایسا ہو جو میری شناخت ظاہر کرے۔ ” ثنا کا جملہ سفیان نے بھی سنا تھا۔
وہ بھی یہاں موجود تھا ظاہر ہے وہ بھی یہاں کام کرتا تھا،ڈسکوری کا ایمپلائی تھا اور پھر ایلاف بھی اسکے ساتھ تھین
” کانگریٹس ثنا ناؤ یو آر دا پارٹ آف ڈسکوری۔کنٹریکٹ سائن کرو۔” مونیکا نے کہا تھا،وہ واپس آچکی تھی۔
” نو مونیکا!میں کوئی کنٹریکٹ نہیں سائن کر رہی ہوں۔ میرا اور آپ لوگوں کا ساتھ بس اتنا تھا۔اٹس ٹائم ٹو موو ناؤ۔” ثنا نے انکار کردیا تھا۔
” تم نے ایسا کیوں کیا ثنا ایک گولڈن چانس مس کردیا۔اس وقت کیلئے تو تم کب سے انتظار کر رہیں تھیں پھر؟” ڈیزی حیران تھی۔
” تم نے کہا تھا نا ڈیزی،ہمارا پیشہ ایک ذمہ داری کا نام ہے اور میں اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہی ہوں تو میں یہ پوسٹ ہی ڈیزرو ہی نہیں کرتی۔ میں واپس جا رہی ہوں پاکستان۔مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ” ثنا نے اپنی خامیوں کا اعتراف کرلیا تھا۔
” ایسے گولڈن چانس بار بار نہیں ملتے ثنا۔” ڈیزی نے سمجھایا تھا۔
“پروا نہیں!میں نے جو کیا ہے اس کے آگے یہ بھی کم ہے۔ڈیزی تم ایک بہت اچھی دوست ثابت ہوئی ہو۔میں کوشش کروں گی کہ میں بھی اچھی بن سکوں۔” ثنا نے اس کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
“میرے لئے یہ سب کرنا آسان نہیں فطرت بدلنا آسان نہیں مگر میں انسان ہوں میں سب کرسکتی ہوں۔جب میں برائی کرسکتی ہوں تو اسے چھوڑ بھی سکتی ہوں بس ارادہ پکا اور خدا کی ذات پہ یقین ہونا چاہئے۔”
” ثنا نے بیوقوفی نہیں کی اس طرح کنٹریکٹ چھوڑ کے؟”ڈیزی نے سفیان کو مخاطب کیا تھا۔
“میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔مجھے اس کی ذات سے جو مسئلہ تھا اب وہ حل ہوچکا ہے۔” سفیان قطیعت سے بولا تھا۔
” اور محبت سفیان شاہ،اس کا کیا ہوگا؟ ” ڈیزی نے اتنی ہلکی آواز میں کہا تھا کہ سفیان کو بمشکل سنائی دیا۔
” محبت!چھوڑو ڈیزی وہ تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی،سب ختم۔” سفیان نے بات ختم کی اور آنکھوں پہ سیاہ گلاسز چڑھا کے باہر نکل گیاتھا۔
زندگی میں بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بہت کچھ چھلک جاتا ہے
ہمارے چہرے سے بھی!
اور
آنکھوں سے بھی!
*****
“سو فائنلی اب آپ لوگ پاکستان میں ہیں۔”اذلان شاہ نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
“یس ڈیڈ!آئی ایم سو ہیپی۔”عساف جو سفیان کے ساتھ بیٹھا کچھ ڈسکس کررہا تھا فورا بولا تھا۔
“ہونا بھی چاہئے سو سفیان کیا سوچا ہے اب تم نے؟اسٹڈی مکمل ہوچکی ہے اور جاب کا شوق بھی پورا ہوچکا ہے۔اب تمہاری شادی ہوجانی چاہئے۔”اذلان شاہ جیسے پہلے سے سب کچھ طے کر کے بیٹھے تھے۔
“شادی!”ایلاف کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
سفیان کی پسند سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔
“اوکے ڈیڈ!جیسے آپ کہیں۔”سفیان نے عام سے انداز میں کہا تھا۔
ایلاف نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
“لیکن سفیان تم تو۔۔۔”
“مام پلیز!میں باہر کا قصہ باہر ہی ختم کر آیا ہوں۔”سفیان نے زندگی میں پہلی بار اسکی بات کاٹی تھی۔
“کیا یہ اتنا آسان ہے؟”ایلاف نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔
“ناممکن تو کچھ بھی نہیں نا۔”سفیان کا انداز سپاٹ سا تھا۔
“ایلا! آپ کی نظر میں سفیان کیلئے فیملی کی کونسی بچی سوٹ ایبل رہے گی؟”اذلان شاہ نے موضوع بدل دیا تھا۔
“فیملی میں!”ایلاف چونکی۔
“جی!سفیان کو شادی خاندان میں ہی کرنی ہے کیونکہ وہ گدی کا وارث ہے۔اس لئے دلہن بھی پیروں کے خاندان سے ہوگی۔اب شادی کرے اور گدی سنبھالے۔”اذلان نے اصول بتایا تھا۔
“مام’ڈیڈ آپ دونوں دیکھ لیں۔میں اور عساف باہر جارہے ہیں۔”سفیان کھڑا ہوچکا تھا۔
“اذلان!کیا ضروری ہے کہ سفیان کی بیوی پیر زادی ہی ہو؟”ایلاف نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
“بالکل!اور وجہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں۔”
“اونہہ!لیکن میں تو پیر زادی نہیں ہوں پھر مجھ سے کیوں رشتہ نبھا لیا آپ نے؟”ایلاف نے چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
“ایلا!آپ ہماری زندگی میں دیر سے آئیں تب تک ہماری دستار بندی ہو چکی تھی اور شادی بھی۔”اذلان نے نرمی سے وضاحت کی۔
“یعنی اگر میں آپ کی زندگی میں پہلے آتی تو پھر آپ کیا کرتے؟چھوڑ دیتے مجھے۔”ایلاف نے پوچھ ہی لیا۔
“نہیں!گدی چھوڑ دیتے۔”اذلان نے بےحد گھمبیر انداز میں کہا۔
“واللہ!”ایلاف گڑبڑا کے رہ گئی۔ساری طراری رخصت ہوئی۔
“آپ جیسی عورت کیلئے دنیا چھوڑی جاسکتی ہے ایلا’کہیں تو دنیا چھوڑ کے دکھائیں۔”وہ اسکے جھینپے ہوئے انداز پہ محضوظ ہوتے پوچھ بیٹھے۔
“نہیں!یہ رواج بدل کے دکھائیں۔”وہ انکے لبوں پہ ہاتھ دھرتی کہہ اٹھی۔
“ایلا!اگر سفیان کی پسند آپ جیسی کوئی لڑکی ہوتی تو یقین کیجئے ہم ایک پل بھی نہ لگاتے اس رواج کو بدلنے میں لیکن جس لڑکی کیلئے آپ یہ سب چاہ رہی ہیں۔یہ ناممکن ہے!اس لڑکی نے ہم پیروں کے خون پہ انگلی اٹھائی تھی،ہم نے اسے ایک نادان لڑکی سمجھ کے معاف کیا۔اسی کو غنیمت جانیں۔پورے خاندان سے بغاوت ہم اس وجہ سے نہیں کرسکتے۔”اذلان شاہ قطیعت سے بولے تھے۔
ایلاف ایک گہری سانس بھر کے رہ گئی تھی۔وہ جانتی تھی اپنی روایات کے برعکس اذلان شاہ نے ثناء سکندر کو معاف کردیا تھا ورنہ پیروں کی نسل پہ سوال اٹھانے والے کو ایسے ہی نہیں بخش دیا جاتا۔
اور ثناء سکندر بھی ایسے نہیں بخشی گئی تھی۔سفیان شاہ کی محبت اس سے روٹھ چکی تھی۔محبت کے بدلے اس نے جان بخشی پائی تھی۔
*****
وقت کے تھال میں چند سالوں کے سکے مزید گرے تھے۔زندگی اس دوران کتنا آگے بڑھ گئی تھی،آئیں ذرا لاہور کی اس کوٹھی میں جا کے دیکھتے ہیں جہاں اس وقت ناشتے کی میز سجی ہوئی ہے اور ایلاف شاہ کے سامنے اسکا ساڑھے چار سال کا گرینڈ سن موجود ہے۔
جی ہاں ایلاف شاہ دادی بن چکی ہیں۔
******
” مام!بس میں اور نہیں لوں گی۔” ماہ نور بولتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی آج اسکا پریکٹیکل تھا اب وہ میڈیکل کالج میں آچکی تھی۔
” بس کردیں مام!کھا کھا کے اور موٹی ہوجائیگی۔” سفیان نے چوٹ کی تھی۔
” بھائی! آپ کا بولنا ضروری ہے ہر بار۔” ماہ نور کو فورا مرچیں لگی تھیں
“بھئی مام اسے جلدی سے بھیج دیں۔جلدی جائے گی تو نقل کا ٹائم مل جائے گا۔” سفیان باز نہیں آیا تھا۔
” بس کردو بھائی! نہ جانے کیا ہوگیا ہے تمہیں کبھی مجھے کیا کہتے ہو اور کبھی کیا؟مام انہیں سمجھا لیں،خود ہی ہوں گے ہاتھی۔ ” ماہ نور کو غصہ آگیا تھا۔
” اور آپ ہماری چھوٹی سی مینڈکی،اب چلو جلدی سے آپریشن ٹیبل پہ تمہارا انتظار ہورہا ہوگا۔چلو دانیال کم آن وی آر لیٹ۔عساف جا چکا ہے۔” سفیان بولتے ہوئے اٹھ گیا تھا۔
“کیا مینڈکی بھائی!آج تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔رکو!” ماہ نور اسکے پیچھے بھاگی تھی۔
” چلو شکر ہے سفیان نے اس بات کو بھلا دیا ہے وہ نارمل ہوگیا ہے پہلی کی طرح۔” اذلان نے اخبار تہہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
” کیا واقعی وہ نارمل ہے؟اذلان آپ کو کیا ہوگیا ہے وہ سب پوز کرتا ہے۔آپ نے کبھی اسکی آنکھوں کو نہیں دیکھا وہاں صرف ویرانی ہے ،اور کچھ نہیں ہے” ایلاف ان کے آگے چائے کا کپ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی تھیں۔
” ایلا!آپ بہت سینسیٹو ہورہی ہیں۔وہ لڑکی سفیان کو برباد کرچکی تھی سفیان کیسے اسے اپنا سکتا ہے؟” اذلان اب پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
“تو اس نے مداوا بھی تو کیا تھا۔وہ شرمندہ تھی آپ ہی تو کہتے ہیں نا معاف کردینا چاہئے جو معافی مانگے۔” ایلاف نے یاد دلایا تھا۔
” ایلا ہم اس پہ کچھ نہیں کہیں گے۔یہ سفیان کا فیصلہ ہے ہم اسے تجویز دے سکتے ہیں مگر اسے مجبور نہیں کرسکتے۔وہ ویسے بھی ثمین کی ڈیتھ کے بعد اب سنبھلا ہے اوپر سے ہم وہ قصہ دوبارہ کھول کے بیٹھ جائیں۔” اذلان کو یہ مناسب نہیں لگ رہا تھا۔
“پھر کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟” ایلاف گھور کے بولی تھی۔
“آج ہم صرف آپ سے بات کریں گے۔ایلا! کتنا وقت ہوگیا ہے ہم دونوں نے ڈھنگ سے ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔ ” اذلان اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے۔
” اف!پیر سائیں!آپ نہیں سدھریں گے۔” ایلاف بے بسی سے بولی تھی۔
“دانی!جلدی آؤ۔ہم لیٹ ہورہے ہیں۔”سفیان نے اسے آواز لگائی جو اسکول بیگ پہنے لان میں کھڑا بال کو کک مار رہا تھا۔
“کم ان ڈیڈ!”باپ کی آواز پہ وہ اپنا مشغلہ ترک کرتا فورا گاڑی کی جانب بھاگا۔
فرمانبرداری کی وصف اب انکی آگے کتنی نسلوں تک چلنی تھی۔
سفیان جانتا تھا یہ پہلے ایلاف کا کمال تھا اور پھر ثمین کا،ثمین! آہ! وہ چاندی کی گڑیا جو سفیان کی شریک سفر بنی تھی۔
ایلاف نے کافی چھان پھٹک کے بعد ثمین کو منتخب کیا تھا۔نرم لہجے کی مالک،سلیقہ شعار اور ایم اے انگلش ثمین’ایلاف کو بےحد پسند آئی تھی۔
ثمین سے شادی کے چھ ماہ بعد پیر اذلان شاہ نے رواج کے مطابق پیر سفیان شاہ کی دستار بندی کی رسم کی تھی۔
یوں اب وہ خاندان کا بڑا تھا لیکن اس نے اذلان اور ایلاف کے مرتبے میں فرق نہیں آنے دیا تھا اور یہی تلقین ثمین کو بھی کی تھی جس نے ہمیشہ شوہر کی بات کا مان رکھا تھا۔
سفیان کچھ تو بھول ہی چکا تھا،سب بھی بھول ہی جاتا اگر ثمین اس سے جدا نہ ہوتی۔
لاہور سے ریگولر چیک اپ کروا کے واپسی پہ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ثمین کو اس حادثے کے بعد فورا او ٹی شفٹ کیا تھا جہاں سے زندہ صرف بچہ ہی واپس آیا تھا۔
ثمین نے جان کی بازی ہار دی تھی۔
سفیان لب بھینچے’سرخ چہرہ لئے واپس شاہوں کی حویلی لے آیا تھا۔اسکے بچے کو بھی اس جیسا نصیب ملا تھا لیکن نہیں وہ غلط تھا۔
اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ایلا کی صورت موجود تھا۔ایلاف کے ہوتے ہوئے اسے اپنے بچوں کو باہر کی کسی نرسری نہیں بھیجنے کی ضرورت تھی۔
“یہ آپ کا ہے اب۔اسے سنبھال لیں اور مجھے بھی۔”سفیان نے ہمیشہ کی طرح اپنا غم اس سے بانٹا تھا اور ایلاف نے آگے بڑھ کے ہمیشہ کی طرح اسے سنبھالا تھا اور اس بار تو ایک کا اضافہ ہی ہوا تھا۔
“اسکا نام کیا رکھنا ہے؟”پیر اذلان شاہ نے اسکے کان میں اذان دینے کے بعد پوچھا تھا۔
“دانیال! ثمین کی خواہش تھی کہ اسکے بچے کا نام دانیال ہو۔”ایلاف نے جانے والی کا مان ہمیشہ کی طرح رکھا تھا اور دانیال کو بھی اس نے اپنا چوتھا بچہ سمجھ کے ہی پالا تھا۔
“ڈیڈ!آپ کیا سوچ رہے ہیں؟”دانیال اسکا بازو ہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
“کچھ نہیں!”سفیان سر جھٹک کے رہ گیا تھا۔
******
سردیوں کی خوشنما دھوپ چھن چھن کے میناروں سے آرہی تھی۔ لان کی سبز گھاس پہ سنہری دھوپ کا عکس پھیل رہا تھا۔یہ لاہور کے مشہور اسکول کا منظر تھا۔
ڈائس پہ سفید اسکارف پہنے وہ لڑکی دونوں کہنیاں جھکائے اپنے سامنے بیٹھے بچوں کو دیکھ رہی تھی اور بول رہی تھی۔
” تو اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملا کہ کبھی کسی کا برا نہ سوچو۔اچھا کہو اور اچھا کرو۔حسد سے بچو!”
بچوں نے کورس میں یس کہا تھا۔بیل ہوئی تو سب بچے ایک ایک کر کے باہر چلے گئے سوائے ایک کے،ٹیچر اپنے کام میں مگن تھی اس لئے اس نے بچے کو دیکھا ہی نہیں جو مسلسل اسے دیکھ رہا تھا۔
“کیا بات ہے بریک اٹینڈ کیوں نہیں کی آپ نے؟” کچھ دیر بعد اس کی نظر پڑی تھی۔
“آپ ہمیشہ سیم لیسن والی سٹوری ہی کیوں سناتی ہیں؟” وہ بچہ بہت شارپ تھا۔
چھ مہینے پہلے ہی وہ اسکی کلاس میں آیا تھا۔
“یو نو دانیال!سم ٹائم ہمیں ایک لیسن کو بار بار ریپیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب تک ہماری بنیاد مضبوط نہ ہوجائے اسی لئے میں آپ لوگوں کو سناتی ہوں۔” اس کے چہرے پہ اداس سی مسکان تھی۔
” آپ اتنی اچھی باتیں کرتی ہیں مس ثنا،میری گرینی یو نو وہ کہتی ہیں دانیال تمہیں بہت اچھی ٹیچر ملیں ہیں وہ خود بھی ایسی ہوں گی۔ ” دانیال تعریفی انداز میں بولا۔
” میں تمہیں کیا بتاؤں دانیال،یہ اچھائیوں کے سبق میں نے بچپن سے پڑے تھے مگر کبھی عمل نہ کیا جب ٹھوکر لگی تو یاد آیا۔جب اپنا سب لٹا دیا تو بچانا یاد آیا۔ ” ثنا کے چہرے پہ آزردہ سے مسکان تھی۔
پاکستان لوٹے اسے کئی سال ہوچکے تھے۔اس کی سوتیلی ماں بہت حیران ہوئی تھی ثنا اب پہلے والی ثنا نہیں رہی تھی۔ اس کی ماں اب بیمار رہنے لگی تھی اور بہن کی شادی ہونے والی تھی۔
ثنا نے صبح میں اسکول جوائن کیا تھا اور شام میں وہ ایک نیوز پیپر جوائن کر چکی تھی۔ایک سال میں وہ اس قابل ہوچکی تھی کہ اپنی بہن کی شادی کرسکے۔
اپنی ماں سے اس نے کہا تھا۔
“میں پرانی باتیں نہیں دہرانا چاہتی میں سب کچھ پیچھے چھوڑ کے آچکی ہوں۔میں نے جو کیا اس پہ شرمندہ ہوں۔”
اسکا بھائی پارٹ ٹائم جاب کرتا تھا ثنا نے اسکی ذمہ داری بھی اٹھا لی تھی۔ایک ٹھوکر نے اسکی زندگی ڈھب پہ لادی تھی۔اب اسکے پاس فیملی تھی۔اس نے عزت اور اعتبار کرنا سیکھ لیا تھا۔
پھر بھی دل کا وہ ایک حصہ آج بھی ویران تھا جہاں کسی کے قدموں کی دھمک آج بھی ثنا کو محسوس ہوتی تھی۔
______________________________
” بیسٹ ٹیچر ایوارڈ گوز ٹو مس ثنا سکندر۔” تالیوں کی گونج میں اعلان ہوا تھا۔
مہمان خصوصی ایلاف شاہ تھی۔
ثنا کے بڑھتے قدم رک سے گئے پھر سر جھٹک کے اسٹیج پہ چڑھ گئی تھی۔
اور!
ایلاف بھی حیران ہو گئی تھی۔
سو ثنا سکندر تم واقعی بدل چکی ہو۔”
اس نے ثنا کی پروگریس چیک کی تھی۔وہ دانیال کی ٹیچر تھی اور دانیال اسکے قصے سناتا رہتا تھا۔
ایلاف کچھ سوچ کے مسکرا دی تھی۔
*****
” کیا بات کہہ رہی ہیں آپ مام” سفیان ناگواری سے بولا تھا
” میں ٹھیک کہہ رہی ہوں سفیان اب شادی کرلو ثنا بدل چکی ہے۔ ” ایلاف اپنی بات پہ زور دے کے بولی تھی۔
” مام! وہ چیپٹر کلوز ہوچکا ہے پلیز۔” سفیان ہلکی آواز میں بولا تھا۔
“اچھا اگر یہ چیپٹر کلوز ہوچکا ہے تو تم پھر کیوں پہلے جیسے نہیں رہے۔یہ آنکھیں اس سفی کی تو نہیں ہیں۔تم تو کورس کی کتابیں اتنی مشکل سے پڑھتے تھے اب راتوں کو جاگ جاگ کے کیا پڑھتے ہو اور یہ تصویر کیوں آج تک تمہارے کمرے میں ہے؟” ایلاف نے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا۔
” مام!میں کیا کر سکتا ہوں اب؟وہ اگر بدل ل چکی ہے تو کیا ہوسکتا ہے وقت گزر چکا ہے۔”
” وقت نہیں گزرا سفی ثنا ایک اچھی لڑکی ہے۔ وہ اپنی خامیوں پہ قابو پا چکی ہے اور پھر دانیال بھی تو ہے اب کوئی اور لڑکی کیسے برداشت کرے گی۔” ایلاف نے کہا تھا۔
” تو مام ثنا بھی برداشت نہیں کرے گی۔” سفیان نے سر جھٹک کے کہا تھا۔
بچپن سے جو تصویر دل میں بسائی تھی اس کے رنگ اتنے پکے تھے کہ سفیان کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ آج بھی یونہی جگمگاتے تھے۔
” ثنا ہی وہ لڑکی ہے جو تمہاری سچائیوں سے واقف ہے۔وہ سفیان کو بھی قبول کرلے گی کیوں کہ وہ اب باظرف ہے۔” ایلاف نے اسے بتادیا تھا اپنی اور ثنا کی ملاقات کے بارے میں۔
” سفیان! پہلے ہی بہت سا وقت گزر چکا ہے۔اتنے سال بہت ہوتے ہیں۔تم دونوں کی بہتری اسی میں ہے۔کب تک یوں تم دونوں اپنی زندگی ایسے گزارو گے۔” ایلاف سے دیکھا ہی نہیں جاتا تھا۔
سفیان کی بے رونق زندگی اور خاموش سا وقت۔
______________________________
” ڈوبتے سورج کو دیکھنا اچھی بات ہے مگر آس پاس چلتے پھرتے لوگوں پہ بھی نگاہ کرلینی چاہئے۔” گلاسز شرٹ کے کالر میں اٹکاتے ہوئے کہا گیا۔
ثنا نے پلٹ کے پیچھے دیکھا اور حیران رہ تھی۔ اس کی راہوں میں یہ شخص پھر دوبارہ آئے گا،وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
” آپ!’یہاں!” ثنا نے بمشکل کہا تھا۔
“کیوں یہ پارک آپ کے نام ہے جو میں یہاں نہیں آسکتا۔ ” سفیان نے پوچھا تھا۔
“نہیں!” ثنا نفی میں سر ہلاتے ہوئے دوبارہ سامنے دیکھنے لگی تھی۔
” ثنا!” سفیان نے کچھ دیر کے بعد پکارا۔
” ہوں!”
” کئی سال بیت گئے۔بہت وقت گزر گیا۔”سفیان بھی اب سامنے ہی دیکھ رہا تھا۔
“ہاں بہت وقت گزر گیا سفیان صاحب مگر اچھا گزرا۔” ثنا نے اس پہ دوسری نگاہ ڈالنے کی غلطی نہیں کی تھی۔
“ثنا بیتی باتیں یاد نہیں کرتے اب،مجھے کچھ کہنا ہے تم سے۔مام تمہارے گھر آنا چاہتی ہیں، کیا اجازت ہے؟” سفیان نے کوئی اسم پھونکا تھا۔
ثنا اس کی شکل دیکھ کے رہ گئی تھی۔
” کیا میں اتنی بانصیب ہوں کہ اتنے کھرے شخص کا ساتھ مجھے ملے۔”
” نہیں!میں آپ کے قابل نہیں۔” ثنا نے انکار کردیا تھا۔
” ثنا!مام کہتی ہیں کہ ہم دونوں جو یوں بار بار ایک دوسرے کی راہ میں آتے ہیں تو تقدیر بھی کچھ چاہتی ہے۔اپنے دائرہ زندگی میں جب ایک دوسرے کو سوچ سکتے ہیں تو ساتھ کیوں نہیں ہوسکتے۔” سفیان نے اب اسے دیکھا تھا ڈوبتے سورج کا عکس اس کے چہرے پہ پھیلا ہوا تھا۔
ثناء نے خاموشی سے لفظ لفظ سنا تھا۔
“آؤ ثنا جب منزل ایک ہے تو راستہ بھی ایک کرلیں۔”وہ کہہ رہا تھا۔
” آپ نے مجھے معاف کردیا کیا؟” ثنا نے پوچھا تھا۔
” تمہارا مداوا بہت خوبصورت تھا.اور جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کیلئے ہمارے دل میں ویسے ہی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ثنا ول یو میری می؟” سفیان نے اس کی طرف چنبیلی کا چھوٹا سا پھول بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
اور ثنا انکار کر کے کفران نعمت نہیں کرنا چاہتی تھی۔
پہلے ہی وہ اپنے جنون میں اپنے عشق کو برباد کرچکی تھی۔
اب اسے اپنے جنون کو کنارا دینا تھا۔
اپنے عشق کو سہارا دینا تھا۔
کیونکہ!
یہ جنون منزلِ عشق ہے!
” میں ساری زندگی آپ کی احسان مند رہوں گی ایلاف شاہ۔آپ کے جنون کو کنارا اگر اذلان شاہ سے ملا تھا تو آپکی وجہ سے آج مجھے بھی عشق کی منزل مل گئی ہے۔” ثنا شکر گزار تھی
ثنا نے پلٹ کے سفیان کو دیکھا تھا اور مسکرا کے اس کے ہم قدم ہوگئی تھی۔
_____________________________
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...