زندگی سست روی سے گزر رہی تھی۔
اس ہنسنے، مسکرانے اور رونقیں پھیلانے والی لڑکی نے اب خاموش رہنا سیکھ لیا تھا۔۔۔
وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وقت اسے کس طرف لیۓ جا رہا ہے۔۔۔
سارا دن حویلی میں مختلف کام کرتے اور کبھی فارغ بیٹھے گذر جاتا۔
خرم احسان کی بہنوں سے اس کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔۔۔
وہ ان کے ساتھ گپ شپ کرتی۔۔۔ اماں سائیں سے ڈھیروں باتیں کرتی۔۔۔ حویلی کے ریت و رواج، ان کے بزرگوں کے قصے، ان کی جاگیروں کی معلومات۔۔۔ وہ اسے خرم احسان کے بچپن کے قصے سناتیں۔۔۔۔امیر حماد اور اس کی مشترکہ باتیں۔۔۔ کیسے خرم احسان شروع سے ہی غیر ذمہ دار اور بس اپنی پڑھائی کو ترجیح دینے والا لڑکا تھا اور کیسے امیر حماد ہمیشہ سے بابا سائیں کے بڑے بیٹے ہونے کا حق ادا کرتے آئے۔۔۔
خرم احسان ، امیر حماد سے کچھ ڈرتا بھی تھا اور اس کو اچھا برا سمجھانے کا ذمہ بھی امیر حماد کے سر تھا۔۔۔
بابا سائیں اور اماں سائیں کو اپنے دونوں بیٹے بہت عزیز تھے۔۔۔
“اماں سائیں کیا آپ کو بھی چنر اوڑھائ گئ تھی نکاح سے پہلے۔۔۔؟؟؟” اس نے اس علاقے کی ایک اور رسم کے بارے میں پوچھا۔۔۔
“ہاں شاہ سائیں نے اپنے ہاتھوں سے اوڑھائ ۔۔۔۔ جس لڑکی کو کوئی لڑکا اپنے ہاتھوں سے چنر اوڑھا دے۔۔۔ وہ اس کی منگ ہو جاتی ہے۔۔۔اسی کے نکاح میں جاتی ہے۔۔۔”
“اماں سائیں ۔۔۔ نو شین کیا خرم کی منگ تھی۔۔۔؟؟؟”
“بچپن میں کھیل کھیل میں خرم اسے چنر اوڑھا دیتا۔۔۔ پھر بڑے ہوئے تو بچپن کا وہ کھیل حقیقت میں بدل گیا۔۔۔
دونوں نے مل کر چنر پسند کی جسے پورے خاندان کے سامنے باقاعدہ رسم کے طور پر خرم نے نو شین کو اوڑھا دیا۔۔۔”
وہ آنکھوں میں اشتیاق لئے اماں سائیں سے وہ سب قصے کہانیاں سن رہی تھی۔۔۔ اور اس بات سے بے خبر تھی کہ اس وقت وہ خود نو شین فیضان علی شاہ ہے۔۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ خرم احسان نے جس نو شین فیضان علی شاہ کو اوڑھائ تھی آج وہ خود اس کی جگہ پر ہے۔۔۔ جانے کیوں یہ سوچ اس کے ذہن میں ابھری ہی نہیں۔۔۔
وہ۔خود کو نو شین فیضان علی شاہ تسلیم نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔
اسے یقین تھا وہ جلد ہی یہاں سے چلی جائے گی۔۔۔ بس اس حویلی کا وارث ٹھیک ہو رہا تھا۔۔۔ جسمانی اور ذہنی طور پر ۔۔۔جلد ہی وہ ذہنی طور پر اتنا بہتر ہو جائے گا کہ اسے ساری سچائی بتائ جا سکے۔۔۔ وہ کتنی پاگل اور بے خبر تھی تقدیر سے جو اس کے لئے کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھی۔۔۔
____________
____________
خرم احسان نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کر دی تھیں۔۔۔
کیونکہ بابا سائیں کے بعد اسے سرداری کا منصب ملنا تھا۔۔۔
وہ حقیقی وارث تھا۔۔۔ پنچایت کی سرداری اور جاگیروں کی وراثت اس کی تھی۔۔۔ وہ بابا سائیں کے ہمراہ تمام سیاسی ، جاگیری کاموں میں امیرحماد کی طرح حصہ لینے لگا تھا۔۔۔
بابا سائیں بہت خوش تھے۔۔۔ اکثر فخر سے سینہ پھول جاتا اور محبت پاش نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھتے جس کے زندہ رہنے کی امید ہی کچھ عرصہ پہلے چھوڑ چکے تھے۔۔۔
__________
__________
وہ ہر روز ان کے آنے کا انتظار کیا کرتی۔۔۔
بے چینی سے۔۔۔
ان کا جن کی آنکھیں جادو کرتی تھیں۔۔۔
جب وہ گاڑی سے نکلتے ان کی نظر دور سامنے برآمدے میں بہت سارے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ کھڑی معصوم سی لڑکی پر پڑتی جو خوبصورت آنکھوں میں انتظار لۓ ان کی راہ دیکھا کرتی تھی۔۔۔
اور وہ جتنا بھی تھکے ہوتے، جتنے بھی بے زار ہوتے۔۔۔اسے دیکھ کر مسکرا دیتے۔۔۔
ساری تھکان جیسے ختم ہو جاتی۔۔۔
ہاں وہ تھک سے گۓ تھے اس مقروض زندگی کو جیتے جیتے، بابا سائیں کی دی گئی ہزاروں ذمہ داریاں پوری کرتے کرتے۔۔۔ کبھی کبھی ان کا دل چاہتا وہ انہیں کہہ دیں کہ آپ کا وارث آ گیا ہے سب سنبھالنے ۔۔۔ اب مجھے اجازت دیں۔۔۔ وہ اپنی خودمختار زندگی شروع کرنا چاہتے تھے جو کسی کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی نہ ہو۔۔۔
ان کو عادت سی ہو گئی تھی ، مہر سلیمان کو وہاں اس ستون کے قریب کھڑے دیکھنے کی۔۔۔
کوئی تھا جو ان کا بھی انتظار کرتا تھا۔۔۔ جس کی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر شناسائی ابھرتی، چمک بڑھ جاتی۔۔۔
ہاں کوئی تھا جو ان کو اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا۔۔۔
وہ اس حویلی کے مکینوں کے ساتھ برسوں بعد بھی ایک حد، ایک فاصلہ بر قرار رکھے ہوئے تھے۔۔۔ خاموش، سنجیدہ سے۔۔۔ بس ان کے احسانات کا بوجھ اٹھائے پھرتے تھے۔۔۔
لیکن اب وہ لڑکی ۔۔۔ جانے کیوں انہیں اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوتی۔۔۔
مہر سلیمان کا سارا دن کا انتظار اور بے چینی امیر حماد کو دیکھتے ہی ختم ہو جاتی۔۔۔ ان کی وہ۔مسکراہٹ ، وہ تکان بھری مسکراہٹ، وہ خاموش سنجیدگی سے بھر پور مسکراہٹ اس کے دل میں سکون بھر دیتی۔۔۔
وہ چند لمحوں بعد کافی کا ایک کپ لۓ ہر روز کی طرح ان کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔۔۔ انہوں نے ہر روز کی طرح دروازے سے کافی کا کپ پکڑ کر شکریہ کہا۔۔۔ اور وہ وہیں سے پلٹ آئی۔۔۔ وہ اس سے آگے کبھی نہ جاتی۔۔۔
سب کھانا کھا کر سونے کیلئے لیٹ چکے ہوتے، بس وہ جاگتی رہتی ہر روز۔۔۔۔
مہر کھانا لگا کر باہر برآمدے کے ستون کے ساتھ آ کھڑی ہوئ اور ہمیشہ کی طرح وہ کھانا کھانے کے بعد انتہائی خاموشی سے وہاں آ گۓ۔۔۔ ایسے کہ اسے خبر بھی نہیں ہوئ۔۔۔
“کیسی ہو ۔۔۔ مہر۔۔۔؟؟؟” وہ اسے مہر کہہ کر ہی بلاتے ۔۔۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا نو شین بلانے پر اس پیاری لڑکی کی آنکھوں میں کیسا کرب نظر آتا تھا۔۔۔
“اچھی ہوں۔۔۔” وہ پلٹ کر بے ساختہ مسکرائ ۔۔۔ “کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟؟؟” وہ دو قدم آگے بڑھ کر اور نیچے بنے زینوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔۔۔
” وہ سامنے۔۔۔ بلند درختوں کے پیچھے آدھا چھپا، آدھا نظر آتا چاند۔۔۔” وہ امیر حماد سے کچھ فاصلے پر ایک نچلے زینے پر بیٹھ گئی۔۔۔
ایسا روز ہوتا۔۔۔نہ جگہیں بدلتی، نہ کردار، اور نہ جادوئی سا پر فسوں سا سماں۔۔۔
ایسے جیسے روز رات کے آٹھ بجے سید احسان علی شاہ کی حویلی کے بیرونی برآمدے کے ستونوں کے سامنے بنے زینوں پر کہیں سے دو جادوئی مجسمے ابھر آتے۔۔۔
شلوار قمیض، کندھوں پر چادر اوڑھے، خوبصورت سیاہ آنکھوں والے شہزادے کا مجسمہ جو سامنے آسمان پر چاند کو دیکھا کرتا۔۔۔
اور اس کے قدموں کی جانب کچھ فاصلے پر ، ایک زینہ نیچے بیٹھی معصوم سی لڑکی کا چاندی کا مجسمہ جو سفید لمبا سا لباس اردگرد پھیلائے ، سر اٹھائے اوپر بیٹھے شہزادے کو محویت سے دیکھا کرتی۔۔۔
اس سے ڈھیر ساری باتیں کیا کرتی۔۔۔
اس وقت اتنا پر فسوں منظر ہوتا کہ ہر چیز تھم سی جاتی۔۔۔
سامنے بلند و بالا خوفناک سے سیاہ درخت، مبہوت ہو کر ساکت ہو جاتے۔۔۔ ہوائیں چلنا بند ہو جاتیں۔۔۔ گزرتا وقت بھی رک کر انہیں دیکھتا اور وہ وہیں بیٹھے رہتے۔۔۔ اردگرد کے تمام مناظر کو سحر زدہ کرتے رہتے۔۔۔
کچھ وقت کے بعد وہ وہاں سے غائب ہو جاتے اور بیرونی برآمدے کے زینے سنسان ہو جاتے۔۔۔
خالی اور خاموش۔۔۔
______
______
مہر خرم احسان سے کترانے لگی تھی۔۔۔ اسے خرم احسان کے سامنے جانے سے عجیب وحشت سی ہوتی۔۔۔
وہ اکثر اسے بے خود اور محبت پاش نظروں سے دیکھا کرتا۔۔۔ ایک بے اختیار سی مسکراہٹ ہوتی۔۔۔ وہ شاید نو شین فیضان علی شاہ سے بے حد قریب تھا۔۔۔
لیکن وہ نو شین فیضان علی شاہ نہیں تھی۔۔۔
اسے عجیب سی گھبراہٹ ہوتی خرم احسان کا سامنا کرتے ہوئے۔۔۔
لیکن امیر حماد ۔۔۔
ان کی سنگت میں وہ بہت پر سکون سی رہتی۔۔۔۔ وہ اس کی طرف نہیں دیکھا کرتے تھے۔۔۔ وہ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔۔۔ وہ زیادہ مسکراتے نہیں تھے۔۔۔
لیکن کبھی جو مسکراتے تو بہت خاموش مسکراہٹ ہوتی۔۔۔ کبھی جو اسے دیکھتے تو بہت سنجیدہ نظر سے۔۔۔ وہ ان کے پاس جا کر مسحور سی ہو جایا کرتی ۔۔۔ اسے امیر حماد کی عادت سی ہو گئی تھی۔۔۔
_______
_______
“نوشی۔۔۔ یہ کب لی تھیں۔۔؟؟؟” خرم احسان پرانی البمز کھولے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔۔۔ وہ لا ابالی سا لڑکا آنکھوں میں اشتیاق لئے اپنے ہی ماضی کو یاد نہ کر پا رہا تھا۔۔۔
مہر نے کچھ آگے ہو کر دیکھا۔۔۔اس کی اور نو شین کی ایک ساتھ بہت خوبصورت تصویر،
وہ پاکستان کی نہیں تھی۔۔ وہ کس جگہ کی تھی مہر نہیں جانتی تھی۔۔۔
“کچھ یاد نہیں آ رہا۔۔۔” وہ سر کو مسلتے ہوئے بولا۔۔۔ پھرجھنجھلا کر تمام تصاویر پٹخ دیں۔۔۔
“خرم۔۔۔” مہر نے اسے پکارا “چھوڑ دو ۔۔۔ نہ تھکاؤ اپنے ذہن کو۔۔۔”وہ بولی۔۔۔۔
اور سامنے پڑی ٹرے میں سے ایک چاۓ کا کپ بنا کر خرم احسان کو دیا۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔۔۔
“ہاں۔۔ میں کیوں تھکاؤں ان بے جان تصاویر کو سوچ سوچ کر اپنا ذہن۔۔۔ جب میری نوشی میرے سامنے ہے۔۔۔۔۔ ”
“بالکل ٹھیک کہا۔۔۔۔ ” وہ ہلکا سا مسکرائ اور سامنے میز پر بکھری تمام تصاویر اور البمز سمیٹنے لگی۔۔۔۔
“نوشی میں بہت برا ہوں نا۔۔۔۔ ” مہر نے ایکدم چونک کر اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ دکھ سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
“کتنا خون نکلا تھا۔۔۔ کتنی تکلیف دی تمہیں,, اور کتنی زیادہ چوٹیں۔۔۔۔
لیکن۔۔۔ پرامس وہ آخری بار تھا۔۔۔۔ اب کبھی بھی ایسا نہیں ہو گا۔۔۔۔ ”
وہ خود ہی اداس ہوتا, خود ہی مسکراتا لڑکا۔۔۔۔
مہر نے سر جھٹکا, اور چیزیں سمیٹے وہاں سے اٹھ گئ۔۔۔۔
________
________
“نوشی ۔۔۔۔” وہ بلند آواز ساری حویلی میں اسے پکار رہا تھا۔۔۔
“نوشی۔۔۔۔۔ ” مہر اس کی تینوں بہنوں۔۔۔۔ام زینب ,ام فروا اور ام ہانی کے پاس بیٹھی تھی جب اس کی آواز پر چونکی۔۔۔۔
“کب سے آواز یں دے رہا ہوں۔۔۔۔۔ ” وہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔۔۔ مہر نے اس کے ہاتھ میں بیڈمنٹن دیکھا۔۔۔
“تم نے بتایا نہیں کہ ہم بہت اچھا بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔۔۔۔ ؟” وہ دھپ سے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔
“کبھی موقع ہی نہیں ملا۔۔ ”
“چلو آؤ کھیلتے ہیں ۔۔۔۔”
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
“نہیں خرم۔۔۔۔ ” مہر بے زار ہوئ۔۔۔ “کہا نا اٹھو۔۔۔۔ ”
“اور تم تینوں بھی آ جاؤ ۔۔۔۔۔”
وہ مسکرا کر اپنی بہنوں سے بولا۔۔۔۔
اور وہ خوشی سے چیختی ہوئ اٹھ گئیں۔۔۔
“چلو نوشی اب ضد نہیں۔۔۔۔ ” وہ پھر سے بولا۔۔۔۔
“چلیں نا نوشی آپی۔۔۔ ” ام ہانی نے چہکتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
چند لمحوں بعد پورا لان ان کے قہقہوں اور کھلکھلا ہٹوں سے گونج رہا تھا۔۔۔۔
نوشی ان تینوں معصوم لڑکیوں کو ایسے کھل کر مسکراتے دیکھ کے بہت خوش تھی۔۔۔۔
امیر حماد باہر جانے کے لیے نکل رہے تھے۔۔۔ مستعد سا ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔۔۔۔ بیٹھنے سے پہلے ان کی نظر اس طرف پڑی۔۔۔ اور وہ وہیں کھڑے رہ گیۓ ۔۔۔۔ بڑی سی کالی چادر کو سنبھالتے, ایک ہاتھ سے کھیلتے ہوۓ ,,بکھری لٹوں سے الجھتی ہوئ وہ لڑکی۔۔۔۔ اس کے چہرے پر ایسی خوبصورت مسکراہٹ بہت وقت بعد دیکھنے کو ملی تھی۔۔۔
وہ ایک ہاتھ گاڑی کے دروازے پر رکھے اسے دیکھتے گیۓ۔۔۔
مہر کی نظر ان پر پڑی تو وہ ایکدم رکی۔۔۔۔
“حماد بھاء۔۔۔ ؟” خرم احسان نے مڑکر انہیں دیکھا۔۔۔
“آ جایئے حماد بھاء۔۔۔۔ ” خرم نے بلند آواز انہیں پکارا اور آ نے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ لیکن انہوں نے اشارے سے منع کیا اور گاڑی میں بیٹھ گیۓ ۔۔۔
گاڑی ءگیٹ سے باہر نکل گئ اور مہر۔۔۔۔۔
وہیں۔۔۔ خاموش سی کھڑی رہ گئ۔۔۔۔
دل ان سب سے ایکدم اچاٹ ہوا تھا۔۔۔
اور شدت دے چاہا تھا کہ یہ منظر بدل جاۓ اور رات کا وہ جادوئ سا منظر ارد گرد چھا جاۓ جب وہ امیر حماد کو یک ٹک دیکھا کرتی تھی ۔۔۔۔ وہ کیوں چلے گیۓ۔۔۔۔۔۔
مہر ان کو دیکھنے کو بے چین ہوئ ۔۔۔۔۔۔
_______
_______
تیزی سے دوڑتی گاڑی سے باہر نظر آتے مناظر بھاگ رہے تھے اور امیر حماد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے اندر بے چینیاں سی بھرتی جا رہی تھیں۔۔۔۔ کیا چیز تھی جو ان کو چبھی تھی۔۔۔۔۔ کیا ایسا تھا جو اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
اور نظریں۔۔۔۔
ان کی نظریں۔۔۔۔ باہر بھاگتے مناظر میں کوئ چہرہ تلاش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔
” کچھ ایسا ہو جو آنکھ کو بھاۓ۔۔۔۔۔۔۔
جو بند کروں کوئ مسکراۓ۔۔۔۔۔۔
جو کھولوں تو وہ سامنے آۓ۔۔۔۔۔۔ ”
ان کی تمام سوچوں میں اسی کی سوچ تھی۔۔۔۔۔
ہر منظر میں اسی کا چہرہ تھا۔۔۔ ہر آواز میں اسی کی آ واز تھی۔۔۔۔
انہوں نے آ ج پہلی بار خود کو اجازت دے دی۔۔۔ مہر سلیمان کو سوچنے کی اجازت۔۔۔
آ ج سے پہلے وہ مہر سلیمان کی ہر سوچ کو جھٹک دیا کرتے تھے۔۔۔۔
اب انہوں نے خود کو سوچنے دیا۔۔۔ اس کی آواز , چہرے کو, باتوں کو۔۔۔۔ آ ج انہوں نے خود کو نہیں روکا۔۔۔۔
_________
_________
اور وہ دن۔۔۔ جب خرم احسان نے نشے کی حالت میں مہر سلیمان کے قریب ہونے کی۔۔۔ اسے چھونے کی کوشش کی تھی۔۔۔ جانے کیوں ان کا خون کھول اٹھا تھا۔۔۔۔
اور۔۔۔۔ بند دروازے کے باہر۔۔ ٹوٹی ہوئ چوڑیوں پر نظر جماۓ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک وہاں کھڑے رہے تھے۔۔۔۔
اور وہ جانتے تھے۔۔۔ دروازےکے اس پار ۔۔۔ وہ بھی دروازے کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔۔۔۔
اور وہ یہ بھی جانتے تھے۔۔ دروازے کے اس پار, اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔۔
کیونکہ انہوں نے اس لڑکی کی آنکھوں میں اپنے لئیے۔۔۔ انتظار, بے چینی, اور اپنی عادت کے علاوہ بھی کچھ دیکھا تھا۔۔۔
اور جب اس نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر بالکل مدھم آواز میں ان سے پوچھا تھا۔۔۔
“آپ کچھ کہیں گے نہیں۔۔۔۔ ؟”
تو انہوں نے اس وقت اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی امید دیکھی تھی۔۔۔
کچھ سننے کی چاہ دیکھی تھی۔۔۔
وہ کئ لمحے خاموش کھڑے اسے دیکھتے رہے تھے۔۔۔۔ اور جب بولے تو کیا۔۔۔۔ ؟
“میں نے تم سے کہا تھا مہر کہ اس حویلی میں تمہاری حفاظت کا ضامن میں ہوں۔۔۔۔ اور تمہارے ساتھ یہاں کبھی کچھ برا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ ”
جانے کیوں۔۔ وہ سچ نہ بول پاۓ۔۔۔۔ کیوں اس لڑکی کی آنکھوں میں نظر آتی امید کو قائم نارکھ پاۓ تھے۔۔۔۔
کیوں وہ اسے بتا نہ پاۓتھے کہ وہ انہیں اچھی لگتی ہے۔۔۔۔
وہ انہیں اپنی لگتی ہے۔۔۔۔
جانے کیوں۔۔۔۔۔ ؟
اوران کے جواب پر مہر سلیمان کی آ نکھیں خالی سی ہو گئ تھیں۔۔۔ اس نے مڑ کر بھی امیر حماد کو نہ دیکھا اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔
لیکن وہ وہیں بے جان سی کھڑی رہ گئ۔۔۔۔ اتنی تکلیف کیوں محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
“تو امیر حماد اپنی ذمہ داری پوری کر رہے تھے۔۔۔۔ بس۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔ ”
آ نسو بہتے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔
“مہر سلیمان تم پاگل ہو۔۔۔ انہوں نے تو کبھی ایک نظر تمہیں دیکھا تک نہیں۔۔۔۔۔ ایسی خوش فہمیاں کیوں پالنے لگی مہر۔۔۔ کبھی ان کے سنجیدہ چہرے پر تمہارے لیے کسی قسم کے جذبات کی جھلک تک نظر نہیں آئ۔۔۔۔ ”
وہ خود ہی خود کیوں تکلیف دے رہی تھی۔۔۔
بے دردی سے لب کاٹتے۔۔۔ آ نسو پینے کی کوشش کرتے ہوۓ ۔۔۔۔
اور باہر۔۔۔ امیر حماد نے جھک کر ان سب ٹوٹی چوڑیوں کو محبت سے چنا تھا۔۔۔ کئ لمحے۔۔ خاموش, محبت بھری نظروں سے ان کو ہتھیلی پرکھےر دیکھا تھا۔۔۔۔۔
اور اندر ۔۔۔وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر سسک رہی تھی۔۔۔ جب اچانک کسی احساس کے تحت پلٹی۔۔۔ آ نسو ایکدم تھمے۔۔۔۔ باہر کوئ نامعلوم سی آہٹ ہوئ تھی۔۔۔۔۔
اس نے دھڑکتے دل۔۔۔ اور کانپتے ہاتھوں سے آ ہستگی سے دروازہ کھولا۔۔۔ باہر کچھ نہ تھا۔۔۔۔ سکوت اور خاموشی۔۔۔
کوئ بھی نہ تھا باہر۔۔۔
اس نے دور تک اندھیرے میں ڈوبی راہداری کو دیکھا ۔۔۔۔۔
لیکن یہاں اس شخص کی خوشبو پھیلی ہوئ تھی۔۔۔۔
اس کی نظریں نیچے دروازے کی دہلیز پر گئیں اور۔۔۔۔۔۔ دل دھک سے رہ گیا۔۔۔۔
اس نے خود دیکھی تھیں۔۔۔ ٹوٹ کر بکھرتی چوڑیاں۔۔۔ وہ وہاں نہیں تھیں۔۔۔۔
مہر بے دم سی ہو کر نیچے گر گئ۔۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے زمین کو چھوا۔۔۔۔۔
اور اچانک ۔۔۔۔۔ سامنے ان کا عکس ابھرا۔۔۔ کندھوں پر چادر ڈالے جھک کر بیٹھا ہوا ایک شہزادہ۔۔۔۔ جو اپنی پوروں سے, محبت سے مسکراتے ہوۓ ٹوٹی چوڑیاں چن رہا تھا۔۔۔۔ مہر مجسمہ بنی سامنے وہ عکس دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اس شہزادے نے نظر اٹھا کر سامنے بیٹھی, حیران, بے یقین نظروں سے خود کو دیکھتی لڑکی کو دیکھا اور مسکرا دیا۔۔۔
اور پھر اچانک وہ شہزادہ دھواں سا بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔۔
مہر سلیمان کا سکتہ ٹوٹا۔۔۔۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں۔۔۔
اور وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
گزرتے ہوۓ وقت نے رک کر اس پاگل لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔
جو غم میں بھی روتی تھی ,اور خوشی میں بھی۔۔۔۔۔
اور مہر سلیمان۔۔۔۔
وہ رو رہی تھی۔۔۔۔
کیونکہ آج۔۔۔۔۔
ایک شہزادے نے زمین پر بیٹھ کر۔۔۔۔۔
ایک لڑکی کی۔۔۔۔
چند ٹوٹی چوڑیاں چنی تھیں۔۔۔۔۔
محبت تھی کیا۔۔۔۔۔۔ ؟
عشق تھا کیا۔۔۔۔۔ ؟
__________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...