’’وہ بہت خوبصورت، سرسبز، خوشنما اور سرخ گلابوں سے ڈھکی ایک وادی تھی۔ تاحدّ نگاہ ہریالی اور پس منظر میں سر سبز و شاداب پہاڑوں پر خورد رو پھول ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے آسمان سے ستارے توڑ کر وہاں ٹانک دیے ہوں۔۔۔
اس خوبصورت اور دل آویز وادی میں وہ چاندی کے جسم والی لڑکی سفید رنگ کے پریوں کے لباس میں آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔ وہ اس قدر دلکش اور حسین دِکھائی دے رہی تھی کہ اُس پر نظر ٹھہرانا دشوار ہو رہا تھا۔وہ اپنے دونوں بازو پھیلائے آسمان سے گرنے والی پھوار کو اپنی ہتھیلیوں پر محسوس کر رہی تھی ۔اُسے اچانک کچھ ہوا اور اُس نے وادی میں موجود تتلیوں کے ساتھ رقص کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے رقص میں کسی پہاڑی چشمے کی سی دیوانگی اور تیزی آگئی۔ اُس کا جسم اس کے اختیار میں نہیں رہا۔ وہ خود کو روئی کے گالوں سے بھی ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ فخر و غرور کی لہریں اس کے پورے وجود کا احاطہ کر چکی تھیں۔
یک دم ہی منظر بدلا ۔۔۔اُس چاندی کے جسم والی لڑکی کا پاؤں پھسلا اور وہ خود کو بہت بلندیوں سے نیچے پستیوں میں گرتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔اُس نے سخت خوفزدہ نظروں سے زمیں کی پستیوں کو دیکھا جو اس کا مقدر بننے والی تھیں۔وہ بڑی قوت سے بے تحاشا کیچڑ اور غلاظت سے بھری زمیں پر گری ۔اُس کا سارا وجود زلزلوں کی زد میں آگیا تھا۔اُس نے گہرا سانس لے کر اپنے چٹختے ہوئے اعصاب کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی ۔وہ اب آنکھ کی پتلیوں کو گھما کر اپنے ارد گرد پھیلی تیرگی اور فضا میں پھیلی بدبو کو محسوس کر رہی تھی۔ اُسے اپنے کیچڑ زدہ جسم سے گھن آرہی تھی۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے جسم کو ٹٹولا تو خوف کی ایک سرد لہر نے اُس کے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔
اُسے محسوس ہوا کہ بہت سے حشرات الارض اُس کے وجود سے چمٹے ہوئے ہیں اس نے سانس روک کر ایک عجب دیونگی سے ایک پتنگے نما چیز کو کھینچا تو اُسے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ وہ ایک مردہ پتنگا تھا۔اُس کی آنکھیں تیرگی سے مانوس ہوئیں تو اُسے احساس ہوا کہ اُس کا سارا ہی جسم ان مردہ پتنگوں کے لباس سے ڈھکا ہوا تھا۔خوف،وحشت اور سراسمیگی کے عالم میں اُس نے اپنے چہرے کو ٹٹولاتو اُسے اپنی رگوں کو خوف سے منجمد کر دینے والی انہونی کا احساس ہوا۔
اسی وقت اُسے ادراک ہوا کہ وہ کسی گہری کھائی میں گری ہوئی ہے اور اوپر سے آنے والی ہلکی سی روشنی کی لکیر کے ساتھ ہی اُس نے سیلن زدہ دیوار کے پاس گرا شیشے کا ٹکڑا دیکھاتو اُس نے لپک کر اٹھا لیا۔اُس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہی اُس کے منہ سے نکلنے والی چیخ بہت دلخراش اور بے ساختہ تھی۔اُس کے خوبصورت جسم کے اوپر ایک بوڑھی مادہ گدھ کا بدصورت چہرہ سجا ہوا تھا۔
بہت ہی خوفناک۔عجیب اور دل دہلا دینے والے خواب کے زیر اثر اُس کی آنکھ کھلی ۔اُس نے مضطرب و متوحش آنکھوں سے اپنے کمرے میں کسی نادیدہ شے کو تلاش کرنا چاہا ۔کمرہ بالکل خالی تھا اور زیرو واٹ کے بلب کی روشنی میں اس نے فورا اٹھ کر سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ دیکھا۔۔۔ایک پرسکون سی سانس اُس نے فضا میں خارج کی ۔
اُس کے وجود کے اوپر اس کا اپنا ہی چہرہ تھا جو اس وقت پسینے سے تر ،وحشت زدہ اور خوف میں ڈوبا ہوا تھا۔اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر ایک دفعہ پھر خود کو یقین دلایا ۔وہ اب عجیب دیوانگی کے عالم میں اپنے کپڑوں کو جھٹک رہی تھی۔اُسے لگا تھا کہ کہیں کوئی ایک آدھ مرا ہوا پتنگا اس کے وجود کے ساتھ چمٹا ہوا نہ رہ گیا ہو۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔باہر سیاہ رات کے ہولناک سنّاٹے میں جھینگروں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’لیکن اُسے نہ جانے کیوں یہ وہم لاحق ہو گیا تھا کہ وہ بوڑھی گدھ کہیں آس پاس ہی ہے۔اس خیال نے اُسے ایک دفعہ پھر بے چین کر دیا ۔۔۔‘‘
***********
’’اُس نے کہیں پڑھا تھا کہ محبت بالکل کسی خود کش بمبار کی طرح انسان پر حملہ کرتی ہے اور سکینہ اللہ دتّا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔محبت نے بالکل ایسے ہی خود کش بمبار کی طرح اُس پر حملہ کرکے اُس کے سارے وجود کے پرخچے اڑا دیے تھے۔
سکینہ اللہ دتّا نے خوداپنی ذات کو ذرّوں کی صورت میں فضا میں بکھرتے ہوئے دیکھا ،کئی لمحوں تک تو اُسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آیا۔ اُسے لگا کہ وہ اب کبھی بھی اپنے وجود کو یکجا نہیں کر پائے گی۔اسی احساس نے بے بسی کا دھواں اُس کے ارد گرد پھیلا دیا ۔بے چارگی کے احساس کے ساتھ ہی اُس کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں ۔
’’وہ اماوس کی کوئی رات تھی۔۔۔جب اُس نے ہسپتال کے کمرے کی کھڑکی سے ایک آکاس بیل کو برگد کے بوڑھے درخت پر چڑھتے دیکھا۔خوف کی ایک فطری سی لہر نے بڑی سرعت سے اُس کے ذہن و دل میں بسیرا کیا ۔۔۔‘‘
سکینہ اللہ دتّا کی زندگی میں اُداسی کا اپنا ایک مضبوط کردار تھا۔وہ تنہائیوں کے قبیلے کا ایک ایسا فرد تھی جس کی زندگی میں بس کرب و اندوہ اور ہجر کے موسموں کا بسیرا تھا۔اُس کی زندگی میں بے شمار حبس بھری شامیں تھیں جو زندگی میں کبھی کبھار اس قدر وحشت کے رنگ بھر دیتی کہ سانس تک لینا محال ہو جاتا ۔
’’امّاں،آج میری سہیلی چڑیاں اتنی خاموش کیوں ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کی دل کی اُداسی لفظوں میں ڈھل کر تسبیح کرتی جمیلہ مائی کی سماعتوں تک پہنچی ۔
’’اے چنگا(اچھا)اے پتّر،روز رولا(شور) بھی تو اتنا ڈالتی ہیں،کن(کان) کھا جاتی ہیں۔‘‘ جمیلہ مائی نے پیشانی پر ہاتھ مار کر بیٹی کا زرد چہرہ تشویش سے دیکھا ۔وہ نہ جانے کیوں صبح سے اتنی بیزار تھی۔شاید موسم ہی گھٹا گھٹا اور حبس میں لپٹا ہوا تھا۔۔۔اس لیے انار کے درخت پر بیٹھیں ساری چڑیاں بھی مغموم تھیں اس لیے لان میں خاموشی کا راج تھا ورنہ عام دنوں میں وہ اتنا شور مچاتیں کہ کمرے کے مکینوں کا بات کرنا دشوار ہو جاتا۔تنگ آ کر جمیلہ بی بی ایک لمبا چکر کاٹ کر کمرے کے پچھلے لان میں ان کو بھگانے کے لیے جاتیں اور یہ کام ان کو دن میں کئی دفعہ کرنا پڑتا۔پھر ہسپتال میں کام کرنے والے ایک مہربان سے وارڈ بوائے نے ان کو ایک لمبا سا مولا بخش لا کر دیا جسے وہ کھڑکی کی سلاخوں سے نکال کر ان شرارتی چڑیوں کو دن میں کئی دفعہ بھگایا کرتی تھیں۔‘‘
’’کی ہویامیری دھی رانی کو کیا بہت درد ہے۔۔۔؟؟؟‘‘اماّں نے بے چینی سے اٹھ کر اُس کا زرد نڈھال چہرہ دیکھاوہ کھڑکی کے باہر املتاس کے درخت پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔اس کو فیزیو تھراپسٹ ابھی ابھی ایکسر سائز کروا کے گئی تھی۔اس لیے تھکن اُس کے سارے وجود سے عیاں تھی۔
’’ہاں امّاں ٹانگوں میں تو آج جان ہی نہیں رہی ،لیکن یہ درد بھی لگتا ہے کہ اب عمر بھر کا ساتھ بن گیا ہے ۔‘‘اُس کے چہرے پر ایک بے بس کر دینے والی مسکراہٹ تھی۔اُس کی اس بات کا امّاں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا وہ اس معاملے میں خود بھی لاچار تھی۔
’’چل چھڈ ساری گلّاں(باتیں)،لے ہم ماں دھی بیٹھ کر دیسی گھی کی پنجیری کھاتے ہیں۔۔۔‘‘اماں اس کے بستر کے نیچے رکھے لوہے کے ٹرنک سے اسٹیل کا ڈبّہ نکال کے لے آئی اور سکینہ کو پتا تھا کہ اس کی بھولی ماں صرف اور صرف اس کا دھیان بٹانے کی خاطر دن میں ایسی کئی معصومانہ حرکتیں کرتی ہے۔
’’پتا ہے پتّر اے نال والی مائی مینوں پوچھ ری سی کہ تسّاں نوں کیویں بیت المال والوں نے اس سرکاری ہسپتال داپرائیوٹ کمرہ دے دیتا۔آکھدی سی (کہتی تھی)اسّی تے بہت وڈے آفیسراں کولوں منتیں ترلے کروائے۔فیر کسی نے ساڈی گل تے کن دھرے۔(ساتھ والی خاتون مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ تمہیں کیسے سرکاری ہسپتال کا پرائیوٹ کمرہ مل گیا،ہم نے تو بڑے آفیسروں سے سفارشیں کروائیں پھر کسی نے ہماری بات سنی)‘‘ سکینہ نے امّاں کا سادہ اور بے ضرر سا چہرہ غور سے دیکھا۔وہ پچھلے آٹھ سالوں سے اُس کے ساتھ مختلف ہسپتالوں کے دھکّے کھاتی آرہی تھی لیکن اس نے ان کے منہ سے کبھی مایوسی یا شکوے کا ایک لفظ نہیں سنا تھا۔
’’پھر تو نے کیا،کہا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ امّاں کتنی کمزور ہو گئی ہے اُس کے ذہن میں ابھی ابھی خیال اُبھرا ۔
’’میں آکھیاّ،میری سکینہ ماشاء اللہ پوری نوجماعتاں پڑھی اے۔‘‘ امّاں کے چہرے پر ہلکی سی فخر کی جھلک سکینہ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بن ہی گئی جب کہ امّاں اُس کو مسکراتے دیکھ کر مزید جوش سے بولی ’’میں انوں دسیّا (بتایا) میری نمانی دھی نے دسویں داامتحان دینا سی کہ بیماری دے گیڑے وچ آگئی۔ پورے آٹھ وریاں(سال)توں اسّی ہسپتالاں دیاں روٹیاں کھا ر ے آں،فیر وی سوہنے رب داشکر اے کہ دے ریا اے۔‘‘
’’تو نے اُسے کہا ،کیا،اصل بات بتا۔۔۔؟؟؟‘‘ سکینہ نے پنجیری زبردستی حلق میں پانی کے ساتھ انڈیلتے ہوئے جھنجھلاہٹ سے دیکھا،جو نظریں چرا رہی تھیں۔اُسے اندازہ تھا کہ امّاں نے اُسے کیا کہانی سنائی ہوگی۔اس بات نے اس کے حلق تک کڑواہٹ بھر دی ۔
’’لو دسّو میں نے اُسے کیا بتانا تھا۔جو صحیح گلّ تھی دسّ دیتی۔۔۔‘‘وہ گال پر انگلی رکھ کر تھوڑا سا ہکلائیں ۔
’’اماّں ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ سب کو یہ داستان نہ سنانے بیٹھ جایا کر۔ کہ ہمیں لہور والوں نے جواب دے دیا تو سکینہ نے بیت المال کے آفیسروں کو ایک درد بھرا خط لکھا انہوں نے اُس خط کے جواب میں خود گڈّی(گاڑی) بھیج کر لاہور سے اسلام آباد بلوایا اور یہاں داخل کر وا کے سارا خرچہ بھی اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا۔‘‘ناراضگی اُس کے لفظوں سے ہی نہیں ہر انداز سے چھلک رہی تھی ۔ایک بے نام سا اضطراب اُس کے انگ انگ میں چٹکیاں بھررہا تھا۔
’’لے تو اس وچ کیڑی (کون سی ) گّل غلط اے۔‘‘ امّاں نے ناک پر انگلی رکھ کر سخت تعجب بھرے انداز سے اپنی لاڈلی دھی کا بیزار چہرہ دیکھا ۔
’’امّاں بات غلط یا درست ہونے کی نہیں ،یاد نہیں اُس آفیسر نے سختی سے منع کیا تھا کہ یہ بات کسی کو نہیں بتانی کیونکہ چنگے بھلے لوگ دوسروں کا حق مارنے کے لیے پھر ان کے پاس آنے لگتے ہیں۔پر تجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی ،جو پوچھتا ہے ساری داستاں الف سے ی تک ڈھکن کھول کے سنانے بیٹھ جاتی ہے ۔‘‘ وہ ناخنوں سے میز کی سطح کھر چتے ہوئے بیزاری سے بولی تھی۔
’’لے پتّر میں ٹھہری سکھر کے پنڈ کی سادہ لوکی ،مجھ سے یہ ہیر پھیر والی گلّاں نئیں ہوندیاں۔ رب سوہنے نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے۔مینوں بس انّاں پتا اے۔‘‘ امّاں کی بے نیازی عروج پر تھی ۔سکینہ نے ناراضگی سے منہ پر دوپٹہ ڈال لیا ۔
’’آئے ہائے،اب یہ منہ پُھلا کے کیوں لمّی (لیٹ) پے گئیں اے۔چل چھڈّ،اٹھ میری دھی ،وضو کر ،نماز دا ویلا(وقت) ہو گیا اے۔‘‘ جمیلہ مائی کی جان اپنی اکلوتی دھی میں اٹکی رہتی تھی ۔جسے اس نے شادی کے سترہ سال تک دعائیں مانگ مانگ کر رب سے لیا تھا۔
’’امّاں کبھی کبھی میں سوچتی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے دوپٹہ منہ سے ہٹا لیا ۔امّاں کی سانسیں بحال ہو گئیں۔ ’’جس عمر میں الہڑ بالی لڑکیاں چوری چوری خواب بننا شروع کرتی ہیں ،میری قسمت میں اللہ نے اُس عمر میں ہسپتا ل کے پھیرے کیوں لکھ دیے۔۔۔؟؟؟‘‘ سکینہ کی بات پر جمیلہ مائی کے چہرے پر پھوٹتی مسرت گویا فضا میں تحلیل ہو گئی۔
’’پتّر،ہزار واری سمجھایا اے کہ اللہ سوہنے نال شکوہ نئیں کردے۔۔۔‘‘وہ ناراض ہوئیں۔
’’امّاں یہ شکوہ نہیں ہے،میں تو بس یونہی تجھ سے بات کر رہی ہوں۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر اماں نے بے یقینی سے اُس کا چہر ہ دیکھا لیکن چپ رہی۔
’’دیکھ ناں امّاں،میں ہنستی کھیلتی سکول جاتی تھی،اپنی گڑیا کی شادی ریشماں کے بے سوادے گڈّے کے ساتھ کرتی تھی۔سکول میں والی بال کی نمبر ون کھلاڑی تھی۔مس صغراں کہتی تھی کہ سکینہ کے اندر پارہ دوڑتا ہے۔مجھے کیا پتا تھا کہ ایک رات چڑھنے والا بخار میرے سارے خواب جلا دے گا۔دیکھ امّاں میرے ہاتھ میں تو اب کوئی بھی محبت کی تتلی اور چاہت کا جگنو نہیں رہا۔۔۔‘‘اُس نے اپنی خالی مٹھی کھول کر دِکھائی ۔سکینہ کی آواز اور الفاظ کے ساتھ امّاں کا دل کٹ رہا تھا۔
’’پھرمیری کمر پر نکلنے والے اس کُب(کوہان) نے تو میری حیاتی کو بھی ٹیڑھا کر دیا ،یا د ہے ناں پنڈ میں سارے بچوں نے کتنا شور مچایا تھا کہ سکینہ کبڑی مائی بن گئی ہے ۔اب اسے بھی دانے بھوننے والی بھٹیّ پر بیٹھا دو،جیسے شیداں کبڑی دانے بھونتی ہے یہ بھی یہی کام شروع کر دے۔۔۔‘‘ سکینہ پر آج کافی دنوں کے بعد قنوطیت کا دورہ پڑا تھا۔اُس کی سانولی رنگت متغیر ہو کر سیاہ لگنے لگی تھی۔اُس نے کھڑکی کے پاس گری تتلی کو اٹھایا جو نہ جانے کیسے پرواز کی طاقت کھو بیٹھی تھی اور اب نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑی تھی۔اُس کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔
’’نی کیو،ادّاں(ایسی) دیا گلاں کردی اے سکینہ،نہ میری جند،مایوس نئیں ہوندے،سوہنا رب ناراض ہو جاندا اے۔چل اٹھ ،میں تسلے وچ پانی لیاندی آں،میری دھی نماز پڑھ کر کے مینوں سورہ رحمن سنائے گی،ہے ناں۔۔۔‘‘ امّاں کی محبت پر اُسے کبھی شبہ نہیں تھا۔اُن کو خوش کرنے کے لیے اُس نے مسکرانا چاہا لیکن آنکھوں سے بہنے والے پانی نے سارا بھرم توڑ دیا
’’امّاں یاد ہے آج کون سی تاریخ ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کے گلے میں بے شمار آنسو اٹکے ۔
’’ہاں میری جند جان۔۔۔‘‘ امّاں نے نظریں چرائیں لیکن خاموش رہی۔
’’آج بارہ مارچ ہے اماّں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے دہل کر کیلنڈر دیکھا وہ کالی سیاہ رات کیسے بھول سکتی تھی جس کے اندھیروں نے اس کی اور اللہ دتّا کمہار کی بیٹی کے سارے اجالے نگل لیے تھے۔ وہ رات جب وہ دونوں سکینہ کو لے کر دو بجے سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھاگے تھے اور وہاں کوئی ڈاکٹر نہ پاکر ان کے دلوں پر ایک دم سے ہی کوئی بلڈوزر چلا تھا۔اُس رات سے شروع ہونے والا سفر آٹھ سال سے جوں کا توں جاری تھا۔ رحیم یار خان،بہاولپور،ملتان،حیدر آباد اور لاہور سے اب وہ اسلام آباد میں تھے۔ اس سفر میں پہلے گھر بکا اور اُس کے بعد اللہ دتّا کی آبائی زمین میں سے اُس کے حصے میں آنے والے دو بیگھے بھی ہاتھ سے نکل گئے۔اب سکینہ کی کہانی بیت المال کے توسط سے چل رہی تھی۔
کمرے کی کھڑکی پر بھاری سا پردہ پڑا ہوا تھا البتہ ایک انتہائی باریک درز سے روشنی کی ایک پتلی سی لکیر اندر آ رہی تھی۔ویسے کمرے میں نیم سی تیرگی کا راج تھا۔سکینہ نے نماز اور قرآن پڑھنے کے بعد امّاں سے کہہ کرزرد بلب بند کروا دیا تھا۔ویسے بھی اُسے ساٹھ واٹ کے اس بلب سے شدید چڑ ہوتی تھی۔جو نہ تو کمرے میں روشنی کرتا تھا اور نہ ہی اُس کی زندگی میں۔اس لیے اُسے ملگجے سے اُجالے کبھی بھی اچھے نہیں لگتے تھے۔
اگلی صبح نوبجے جیسے ہی ڈاکٹر خاور نے اُس کمرے میں قدم رکھا،مریضہ کے دل کی دھڑکنوں میں ایک ارتعاش سا برپا ہو گیا۔اُسے سارے دن میں صرف نوبجے زندگی خوبصورت لگتی تھی جب ڈاکٹر خاور اُس کے کمرے کا راؤنڈ کرتے ۔۔۔
سکینہ اللہ دتاّ نے کنکھیوں سے ڈاکٹر خاور کے چمکتے ہوئے سیاہ جوتوں کو دیکھا تھا۔نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے کا اُسے یارا نہ تھا۔ وہ کچھ دنوں سے سبھی لوگوں سے نظریں چرانے لگی تھی۔ڈاکٹر خاور اس کی فائل کو دیکھ رہے تھے انہوں نے اپنے ساتھ موجود جونئیرز کو انگلش میں کچھ کہا تھا۔سکینہ کا سارا جسم ہی مجسم سماعت بنا ہوا تھا وہ سینے پر ہاتھ رکھے دل کی دھڑکنوں کو لاشعوری طور پر دبانے کی کوششوں میں مگن تھی۔جیسے ہی ڈاکٹر خاور نے کمرے سے قدم باہر نکالا ہر چیز پر ایک پھیکا پن سا غالب آگیا تھا۔ سکینہ نے بیزاری سے تکیے پر سر رکھ کر بازو اپنی آنکھوں پر تان لیا تھا۔اُسے اب روشنی سخت بُری لگ رہی تھی۔
’’سکینہ تم اپنی عمر سے بہت بڑی باتیں کرتی ہو۔۔۔‘‘اُس دن اُس کی فائل دیکھتے ہوئے ڈاکٹر خاور نے اچانک کہا تو وہ شکست خوردہ انداز میں مسکرا دی۔
’’بس ڈاکٹر صاحب ،آگہی کے عذاب نے عجیب گورکھ دھندے میں پھنسا دیا ہے ۔مجھے بہت جلد اس تلخ حقیقت کا ادراک ہو گیا تھاکہ زندگی میرے لیے پھولوں کی سیج کبھی نہیں بنے گی۔۔۔‘‘
’’اچھے اچھے خواب دیکھا کرو سکینہ،خواب زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے اُس دن ایسے ہی مسکراتے ہوئے اُسے مفت مشورہ دیا تھا۔ ان کی بات پر ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر سج گئی تھی ۔
’’چھوڑیں ڈاکٹر صاحب اس بیماری کی بدنما حقیقت کے سورج کی تپش سے میرے سارے ہی خواب جھلس گئے ہیں ۔‘‘۔۔۔بائیس سالہ سکینہ اللہ دتّا کی آواز بوجھل اور مرطوب تھی۔اُس نے ایسے چونک کر کہا تھا جیسے کسی گہری سوچ سے نکلی ہو۔ڈاکٹر خاور کی باتیں اور جملے اُسے کبھی کبھی اتنی روشنی ضرور دے دیتے تھے کہ وہ کم از کم کھل کر سانس لے لیتی تھی،لیکن آج کل ٹانگوں کا بڑھتا ہوا درد اُسے بیزار کر رہا تھا تو دل میں اٹھتی انوکھی خواہش نے اُس کے ہاتھ پیر پھلا رکھے تھے۔وہ دل کے اندر مچلتے جذبات کی آوازوں سے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتی اُسے خوف تھا کہ کوئی ان اندر کی سرکش آوازوں کوسن نہ لے۔
’’امّاں اس کھڑکی کا پردہ ہٹا دو ورنہ میرا دم نکل جائے گا۔۔۔‘‘ اُس کے حلق سے عجیب سی پھنسی پھنسی سی آواز نکلی تھی۔ دل ہی دل میں درود شریف پڑھتی جمیلہ مائی نے لپک کر پردہ ہٹا یا تو ساتھ ہی روشنی کا ایک بدتمیز سا طوفان کمرے میں داخل ہو گیا تھا۔
’’میری دھی رانی کی طبیعت ٹھیک اے۔۔۔؟‘‘امّاں نے سخت فکرمندی سے اُس کا ماتھا چھو کر حدت کو محسوس کیا تو اچھی خاصی پریشان ہو گئی۔
’’پتّر ،تینوں تے لگدا اے کہ اچھا خاصا تاپ ہے،میں نرس نوں بلا کر لیاندی آں۔۔۔‘‘انہوں نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح بڑی عقیدت کے ساتھ الماری کے اوپر رکھی اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔اُسے باہر جاتے دیکھ کر وہ استہزائیہ انداز میں مسکرائی۔
’’امّاں ،مان لے اس عشق کے تاپ کا کوئی علاج نہیں،دنیا کا کوئی پانی ،کوئی دوائی ،کوئی محلول اس آتش کو نہیں بجھا سکتی۔۔۔‘‘وہ چاہتے ہوئے بھی امّاں کو یہ نہیں کہہ سکی تھی۔ امّاں کے باہر نکلتے ہی اس نے بمشکل کہنیوں کے بل اٹھ کر سامنے دیوار پر لگے شیشے میں جھانکا۔اس شیشے کو لگانے کے لیے اُسے امّاں کے ساتھ اچھی خاصی جنگ اور پورا ایک دن بھوک ہڑتال کرنا پڑی تھی۔ تب جا کر امّاں نے کسی نرس سے سیل میں سے پورے دوسو روپے کا آئینہ منگوا کر دیا ۔اگلے پورے دو دن امّاں کا پارہ ہائی رہا ۔
اُس نے سامنے لگے آئینے میں اپنا بستر پر پڑا وجود دیکھا اور ہمیشہ کی طرح مایوسی کا شکار ہوئی۔ویسے تو شاید اُس کا قد پانچ فٹ تک ہوتا لیکن کچھ سال پہلے اس کی کمر پر ابھرنے والی کوہان اور کوئی جسمانی سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے وزن خاصا بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ چار فٹ کے قریب لگتی تھی۔سانولی رنگت،چھوٹی چھوٹی آنکھیں،موٹی سی ناک اور دونوں ہونٹوں کی بناوٹ میں بھی فرق تھا۔اس وجہ سے اس کا مجموعی تاثر بڑا عجیب سا پڑتا تھا۔۔۔
لوگوں کی ایسی استہزائیہ نظریں اُس کا پورسٹ مارٹم کرتیں کہ سکینہ کا دل کرتا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔لوگوں کے بے رحم ،تلخ جملے اس قدر دل دکھاتے تھے کہ وہ کئی راتیں ان کی تکلیف کی وجہ سے سو نہیں پاتی تھی۔۔۔
’’اماّں اس کو تو ایک سو دو بخار ہے۔۔۔‘‘ نرس نے تھرمامیٹر اُس کے منہ سے نکال کر اطلاع دی تھی۔ اُس کے چہرے پر قابل رحم تاثرات دیکھ کر سکینہ نے دانستہ آنکھیں بند کر لی تھیں۔وہ شاید نئی نئی اس وارڈ میں آئی تھی اس لیے سکینہ کی ہسٹری سے ناواقف تھی۔
’’امّاں یہ تیری بیٹی کی کمر کا کُب(کوہان) کیا پیدائشی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ نرس کے لہجے سے جھلکتا تجسّس سکینہ کے لیے سخت کوفت کا باعث بنا تھا۔
’’ناں پتّر ناں،میری سکینہ تو ماشاء اللہ چنگی بھلی،صحت مند اور اللہ نظر بد سے بچائے اپنے اسکول کی ساری کھیڈوں (کھیلوں)میں حصّہ لیتی تھی۔۔۔‘‘امّاں بھی ایک دفعہ پھر شروع ہو گئی تھی۔سکینہ کو امّاں کی سادہ دلی بڑی جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرتی تھی لیکن اب کافی عرصے سے اُس نے اس کا اظہار کرنا چھوڑ دیا تھا۔
’’لے مائی نظر تو لگ گئی ،اور کیسے لگتی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘نرس گال پر انگلی رکھ کر بڑے منہ پھٹ انداز سے بولی تھی اس کی بات پر امّاں کے چہرے پر رنجیدگی کی گہری تہہ نمودار ہوئی تھی۔
’’ہاں میری دھی نوں لگدا اے نظر ای لگ گئی اے۔۔۔‘‘انہوں نے ہوکا بھرا ’’اچھی خاصی تھی دھی رانی ،ایک رات ایسا تاپ (بخار)چڑھا کہ کاکی کو کانبا(کپکپی)چڑھ گیا۔بڑے ہسپتال میں لے کر گئے،تاپ تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔پھر آہستہ آہستہ کمزوری بڑھتی گئی اور کمر پر یہ پہاڑ سا بنتا گیا۔ڈاکٹرپتا نہیں کون سی اوکھی سی بیماری کا نام بتاتے ہیں جو میری دھی کو گھن کی طرح چاٹ گئی پھر بھی میرے مولا کا شکر ہے کہ چل نہیں سکدی ۔پرلیٹ تے سکدی اے۔ بیٹھ تے سکدی اے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کے لہجے میں چھپی عاجزی اور شکر گذاری اس نرس کے لیے بڑی حیران کن تھی۔
’’ہیں خالہ واقعی۔۔۔تیری دھی پہلے بالکل ٹھیک تھی۔۔۔‘‘ نرس کو سخت تعجب ہوا تھا۔
’’لے میں کوئی جھوٹ بول ری آں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے تھوڑا سا برا منایا۔ ’’میری سکینہ نے سونہے رب کی نوازش سے پورے چودہ ورے (سال)ٹھیک ٹھاک گذارے۔سکول جاتی تھی کھیلتی تھی سارے کام کاج کرتی تھی میری دھی۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں ہلکا سا فخر جھلکا تھا۔
’’بس جی اللہ کی آزمائش ہے ۔مولاایسی آزمائش سے سب کو بچائے اور اس بچی کو بھی تندرستی دے۔۔۔‘‘اُس نرس کی دلچسپی اچانک ہی اس سے ختم ہو گئی ۔’’آجاؤ مائی میرے ساتھ میں وڈے ڈاکٹر صاحب سے بخار کی دوائی لکھوا دوں۔۔۔‘‘ان دونوں کے کمرے سے نکلتے ہی سکینہ نے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا یا اور کھل کر سانس لیا۔
سکینہ اپنی زندگی کے گذشتہ چودہ سالوں کو کبھی نہیں بھلا سکتی تھی جب زمین اس کے قدموں کے نیچے تھی اور وہ زندگی کے سب رنگ ان کی دسترس میں تھے۔پھر اچانک ہی اس کی زندگی کا کینوس بدل گیا اور اس میں کچھ بھدے رنگ نمودار ہو گئے اور وہ وقت کے ظالم شکنجے میں آگئی۔گذشتہ پانچ سالوں سے وہ علاج کی غرض سے لاہور کے کئی ہسپتالوں میں رہی جہاں اس کا پیلوس (Pelvis)کا آپریشن کرنے کے بعد ڈاکٹرز نے مزید علاج کرنے سے انکار کر دیا۔اُس سمے سکینہ کو لگا کہ جیسے اُسے کسی نے ایفل ٹاور سے دھکا دے دیا ہو۔ساری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔انہی دنوں اس نے بیت المال کو اپنی بیماری کی ساری تفصیل لکھ کر بھیجی اور پھر وہیں کے ایک مہربان آفیسر کی مدد سے وہ لاہور سے اسلام آباد علاج کی غرض سے آگئی جہاں اس کا سارا علاج مفت تھا۔
’’ہاں بھئی سکینہ ،یہ بخار کیوں نہیں اتر رہا تمہارا۔۔۔؟؟؟؟‘‘اگلی صبح ڈاکٹر خاور نے اس کی رپورٹس دیکھتے ہوئے اپنی مریضہ سے خوشگوار لہجے میں پوچھا ۔
’’پتا نہیں ،ڈاکٹر صاحب اندر کی تپش کم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔۔۔‘‘ایک اداس سی مسکراہٹ سکینہ کے لبوں سے علیحدہ ہی نہیں ہو رہی تھی۔وہ اس کی بات پر چونکے ۔
’’اوں ہوں۔۔۔مایوسی والی کوئی بات نہیں چلے گی۔۔۔‘‘ان کے تنبیہی لہجے اور مسکراتی آنکھوں نے سکینہ کو بے بس کیا ۔
’’مجھے تو ویسی ہی سکینہ اچھی لگتی ہے جو پہلے دن پورے اعتماد کے ساتھ مجھ سے لڑ پڑی تھی کہ جب قرآن پاک میں ہے کہ سوائے موت کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے تو آپ لوگ میرا علاج کیوں نہیں کرتے،یا د ہے ناں۔۔۔‘‘انہوں نے ہاتھ میں پکڑا بال پوائنٹ ہلکا سا اس کے سر پر مار کر شرارت سے یاد دلایا تھا۔ان کے اس انداز پر وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’جی یاد ہے ،اُس پینل میں موجود سب ڈاکٹرز میں واحد آپ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ میں سکینہ اللہ دتا کا کیس ہینڈل کروں گا۔۔۔‘‘وہ کیسے اس دن کا منظر بھول سکتی تھی جب سب لوگ مایوسی بھری باتیں کر رہے تھے ایسے میں چھ فٹ دو انچ کے مردانہ وجاہت سے مالا مال اسپائنل سرجن ڈاکٹر خاور نے کچھ امید کے جگنو اس کی مٹھی میں قید کیے تھے۔وہ اپنی مقناطیسی کشش کی حامل بادامی آنکھیں جب کسی پر ٹکا دیتے تو مدمقا بل بات کرنا بھول جاتا ۔گھنی سیا ہ مونچھیں ،کھڑی مغرور ناک ،کشادہ پیشانی اور بے نیازی نے ان کی شخصیت کو ناقابل تسخیر سا بنا رکھا تھا۔
’’جی جناب آپ کے اسی یقین اور اعتماد کے بل بوتے پر میں نے آپ کے علاج کا فیصلہ کیا تھا۔آپ کا اللہ پر پختہ یقین اس سفر میں میرا زاد راہ ہے۔مجھے مکمل بھروسہ ہے کہ اللہ اتنی اچھی لڑکی کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔۔۔‘‘ وہ واحد شخص تھے جو پورے ہسپتال میں اُسے سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اُن کی اسی اہمیت اور توجہ کی وجہ سے وہ ایک پتنگ کی طرح آسمانوں پر اڑتی پھرتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اُن کے کہے جملوں کو ہزاروں دفعہ دہراتی کہ اُسے ازبر ہو جاتے۔
’’کل جب میں آؤں تو یہ سب بخار وغیرہ غائب ہونا چاہیے۔۔۔‘‘وہ رکے اور ہلکا سا مسکرائے سکینہ کی دھڑکنیں بے ربط ہوئیں۔وہ ایک ہوا کے جھونکے کی طرح کمرے سے نکلے تھے ان کے لباس سے اٹھنے والی نفیس سی بھینی بھینی خوشبو پورے کمرے میں رقص کرتی پھر رہی تھی۔اُس پر چھائی مایوسی ایسے اڑی تھی جیسے ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے زرگل اڑ جاتا ہے۔اُس کے اندر موجود محبت کی تتلی نے عجب سرخوشی کے عالم میں گول گول چکر لگانے شروع کر دیے تھے۔
’’جی ہاں ۔۔۔!!!اسی اللہ دتّا کمہار کی اکلوتی بائیس سالہ کبڑی بیٹی کو مردانہ وجاہت سے مالا مال اسپائنل سرجن ڈاکٹر خاور سے محبت ہو گئی تھی۔۔۔‘‘
**************
وہ سائیکلوجسٹ ماہم منصور کی زندگی کا ایک انتہائی منفرد،مشکل مگر دلچسپ کیس تھا۔۔۔
وہ جب پہلی دفعہ اپنی والدہ کے ساتھ اس کے پرائیوٹ کلینک میں آیا تو اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور بے چارگی تھی۔اُس کے پورے وجو د پر قنو طیت کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی تھی۔بائیں ٹانگ پر دائیں ٹانگ رکھے وہ انتہائی اضطراری انداز سے اپنا دایاں پاؤں مسلسل ہلا رہا تھاجو اس کے اندرونی خلفشار کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا۔وہ عجیب سی خود فراموشی کی کیفیت میں مبتلا تھا ۔اُس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں سختی سے پھنسائی ہوئی تھیں۔
’’ایسے آرٹسٹک ہاتھ تو مصورّوں کے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ماہم کو اُس کے ہاتھ دیکھ کر پہلا خیال یہی آیا ۔
’’ہاں بھئی رامس کیسے ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کے بے تکلفانہ انداز پر بھی اس نے سپاٹ سے انداز میں بس سر ہلا کر جواب دیا تھا۔بلیو جینز پر سفید شرٹ پہنے ،بڑھی ہو ئی شیو اور رف سے حلیے میں بھی اس کی شخصیت خاصی متاثر کن تھی ۔بریزے چکن کے ہلکے سرمئی رنگ کے سوٹ میں ملبوس اس کی ماں کشمیری حسن سے مالا مال تھی لیکن اس کے حسن میں ایک عجیب سا سوز تھا۔وہ عمر کے اس حصّے میں بھی خوب غضب ڈھا رہی تھیں۔
’’میرا بیٹا الیکٹر یکل انجنئیر ہے اور اس کی ساری ایجوکیشن انگلینڈ کے ٹاپ کلاس تعلیمی اداروں کی ہے۔۔۔‘‘ اُس کی ماں نے علیحدگی میں اُسے بڑی رنجیدگی کے ساتھ معلومات فراہم کی تھیں۔وہ اپنے بیٹے کی گذشتہ ہسٹری بتانے کے لیے ساتھ آئیں تھیں۔ماہم نے پہلے انہی کو اندر بلوایا تھا۔
’’میں بہت امید کے ساتھ آپ کے پاس آئی ہوں مجھے ڈاکٹر فیصل نے ڈاکٹر جواد سہیل کا بتایا تو پتا چلا کہ وہ تو امریکہ شفٹ ہو گئے ہیں لیکن ان کی بھانجی ان کا کلینک بہت کامیابی سے چلا رہی ہیں ۔اس لیے میں آپ کے پاس آئی ہوں۔۔۔‘‘ان کے انداز میں متانت اور سنجیدگی کا عنصر غالب تھا۔ڈاکٹر جواد بہت زبردست سائیکاٹرسٹ اور ماہم کے ماموں تھے۔اُس نے خود بھی ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔وہ ایک سائیکلوجسٹ کی حیثیت سے ان کے ہمراہ کام کرتی رہی تھی۔
’’میں تو سوچ رہی تھی کہ آپ کوئی عمر رسیدہ خاتون ہوں گی لیکن آپ تو خاصی ینگ ہیں اور شاید میرے رامس سے بھی چھوٹی ہوں گی۔۔۔‘‘وہ خاتون حسین ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی صاف گو بھی تھیں اس کا اندازہ ماہم کو ابھی ابھی ہوا تھا۔ وہ ان کے چہرے پر پھیلے تذبذب پر کھل کر مسکرائی۔
’’ڈونٹ وری آنٹی میں دیکھنے میں شاید انیس بیس سال کی لگتی ہوں ،لیکن میری اصل عمر پچیس سال ہے۔میری عمر کم سہی لیکن یقین کریں میری قابلیت پر کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا ،میں نے خود بھی کلینکل سائیکلوجی میں ڈپلومہ امریکہ سے ہی کیا ہے اور اس کے علاوہ انکل جواد کی خصوصی اسسٹنٹ کے فرائض بھی تین سال سر انجام دیے ہیں ۔آپ انشاء اللہ مایوس نہیں ہوں گی۔‘‘ماہم کی زندگی میں یہ پہلا موقع نہیں تھا اس کے پاس آنے والے اکثر مریض اپنے سامنے اتنی کم عمر سی سائیکلوجسٹ کو دیکھ کر چونک جاتے تھے۔ اُس کی اس وضاحت پر وہ ہلکا سا مسکرائیں۔
’’میرے میاں کا انتقال ہو چکا ہے اور میرے صرف دو بیٹے ہی ہیں ۔آج سے دو سال پہلے تک میں خود کو دنیا کی خوش قسمت خاتون سمجھتی تھی لیکن حالات اس طرح بھی پلٹا کھا سکتے ہیں ،میرے گمان کی آخری سرحدوں پر بھی ایسا کچھ نہیں تھا۔‘‘اُن کی آنکھوں کے کنارے سرخ ہو رہے تھے۔ماہم نے ان کو بولنے دیا ۔
’’رامس میرا چھوٹا بیٹا ہے اور چھبیس سال کی عمر میں اس نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو لوگ عمر کے آخری حصّے میں حاصل کرتے ہیں،لیکن اب اُس کی حالت دیکھ کر یقین مانو کہ دل پھٹتا ہے۔میں صرف اس کی وجہ سے انگلینڈ سے یہاں شفٹ ہوئی ہوں کیونکہ مجھے وہاں موجود ڈاکٹرز نے اسی چیز کا مشورہ دیا تھا۔‘‘اُن کی آنکھوں میں رنجیدگی ہلکورے کھا رہی تھی۔
’’شوہر کے انتقال کا صدمہ اپنی جگہ لیکن اپنے اتنے خوبرو،جوان،ایجوکیٹڈ بیٹے کی حالت دیکھ کر میری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ یہ تو اتنی نفیس طبیعت کا حامل تھا کہ ہلکی سی بو اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی لیکن اب ایک گھنٹے میں اتنی سموکنگ کر جاتا ہے کہ سارا کمرہ دھواں دھواں ہو جاتا ہے۔ساری ساری رات جا گتا ہے۔ اپنی ڈیڈی کی اذیتّ ناک موت نے اُس کی ساری زندگی کو ہی ڈسٹرب کر دیا ہے۔‘‘ رامس کی والدہ کی آنکھ سے بہتی ہوئی نمی کی لکیر اب گالوں پر پھیل رہی تھی۔ ماہم نے انہیں گفتگو کے درمیان بالکل نہیں ٹوکا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ مریض کے رشتے دار روانی میں بے ربط باتیں کرتے ہوئے بھی بہت سی کام کی باتیں بتا جاتے ہیں۔
’’ساری رات لائیٹیں جلا کر اسموکنگ کرتا رہتا ہے۔کہتا ہے کہ تاریکی سے اُسے ڈر لگتا ہے۔بعض دفعہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ میں حیران رہ جاتی ہوں کہ یہ تو کبھی بھی ایسا نہیں تھا۔‘‘وہ ٹکٹکی باندھے اُس دلکش خاتون کو دیکھ رہی تھی جو پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل بول رہی تھیں۔اُن کے ساتھ سیشن کر کے اس نے انہیں گھر بھیج دیا ۔
ماہم کا رامس علی کے ساتھ پہلا سیشن بالکل بھی کامیاب نہیں رہا تھا۔وہ اس کے ساتھ کوئی بھی تعاون کرنے کو تیار نہیں تھا۔اس نے اپنے دو گھنٹے کے سیشن میں ماہم اور اس کی اسسٹنٹ کو زچ کر دیا تھا۔ وہ سپاٹ سے چہرے کے ساتھ بڑے نپے تلے انداز سے جواب دے رہا تھا لیکن یہ ماہم کی پروفیشنل زندگی میں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔
اگلے سیشن میں وہ اکیلا ہی اُس کے پاس آیا تھا۔آزردگی اور تھکن اس کے ہر انداز سے مترشح تھی۔اس کی سرخ آنکھیں رت جگے کی غمازی کر رہی تھیں۔ اپنی ڈریسنگ کے معاملے میں وہ خاصا لاپرواہ تھالیکن اس کے باوجود وہ ماہم کے شاندار انٹرئیر والے کلینک میں سب سے زیادہ شاندار لگتا تھا۔ اُس نے پچھلے آدھے گھنٹے میں کوئی تیسری دفعہ سگریٹ سلگائی تو ماہم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
’’رامس۔۔۔!!! تم نے ’’بول ‘‘ مووی دیکھی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ تھوڑا سا جھک کر انتہائی شوق،دلچسپی اور تجسّس سے اس کا بیزارچہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ اس سوال پر اس قدر حیران ہوا تھا کہ کش لگانا ہی بھول گیا ۔
’’نہیں دیکھی ناں۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا پر جوش ہوئی اور جھٹ سے کھڑے ہو کر عجلت بھرے انداز میں گویا ہوئی ’’چلو پھر دفع کرو سب چیزوں کو یہ سیشن ویشن بعد میں ہوتے رہیں گے،آج ہم دونوں مل کے مووی دیکھتے ہیں ۔اس کے بعد تم مجھے زبردست سی کافی پلاؤ گے۔‘‘ اُس نے فیصلہ کن انداز سے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں جب کہ وہ ہکاّ بکاّ انداز سے منہ کھولے اس عجیب و غریب سی سائیکلوجسٹ کو دیکھ رہا تھا جو اُسے لمحہ لمحہ حیران کر رہی تھی۔
’’بھئی جلدی کرو ناں ،کن سوچوں میں گم ہو گئے ہو،شو کا ٹائم نکل جائے گا۔۔۔‘‘ وہ اس کے بالکل سامنے کھڑے ہو کر دوٹوک انداز میں کہہ رہی تھی اس کے انداز میں عجلت کی فروانی تھی جب کہ اس کی اس ہٹ دھرمی پر وہ جھنجھلا سا گیا۔
’’مجھے موویز اچھی نہیں لگتیں۔۔۔‘‘ اُس نے ناگواری سے ہا تھ میں پکڑی سگریٹ کو میز پر رکھے ایش ٹرے میں مسلا ۔
’’کوئی بات نہیں ،مجھے تو اچھی لگتی ہیں ناں۔۔۔‘‘ اگلے ہی لمحے وہ اس کا بازو پکڑ کر بڑے پر اعتماد انداز سے اُسے اٹھا رہی تھی۔ رامس کو دھچکا سا لگا تھا۔اُس نے سخت بے یقینی سے اپنے سامنے کھڑی نازک سی سراپے کی حامل دلکش لڑکی کو دیکھا جو آج اُسے کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں تھی۔ وہ اس عجیب و غریب روئیے کی حامل سائیکلوجسٹ سے بُری طرح مرعوب ہو گیا تھا جو اپنے مریض کے ساتھ دوسرے ہی سیشن میں مووی دیکھنے جا رہی تھی۔اُس نے ٹھنڈی سی آہ بھر کر ہتھیار پھینک دیے تھے کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ اُس کے پیچھے چل رہا تھا۔اُسے لگا تھا کہ جیسے اُس لڑکی نے اُسے ہپنا ٹائز کر دیا ہو۔