میری بھتیجی اور حیدر قریشی کی شریک حیات مبارکہ یکم جنوری ۱۹۵۶ ء کو پیدا ہوئی اور ۲۷ ؍مئی ۲۰۱۹ ء کوسب کو افسردہ چھوڑ کراپنے خالقِ حقیقی کے دربار میںحاضر ہو گئی۔ہمیں اس کی اندوہناک اور اچانک وفات کی خبر حیدر کی ہمشیرہ زبیدہ کلیم نے دی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ مسلسل ان گنت عوارض سے نبرد آزما ہو کر صحتیاب ہونے والی مبارکہ یوں اچانک داغِ مفارقت دے جائے گی۔لیکن جب معین وقت آجاتا ہے تو ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ہم نے بھی صبر و رضا کا دامن تھامتے ہوئے انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھ کر اسکی مغفرت کی دعاکی۔ اﷲ تعالیٰ اس سے رحمت و شفقت کا سلوک کرتے ہوئے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے۔ آمین ،نیزمبارکہ کے خاوند اوراپنے بھانجے حیدر اور اس کے بچوں اور تمام عزیز و اقارب کے لئے دعائیںکرنے کی توفیق بھی ملی۔ اﷲتعالیٰ اس صدمہ کو برداشت کرنے کی قوت وہمت عطا فرمائے۔آمین۔
مبارکہ کی والدہ مجیدہ بیگم جب دوسرے حمل کے آخری ایام میں اپنے سسرال گئیں تو راقم الحروف وہیں تھا۔مبارکہ کا بڑا بھائی مبشر احمد خالد تین سال کا تھا جب مبارکہ پیدا ہوئی۔مجھے خوب یاد ہے کہ اباجی مبارکہ کی پیدا ئش کا ذکر ” نئے سال کا تحفہ” سے کیاکرتے تھے۔بھابی مجیدہ ہماری خالہ زاد بھی تھیں۔ہماری والدہ اپنی بہوؤںسے ہمیشہ محبت و شفقت سے پیش آتیںاور بہوئیں بھی ہمیشہ اپنی ساس کا بہت خیال رکھتیں۔وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بہت ہی پیار کرتیں۔مبارکہ کی پیدائش کے وقت چونکہ مبشر اکیلا ہی وہاں تھا وہ ہر وقت دادی کے پاس ہی رہتا۔
خاکسار نے میٹرک کے بعد ایم ایس سی تک لمبا عرصہ بھائی جان ناصر اور ان کی فیملی کے ساتھ گزاراہے۔بھابی مجیدہ اور بھائی جان ناصر ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے اور میری ضروریات کا خیال رکھتے۔ بسا اوقات اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کرمیری ضرورت پوری کرتے لیکن اس کا احساس نہ ہو نے دیتے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے اور ان کو اپنے قرب خاص میں جگہ دے۔مجھے اس وقت تو اندازہ نہ ہو تا تھا لیکن بعد میں اس کا شدت سے احساس ہو تا رہا۔
مبارکہ سے متعلق یادیں تو بہت ہوں گی لیکن جب لکھنے بیٹھا تو کچھ بھی یاد نہیںآرہا ۔ ماموں زاد ہونے کے ناطے مبارکہ سے متعلق بہت سی باتیں حیدر اپنی مختلف کتب میں سپرد قلم کر چکا ہے ۔بعض معمولی اور غیر اہم سمجھی جانے والے واقعات کو بھی اس نے بہت ہی دلکش اور دلنشین انداز میں بیان کر دیا ہے۔ وحیدہ مبارکہ کی چھوٹی بہن اس سے تقریباً دو سال چھوٹی تھی لیکن چھوٹی ہونے کے باوجود اسی جتنی لگتی تھی اور بعض لو گ انہیںجڑواںبہنیں ہی سمجھتے۔مبارکہ اپنی بہن کی نسبت پڑھائی میں تیز تھی اور جلدی سبق یاد کر لیتی۔شروع شروع میںوحیدہ کو بعض الفاظ ادا کرنے میں بہت دقت ہوتی۔ وہ “الف ” کو “افل ” اور “اکبر”کو “ابکر ” کہتی۔پھر جلد ہی اس نے اس قسم کی دقتوں پر قابو پالیا۔
بچپن میں مبارکہ کی ایک عجیب عادت تھی کہ وہ جب بھی روتی اور جتنی دیر روتی رہتی اپنے پیٹ پر یا کان پرکجھلی کرتی رہتی ۔ انہیں پڑھانے کی ذمہ داری میری ہوتی۔ دونوںبچیاںبہت توجہ سے سبق یادکیا کرتیں۔تینوں بہن بھائی مجھ سے بہت مانوس تھے۔ عمر کے فرق کے باوجود ہم اکٹھے مختلف کھیل بھی کھیلاکرتے۔مبارکہ کی دوسری چھوٹی بہن غزالہ کی پیدائش کے بعد بھابی مجیدہ زیادہ تر بیمار رہیں۔اگرچہ بیماری کے اثرات پہلے بھی تھے لیکن غزالہ کی پیدائش کے بعد زیادہ ہو تے گئے جو جان لیوا ثابت ہوئے۔
ایم ایس سی کے بعد پہلے ڈگری کالج ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر کراچی میں ملازمت کے گورکھ دھندوںمیں ان سے ملنا کچھ کم ہو گیا۔البتہ مختلف خاندانی تقریبات پر ملاقات ہوتی رہی۔ میری شادی اور مبارکہ کی شادی ایک ہی دن یعنی ۴؍ اپریل ۱۹۷۱ ء کو ہوئی۔مارچ ۱۹۹۲ ء میں خاکسار کے امریکہ کے آنے کے بعدصرف ایک مرتبہ ۲۰۱۲ ء جب خاکسار بمع اہلیہ جرمنی گیا تو حیدراور مبارکہ سے ملاقات ہوئی۔دونوں بہت محبت اور خلوص سے پیش آئے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
مبارکہ کی وفات پر ہم تو شریک نہ ہو سکے البتہ ہمارے بیٹے اویس باجوہ نے تجہیز و تکفین میں شرکت کر کے ہماری نمائندگی کردی۔ اﷲتبارک و تعالیٰ اس کی جزا دے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔