ہر چنداردو میری مادری زبان نہیں ہے مگر محبوب زبان ضرور ہے۔ میں اپنی مادری زبان پہاڑی کے بعد اردو کو ہی عزیز جانتا ہوں۔ میری مادری زبان پہاڑی اردو سے بھی زیادہ مظلوم ہے۔ اس زبان کو اس کے اپنے لوگ ہی بولنے میں حجاب محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ اس قدر احساسِ کم تری کا شکار ہیں کہ گھر میں بھی ننھے منے بچوں کو پہاڑی بولنے سینہ صرف منع کرتے ہیں بل کہ اگر کوئی بولے بھی تو باضابطہ سرزنش کرتے ہیں۔ ہمارے وہ بزرگ جو بچپن سے پچپن تک پہاڑی بولتے رہے وہ بھی اپنے پوتوں،نواسوں، پوتیوں اور نواسیوں سے پہاڑی کی بہ جائے اردو یا ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں۔ بے شمار پڑھے لکھے لوگ بھی درست اردو بولنے سے قاصر ہیں مگر پھر بھی بچوں سے پہاڑی میں بات کرنا گناہِ عظیم سمجھتے ہیں۔ میں اردو کامحب ہونے کے باوجود پہاڑی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ میں اپنی مٹتی ہوئی تہذیب کا آخری شخص ہوں جس نے اپنے دادا،دادی اور نانا،نانی کا پیار پایا۔ میرے دادا ابو مرحوم اور دادی جان مرحومہ نے ہمارے ساتھ ٹھیٹھ پہاڑی بولی۔ میں اپنے ان بزرگوں کی زبان کو معدوم ہوتا دیکھتا ہوں تو بہت آزردہ ہو جاتا ہوں۔میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے بچوں سے پہاڑی میں بات کروں۔ میری بیٹی،بھانجی،بھتیجی، بھانجا وغیرہ کسی حد تک پہاڑی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اس کام کی وجہ سے کئی طرح کی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ہمارے گھروں میں الحمدللہ بڑے اب بھی پہاڑی زبان میں ہی گفت گو کرتے ہیں لیکن بچوں کو اس زبان سے یوں دور رکھا جاتا ہے جیسے یہ شجرِ ممنوعہ ہو۔ میں اردو پڑھتا ہوں اردو پڑھاتا ہوں، یہ زبان میرا ذریعۂ روزگار اور ذریعۂ عزت ہے تاہم پہاڑی سے بھی میرا قلبی تعلُق ہے۔ اردو زبان سے میری وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس زبان میں جو بھی غلطی کرتا نظر آیا اس پر چڑھائی کر دی۔ گو کہ اس عادت کی وجہ سے اک جہاں میرا مخالف ہو گیا مگر کم بخت یہ عادت نہ گئی۔ اب بھی کبھی کوئی غلطی دیکھتا ہوں تو بہت جی کڑوا ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ کسی کی اصلاح کروں میرے طلبہ اکثر و بیشتر مجھ سے سوال کرتے رہتے ہیں اور میں اپنی کم علمی کے مطابق ان کی تشفی کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ آزاد کشمیر اور ہزارہ یونی ورسٹیز کے بے شمار طلبہ جو ایم اے، ایم فل کی سطح پر مقالے تحریر کرتے ہیں مجھ سے موضوع کے حوالے سے یا مواد کی فراہمی کے حوالے سے یا حوالہ جات یا کسی اور مسئلے پر رہنمائی طلب کرتے رہتے ہیں۔ میں بھی اللہ کی رضا اور اپنی تسکین کے لیے ان کی معاونت کرتا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ جب ان کے نگران کے سامنے میرا نام لیا جاتا ہے تو اس پر وہ بہت برہم ہوتے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ میں یہاں اپنی کم فہمی اور سست الوجودی کا بھی برملا اقرار کرتا ہوں۔ میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس قدر کاہل ہو چکا ہوں کہ لکھنا تو درکنار پڑھنا بھی مشکل ہو چلا ہے۔ قلم کا جمود ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ آج ایک عرصے کے بعد قلم تھاما ہے اور اپنے قارئین کے لیے ذیل میں کچھ الفاظ کی اصلاح پیش کی ہے۔ یہ الفاظ وہ ہیں جن کے استعمال میں ہمارا اردو دان طبقہ بھی غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ امید ہے میری کم علمی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اصلاح قبول کی جاے گی۔
مسالا:
میں اپنے طلبہ کو جب اس لفظ کے درست املا کا بتاتا ہوں تو مجھے حوالے کے طور پر ان ڈبوں کا بتایا جاتا ہے جو مسالے کے ہوتے ہیں کہ ان پر تو”مصالحہ” درج ہوتا ہے۔ مانا مختلف مسالا جات کے ڈبوں پر مصالحہ لکھا ہوتا ہے لیکن کیا لازم ہے کہ وہ درست ہو۔ تجارتی حوالے سے تیار کردہ یہ ڈبے کوئی حوالہ ہر گز نہیں ہو سکتے۔ درست املا”مسالا” ہے اور اسے ایسے ہی لکھا جائے گا۔ اگر یہ ص سے مصالحہ مان بھی لیا جائے تو مسلنا کو بھی”ص” سے مصلنا لکھنا پڑے گا۔ مسلنا، مسل دینا وغیرہ بھی” س” سے ہے اور مسلی ہوئی چیز ہی ”مسالا ” کہلاتی ہے۔ شان الحق حقی مرحوم اپنے مرتبہ لغت،فرہنگِ تلفظ میں اسے ”مسالا” ہی لکھتے ہیں۔ مسالا یعنی کسی مرکب کے ضروریاجزا،لوازم،ذائقے کے لیے کھانے میں ڈالنے والے اجزا مرچ،ہلدی،لونگ دھنیا وغیرہ، تعمیر میں استعمال ہونے والا چونا۔کسی تصنیف کے لیے ضروری معلومات کے لیے بھی لفظ ”مسالا” ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے مصالحہ لکھنا صریحاً غلط ہے اسے ”مسالا” لکھنا ہی درست اور جائز ہے۔
رضائے الہٰی اور قضائے الہٰی:
میرے ساتھی استاد کے والد کے انتقال پر جب میں نے خبر لگائی کہ ”قضائے الہٰی سے وفات پا چکے ہیں” ایک صاحب نے اعتراض اٹھایا کہ ”رضائے الہٰی” ہونا چاہیے۔یہ ضمن میں عرض ہے کہ اکثر کسی کی وفات کے اعلان میں”رضائے الہی” ہی کہا اور لکھا جاتا ہے۔ میری دانست میں یہ درست نہیں۔اس حوالے سے محترم آفتاب احمد رضوی نے بھی تفصیل لکھی ہے۔ سیکھنے والوں کے لیے وضاحت پیش ہے کہ درست جملہ ”قضائے الہی سے وفات پا گئے ہیں۔” ہو گا۔ قضا اور رضا میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لغاتِ کشوری میں قضا کے جو معانی درج ہیں وہ بہ ذیل ہیں:حکم کرنا، واجب کا ادا کرنا یا ادا کرنا، پیدا کرنا،تمام کرنا، بیان کرنا، وہ عبادت جس کا وقت گزر گیا ہو، حکم خدا جو مخلوقات کے حق میں دفعتاً واقع ہو جائے۔(لغاتِ کشوری،مطبع نول کشور، لکھنؤ،۱۹۲۳ء،ص۳۶۵)
شان الحق حقی نے بھی قضا کے معانی مشیت،حکم یا مرضی کے لکھے ہیں۔حقی مرحوم نے فرہنگِ تلفظ کے صفحہ۵۴۹ پر قضائے الہٰی(اللہ کی مشیت یا مرضی) ہی درج کیا ہے۔ اسی سے مرکبِ عطفی قضاوقدر ہے یعنی تقدیرِ الہی۔ اسی طرح رضا کا مطلب اطمینان،تسلی اور خوشنودی ہے۔یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ رضا کا درست تلفظ ر مکسور کے ساتھ ”رِضا” ہو گا۔ اس لیے اللہ رب العزت جب کسی کے بارے فیصلہ یا حکم کرتے ہیں تو اسے ”قضا” کہا جاتا ہے۔اسی طرح جب کسی کام سے اللہ راضی ہو گا تو اس وقت اس شخص پر ”رضائے الہی” کا ظہور ہو گا۔ اس لیے ”رضائے الہی اور قضائے الہی” میں امتیاز کیا جانا چاہیے۔ قرآن کریم سے کچھ حوالے پیشِ خدمت ہیں۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُم وَ رَضُوا عَنہُ (مجادلہ۲۲)
اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
لَقَدرَضِیَ اللّٰہُ عَنِ المُومِنِینَ ہ(الفتح۱۸)
بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے۔
ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا:
وَ رَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا (مائدہ۳)
اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
اسی طرح سورہ توبہ کی آیت ۵۹ میں ارشاد ہوا:
وَ لَوانَّہُم رَضُوا مَا اٰتٰیہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُولُہٗ ۔
اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا۔
درجہ بالا آیاتِ قرآنی کی روشنی میں رضائے الہی کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ جہاں تک ”قضا” کی بات ہے تو کلامِ ربی میں متعدد مقامات پر اس لفظ کا استعمال بھی ملتا ہے۔ ذیل میں قضا سے متعلق چند آیات پیش ہیں جن کو دیکھ کر لفظ قضا کے معانی و مفاہیم یقیناً کُھل جائیں گے۔ارشادِ ربانی ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ وَ بِالوَالِدَینِ اِحسَانًا (بنی اسرائیل ۲۳)
اور تمھارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
او ر مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
وَ اللّٰہُ یَقضِی بِالحَقِّ (مومن۲۰)
اور اللہ سچا فیصلہ فرماتا ہے۔
مزید ایک جگہ ارشاد ہوا:
فَلَمَّا قَضَینَا عَلَیہِ المَوتَ (سبا۱۴)
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا۔
اوپر پیش کی گئی آیات کے بعد ”رضا” اور ”قضا” کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ ان تمام مثالوں کو سامنے رکھتے ”رضائے الہی اور قضائے الہی” کے استعمال میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
اعلا یا اعلٰی:
بِساط،گورنمنٹ بوائز انٹر کالج،میرپورہ ضلع نیلم سے شائع ہونے والا مجلہ ہے۔۲۰۲۰ء میں بساط کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آیا تو راقم کے نام کے ساتھ”مدیرِ اعلا” جدید املا کے ساتھ لکھا تھا۔ ”اعلا” کا یہ املا دیکھ کر اکثر دوستوں نے اعتراض اٹھایا کہ ”اعلٰی” کا املا تو یوں ہو گا۔اس حوالے سے میرا جواب یہ ہے کہ اردو میں عربی اور فارسی زبان کے لاتعداد الفاظ مستعمل ہیں۔ ان میں بے شمار الفاظ اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔ بعض کے تلفظ عربی میں مختلف ہیں جب کہ اردو میں ان کے تلفظ کسی حد تک تبدیل ہیں۔ اسی طرح کئی الفاظ کے املا تبدیل کر دیے گئے۔ مثلاً عربی لفظ شیطٰن کا املا اردو میں شیطان ہو جاتا ہے۔ اسحٰق کو اردو میں اسحاق لکھتے ہیں اسی طرح اسمعٰیل کو اسماعیل لکھا جاتا ہے۔ اردو املا میں کھڑے زبر پر زیادہ توجہ دی بھی نہیں جاتی اس لیے چند اسمائے معرفہ کو چھوڑ کر باقی الفاظ کو الف سے لکھا جانا چاہیے۔ اسی اُصول کے پیشِ نظر عربی لفظ ”اعلٰی” کو اردو میں” اعلا” لکھا جائے تو بہتر ہو گا۔
چھے یا چھ:
ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ اردو گنتی الفاظ میں ۶ کو”چھ” لکھا جاتا ہے۔یاد رکھیں یہ بالکل فاش غلطی ہے۔ ”چھ” اردو کا ایک مرکب حرف ہے اور جب تک دو یا دو سے زیادہ حروف یک جا نہ ہو لفظ نہیں بنتا۔ اس مرکب حرف کو لفظ بنانے کے لیے یائے مجہول کا اضافہ کیا جائے گا تب ”چھے” بنے گا۔ اگر اس حرف چھ کو چھے پڑھیں گے تو لفظ پوچھ اور پوچھے میں کیا تمیز ہو گی۔ لفظ کچھ کو کچھے پڑھنا پڑے گا۔ المختصر اردو املا کو درست حالت میں لکھنا چاہیے۔ ۶کے لیے چھ لکھنا غلط ہے جب کہ چھے درست ہو گا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...