u make me feel so crazy
yes i m in love with u
آھل نے اپنا چہرہ اسکے چہرے کے اس قدر قریب کیا تھا کہ دونوں کی سانسیں ٹکرا رہی تھی ۔۔
اینجل کی نظریں جھکی ہوئ تھی تو آھل نے اسےخود سے اور قریب کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ تبھی وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔اور اینجل جو زید کے کمرے سے نکل رہی تھی وہ اس سے ٹکرانے کے بعد جانے لگی تھی
سوری!!!وہ انجانے میں ایسا ہوگیا۔۔
آھل شرمندہ ہو رہا تھا۔مگر اینجل نے کوئ جواب نہیں دیا تھا۔۔۔
وہ جانے لگی تو آھل نے اسے آواز دی ۔۔۔
جولی کو ذرا بھیجنا۔۔
اینجل نے اسکی جانب دیکھا تو انکی نگاہیں ملی تھی
جولی سو رہی ہے آپ کہے تو اٹھا دوں!!!
اب اینجل کی نگاہیں جھکی ہوئ تھی ۔۔
نہیں رہنے دو ۔۔۔
آھل جواب دیکر اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا تو اینجل کی آواز پر رک گیا۔۔۔
آپکو کوئ کام ہے تو بتاۓ ؟؟؟
اینجل کے سوال پر آھل بغیر مڑے مسکرانے لگا اور اسے جواب دیا ۔۔۔
ہاں وہ چاۓ کا کہنا تھا لیکن اب رہنے دو۔۔
آھل نے کچھ قدم آگے بڑھاۓ تو اینجل دوبارہ گویا ہوئ شاید سوچ رہی تھی کچھ ۔
چاۓ کمرے میں بھجوانی ہے ؟؟؟
اینجل کے اس سوال پر آھل نے آنکھیں بند کرکے جواب دیا تھا وہ شاید یہی چاہ رہا تھا کہ چاۓ کے بہانے اینجل سے اسکے دل کا حال جان سکے ۔۔
نہیں وہی کیچن کے برابرٹی وی لان میں ۔۔۔
وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور اینجل کیچن کی طرف۔۔۔
اینجل چاۓ بنا رہی تھی کہ اسے کسی کی آہٹ سنائی دی وہ سمجھی کہ آھل ہے مگر وہ زید تھا ۔۔۔
ارے چاۓ وہ بھی اکیلے اکیلے ۔۔۔یہ غلط ہے ۔۔۔
زید نے مصنوعی خفگی سے کہا تو اینجل کو ہنسی آگئی
نہیں یہ میری نہیں آھل سر کیلے ہے میں آپکے لیے دوسری بنا دیتی ہوں ۔
اینجل چاۓ کپ میں ڈالتے ہوۓ مڑی تو آھل کچن میں آیا ۔۔
یہ چاۓ زید کو دے دو میرے لیے دوسری بنا لو اور ہاں اپنے لیے بھی ساتھ بیٹھ کر پیے گیں۔۔
آھل جو کب سے کچن کے باہر تھا اور ان دونوں کی باتیں سن چکا تھا اسے اچانک اندر آتا دیکھکر اینجل گبھرا گئ تھی ۔۔
زید آھل کی بات سنکر معنی خیز مسکراہٹ آھل کی جانب اچھالتا ہوا چلا گیا اور اینجل دوباره چاۓ چڑھانے لگی اور آھل کی ساتھ چاۓ پینے کی بات پر ذرا پریشان ہو گئ تھی ۔۔۔
آھل کیچن سے باہر آکر ٹی وی لان میں آکر بگ اسکرین ایل ای ڈی آن کرکے چینل چینج کرنے لگا ۔۔
ایک میوزک چینل پر وہ رکا تھا اور وہاں جو گانا چلا اس نے آھل اور اینجل کے دل ہلا دیے تھے ۔۔
ہر لفظ اینجل پر قیامت ڈھا رہی تھی اور شاید آھل کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔
کچھ ایسا کر کمال کہ تیرا ہوجاؤں
میں کسی اور کا ہوں فلحال کہ تیرا ہوجاؤں۔۔۔
یہ سننا تھا کہ دونوں کے دل اپنی ماضی کے پنجے میں بلکنے لگے تھے۔۔۔
آھل تو اینجل کا سوچ رہا تھا کہ سارہ کی وجہ سے شاید وہ اسکے احساسات کو سمجھ کر بھی کچھ ری اکٹ نہیں کر رہی اور اظہار نہیں کر رہی جبکہ آھل اب سارہ کی جگہ اینجل کو دے چکا تھا بلکہ اینجل سے اتنی محبت کرنے لگا تھا کہ جتنی شاید سارہ سے کبھی کی بھی نہیں ہوگی۔۔۔
یہ غلطی تو غلط ہے جو تو کر گیا جانی
اب یہ دیکھ تیرے بن کیسے جی رہا میں جانی
اینجل کی آنکھوں کے سامنے و ہ منظر گھومنے لگا جب کسی نے کتنی آسانی سے اسے ٹھکرايا تھا
مر جاۓ گے لے سنبھال کہ تیرا ہوجاؤں
میں کسی اورکا ہوں فلحال کہ تیرا ہو جاؤں
دونوں اپنی اپنی تکلیفوں کے آگے بے بس ہو ۓ تھے ۔۔۔اینجل کی آنکھیں اپناماضی یاد کرکے برسنے لگی تھی اسے یہ تک ہوش نہ تھا کہ وہ چاۓ بناتے ہوۓ چولہا تیز کرکے اپنا ہاتھ اسکے قریب رکھے ہوئ تھی۔۔
اسکے ہاتھ میں پہنا ہوا کڑھا گرم ہوکر جب اسکی جلد جلانے لگا تو اینجل کے منہ سے ہلکی چیخ نکلی اور چاۓ کا برتن بھی گر پڑا اب وہ اپنا ہاتھ سہلا رہی تھی اور آنسوؤں کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی۔۔۔
آھل کیچن سے آتی آوازوں پر کیچن کی طرف دھوڑا تو وہاں اینجل کو روتا اور ہاتھ سہلا تے ہوۓ دیکھ کر گبھرا گیا۔۔
وہ جلدی سے اسکے پاس گیا اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا کڑھے کی تپش اب کم ہو چکی تھی تو آھل چولہے بند کرنے لگا ۔۔۔اینجل سنک کے پاس کھڑی اپنے ہاتھ اور کڑھے پر پانی مارنے لگی تبھی آھل نے آکر اسکا ہاتھ تھام لیا اور اینجل کی طرف دیکھا جو ابھی تک رو رہی تھی ۔۔۔اور دھیمی آواز میں پوچھا۔۔۔
زیادہ جل رہا ہے کیا ؟؟؟؟
آھل کے اس سوال پر اینجل نے اسکی طرف اک قرب سے دیکھا تبھی ٹی وی پر چلتے گانے کے بول چلنے لگے۔۔۔
۔
مجھے پتہ ہے دنیا کو یہ گوارا نہیں ہوسکتا
جھوٹ کہتے ہیں سارے کہ پیار دوبارہ نہیں ہوسکتا
مت پوچھ کوئ سوال چل دور کہیں میرے ساتھ
کہ تیرا ہوجاؤں
یہ بول نہیں آھل کی دل کی آواز تھی ۔۔۔
آھل پر اینجل کا اور ان بولو کا ایسا اثر ہوا کہ اسنے اینجل کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اینجل نے بھی خود کو اس سے الگ نہیں کیا تھا بلکہ اب وہ بلک بلک کر رونے لگی تھی ۔۔۔
۔۔
روتے ہوۓ وہ یہ بھول چکی تھی کہ وہ کسکی بانہوں میں ہے اسکے رونے سے آھل کا کندھا بھیگنے لگا تھا۔۔اور آھل کی پلکیں بھی بھیگ چکی تھی۔۔
تبھی اینجل کے کانوں میں آوازیں گونجنے لگی وہ آوازیں جن سے وہ دور بھاگتی تھی
اوقات۔۔!!!!!
کالی پرچھائ،،،!!!!!!
منحوس ۔۔ُ!!!!
تم سے رشتہ تو کوئی مجبوری میں بھی نہ رکھے!!!!!!!!!
اینجل ان آوازوں کی مار کو تاب نہ لاتے ہوۓ آھل بانہوں سے گرنے لگی ۔
آھل نے اسے تھام لیا تھا مگر اینجل نے آھل کی بانہوں سے خود کو الگ کر دیا تھا ۔۔
وہ کچن سے باہر جانے لگی تو آھل نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔۔مگر اینجل نے اسکی طرف دیکھے بغیر اپنی بات کہنا شروع کی۔۔۔
میں ایک منحوس پرچھائ ہوں خدارا مجھے میری اوقات میں رہنے دے کیونکہ مجھ سے تو کوئی مجبوری میں بھی رشتہ نہیں رکھتا۔۔۔
یہ کہہ کر اینجل جانے لگی تو آھل نے اسکا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑا نہیں اور اسکی جانب اپنی بھیگی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔
تمھاری اوقات یہ ہے کہ میں اب تمھارے بغیر رہ نہیں سکتا اینجل پیار کرتا ہوں تم سے اور رشتہ ایسا ہے تم سے کہ تم بھی سمجھ نہیں سکوگی۔۔۔
اینجل نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور وہاں سے چلی گئ اور آھل بس اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا
آھل اپنے کیبن میں بیٹھا رات کو ہونے والے اپنے اور اینجل کی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ انٹرکام پر کال آنے لگی ۔۔
اوکے انھیں اندر بھیج دو۔۔
آھل نے ریسپشینسٹ سے بات کرکے انٹر کام کا ریسیور رکھ دیا اور آنے والے کا انتظار کرنے لگا تبھی کا دروازہ کھلا اور احد اندر آیا۔۔
ھیلو آھل کیسے ہو ؟؟
فائن اینڈ یو؟
فائن !!مجھے تو نہیں لگ رہے۔۔
احد کی اس بات پر آھل مسکرایا اور ٹیبل پر کسی پروجکٹ کی فائل اٹھائ اور احد کی طرف بڑھائ
آپکا اسلام آباد والا پروجکٹapprove ہو گیا ہے دو دن بعد وہاں سیمینار اٹینڈ کرنا ہے کو کہ ضروری ہے ۔۔
آھل کی بات پر احد خوش ہوا مگر ذرا پریشان ہوا
اوہ دو دن بعد چلو ہو جاۓ گا اصل میں فہد اور انکی وائف بھی آۓ ہوۓ ہیں اور میں بھی اسی لیے یہاں آیا تھا کہ تم سب کو آج شام کو میرے بھتیجے کے نکاح پر بلاؤں ۔۔۔
آھل یہ سنکر احد کی جانب مسکرا کر دیکنھے لگا۔
مبارک ہو۔۔۔
اچھا میں چلتا ہوں اور ہاں سبکو لیکر آنا زید جولی اور اپنی اینجل کو بھی۔ لیٹ مت ہونا۔۔۔اوکے باۓ۔۔۔
آھل سے مصافحہ کرکےاحد چلا گیا اور آھل اسکی” اپنی اینجل” والی بات پر مسکرایا پھر موبائل نکال کر جولی کو فون کرنے لگا۔۔
کہ وہ اینجل کو لیکر شاپنگ کرنے جاۓ اور ٹریڈیشنل ڈریس لیکر پارلر جا کر تیار ہوں پھر وہی سے ساتھ چلے گے سب۔۔۔
وہ دونوں تیار تھی
جولی نے ایک سمپل سی قميض شلوار پہنی ہوئ تھی مگر اینجل کو بلیک کلر کا لہنگا دلوایا تھا جس پر گولڈن کام تھا ۔۔
اینجل تیار ہونے کے بعد واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی ہلکی جیولری اور سر پر اسٹائل سے دوپٹہ کو پن اپ کرکے وہ غضب لگ رہی تھی۔۔۔
آج تو آھل سر گۓ !!
جولی نے اینجل کی طرف دیکھ کر آہے بھرتے ہوۓ ہلکے سے کہا تو اینجل نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔
کچھ کہا؟؟؟
جولی سنبھل کر بولی
ہاں وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ !!!
اسی وقت کاؤنٹر پر زید کو دیکھ کر جولی خوش ہوتے ہوۓ آٹھی ۔
چلو اینجل زید آگیا!!!
جولی کی جان بچ گئ ۔
واؤ آنٹی لوکنگ ٹریڈیشنل ٹوڈے اور اینجل تم تو کیا لگ رہی ہو لگتا ہے لوگ تمھیں ہی دلہن سمجھے گیں اچھا چلو بھائ انتظار کر رہے ہیں ہم آلریڈی لیٹ ہو چکے ہے۔
زید بھی آج سفید شلوار قمیض میں اچھا لگ رہا تھا۔
دونوں زید کے ساتھ باہر آئ جہاں کار میں آھل انکا انتظار کر رہا تھا
آھل نے جب اینجل کو دیکھا تو پلکیں جھپکانا بھول گیا تبھی جولی نے زید کو آھل کی جانب دیکھنے کا اشارہ کیا اور دونوں معنی خیز مسکراہٹ لیے آھل کو دیکھنے لگے ۔آھل نے جب ان دونوں کو اسطرح مسکراتے دیکھا تو سنبھل کر آگے کی جانب دیکھنے لگا۔۔
تینوں گاڑی میں بیٹھنے لگے تو زید نے اینجل کو فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھنے کا کہا اور اسکے جواب کا انتظار کیے بغیر پیچھے بیٹھ گیا ۔۔۔جولی بھی پیچھے بیٹھتے ہوۓ زور سے بولی جلدی چلو دیر ہو رہی ہے ۔تو اینجل بیٹھ گئی ۔
گاڑی چلتے ہوۓ جولی نے آھل سے پوچھا۔۔
سر آپ نے بتایا نہیں کہ شادی کس کی ہے ؟؟؟
آھل نے اینجل کو دیکھتے ہوۓ جولی کو جواب دیا
ڈاکٹراحد کے بھتیجے کی۔۔۔
اینجل نے یہ سنا تو چونک کر آھل کی جانب دیکھا تو اسکی بھوری آنکھیں آھل کی نیلی آنکھوں سے ملی اور وہ جلدی سے سامنے کے جانب دیکھنے لگی اسکی دھڑکنیں آھل کی بات سنکر تیز ہو گئ تھی وہ کانپ رہی تھی تبھی جولی کی نظر اس
پر پڑی ۔۔
اینجل کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو؟؟
جولی نے پریشانی سے پوچھا ۔۔
تو اینجل خود پر قابو کرکے مسکرا کر بولی۔
ہاں بس نروس ہوں کہ وہا ں کافی لوگ ہونگے نا ۔۔۔۔
اینجل کی اس بات پر زید نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔
نہیں اینجل نروس مت ہو سب اپنے لوگ ہونگے تمھیں وہاں اچھا لگے گا۔۔۔
اپنے لفظ سنکر اینجل کی تکلیف مزید بڑھ چکی تھی۔۔
وہ ہال کے اندر آچکے تھے تو احد انکو دیکھ کر انکی جانب آیا۔۔
آؤ آؤ ویلکم
وہ زید اور آھل سے باری باری ملا جولی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اینجل کو دیکھکر اسکے قریب آیا
ماشاءالله بہت پیاری لگ رہی ہو بیٹا اور جولی فرسٹ ٹائم تمھیں اسطرح دیکھا ہے اور دونوں بھائ سیم ڈریس مگر لیٹ ہوگۓ ہو نکاح تو ہوگیا ہے چلو کپل سے ملواتا ہوں اور میرے بڑے بھائ اور بھابھی سے بھی چلو ۔۔
وہ چاروں احد کے ساتھ ساتھ چلنے لگےمگر اینجل کوچلتے ہوۓ اپنے قدم منوں باری لگ رہے تھے اسنے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی اسے کچھ نہیں دیکھنا تھا اسے بھاگنا تھا دور بہت دور۔۔۔
اسٹیج کے قریب پہنچے تو لبنہ وہی ملی وہ ان سبکو دیکھ کر ملنے آئ سب سے ملکر اینجل کو دیکھ کر وہ جولی کے کان میں کچھ سرگوشی کرنے لگی تو جولی کو ہنسی آگئ ۔۔
ارے جلی مطلب پھنسی ارے زید اسکو لٹل سس کہتا ہے پاگل اچھا میں چلتی ہوں اپنے سنگر سے ملنے قسم سے عمر کم ہوتی نا تو آج دلہن میں ہوتی ۔۔۔
دونوں اس بات پر ہنسی تھی مگر اینجل کو تو جیسے کچھ سنائ نہیں دے رہا تھا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
اسٹیج پر جاتے ہی احد نے سبکو فہد اور ثناه کے ساتھ ساتھ زیبا اور اسکے شوہر سے بھی ملوایا ۔۔ثناہ سے گلے ملتے وقت اینجل کے کانوں میں اک آواز گونجی
“تم سے تو کوئ مجبوری میں بھی رشتہ نہ رکھے ۔۔”
اینجل کی حالت خراب ہونے لگی تھی۔
یمنا سے ملتے ہوۓ اسے لگا کہ یمنا سے بڑا خوش نصیب کوئ نہیں کیونکہ وہ گوری اور پرکشش تھی ۔۔
نوفل پر ایک نظر ڈال کر وہ نیچھے اتری تھی۔ نوفل کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔۔
آھل فہد سے بات کرتے ہوۓ اینجل کو دیکھ رہا تھا اسکے چہرے پر چھائ اداسی اسے بے چین کر رہی تھی۔۔۔
اوہ تو پھر ہم کل ہی چلے جاۓ گیں پرابلم نہیں ہے احد تم اور آھل یہاں کا کام دیکھ لو اسلام آباد والا سیمینار میں اٹینڈ کر لوں گا۔
فہد ۔احد اور آھل تینوں باتیں کر رہے تھے مگر آھل کی نظریں بار بار اینجل کو تکتی احد یہ سب نوٹ کر رہا تھا تبھی اسنے آھل کے ہاتھ سے موبائل لیا اور اینجل کی کچھ تصویریں لی اور آھل کو موبائل واپس دیتے ہوۓ کہا۔۔
جی بھر کے دیکھ لے ایسے بار بار دیکھنا اچھا نہیں سمجھے ۔۔۔
احد کی اس بات پر آھل نے مسکراتے ہوۓ سر جھکا لیا تھا۔۔۔
ایک طرف لبنہ اور زید باتیں کر رہے تھے انکی بیچ اب فاصلے گھٹنے لگے تھے ۔
زید وہ گانا جو رات کو تم نے سنایا تھا amazing تھا سچ کہوں تو اسکی وجہ سے ہی آج ہم اسطرح بات کر رہے ہیں۔
لبنہ زید سے باتیں کرتے ہوۓ بولی تو زید حیران ہوا۔
really!!!
تو پھر ہمیں اینجل کو شکریہ کہنا چاہیے تھا کیونکہ وہ گانا وہی گا رہی تھی ۔۔
زید کے ایسا کہنے پر لبنہ نے اسے چونک کر دیکھا اور کہا۔
what!!!!
زید نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اینجل کی جانب لے گیا۔
میری پارٹنر ہے میری سس پرسو کے گرینڈ شو میں چلو تم خود سنلو ۔۔اے اینجل لٹل سس لبنہ کو ذرا حیرت کی دنیا سے باہر نکالو جلدی سے کچھ گا کے سناؤ مگر پلیز آواز ذرا سلو رکھنا ورنہ بھائ کا تمھیں پتہ ہے نا۔
آھل سبکو ایک ساتھ دیکھکر وہی آرہا تھا وہ جیسے ہی قریب پہنچا تو اینجل جو سر جھکاۓ بیٹھی تھی روتی ہوئ کچھ گانے لگی تھی۔
نا میں روؤں نا پچھتاؤں میں
کہ چاند تو سدا ہی ہے چکور کا
اب تم تو ہوکسی اور کے
مگر میں شاید نا بن پاؤں کسی اور کا
میرا دل کرتا کیوں سوال
نا تو میرا مستقبل نا میرا حال
اتنا گا کر اسنے سامنے بیٹھی جولی کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
جولی پلیز مجھے گھر لے چلو پلیز !!!
اتنا کہہ کر وہ رونے لگی تو آھل جو سب کچھ سن چکا تھا آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے جانے لگا انکے پیچھے جولی اور زید بھی آگۓ
اینجل سارا رستہ آنسوں بہاتی رہی آھل کے علاوہ باقی دونوں اس سے رونے کی وجہ بھی پوچھتے رہے اور چھپ بھی کراتے رہے ۔
گاڑی رکتے ہی وہ اندر کی جانب دوڑی مگر وہ خود کو سنبھال نہ سکی اور گر گئی ۔۔
آھل اسے گرتا دیکھ کر اسکے قریب اسے اٹھانے لگا تو اینجل نے اسے روتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔
پلیز مجھے سہاروں کا عادی مت بناؤ پلیز !!!
وہ خود اٹھکر جانے لگی تو آھل نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔
مگر میں تمھارا عادی بن چکا ہوں مجھے تمھارے سہارے کی ضرورت ہے سچ میں ہے مجھے سہارا دو ورنہ میں مر جاؤن گا ۔۔
اینجل اس سے ہاتھ چھڑا کر جانے لگی تو آھل کی آواز پر رکی۔۔
پرسوں مجھے جواب چاہیۓ اور پلیز مجھے مایوس مت ک
نا اینجل پلیز ترس ہی کھا لو۔۔
آھل بے بس لگ رہا تھا ۔اسکی باتیں جولی اور زید کو بھی رلا چکی تھی مگر اینجل نے اسکی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئ ۔