محمد ایوب
محمد ایوب ۱۵؍ ستمبر ۱۹۵۳ کو کامٹی ضلع ناگپور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کامٹی کے اسکولوں میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ممبئی گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا۔ محکمۂ پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف اور پھر تبادلے کے بعد ایر انڈیا کی ملازمت کے سلسلے میں ممبئی میں رہے۔ ناگپور سے بحیثیت ڈپٹی مینیجر سبک دوش ہوئے۔
ادبی تقریبات کی نظامت اور سماجی خدمات کے لئے مشہور ہیں۔ ان کی کتاب ’’نقشِ تحریر‘‘ ۲۰۱۹ میں منظرِ عام پر آئی جس میں دیگر مضامین کے علاوہ چند فکاہیہ تحریریں بھی ہیں۔
چاند رات کی سیر
محمد ایوب
آپ نے چاندنی رات کی سیر کے بارے میں تو بہت سنا ہو گا بلکہ بنفس نفیس اس کا لطف بھی اٹھایا ہو گا، ہم بھی اس سے لطف اندوز ہو چکے ہیں، مگر ہمیں چاندنی رات کی اہمیت کا احساس اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ پانچویں یا چھٹی کلاس میں اس پر مضمون نہیں لکھوایا گیا۔ ہمیں یاد ہے ہم نے اس مضمون پر اپنا سارا زور قلم صرف کر دیا تھا اور فصاحت اور بلاغت کے دریا بہا دیے تھے۔ ہمارے ایک ہم جماعت نے تو جوشِ بیان میں صفحے کے صفحے سیاہ کر دیے۔ ٹیچر نے دلچسپی اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر سارا مضمون پڑھ ڈالا اور پوچھا ’’برخوردار! اس میں چاندنی رات کہاں ہے‘‘ تو لڑکے نے ندامت سے سر کھجاتے ہوئے کہا، ’’سر! وہ ڈالنا تو میں بھول ہی گیا۔‘‘
چاند کے تعلق سے جو باتیں مشہور ہیں وہ اس کے شباب یعنی چودھویں رات کی ہیں۔ قدیم شعرا نے چاند سے اپنے محبوب کی مشابہت ثابت کرنے کے لیے اپنی ساری انرجی صرف کر دی۔ بعضوں نے تو معشوق کے مقابلے میں چاند کو بھی کمتر ثابت کرنے کی سعیِ بلیغ کی۔ بعد میں جب چاند کے بارے میں سائنسی حقائق سامنے آئے تو یہ خیال ہوا کہ جو ہوا، سو ہوا، اب شاید شعرا چاند کا پیچھا چھوڑ دیں گے، مگر جب انشا جی کی مشہور غزل پڑھی اور سنی کہ:
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
تو ہمیں یقین ہو گیا کہ چاند کے طلسم سے انسان کا چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ مشہور جدید شاعر شہر یار نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
سب کچھ بدل گیا ہے مگر لوگ ہیں مصر
مہتاب ہی میں صورتِ جاناں دکھائی جائے
۔ مرزا غالبؔ نے بھی ایک طویل قصیدہ لکھا اور چاند سے کچھ دلچسپ سوالات پوچھے:
ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
اب یہ تو نہیں معلوم کہ چندا ماما نے چچا غالب کو کیا جواب دیا۔ مگر مہ نو خمیدہ صورت اب بھی مجسم سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ حالاں کہ چاند کا حسن اس کی تکمیل میں سمجھا جاتا ہے مگر عید کا چاند صرف ایسا ہے جو تھوڑی دیر کے لیے روشن ہوتا ہے مگر لوگوں کے دماغ کی بتّیاں جلا دیتا ہے اور دلوں کے چراغ روشن کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے رویت ہلال کے علاوہ بھی عید منانے کا دوسرا جواز ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
انتیسویں کو رخ کی ترے دید ہو گئی
اب چاند ہو یا نہ ہو مری عید ہو گئی
ہمارا گمان ہے کہ عید سے زیادہ لوگ چاند رات مناتے ہیں یا پھر چاند دیکھتے ہی بے تحاشہ عید منانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے بچپن میں چاند رات کا منظر کچھ اور ہی ہوتا تھا۔ ان دنوں ماہ رمضان کی قصیدہ خوانی کا زور تھا۔ بچّوں اور بڑوں کی الگ الگ ٹولیاں بنتی تھیں جو سارا مہینہ پرائمری اسکول کے ماسٹروں سے جو اتفاق سے شاعر بھی ہوا کرتے تھے۔
ماہِ رمضان کی عظمت میں فلمی دھنوں پر قصیدے لکھواتے اور مہینے بھر اس کے گانے کی مشق کرتے۔ یہ قصیدے صرف رمضان کی عظمت اور اس کے ہجر کی داستان ہی نہیں سناتے تھے بلکہ اس میں شعرا حضرات نے روز مرّہ کے مسائل اور دنیا جہان کی دلچسپ حکایات بھی سمو دی تھیں۔ اس وقت صرف خوش آواز اور بہترین ترنم والے بچے اور بڑے ہی اس میں بار پاتے تھے۔ بچے اپنے خوشحال رشتے داروں کے گھر لالٹین لیے ہوئے پانچ، سات کی تعداد میں پہنچ جاتے، اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتے۔ عید منانے کے لیے ان کا یہ اضافی سرمایہ ہوتا تھا۔ بڑوں کی ٹولیاں بھی خاصی بڑی ہوتیں۔ ان میں دو یا تین ایسے لوگ ہوتے جو زیادہ بلند آواز ہوتے اور سوالی کہلاتے تھے۔ وہ قصیدے کے بول اٹھاتے اور باقی جو جوابی کہلاتے اسے ایک ساتھ دہراتے۔ ایک سماں بندھ جاتا۔ چلتے لوگ ٹھہر جاتے۔ غریب سامعین داد دیتے اور امیر انھیں نقد انعام سے نوازتے۔ یہ لوگ چوراہوں اور بازاروں میں رکتے ہوئے چلتے۔ اگر قدردان مل گئے تو ایک ہی جگہ کئی کئی گھنٹے گزار دیتے۔ اس وقت تفریح کے وسائل بہت کم تھے۔ اس لیے اس کی خوب پذیرائی ہوتی تھی۔
بازاروں میں اتنی بھیڑ بھاڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔ اکّا دکّا تلے ہوئے پاپڑ اور بھجیے کی دُکانیں ہوا کرتی تھیں۔ کیا زمانہ تھا ایک پاپڑ میں سارا گھر آسودہ ہو جایا کرتا تھا۔ ان دنوں ریڈی میڈ کا رواج نہیں تھا۔ چاند رات میں تو درزیوں کا ناک میں دم ہو جاتا تھا۔ یہ طبقہ خشوع و خضوع سے مہینہ بھر ۳۰ویں روزے والی عید کی دعا مانگتا تھا۔ بازاروں میں لڑکیاں بالیاں گلے کی مالا، کانوں کے نقلی زیور، کانچ کی چوڑیاں اور بالوں کے لیے ربن خریدتی پھرتی تھیں۔
زمانے نے کروٹ بدلی، خوشحالی آئی۔ ریڈیو کی جگہ ٹی وی آیا۔ اب گلے بازی کے دن لد گئے۔ لوگ قصیدے اور قصیدہ پارٹیوں کو بھولنے لگے۔ پاپڑ بھجیے کی جگہ، سموسے کباب اور سیخ و نان کی دُکانیں آ گئیں اور ترقی ہوئی پہلے بریانی کی جگہ پلاؤ کا رواج تھا وہ بھی کسی بڑے رئیس کی شادی میں۔ اب گھر گھر بریانی بننے لگی۔ لوگوں کا ذوق بدلا، بازاروں میں بطور خاص چاند رات میں بریانی کی دیگوں پر دیگیں چڑھنے لگیں۔ تولا، نان، کباب اور تندوری مرغ کی اشتہا انگیز خوشبو سے سارا بازار مہک اٹھتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم اشیائے خورد و نوش پر اس طرح ٹوٹ پڑتا ہے جیسے ابھی ابھی آسمان سے ’’منّ و سلویٰ‘‘ اترا ہو۔ عوام کو ’’کُلُو وَ الشُرَبُو‘‘ کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ خواتین کے بازار مانو، زمانۂ قدیم کے مینا بازار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں خواتین کی آرائش و زیبائش کی ہر چیز دستیاب ہے۔
بازار میں اتنی بھیڑ کے تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ گئی رات تک بازار میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ جب چاند رات میں ہی اپنے دل کے سارے ارمان نکال لیں گے تو عید کیا خاک منائیں گے، مگر وہ جو چچا غالب کہہ گئے ہیں کہ:
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے