وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں رومانہ نے انکو دیکھا اور کہا آنٹی آپ۔۔۔ بس میں نیچے ہی آرہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ اسکو عجیب نظروں سے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ آگے بڑھیں اور اک تھپڑ اسکے گال پہ مارا۔۔۔۔۔ رومانہ اک دم لڑکھڑا گئی اسنے اپنے گال پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا اسکو سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟ ابھی وہ کچھ بولتی ناہید بیگم نے بہت غصہ میں اس سے پوچھا۔۔۔۔” کون ہو تم۔۔۔۔ روبی یا رومانہ۔۔۔؟؟؟ رومانہ تو روبی کا نام سن کر دہل گئی۔۔۔۔ اس نے کہا آنٹی رومانہ ہوں۔۔۔۔ اسنے اتنا ہی کہا تھا کہ ناہید بیگم نے اک تھپڑ اور لگایا اور کہا جھوٹ بولتی ہو تم۔۔۔۔۔ مجھے سب پتہ چل گیا تم روبی ہو وہی طوائف جس سےمیرابیٹا شادی کرناچاہتا تھا۔۔۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ میں جس سے اپنے بیٹے کی شادی کررہی ہوں وہ وہی طوائف ہے۔۔۔۔ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں کبھی یہ رشتہ نا کرتی۔۔۔۔ کیسے گھنے اور میسنے ہیں تمہارے گھر والے ذرابھنک نہیں لگنے دی۔۔۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا کہے جارہی تھیں اور رومانہ سن سی کیفیت میں انکی ساری باتیں سن رہی تھی اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے حواس سلب ہوگئے ہوں۔۔۔۔۔ وہ اک دم چلا اٹھی۔۔۔۔”نہیں ہوں میں طوائف۔۔۔۔۔۔ ناہید بیگم نے اسکے منہ سے ان لفظوں کو سنا تو کہا۔۔۔”بس کردو۔۔۔ تم ابھی نہیں ہو مگر رہ تو چکی ہونا اور میں یہ کسی صورت برداشت نہیں کروں گی کہ میری بہو کا ماضی کسی کوٹھے پہ گزرا ہو یہ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے گالی ہے۔۔۔۔ رسوائی ہے۔۔۔ ذلت ہے اور میں کسی بھی طور اس رسوائی کو اپنے گھر کا حصہ نہیں بننے دوں گی۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔۔ کتنی ہی پاک باز کیوں نا بن جاؤ مگر تمہارا وجود ناپاک تھا ہے اور رہے گا۔۔۔۔۔نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔۔ انہوں نے اسکو بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکالا اور اک طرح سے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے آئیں۔۔۔۔ ملازمہ نے بھی دیکھا تو حیران ہوئی کہ یہ بیگم صاحبہ دلہن کے ساتھ کیا کررہی ہیں۔۔۔۔۔ ناہید بیگم نے اسکو گھر سے باہر نکال دیا اور وہ بلکل چپ۔۔۔۔۔ جیسے سکتے کی کیفیت میں ہو۔۔۔۔۔ وہ گھر سے نکالی جاچکی تھی اسکے پاس نا تو پیسے تھے نا موبائل کہ وہ ارمان کو کال کرسکتی۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بھی آنسوؤں سے خالی تھیں۔۔۔۔۔ اس نے اک نظر آسمان کو دیکھا اور کہا اللّٰہ۔۔۔۔۔ رحم کرنا۔۔۔۔۔
اس نے قدم آگے بڑھادیے اور چلتی چلی جارہی تھی۔۔۔۔ اجڑے ویران حلیے میں۔۔۔ کوئی اس وقت اسکو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ چند ماہ کی دلہن ہے۔۔۔۔۔ اس نے اک رکشہ روکا اور اسکو اپنے گھر کا پتہ بتایا اور بیٹھ گئی۔۔۔۔ گھر پہنچ کر اسنے دروازہ کی بیل بجائی۔۔۔۔ روشانے نے پوچھا کون ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ مگر رومانہ کچھ نا بولی روشانے نے دروازہ کھولا اور رومانہ کو ایسے حلیے میں دیکھا تو بوکھلا گئی وہ اسکو اندر لیکر جارہی تھی کہ رکشہ والے نے کہا باجی کرایہ دے دیں۔۔۔روشانے نے اسکو کرایہ دیا اور دروازہ بند کرکے بھاگتی ہوئی اندر گئی اور رومانہ سے پوچھنے لگی۔۔۔” کیا ہوا میری جان۔۔۔۔؟؟ یہ حالت کیسے ہوگئی۔۔۔۔ اس طرح کیوں آئی ہو۔۔۔؟ وہ اس سے بہت سارے سوال کررہی تھی مگر رومانہ چپ تھی۔۔۔۔۔ آسیہ بھی آگئیں تھیں انہوں نے بھی جب رومانہ کی یہ حالت دیکھی تو پریشان ہوگئیں روشانے نے روتے ہوئے اسکو اپنے آپ سے لگالیا مگر رومانہ کی آنکھیں بلکل خشک تھیں۔۔۔۔ آسیہ نے کہا روشانے پانی لاؤ اسکے لیے۔۔۔۔ روشانے پانی لائی اور رومانہ کے منہ سے گلاس لگایا۔۔۔۔ رومانہ نے بمشکل دو گھونٹ پیے پھر گلاس ہٹا دیا۔۔۔۔۔ روشانے نے پریشان ہوکر ارمان کو فون ملایا مگر اسکا موبائل بند جارہا تھا اسنے حسن کو کال ملائی اور فوری آنے کے لیے کہا۔۔۔۔ حسن بھی گھبراگئے تھے تھوڑی دیر میں اصغر کے ساتھ ہی وہاں پہنچ گئے۔۔۔۔ رومانہ کی حالت دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے رومانہ سےپوچھنے لگے مگروہ بلکل خاموش تھی۔۔۔۔ انہوں نے مجتبی کا نمبرملایا اور ان سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ تو شہر سے باہر گئے ہیں حسن نے انکو رومانہ کے بارے میں بتایا جس پہ وہ بھی حیران ہوئے اور کہا میں گھر میں پوچھ کر بتاتا ہوں۔۔۔۔ ناہید بیگم اپنے کمرے میں تھیں۔۔۔۔۔ ملازمہ نے فون اٹھایا اور مختصراً بتایا جو دیکھا تھا۔۔۔۔ ناہید کو بلایا تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔۔ مجتبی کی سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔۔ ارمان کا نمبر مسلسل بندجارہا تھا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے فیکٹری کے نمبر پہ کال کی اور ارمان سے بات کی۔۔۔۔ ارمان تو سن کر ہکا بکا رہ گیا۔۔۔۔ اسنے کہاپاپا میں فورا گھر جاکر دیکھتا ہوں ارمان کے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے اسکی سمجھ نہیں آرہا تھاکہ رومانہ ایسے کیسے چلی گئی اسکے موبائل کی بیٹری ختم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اسکاموبائل بند جارہا تھا۔۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھا اور تیز چلاتا ہوا گھر پہنچ گیا ناہید اوپر کمرے میں ہی تھیں وہ انکے کمرے میں آیا اورپوچھا۔۔۔۔” ماما رومانہ کیوں گئی ہے۔۔؟؟ ناہیدبیگم نے بیٹے کو دیکھا تو کھڑی ہوگئیں اور کہا۔۔۔۔” تم نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ وہ وہی روبی ہے۔۔۔۔” ارمان حیرت زدہ ہوکر انکو دیکھنے لگا۔۔۔۔ اور کہا۔۔۔۔”کیا مطلب۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ لڑکی وہی طوائف ہے جس سے تم شادی کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ اور تم یہ بات جانتے تھے مگر تم نے مجھے کبھی نہیں بتایا وہ تو اگر میں خود نا سنتی تو مجھے تو پتہ بھی نہیں چلنا تھا۔۔۔۔” ناہید بیگم غصہ سے کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔ ارمان اک دم چلا اٹھا۔۔۔۔۔” آپ نے کیا کہا ہے اسکو۔۔۔ ارمان میں کسی صورت اسکو اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتی سنا تم نے تم اسکو فورا طلاق دو میں تمہاری دوسری شادی کرواؤں گی۔۔۔۔ ناہید بیگم التجائی لہجے میں بولیں۔۔۔۔۔
ارمان نے کہا مام بسسس اک لفظ اور نہیں اگر آپ نے اب کچھ ایسا کہا تو میں بھول جاؤں گا کہ آپکا اور میرا رشتہ کیا ہے۔۔۔۔ اسنے مجھے اپنے گزرے ہوئے کل کے بارے میں سب بتادیا تھا اور وہ نا بھی بتاتی تو میں جانتا تھا اسکو۔۔۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔۔ مجھے بس میری خوشی عزیز ہے اورمیری خوشی اسی کے ساتھ میں ہے۔۔۔۔۔آپ نے اچھا نہیں کیا مام اسکو اس طرح گھر سے نکال کے۔۔۔ میں اسکو لینے جارہا ہوں اور اب میں یہاں نہیں آؤں گا الگ رہوں گا۔۔۔۔ناہید بیگم جو اسکی بات سن رہیں تھیں اسکے جانے کااور واپس نا آنے کا سن کر اک دم ہوش میں آئیں
اور کہا کہ نہیں ایسا مت کرنا تم مجھ سے دور مت جانا۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم رومانہ کو لے آؤ میں اس سےمعافی مانگ لوں گی مجھے افسوس ہے مجھے ایسانہیں کرناچاہیے تھا۔۔۔۔۔ ارمان نے جب یہ سنا تو کچھ نرم پڑا اور کہا ٹھیک ہے مام میں لے آتا ہوں اسکو بس آپ اسکو رومانہ ہی سمجھیں روبی نہیں وہ میری زندگی ہے میں ادھورا ہوں اسکے بغیر۔۔۔۔ انہوں نے ارمان کے سر پہ پیار کیا اور کہا جاؤ لے آؤ اسکو۔۔۔۔۔ ارمان وہاں سے نیچے آیا اور باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گیا مگر جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا چابی وہیِں اوپر بھول آیا ہے وہ واپس اندر آیا اور اوپر کی جانب چلا گیا۔۔۔۔ ناہید اپنی دوست حمیرہ سے فون پہ بات کررہی تھیں انکی آواز باہر تک آرہی تھی۔۔۔۔” حمیرہ اس لڑکی نے تو مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ارمان اسکو لینے گیا ہے اب جب آئے گی نا تو میں ایسا مکمل جال بنوں گی کہ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔۔۔۔۔۔ ارمان انکی یہ ساری باتیں سن رہا تھا وہ انکے کمرے میں گیا اور تالیاں بجانے لگا۔۔۔۔۔۔ ناہید نے اسکو دیکھا تو انکے ہاتھ سےموبائل گرگیا۔۔۔۔ ارمان نے کہا واہ مام واہ کیا سازش تیار کی آپ نے واہ۔۔۔ آپ کہتی ہیں کہ اس نے آپ کا بیٹا چھین لیا۔۔۔۔ تو سنیں اس نےآپ کابیٹا نہیں چھینا بلکہ آپ نےخود اپنابیٹا چھیناہے اپنےہاتھوں سے۔۔۔۔۔ میں تو چابی لینے آیا تھاگاڑی کی مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ کونسی سازش تیار ہورہی ہے اندر میری بیوی کے خلاف۔۔۔۔۔ افسوس ہے مام آپ پہ۔۔۔۔۔ میں اب کبھی نہیں آؤں گا واپس۔۔۔۔ یہ کہہ کر اسنےچابی اٹھائی اور وہاں سے باہرنکل آیا۔۔۔ ناہید بیگم کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو انکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ارمان اسطرح آجائے گا اور سب سن لے گا۔۔۔۔۔
ارمان بہت غصہ میں تھا اسکو یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکی ماں اسکی خوشیوں کی قاتل بن جائے گی۔۔۔وہ تیز گاڑی چلاتا ہوا حسن کے گھر پہنچا حسن نے گیٹ کھولا تو وہ فورا اندر داخل ہوا حسن کو اس پہ بہت غصہ تھا اسنے حسن سے معافی مانگی اور کہا انکل میں آپکو سب بتاتا ہوں پہلے مجھے رومانہ کو دیکھ لینے دیں۔۔۔۔حسن اسکو اندر لے گئے روشانے اور آسیہ بیگم بھی بیٹھی ہوئیں تھیں وہ دونوں اسکو دیکھ کر کھڑی ہوگئیں ارمان ان سے بہت شرمندہ ہوا رومانہ جو اتنی دیر سے خاموش تھی اسکو دیکھا تو رو پڑی ارمان نے اسکے پاس بیٹھ کر اس سے معافی مانگی۔۔۔۔۔ حسن بھی اندر آگئے تھے انہوں نے پوچھا کہ یہ سب کیوں ہوا۔۔۔؟؟؟ اس پہ ارمان نے ان سب کو شروع سے لیکر ساری کہانی سنائی۔۔۔۔ وہ سب دم بخود سن رہے تھے۔۔۔۔ ارمان نے کہا انکل رومانہ کو ابھی یہیں رکھیں آپ میں اک فلیٹ لے رہا ہوں ہم اب اس گھر میں نہیں رہیں گے میری بیوی وہاں محفوظ نہیں ہے۔۔۔۔۔ حسن نے اسکو سمجھایا مگر اسنے اک نا سنی اورکہا میری ماں جب میری بیوی کے لیے کوئی سازش تیار کررہی ہے تو میں کیوں جان بوجھ کر آنکھیں بند کروں۔۔۔۔ حسن نے کہا ہم تمہاری مام سے بات کرلیتے ہیں انکو سمجھاتے ہیں مگر ارمان نے انکار کردیا۔۔۔۔۔
اور کہا نہیں انکل مجھے ان پہ بلکل بھروسہ نہیں ہے۔۔ اسنے رومانہ کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور کہا۔۔۔۔” بس تھوڑا سا انتظار کرلو پھر میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔۔۔” اتنی دیر میں مجتبی کی کال حسن کے موبائل پہ آنے لگی حسن نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔”ارمان ادھر ہی ہے آپ بات کرلیں۔۔” ارمان نے ان سےفون لیکر ساری بات مجتبی کو بتائی۔۔۔۔ مجتبی بھی سر پیٹ کے رہ گئے اور کہا میں ائرپورٹ پہ ہوں بس گھر پہنچ رہا ہوں تم بھی گھر پہنچو وہیں بات ہوتی ہے۔۔۔۔ ارمان کو اپنی ماں سےنفرت ہورہی تھی۔۔۔۔ وہ وہاں جانا نہیں چاہتا تھا مگر بس اپنے باپ کی وجہ سے چپ ہوگیا۔۔۔۔ وہ وہاں سے نکلا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔ گھر پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں گیا اور کچھ ضروری سامان پیک کرنے لگا۔۔۔۔ ناہیدبیگم کمرے میں ہی بیٹھی ہوئیں تھیں ارمان کے کمرے سے آوازآنے پہ وہ اٹھکر اسکے کمرے میں چلی آئیں اور کہا ارمان مت جاؤ چھوڑ کر مگر ارمان نے کوئی جواب نا دیا۔۔۔۔ وہ اپنی تیاری میں لگا رہا۔۔۔۔ مجتبی بھی تھوڑی دیر بعد پہنچ گئے انہوں نے آتے ہی ناہید بیگم سے پوچھا کہ کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔۔؟؟؟ ارمان کمرے سے باہر جاچکاتھا ناہید بیگم کہنے لگیں میں اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرواؤں گی۔۔۔۔۔آپ دیکھیے گا۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ لڑکی یہاں نہیں رہے گی۔۔۔۔ مجتبی کو انکی ذہنی حالت پہ کچھ شبہ ہوا وہ انکوسنبھالنے لگے اور کہا غلط بات ہے وہ جو بھی تھا اسکا ماضی تھا اب تو نہیں تھی وہ ایسی تم نے اچھا نہیں کیااپنے بیٹے اور اس معصوم لڑکی کے ساتھ۔۔۔ ناہید بیگم روتے ہوئے کہنے لگیں ارمان کو روک لیں۔۔۔۔ وہ جارہا ہے پھر اک دم ہنسنے لگیں۔۔۔۔ ہاہا ارمان جارہا ہے۔۔۔ مجھ سے دور جارہاہے۔۔۔۔ مجتبی پریشان ہوگئے وہ یہ کہتے کہتے گر پڑیں اور بے ہوش ہوگئیں۔۔۔۔ مجتبی انکو ہسپتال لیکر بھاگے۔۔۔۔ طبی امداد ملنے کی صورت میں ناہیدبیگم کو ہوش آگیا تھا مگران کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔۔ وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کررہی تھیں۔۔۔۔ مجتبی پریشان ہوگئے تھے۔۔۔۔ انہوں نے ارمان کوبلایا انکے بہت کہنے پہ وہ چلا آیا اورماں کی یہ حالت دیکھ کر اسکو ان پہ ترس آیا۔۔۔۔ وہ ارمان کودیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔۔۔اور اپنی آنکھیں ادھر ادھر گھمانے لگیں پھر اک انگلی اٹھا کر کہنے لگیں۔۔۔۔ میں دوسری شادی کرواؤں گی اپنے بیٹے کی۔۔۔۔ وہ اچھی نہیں ہے۔۔۔۔ مجتبی نے ڈاکٹر کو بلایا تو انہوں نے ناہید کا معائنہ کیا اور کہاکہ انکو کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے انکادماغ سہی کام نہیں کررہا۔۔۔۔ ڈاکٹر نے انکو دماغی ڈاکٹر کو دکھانے کی تجویزپیش کی
مجتبی انکو وہاں لے گئے اور انکا علاج ہونے لگا مگر انکی حالت سنبھلنے کےبجائےمزید بگڑنے لگی۔۔۔۔اور ڈاکٹر کے بس سےباہر ہوگئی وہ توڑ پھوڑ کرنے تک اتر آئیں تھیں تو ڈاکٹر نے انکو پاگل خانے بھیجنے کا مشورہ دیا۔۔۔۔ مجتبی نے حتی الامکان کوششیں کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔۔ نتیجہ انکو پاگل خانے ایڈمٹ کروانا پڑا۔۔۔۔۔۔ شاید انکو کسی بےگناہ کے ساتھ زیادتی کرنے کی سزا ملی تھی۔۔۔۔
مجتبی بہت ٹوٹ گئے تھے،انہوں نے ارمان کے ساتھ جاکر رومانہ سے اور اسکے گھر والوں سے معافی مانگی اور اسکو گھر لے آئے۔۔۔۔۔
وقت گزرتا رہا ارمان اور رومانہ کی شادی کو سال ہوگیا اللّٰہ نے اسکو اک پیارا سا بیٹا عطاکیا۔۔۔۔ عمار بھی واپس آگیا تھا اپنی فیملی کے ساتھ اسکے دو بیٹے تھے دونوں بہت ہی پیارے تھے اسکی بیوی بھی مسلمان تھی اور بہت اچھے اخلاق کی مالک تھی۔۔۔۔ مجتبی نے ریان اور ایان کو بھی بتایا وہ بھی افسوس کرنے کے لیے آگئے مگر جلد ہی چلے گئے۔۔۔۔مجتبی نے گھر عمار اور ارمان کے نام کردیا اور فیکٹری میں بھی دونوں کو حصہ دار بنادیا۔۔۔۔۔ عمار اور ارمان کو سمجھایا کہ بیٹا جیسا میں نے تم لوگوں کے ساتھ زیادتی کی ایسے تم لوگ اپنے بچوں کے ساتھ مت کرنا اپنے بچوں کو وقت دینا انکو اچھا برا سمجھانا۔۔۔۔۔ عمار اور ارمان نے اس بات کی تائید کی۔۔۔۔۔۔
*****
مجتبی عمار اور ارمان کے ساتھ ناہید سے ملنے جاتے رہتے وہ بہت کمزور ہوگئیں تھیں۔۔۔۔۔ مجتبی کو ان پہ بہت افسوس ہوتا کہ اگر وہ رومانہ کے ساتھ ایسا نا کرتیں تو آج ہمارے ساتھ ہوتیں۔۔۔۔۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔!!!
*****
پانچ سال گزرگئے۔۔۔۔ ناہید بیگم کا انتقال ہوگیا۔۔۔۔ ارمان اور رومانہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے انکو اللّٰہ نے دو اور بیٹیاں عطا کیں انکی زندگی مکمل ہوگئی۔۔۔۔ عمار بھی اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن رہتا۔۔۔۔۔ مجتبی نے فیکٹری جانا چھوڑدیا اور اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے
*******ختم شد******۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...