(Last Updated On: )
میں ان دنوں گودی کے علاقے میں سامان اٹھانے کا کام کیا کرتا۔ شام کی طرف، جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہ ہوتا، میں اپنے وقت کو دو حصوں میں بانٹ لیتا۔ سورج ڈوبنے سے قبل میں لوہے کے پُل پر بیٹھا لوگوں کے جوتے پالش کیا کرتا۔ جب میرے پاس پالش کرنے کے لئے نہ ہوتا میں نیچے کھال میں کشتیوں کو چاند کی کشش کے زیرِ اثر کناروں پر چڑھتے دیکھتا رہتا۔ بانس اور لکڑی کے تختوں سے بنی یہ خستہ حال کشتیاں نائلن کی رسیوں سے ڈھلان پر کھڑے درختوں کے ساتھ بندھی ہوتیں۔ جلد سورج دریا پار دھندلے مکانوں کے اوپر کی کثافت میں غائب ہو جاتا۔ لیکن اس کے بعد بھی قدرتی روشنی کافی دیر تک قائم رہتی۔ آسمان اندھیرے میں ڈوب چکا ہوتا جب آئس کریم کی ٹرالی کو ڈھکیلتے ہوئے، جس پر رنگین چھتری ڈول رہی ہوتی، میں میدان کی طرف نکل جاتا جہاں درختوں کی آڑ میں بیٹھے رومانی جوڑوں کو میں اونچے داموں آئس کریم بیچا کرتا۔ ان دنوں میرے پاس بس یہی کام تھے۔ اور اگر آپ مجھ سے دریافت کریں تو میں بتا سکتا ہوں یہ زندگی اتنی بری بھی نہیں تھی۔ میں خود سے کہا کرتا، تم یہ بھول نہیں سکتے کہ تم ایک ایسے آدمی ہو جس نے دو بار اپنا ملک بدلا ہے۔
اور یہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے۔۔۔
سورج آسمان پر ہمیشہ کی طرح اپنا فرض نبھا رہا تھا اور میرے والد مغربی پاکستان جانے کے لئے چٹاگانگ کی بندرگاہ میں اپنے دو چرمی سوٹ کیس، ایک ہولڈ آل اور ایک کوٹ کے ساتھ جہاز کے عرشے پر کھڑے ہماری طرف تاک رہے تھے۔ ماں کے برعکس جو سانولے رنگ کی ایک معمولی ناک نقشے والی بنگالی عورت تھی، ابا ایک لانبے قد کے گورے چٹے اور کافی وجیہ انسان تھے جن کے گھنے نفیس بال کسی فلمی ہیرو کی یاد دلاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب میری ماں نے ابھی ہندوستان واپس لوٹنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ دوسری طرف میں صرف سات برس کا تھا اور اس لائق نہیں تھا کہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکوں۔ مگر دیکھتے دیکھتے دو برس گذر گئے جب ایک دن اچانک ماں نے اعلان کیا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے پیدائشی وطن واپس لوٹ جائیں۔ مجھے ماں کی بات سن کر حیرت ہوئی۔ اپنا وطن! مجھے تو اس کی یاد بھی نہیں ہے جب کہ اپنے باپ کے برعکس جو کبھی اسِ ملک کی زبان بول نہ پائے، ہم لوگ تو وہی زبان بولتے ہیں جو اس ملک میں بولی جاتی ہے۔
بہت بعد میں، تقریباً نو برس بعد، بسترِ مرگ پر ماں نے مجھے بتایا، وہ میرے باپ کو کھونے کے صدمے سے کبھی ابھر نہیں پائی تھی۔ جہاز پر جانے کے لئے تختہ پر قدم رکھنے سے پہلے ابا نے ہمیں امید دلائی تھی کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد ہمیں بلا لیں گے۔ مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے گئے۔ سمندر میں غیر ملکی جہاز آتے جاتے رہے۔ انھوں نے کبھی لوٹ کر ہماری خبر نہیں لی۔
’’ارسلان، تم اپنے دل پر جبر مت لو۔‘‘ ماں نے کہا۔ پچھلے دو سال سے وقفے وقفے سے، جب جب ان پر درد کا شدید غلبہ ہوتا انھیں اپنی پیٹھ کے نچلے حصے پر الاسٹک کے بریسیز پہننے ہوتے تھے۔ یہ بریسیز پہلے سے استعمال شدہ تھے اور جینیوں کے خیراتی اسپتال سے دئے گئے تھے جہاں ایک مارواڑی تاجر کی سفارش پر ان کی ریڑھ کی ہڈی کی مفت سرجری کی گئی تھی۔ اس تاجر کے گھر ماں نے کچھ دنوں کے لئے نوکری کی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کا یہ درد سالوں سال صبح سے شام تک لگاتار لوگوں کے گھروں کو پوچھا لگانے اور بھاری گھریلو سامان ادھر ادھر کرنے کا نتیجہ تھا۔ ان وقتوں میں جب ان کا درد اٹھتا وہ بالکل کام کرنے کے لائق نہ ہوتی اور زیادہ تر انھیں گھر پر پڑا رہنا پڑتا۔ جس کا مطلب تھا وہ ہماری فاقہ کشی کا دور ہوتا کیونکہ لگاتار چھٹی لینے کے سبب ان کا زیادہ تر کام چھوٹ جاتا۔ مگر اس وقت ماں ایک سرکاری اسپتال میں ایک جان لیوا مرض کی شکار بن کر آئی تھی اور اس وقت جب کہ وہ مجھے دلاسا دے رہی تھی، اسپتال کے وارڈ کے اندر بس اتنی بھر روشنی رہ گئی تھی کہ میلی کچیلی دیوار پر سائے کے نام پر ایک ہلکا سا دھبہ بن سکے۔ ماں نے میری دونوں مٹھیاں تھام کر اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر رکھ لیا تھا جیسے میری مٹھیاں وہ اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جانے والی ہو۔ وہ جن آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں وہ میرے لئے بالکل نئی تھیں۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ اتنے سالوں تک انھوں نے ان آنکھوں کو کہاں چھپا رکھا تھا۔ ’’وعدہ کرو، تم کبھی اپنے باپ کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ خدا کا شکر ہے وہ ایک ایسے ملک میں جا بسے ہیں جس سے اس ملک کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ مگر وعدہ کرو۔‘‘
ایک بار میرا جی چاہا کہ میں اپنے ہات کھینچ لوں۔ مگر ماں لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھیں اور میں ان کی موت کو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انتظار کرتا رہا، ماں کی موت کا یا اس بات کا کہ ایسا کچھ ہو جائے کہ ماں کا موت کا ارادہ ٹل جائے۔ آج یہ بتانا مشکل ہے اس دن میں کس بات کا انتظار کر رہا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا تھا جس پر اس وقت میرا کوئی بھی اختیار نہیں تھا۔