(Last Updated On: )
عمر حنیف
عمر حنیف ۱۹۵۳ کو سرس گاؤں ضلع امراؤتی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۷۴ سے منی افسانے لکھنے شروع کئے۔ ان کی تحریریں ماہنامہ بیسویں صدی، روبی، گل فام، ہم زبان اور شگوفہ میں شائع ہوئیں۔
عمر حنیف ملازمت کے سلسلے میں کھام گاؤں میں مقیم تھے، وہیں ان کا انتقال ہوا۔ انھوں نے افسانے اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور کالم لکھے۔ امراؤتی سے نکلنے والے اخبار ’’آتش فشاں‘‘ میں ان کا کالم ’’بال کی کھال‘‘ شائع ہوا کرتا تھا۔ ان کے چند مزاحیہ مضامین ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد میں بھی شائع ہوئے۔ عمر حنیف کی تحریروں میں سیاست اور حالاتِ حاضرہ طنز کے نشانے پر ہیں۔
چاند
عمر حنیف
چاند کا نام لیتے ہی ہمارے ذہن میں چاند کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت، تازگی سے سرشار کسی دو شیزہ کا چہرہ ابھر آتا ہے۔ پتہ نہیں کس زمانے میں کن صاحب نے کس حسین صورت کو چاند سے تشبیہ دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا؟ شاید وہ صاحب آج دستیاب نہ ہوں ورنہ انھیں آج چاند کی حالت زار پر رونا آیا ہوتا۔ کمبخت سائنس اور سائنسدانوں نے ایک خوبصورت تصور جاناں کو مٹی کے تودوں اور گڑھوں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ چاند سی خوبصورتی سے جتنا شاعروں کی ذات نے استفادہ کیا، اتنا شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ شاعروں نے چاند پر خوب جی کھول کر طبع آزمائی کی۔ ایک شاعر نے تو ایک چاند کے دو چاند کر ڈالے بقول شاعر ’ایک چاند آسماں پر ہے اور ایک میرے پاس‘ ایک شاعر دو قدم اور آگے بڑھ گئے اور کہا۔
’میرے یار کا حسن ایسا کہ چاند بھی شرما جائے ‘
غرض انھیں ہر صورت میں چاند نظر آیا۔ جن شعرا حضرات کے دیوان روبرو آئے ان میں کئی اشعار چاند سی صورت پر نظر آئے۔
آرمسٹرانگ کے چاند پر اترنے کے بعد ’چاند کی جو تصویریں سامنے آئیں‘ اس نے شاعروں کے حوصلوں کو بھی متاثر کر ڈالا۔ اس کے بعد شاعر تھوڑے پس و پیش میں نظر آئے۔ ایک الجھن سامنے آئی کہ آیا کسی خوبصورت چہرے کو چودھویں کے چاند کی مانند کہے یا نہ کہے؟ کچھ نے اپنی روایت کو قائم رکھا اور کچھ اس ڈگر سے ہٹتے نظر آئے۔ جو شاعر حضرات روایت پر قائم رہے وہ شاید اس حقیقت کے حق میں تھے کہ انھیں کسی کے اندرونی معاملے سے کوئی سروکار نہیں۔ چاند کی اندرونی ساخت چاہے کچھ بھی ہو، ہمیں صرف ان کی ظاہری خوبصورتی کو مد نظر رکھنا چاہیئے۔ اسی لیے ’محبوبہ‘ کو چاند سی محبوبہ کہنا جاری و ساری رکھا گیا۔ ہمیں کسی کے بھی اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ چاند ہی کیوں نہ ہو۔ شاعروں نے بھی اپنی دیانت داری کا بھرپور ثبوت دیا اور اپنے محبوب کو چاند کی مانند بتلا کر اپنے محبوب کا دل تو جیتا ہی ساتھ ہی واہ واہی بھی لوٹی۔۔
یوں تو چاند کا کسی سے کوئی تنازعہ نہیں۔ تنازعے پیدا کرنا ہم انسانوں کی فطرت میں شامل ہے۔ کمالِ فطرت دیکھئے کہ چاند کو ہم نے عرش سے فرش پر لا کر اپنے بحث و مباحثوں میں شامل کر لیا۔ ان بحث و مباحثوں کے لیے دنیا کے ہر شہر میں باقاعدہ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ نام کرن کچھ اس طرح کیا گیا: ’رویت ہلال کمیٹی‘۔ قناعت پسندی ان ہلال کمیٹیوں سے سیکھی جائے۔ سال میں صرف ایک ہی میٹنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے وہ بھی صرف رمضان المبارک کا! اس میٹنگ کو محض اس مجبوری میں کال کیا جاتا ہے کہ ’چاند واضح طور پر نظر نہیں آیا‘ چہ میگوئیاں شروع ہوتی ہے کہ کیا جائے؟ ایسی صورت میں صدر ہلال کمیٹی دعوت بحث و مباحثے کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اس بحث و مباحثے میں شریک ہوتے ہیں جو باقاعدہ ہلال کمیٹی کے ممبران نہیں ہوتے۔ باہر کے لوگوں کی شمولیت کو اجازت فراہم کرنا ممبران کمیٹی کی فراخدلی، زندہ دلی و شفافیت کا مظہر ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں ان ہلال کمیٹیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ شاید اس لیے کہ اس وقت ان کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے بھی کہ اس دور کے لوگ ایک دوسرے سے لڑنے پر اتارو نہیں ہوا کرتے تھے۔ کسی بھی مسئلے کا حل آپسی صلاح و مشورے کے بعد پرامن طور پر نکل آتا تھا۔ ہلال کمیٹیوں کا وجود عمل میں اس لیے آیا کہ انتیس شعبان کو رمضان المبارک کا چاند نظر نہ آنے یا پھر اطراف یا دوسرے شہروں میں نظر آنے کی صورت میں لائحہ عمل کیا ہو؟ اگلے دن کا روزہ ہو گا یا نہیں؟ بس اس بات کو لے کر ہر ایک کو اپنی دلیل پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان میٹنگوں کا اہتمام مسجدوں میں کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے لوگ باگ اپنے ہاتھ دوسرے کے گریباں تک پہچانے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ (کہیں کہیں صبر ٹوٹتا بھی ہے)۔
تاریخ ہماری بہادری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے کتنی جنگیں ہم نے لڑیں اور کئی فتوحات ہم نے حاصل کیں۔ لیکن آج کل ہم نے آؤٹ ڈور جنگیں بند کر دی ہیں۔ ن دنوں ہمارا دھیان اِن ڈور جنگوں پر زیادہ مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قوم کا کوئی تنازعہ سامنے آتا ہے، ہم اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ غرض اس ’چاند‘ کی میٹنگ میں کئی پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے اور شہادتوں کے بعد فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ لیکن اگر چاند واضح طور پر نظر نہ آیا ہو تو فیصلہ کوئی بھی متنازعہ قرار دیا جاتا ہے اور پھر ہر کوئی اپنے آپ کو ہلال کمیٹی کا خود ساختہ رکن و صدر مان کر اپنے اپنے فیصلے پر عمل کرتا ہے۔
کمیٹیوں اور انجمنوں کی تشکیل ہماری روایت رہی لیکن ان کے فیصلوں پر عمل نہ کرنا ہمارا شیوہ رہا ہے۔ در اصل چاند کو ہم نے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ رکھا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چاند پر دیگر اقوام کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہمارا! دیگر اقوام کو شاید اس بات کا علم نہیں کے چاند کے مالکانہ حقوق میں ہمارے ساتھ وہ بھی برابر کے حصے دار ہیں۔ ابھی تو چاند پر ہم اپنی پوری ملکیت جتاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں تمام اقوام کی چاند پر حصہ داری طے کرنے کے لیے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے۔
ہمارے یہاں اپنے بچوں کا نام ’چاند‘ رکھنے کا بھی چلن رہا ہے۔ شاید اپنے بچے کا نام چاند رکھ کر ماں باپ کو بچے کے تعلق سے چاند سی ٹھنڈک اور خوبصورتی کا احساس ہوتا ہو بھلے ہی بچہ کالا کلوٹا ہی کیوں نہ ہو؟ ہم نے ایسے چاند بھی دیکھے ہیں جو نہ اندھیرے میں نظر آتے ہیں اور نہ جن کے سر پر پانی کی ایک بوند ٹھہر نے کو تیار ہوتی ہے۔
چاند کے ساتھ چاندنی کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا۔ ’چاند‘ کا چاندنی سے کیا رشتہ ہے، اس کی وضاحت آج تک نہ تو چاند نے کبھی کی اور نہ کسی اور نے۔ اس کی اصل سچائی تو ’چاند‘ سے پوچھ کر ہی معلوم کی جا سکتی ہے یہ اور یہ پوچھنے کا خیالی کام کوئی شاعر ہی کر سکتا ہے۔ جیسے ایک شاعر چاند سے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے۔
’میں نے پوچھا چاند سے …….. میرے یار سا حسیں …….. دیکھا ہے کہیں؟……… چاند نے کہا……. نہیں ………… نہیں!!!۔۔ ۔
(ماہنامہ شگوفہ۔ سالنامہ ۲۰۱۹)