چمار سے گھاس بھی جلتی ہے ۔۔۔۔!
چمرا سُرشیر سے جلتا ہے۔شیروں والا کھلونا ہاتھ آجائے تو گردن مروڑ دیتا ہے اور دھند میں کہیں تصویر سی ابھرتی ہے۔۔۔۔ مہیشاسر کے سینے میں پیوست ترشول کی نوک اور شیر پر سوار سنہاسنی۔۔۔۔ پچھلے سال دسہرہ میں اس نے کوئی پچیس شیروں کی گردن مروڑی تھی۔
دسہرہ کے میلے میں وہ دن بھر گھومتا رہتا تھا ۔ پنڈال سے پنڈال کے چکّر لگاتا اور جہاں کہیں شیر والا کھلونا نظر آتا خرید لیتا اور اس کی گردن مروڑ کر پھینک دیتا۔
بورنگ روڈ پر پچھلی بار دہلی کے اکشر دھام مندر جیسا پنڈال بنا تھا جو تقریباً پینسٹھ فٹ اونچا اور پچپن فٹ چوڑا تھا۔ماں اجریہ کی مورتی بارہ فٹ اونچی تھی۔پنڈال میں اور بھی مورتیاں تھیں۔ دیوی ماںکے نعروں سے پنڈال گونج رہا تھا۔۔۔۔۔
چمراسر نے اس دن کوئی دس شیروں کی گردن مروڑی۔۔۔۔۔۔
بورنگ روڈ سے زیادہ بھیڑ ڈاک بنگلہ چوک پر نظر آئی۔صبح دس بجے ہی دیوی کے پٹ کھل گئے تھے اور لوگ درشن کے لیے امنڈ پڑے تھے۔شام تک تانتالگ گیا۔کوتوالی موڑسے لے کر ڈاک بنگلہ چوک تک آدمیوں کا جم غفیر۔لوگوں کی تفریح کرتے ناگ ناگن بھی نظر آئے۔ماں کی مورتی آشیرواد مدرا میں بنائی گئی تھی۔ سجاوٹ میں سب سے زیادہ ای ال ڈی بلب کا استعمال ہوا تھا۔کانچ کی چوڑیاں رنگین کپڑوں اور شیشوں سے سجا یہ پنڈال سب کی توجہ کا مرکز تھا۔رنگ برنگ کے قمقموں کی سجاوٹ سے سڑکیں روشن تھیں ۔چوراہے سے لے کر کوتوالی تک ’ ’ تورن دوار ‘‘ بنائے گئے تھے۔تورن دوار پر بجلی کے بلب سے بنی بھگوان بدھ کی مورتی قائم کی گئی تھی۔
راجپوت عورتیں زیور سے آراستہ ہاتھ میں تلوار لیے گربہ کر رہی تھیں۔۔۔ ۔ گلے میں لٹکتا ایک ایک کیلو سونے کا جھومر۔۔۔۔۔! اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھور تے ہوئے دلت ۔۔۔۔۔
اور چمراسر غصے سے کھول رہا تھا ۔ تمہیں پتہ ہے کہ انہوں نے تمہارے بہادر راجہ مہیشاسر کا دھوکے سے قتل کیا ۔۔۔۔؟اور تم ہتیارے کے جشن میں شامل ہو۔
چمراسر اشوک راج پتھ کی طرف مڑ گیا۔اس سے منسلک گلیوں کی سجاوٹ رالیکس اور رنگین بلبوں سے کی گئی تھی۔چھوٹے چھوٹے قمقموں سے بھی بورڈ پر نقش و نگار ابھارے گئے تھے۔چیلی ٹانڑھ میں بانس کی کمچیوں سے بنا پنڈال توجہ کا مرکز تھا۔ہیرا نند گلی موڑ پر بھارت ماتا کا بڑا سا پوسٹر قمقموں سے سجایا گیا تھا جسے دیکھنے کے لیے لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔اسی پنڈال کے ایک پوسٹر میں مکھ منتری کو راون کے روپ میں دکھایا گیا تھا اور رام بنا حزب مخالف کا رہ نما تیر سے نشانہ سادھ رہا تھا۔ لیکن اسی کے قریب مکھ منتری کا ایک اور پوسٹر تھا جس پر جوتے کا ہار لٹک رہا تھا۔چمراسر کو یہ پوسٹر پسند نہیں آئے۔لیکن اس نے محسوس کیا کہ مکھ منتری کے تئیں یہ عوام کے غصّے کا اظہار ہے ۔اصل میں لکشمی پور باتھے گاؤں میں سورنوں کی سینا نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں ۵۹ دلتوں کو گولی سے بھون دیا تھا۔ دلتوں کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزادی گئی تھی جس میں سیاست دانوں اور اونچی ذات والوں کا ہاتھ تھا۔ آر جے ڈی نے امیر داس کمیشن بٹھایا۔اس کمیشن سے عمارت کی سورن جاتی کو خطرہ تھا۔ عمارت کی مانگ تھی کہ کمیشن بھنگ کیا جائے۔ اس مکھ منتری نے اپنے پہلے دور کی اپنی حکومت میں کمیشن کو بھنگ کر دیا۔
چمراسر کی طبیعت مکدّر ہوگئی۔ یہ دلتوں کا پنڈال تھااور دلت خود اپنے ہتیارے کے جشن میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چمرا سر راج دھا نی لوٹ آ یا۔راج دھانی کے وسط میں زرد رنگ کی ایک بلندوبالا عمارت ہے جہاں دھوپ اور ہوا کا گذر ہے۔ یہاں ارباب اقتدار پلتے ہیں۔یہاں کی فضا جادوئی ہے۔ جو یہاں کی سیڑھیاں چڑھتا ہے اس کے ناخن بڑھنے لگتے ہیں لیکن عمارت کے زیرسایہ دور تک اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا صدیوں سے محیط ہے۔ اتر کی طرف جو بستی اندھیر ے میں ڈوبی ہوئی ہے وہاں چمراسر رہتا ہے۔
چمرا سر ذات کا چمارہے ۔۔۔۔۔کالا بھجنگ۔۔۔۔بال کھڑے کھڑے۔۔۔۔سر کٹورے کی طرح گول ۔ اس نے جواہر لال نہرو یو نی ورسٹی سے سماجیات میںپی ایچ ڈی کی ہے۔ چمراسر کو مہیشاسر سے عقیدت ہے ۔وہ خود کو اسُرکہتا ہے ۔۔۔۔مہیشاسر کا ونشج ۔۔۔۔۔! جب جے ان یو میں پڑھتا تھا تو مہیشاسر کی کھوج کی تھی۔
’’ مہیشاسر میسور کے راجہ تھے۔ان کے نام پر ہی میسور شہر کا نام پڑا۔پران میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے کہ ان کا قتل چامنڈیشوری کے ہاتھوں ہواس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔مہیشاسر کی مورتی پر غور کیجیے ۔ ان کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں سانپ ہے ۔ سانپ قدرت کا پرتیک ہے یعنی وہ قدرت سے ہم آہنگ زندگی گذارتے تھے۔جانوروں کی حفاظت اور عورتوںکی عزت کرتے تھے۔مہیشاسر ایک انصاف پسند بادشاہ تھے ۔ ہندوستان کے بہت سے شہروں میں ان کا مندر ہے۔ ‘‘
لیکن چمراسر گاندھی سے خوش نہیں ہے ۔ ہری جن نام کیوں دیا ؟ ہم بھگوان کے بیٹے ہیں اور سوورن کیا شیطان کے بیٹے ہیں ؟ ہم ہری کے جنے ہیں اسی لیے مندر میں ہری کا چرن اسپرش کرنے نہیں دیتے۔ گاندھی نے امبیڈکر کی مخالفت کی تھی ۔چمراسر امبیڈکر کے آندولن کو پھر سے زندہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ منوو اد یوں سے لوہا لینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
اور دال چپاتی ہنستی ہے ۔
دال چپاتی عمارت کی پروردہ ہے۔ عمارت میں دھوپ اور ہوا کا گذر ہے۔دال چپاتی کی زلفیںلمبی ہیں جو ایڑیاں چھوتی ہیں۔پنجے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے ہیں۔آگے کی طرف چلتی ہے تو لگتا ہے ،پیچھے کھسک رہی ہے اور پیچھے کھسکتی ہے تو قدم جیسے آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ہنستی ہے تو پھول گرتے ہیں۔زلفیں لہراتی ہے تو موتی برستے ہیں۔ اس کی زلفیں ارباب اقتدار کے شانوں پر لہراتی رہتی ہیں۔ بیج پردیش سے گذری تو زلفیںچوگان کے شانوں پر لہرا گئیں۔ اس کا دامن موتیوں سے مالامال ہوا اور میں حیران ہوں۔۔۔۔۔۔
میں حیران ہوں کہ چوگان کی بھانجی ڈپٹی کلکٹر ہو گئی ہے۔۔۔۔؟
اس دن گھر کا ملازم سبزی کا جھولا لیے ڈرائنگ روم سے نہیں گذرتا تو بھانجی ڈپٹی کلکٹر نہیں ہوتی۔ اس دن ماما نے بھانجی کی آنکھوں میںراج ونشی تیور دیکھے تھے ۔
بات ان دنوں کی ہے جب چوگان اپنے پردیش کا مکھیا نہیں تھا۔وہ اجگر منڈلی کا سرگرم رکن تھا۔ہر بار الیکشن میں حصّہ لیتا لیکن جیت نصیب میں نہیں لکھی تھی۔ اس کی ایک بہن ناسک میں بیاہی گئی تھی۔ وہ بہن سے ملنے گیا ہوا تھا۔ بھانجی کو دیکھا ڈرائنگ روم میں اداس بیٹھی ہے۔ اس کو ڈپٹی کلکٹر ی کا شوق تھا لیکن اس بار بھی اسٹیٹ کے مقابلہ جاتی امتحان میں فیل ہو گئی تھی ۔ اس سے قبل وہ دو بار فیل ہو چکی تھی۔وہ بھانجی کی دلجوئی میں لگاتھا کہ ملازم سبزی کا جھولا لیے سامنے سے گذرا۔ اور وہ ا ٓ گ بگولہ ہو گئی ۔پاؤں سے چپّل نکالی اور کئی چپّل ملازم کو جڑ دیے۔
’’ حرا مزادہ۔۔۔۔۔تیری اتنی ہمّت کہ ڈرائنگ روم سے گذرتا ہے۔ دیکھتا نہیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ تو بیک ڈور سے کیوں نہ گیا ؟‘‘
ماں نے بیٹی کی حمایت کی کہ کتنا بھی سمجھاؤ یہ دلت سمجھتے ہی نہیں، سامنے کے دروازے سے اندر آنا چاہتے ہیں۔
ماما خوش ہوا کہ بھانجی کے تیور راج ونشی ہیں ۔ ماما کو اس کے چہرے پر ’’ ماں اجریہ ‘‘سا تیج نظر آیا ۔ دیوی اجریہ نے راکشسوں کا ؤ ودھ کیا تھا۔بھانجی بھی اسُروں کو سبق سکھائے گی۔ اس نے قصد کیا کہ اس کو اڈمنسٹریٹر بنا کر رہے گا۔
ان دنوں ستیہ سائیں بابا پر آفت تھی ۔مہنت دیوداس انہیں مسلمان ثابت کرنے پر مصر تھے۔ سائیں بابا کے مندر میں دیوی دیوتاوں کی مورتیاں بھی تھیں ۔ مہنت جی کو اعتراض تھا کہ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ سائیں کی آرتی نہیں اتاری جا سکتی۔انہوں نے فرمان جاری کیا کہ سائیں کے بھکتوں کو گنگا اشنان نہیں کرنے دیا جائے گالیکن فرمان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگ باگ اسی عقیدت سے مندر میں آتے جاتے رہے ۔
بہن کو شکایت تھی کہ مہنت دیوداس نے سائیں بابا کی بے عزتی کی ۔ ان کو بھگوان ماننے سے انکار کیا اور بھگتوں پر گنگا اشنان تنگ کیا ۔بہن کی بات سن کر بھائی مسکراتے ہوئے بولا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ بھکتوں کی تعداد بڑھ گئی اور یہ کہ پہلے کی طرح سبھی گنگا اشنان کرتے ہیں۔بہن خوش ہو ئی تھی کہ مہنت جی کا قد چھوٹا ہوا۔ وہ ستیہ سائیں بابا کو ساکچھات بھگوان مانتی تھی اور اس کا عقیدہ تھا کہ بابا سے جو مانگو ملے گا۔چوگان بھی اپنی قسمت آزمانا چاہتا تھا۔ اس نے بابا کے درشن کیے اور منّت مانی کہ ا لیکشن میںجیت گیا اور پردیش کا مکھیا ہو گیا تو بابا کو سونے کا مکٹ پہنا ئے گا ۔
چوگان ناسک سے لوٹا تو الیکشن کی تاریخ طے ہو گئی۔ اس کو بابا کا آشیرواد تھا اور پارٹی کو کارپوریٹ کا۔ ہر جگہ پھول لہلہانے لگے ۔ چوگان بیچ پردیش کا پرمکھ بنا ۔ اچھے دن آ گئے۔ دیش کے مکھیا نے دس لاکھ کا سوٹ پہنا اور بابا نے سونے کا مکٹ پہنا ۔
ماما بھانجی کے خواب کی تعبیر چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا بھانجی پھر سے مقابلہ جاتی امتحان مین شریک ہولیکن وہ مہاراشٹر کی رہنے والی تھی۔تین بار فیل ہونے کے بعد وہاں کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔وہ بیچ پردیش کی رہنے والی نہیں تھی ۔اس لیے یہاں کے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک نہیں ہو سکتی تھی۔
سمرتھ کو نہیں دوش گسائیں۔۔۔۔۔۔
دال چپاتی نے سرگوشی کی کہ بھانجی کوپردیش کا شہری بنادو۔ ماما بھانجی کو پردیش لے آیا۔ اس کی آئی ڈی بدل دی۔ آدھار کارڈ بدل دیا۔
وہ اب مہاراشٹر کی نہیں تھی ۔وہ اب پردیش کی تھی اور یہاں کے کسی بھی امتحان میں شریک ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔۔لیکن ماما کو خدشہ تھا کہ وہ یہاں بھی فیل ہو سکتی تھی۔تب اس کے ذہن میں یہ بات آئی تھی کہ امتحان کے وقت ایڈمٹ کارڈ بدلا جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا اسکالر امتحان دے گا۔چوگان مکھیا نے یہ زمہ داری لکشمی کانت کو سونپی ۔ لکشمی کانت پرانا کھلاڑی تھا۔۔۔مکھیا کا چہیتا ۔۔۔۔۔کبھی کھنن منتری ہوا کرتا تھا ۔مکھیا نے اُسے وزیر تعلیم بنا دیا تھا۔ لکشمی کانت نے شکلا کو اپنا نائب بنایا ۔ شکلا پر بد عنوانیوں کے الزامات تھے۔ لوک آیو کت میں اس پر مقدمہ چل رہا تھالیکن جب تک جرم ثا بت نہیں ہو جاتا مجرم بے قصور ہے ۔ شکلا بھی بے قصور تھاا ور وزیر تعلیم کا آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر ہو ا تھا۔لکشمی کانت کے اشارے پر مکھیا نے پنکج ترویدی کو مقابلہ جاتی امتحان کا کنٹرولر بنا یا اور ترویدی نے اپنے سالے مکھن لال کو آن لائن شعبے کاصدر بنا یا ۔ محکمہ اب کیل کانٹے سے درست تھالیکن نیک کام کرنے جاو تو کوئی نہ کوئی اڑچن آ تی ہے۔ماما نیک کام میں لگا تھا ۔ وہ چاہتا تھا بھانجی کسی طرح ڈپٹی کلکٹربن جائے ۔ اب مسئلہ اسکالر کا تھا جو بھانجی کی جگہ امتحان کے پرچے لکھ سکتا۔
اور اسکالر تھا چمراسر۔۔۔۔!
کسی چیز کی طلب اگر شدید ہو تو وہ طالب کی جھولی میں آ گرتی ہے ۔چمراسر بھی چہل قدمی کرتا ہوا لکشمی کانت کے پاس پہنچ گیا۔
اصل میں چمراسر کو بٹیر کی تلاش رہتی تھی ۔ کباب کا شوقین تھا۔ اکثر لکشمی کانت کے کے نجی فارم سے بٹیر خریدتا ۔ بٹیر دوسری جگہ بھی میسّر تھے لیکن منتری کے بٹیر ترکی نسل کے ہوتے جو کھانے میں لذیذ تھے۔ منتری انہیں حسّار سے منگواتا تھا۔ انہیں اچھا دانہ دیا جاتا اور بیماری سے بچنے کے لیے ٹیکے بھی لگوائے جاتے ۔ گورنر صاحب بھی بٹیر بیچتے تھے لیکن ان کے فارم میں سکیوریٹی کا جھمیلہ تھا۔ رجسٹر میں کئی جگہ انٹری کرانی پڑتی جس میں وقت لگتا ۔ منتری کے فارم پر روک ٹوک نہیں تھی۔فارم کے کاونٹر سے کبھی بھی بٹیر خریدا جا سکتا تھا۔اس سہولت کے عوض منتری نے قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ کیا تھا۔یہاں زندہ بٹیر لے جانے کی مناہی تھی لیکن گوشت بنانے کی سہولت تھی ۔فارم کے ایک گوشے میں منتری کا بٹیرچی چھری اور کنسترسے لیس رہتا۔ایک ہاتھ سے بٹیر کی گردن دبوچتا اور دوسرے ہاتھ سے چھری پھیرتا اور کنستر میں ڈال کر اوپر سے لکڑی کا ڈھکّن رکھ دیتا ۔ ڈھبر۔۔۔ڈھبر۔۔۔۔ڈھبر۔۔۔۔کنستر کی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی بٹیر کے پھڑ پھڑانے کی آواز ایک لمحے کے لیے فضا میں گونجتی جسے بٹیرچی آنکھیں بند کیے سنتا ۔۔۔آواز معدوم ہو جاتی تو چھری ہوا میں لہراتا ۔۔۔’’ کھتّم ‘‘۔۔۔۔!‘ تب بٹیرچی مسکر ا کر پوچھتا کہ وہ مسلّم لے گا یا پیس ۔۔۔۔؟‘‘وہ ہمیشہ مسلّم لیتا اورمائکرو ویوپر اس کے کباب لگاتا۔گوشت بنانے کی کوئی الگ سے اجرت نہیں تھی لیکن بٹیرچی کلیجی الگ کر لیتا تھا۔ اصل میں منتری کو راج وید کی صلاح تھی کہ قوت باہ بڑھانی ہو تو بٹیر کی کلیجی کھاؤ۔
اس نے منتری کو فارم میں اکثر چہل قدمی کرتے دیکھا تھا۔ وہ ٹھگنے قد اور مظبوط قویٰ کا آدمی تھا ۔ہاتھ بالوں سے بھرے بھرے تھے جسے دیکھ کر احساس ہوتا کہ اس کے پنجے مظبوط ہیں۔اس کی نگاہیں منتری کی نگاہوں سے ملتیں تو ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا جس کا جواب وہ سر کی خفیف سی جنبش سے دیتا تھا ۔
ایک دن منتری کی قوت باہ کا مشاہدہ ہوا ۔ وہ کوئی نجی نیوز چینل تھا جہاں اس نے منتری کو جھولا جھلاتے دیکھا۔منتری دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اور سر کے اوپر کسی رہنما کی تصویر آویزاں تھی۔ اس نے کسی راحت کن عورت کو ہاتھوں پرٹھا رکھا تھا۔ وہ کمر سے لپٹی جھول رہی تھی۔ راحت اٹھانے کا یہ انداز نرالا تھا۔۔۔۔۔ ۔ یہ منظرایک لمحے کے لیے اسکرین پر ابھرا اور غائب ہو گیا۔ چمرا سر کو کراہیت محسوس ہوئی ۔ دوسرے دن فارم پہنچا اور کلیجی کی مانگ کی تو بٹیرچی غرّایا۔
’’ کلیجی صرف راج گھرانے کے لیے ہے ۔ ‘‘
چمراسر نے احتجاج کیا کہ اس کا بھی حق بنتا ہے، بٹیر اس نے خریدا تو کلیجی بھی اس کی ہوئی ۔ بٹیرچی نے اچھل کر اس کی گردن دبوچ لی کہ حق مانگے گا تو گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ چمراسر نے گردن پر ناخن کی چبھن محسوس کی ۔اس نے بٹیرچی کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا ۔
’’ گردن کیوں پکڑتا ہے ؟‘‘ چمراسر کی آنکھیں غصّے سے سرخ ہو گئیں۔بٹیرچی نے گارڈ کو آواز دی۔گارڈ دوڑ کر آیا۔
’’ کیا بات ہے ؟ ‘‘ گارڈنے بہت رعب سے پوچھا۔
’’ داداگیری کرتا ہے۔ اسے منتری جی کے پاس لے چلو ۔‘‘
’’ چلو ! ‘‘ گارڈ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔چمراسر نے گارڈ کا ہاتھ بھی جھٹک دیا اور سخت لہجے میں بولا۔
’’ ہاتھ کیوں پکڑتے ہو ؟ کوئی چوری نہیں کی ہے۔ اپنا حق مانگا ہے۔‘‘
’’ حق ۔۔۔۔؟ ‘‘
گارڈ اُسے لکشمی کانت کے پاس لے گیا۔ لکشمی کانت نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور ہنسنے لگا کہ یہ تو خود ایک بٹیر ہے ۔منتری نے ذات پوچھی۔ وہ خاموش رہا۔
’’ کہاں تک پڑھائی کی ہے؟ ‘‘
’’ جے ان یو سے پی ایچ ڈی ہوں ۔ ‘‘
’’ اچھا۔۔۔۔؟ امبیڈکر پر مضمون لکھ کر دکھاؤ ۔ ‘‘
وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے ایک مختصر سا مضمون لکھا۔ لکشمی کانت کو ایک جلسے میںامبیڈکر پر تقریر کرنی تھی ۔مضمون پڑھ کرخوش ہوا ۔اُسے چمراسر میں ایک اسکالر نظر آیا۔اسی پل اس نے فیصلہ کر لیا کہ ایڈمٹ کارڈ میںبھانجی کی جگہ چمراسر کی تصویر ہوگی۔ اس نے بھاری اجرت پر بھانجی کو پڑھانے کی پیش کش رکھی۔ معلوم ہوا کہ اس کو بھانجی کی جگہ امتحان میں خود شریک ہونا ہے توایک بار اس نے اپنا موبائل جیب سے نکال کر دیکھا اور رکھ لیا۔ اس کے ہونٹوںپر پراسرا ر سی مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے حامی بھر لی۔
بنگلے کے آوٹ ہاؤس میں اس کے رہنے کا انتظام ہو گیا۔چمراسر نے روز ناشتے میں بٹیر کی بھنی ہوئی کلیجی کی مانگ کی جو قبول کر لی گئی۔
لکشمی کانت کے فارم میں چمراسر نے انو رادھا کو دیکھا۔۔۔۔۔
انورادھا کبوتر کی طرح معصوم تھی ۔گلابی ہونٹ، کتابی چہرہ ، لمبی آنکھیں اور پلکیں سیاہ اور گھنی۔۔۔ چمراسر کو وہ اجنتا کی گپھاؤں سے نکلی ہوئی معلوم ہوئی۔وہ سبزیاں لینے آئی تھی ۔فارم سے جانے لگی تو چمرا سر بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا۔اس کی یہ حرکت غیر ارادی تھی۔ وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔اس پر جیسے سحر سا طاری تھا۔ کچھ دور جانے کے بعد انورادھا اچانک رکی۔پلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔
’’ تم مہیشاسرکے ونشج ہو۔ ‘‘
چمرا سر حیران رہ گیا۔
’’ تمہیں کیسے معلوم ؟ ‘‘
’’ تمہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوا۔‘‘
’’ کمال ہے۔‘‘
’’ مجھے اکثر ہونے والے واقعات کا ویژن ہوتا ہے۔‘‘
’’ تمہارا ایکسٹرا سنسری پر سیپشن [ ای ۔اس۔ پی ] بہت تیز ہے ‘‘
’’ یہی سمجھو ۔ ‘‘
’’ کچھ اور بتاؤ ۔‘‘
’’ تم ایک لڑائی لڑوگے۔‘‘
’’ کیسی لڑائی ؟ ‘‘
’’ میں تمہیں تلوار لہرا تے ہوئے دیکھ رہی ہوں ۔‘‘
’’ میری کسی سے دشمنی نہیں ہے اور میرے پاس تلوار بھی نہیں ہے ‘‘۔
’’ ہو سکتا ہے میرا ویژن غلط ہو ۔ ‘‘
’’ تمہیں دوست سمجھوں ؟ ‘‘
’’ شیور۔۔۔‘‘
’’ ہم کہیں چائے پی سکتے ہیں۔‘‘
’’ ضرور ۔ ‘‘
وہ ایک ریستوراں میں آئے۔
ریستوراں میں کچھ پل خاموشی رہی۔انورادھا چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ایک ٹک میز کو تک رہی تھی۔
’’ کہیں کچھ دیکھ رہی ہو ۔‘‘
’’ نہیں تو ۔۔۔۔! ‘‘ انورادھا ہنس پڑی ۔
’’ تم نے صحیح کہا کہ مجھے ایک لڑائی لڑنی ہے۔ ‘‘
انورادھا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ میں امبیڈکر کے آندولن کو پھر سے چلانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ گویا تم منووادیوں سے لوہا لوگے ۔ ‘‘
’’ بالکل ۔ میں چاہتا ہوں ذات پات ختم ہو ۔‘‘
’’ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہندو ہونے کا مطلب ہے کسی ذات کا ہونا۔منو سمرتی ہندئوں کی گھٹّی میں ہے ۔ ‘‘
’’ منوسمرتی نے دلتوں کو حاشیے پر رکھ دیا ہے۔ہم ان کے حق کی لڑائی تو لڑ سکتے ہیں۔ ‘‘
’’ یہ لڑائی ضروری ہے۔ میں اس کی حمایت کرتی ہوں ۔ ‘‘
’’ تم دلت ہو ؟ ‘‘
’’ میں براہمن ہوں لیکن منووادی نہیں ہوں۔ اس لڑائی میں تمہارا ساتھ دوں گی ۔ ‘‘
چمراسر نے اسے حیرت سے دیکھا۔
انورادھا مسکرائی ۔’’ میں انسانیت پر یقین رکھتی ہوں ۔‘‘
چمراسر نے اس کا ہاتھ چوما۔
’’ تم سے بہت تقویت ملی ۔ ‘‘
’’ اپنا نام تو بتاو۔ ‘‘
’’میں چمراسر ہوں۔ ‘‘
’’ مجھے انورادھا ترپاٹھی کہتے ہیں ۔لیکن میں نام کے ساتھ ترپاٹھی کا لقب نہیں لگاتی۔ اس سے جاتی واد کو بڑھاوا ملتا ہے۔‘‘
’’ تم سے مل کر خوشی ہوئی ۔ ‘‘
’’ تم اپنی برادری کی ہو۔ ‘‘
بیرا بل لے کر آیا۔چمرا سر نے بل ادا کیا۔ ریوستوراں سے اٹھتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کا فون نمبر نوٹ کیا۔
چمرا سر لوٹ کر اپنے کمرے میں آیا تو ایک خوش گوار احساس سے دو چار تھا۔اسے یقین تھا کہ انورادھا دوستی نبھائے گی۔
ادھر اچانک دلتوں کے لیے زمین سخت ہو گئی ، آسمان دور ہو گیا اور بستیاں آہ و فغاں میں ڈوب گئیں۔۔۔۔۔۔
گجرات کے ا ونا گاؤں میں ۱۱؍ جولائی کو چار دلت نوجوانوں کی پٹائی ہوئی تھی ۔یہ مری ہوئی گائے کی چمڑی اتار رہے تھے ۔ ان کا پیشہ بھی یہی تھا۔ لیکن گئو رکشکوں نے انھیں دھر دبوچا۔ان کو بے رحمی سے پیٹا ۔ لکھنؤ میں ۲۸؍ جولائی کو ایک مرے جانور کی کھال اتارنے جا رہے دو دلتوں کی گئو رکشکوں نے پٹائی کر دی۔ گوبر کھانے اور پیشاب پینے پر مجبور کیا۔اس واقعہ کا وی ڈی او بھی بنایا اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ گجرات کے بناس کاٹھہ ضلع میں ایک مری ہوئی گائے کو نہ اٹھانے پر دلت کی پٹائی کر دی گئی۔دبنگوں نے گھر کی حاملہ عورت کے ساتھ بھی مار پیٹ کیا۔۳۰؍ جولائی کو ایک دلت عورت کو ننگا کر کے مارا۔ پچھمی چمپارن کے نرکٹیا گنج میں دلت لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر ہوا۔قنوج کے چودھری سرائے کانشی رام کالونی میںدلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد تیزاب سے نہلا دیا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ہریانہ کے فریداباد میں پنچایتی چناؤ میں وؤٹ نہیں دینے پر دلتوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔۳ ا؍گست کو اسکالرشپ میں کٹوتی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے دلت طلبا کو پولس نے بے رحمی سے پیٹا۔مظفر پور میں بائیک چوری کرنے والے کو بے رحمی سے پیٹا گیا اور منھ پر پیشاب کر دیا۔مین پوری میں محض پندرہ روپے کے لیے دلت میاں بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۹ ؍اگست کو ہردوئی میں دلت لڑکی کے ریپ کے بعد آنکھیں پھوڑدی گئیں۔قنوج کے ارپورہ علاقے میں ایک دلت عورت کا ریپ کر اسے درخت سے برہنہ باندھ دیا گیا۔
گاندھی چوک پر ہزاروں دلت جٹے۔سہارن پور سے دلتوں کی جماعت بھیم سینا کی رہ نمائی میں پہنچی۔چمرا سر بھی پہنچا۔وہاںانورادھا بھی تھی۔ چمراسر کو دیکھ کر مسکرائی۔اس نے بتایا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے آئی ہے۔انورادھا کو دیکھ کر چمرا سر کی خوشیوں کا ٹھکانا نہیں تھا۔دلت بہت جوش میں تھے۔رہنماوں نے پرزور تقریر کی لیکن انورادھا نے مائیک سنبھالا تو سماں بندھ گیا۔
’’سورنوں نے دلتوں کو ہمیشہ حاشیے پر رکھا ہے۔ دلتوں کو کوئی جگہ تاریخ میں نہیں دی گئی۔عظیم واقعات جیسے آزادی کی لڑائی یا کوئی بھی بڑی تحریک جو ہندوستان میں چلی اس میںدلتوں کا ذکر نہیں آتاہے۔ میڈیا بھی ہماری ان دیکھی کرتا ہے۔کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا ہے۔شدر کمزور نہیں ہے لیکن اسے کمزور بنا دیا گیا ہے۔اسے دلت کہتے کیوں ہیں۔یہ گھناؤنا لفظ ہے،کلنک ہے۔دلت کا لفظ کمزور کا اشاریہ ہے۔اس لفظ کو مٹا دو۔اپنے لیے ایسا لفظ رکھو جو تمہیں طاقت دے۔خود کو اسُر کہو اور مہیشاسُر سے جوڑو۔یہی تمہارادیوتا ہے۔تمہارے دیوتا براہما وشنو مہیش نہیں ہیں۔تم ہندو نہیں ہو۔تین طبقہ ہندوں میں شمار ہوتا ہے۔ براہمن راجپوت اور ویشیہ۔ منووادیوںنے تمہیں براہما کے پاوں سے پیدہ کیا تا کہ ہمیشہ پاوں کے نیچے رہو۔تم جب تک خود کو ہندو سمجھوگے دلت بنے رہوگے۔ دلت یعنی دبے اور کچلے ہوے۔امبیڈکر نے اسی لیے بودھ مذہب میں شرن لیا۔وہ دلت کہلانا نہیں چاہتے تھے۔تم دلت نہیں ہو۔ تم ا سُر ہو۔۔۔۔مہیشا سر کے ونشج۔ ‘‘ایک نوجوان سیف ا لاسلام نے بھی تقریر کی۔سیف کی تقریر دانشورانہ تھی۔’’ گئو رکشا، وندے ماترم، لو جہاد، سوریہ نمسکار ، ’مندر وہیں بنائیں گے۔ ‘ آج کے تہذیبی سیاسی استعارے ہیں جس کے پس پردہ ہندوتو کی خیالی دنیا آباد ہے۔ یہ اہل عمارت کے سیاسی ہتھیار ہیں جسے اجگر منڈلی دھار دیتی ہے۔منو اسمرتی کے نزدیک اچھوت انسان نہیں ہوتے۔ یہ ملیچھ ہوتے ہیں ۔ منوسمرتی نے انہیں مانُس نہیں چھگمانُس کا درجہ دیا ہے ۔یہی سوچ کچل کر مارنے کی ترغیب دیتی ہے۔منوسمرتی چھگمانُس کو انسانی حقوق سے دست بردار کرتی ہے۔اس لیے انہیں کچلنے میں احساس جرم پیدا نہیں ہوتا ۔ کچلنے کی اس نئی سنسکرتی میں اچھوت کی جگہ مسلمان نے لے لی ہے۔ مسلمان جو ملیچھ ہے ۔مارچ ۲۰۱۶ ء میں دو مسلم لڑکے کو مار کر پیڑ سے لٹکا دیا گیا۔مویشیوں کی خرید وفروخت ان کا پیشہ تھا۔انہیں گئورکشکوں نے پیڑ سے لٹکایا۔انہیں دنوں اونا گاوں میں چمڑی اتارنے والے سات دلتوں کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی۔اپریل ۲۰۱۷ء میں پہلو خاں کچلے گئے۔گئو رکشک کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔جمہوریت کی جگہ فاشزم نے لے لی ہے۔ہمیں فاشزم کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا ۔‘‘
آخر میں رام رجک نے اعلان کیا کہ اب کابینہ کی طرف کوچ کیا جائے۔مکھ منتری کو میمورنڈم پیش کیا جائے گا۔
چمرا سر اور انورادھا بھی جلوس میں شامل ہوئے۔ انورادھا نے سیف سے چمراسر کا تعارف بھی کرایا۔سیف جے ڈی کالج میں معاشیات کا لکچرر تھا۔سیف سے ہاتھ ملاتے ہوئے چمرا سر نے کہا کہ مسلم اور دلت کو ایک ساتھ آنا ہوگا اور یہ کہ ہمیں ایک تنظیم بنانی ہوگی ۔ سیف نے حامی بھری اور یقین دلایا کہ وہ ان کا ساتھ دے گا۔
بھانجی پاس کر گئی۔ لکشمی کانت بہت خوش ہوا۔ اس نے چمراسر کو بہ طور معاوضہ ڈھائی لاکھ روپے ادا کیے۔ چوگان نے چال چلی۔ پہلے قانون تھا کہ مقابلہ جاتی امتحان کی کاپیاں دس سال تک محفوظ رہیں گی ۔ اب قانون بنا کہ کاپیاں تین ماہ تک محفوظ رکھی جائیں گی ۔ پھر انہیں تلف کر دیا جائے گا ۔تین ماہ بعد کاپیاں تلف کر دی گئیں۔اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اور میڈم چوگان کو جلال آ گیا ۔
’’مکھ منتری نے بھانجی کو مجسٹریٹ بنا دیا اور میرے مائیکے کے لوگ نٹھلو بیٹھے ہیں‘‘۔
میڈم کے تیور چندر ونشی تھے۔ ان کا مائکہ بھی مہاراشٹر میں تھا ۔ میڈم نے مائیکے سے سولہ نٹھلّو بلوائے ۔سب کی ووٹر آئی ڈی بدلی گئی ۔ آدھار کارڈ بدلے گئے۔ ان کے لیے بھی ا سکا لر بلائے گئے۔ دال چپاتی کھل کھلا کر ہنسی۔ سب کے دامن میں پھول گرے ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بس کنڈکٹر ہو گیا۔۔۔۔کوئی فوڈ انسپکٹر۔۔۔کوئی سپلائی انسپکٹر۔۔۔ دربار عام سے بھی سب فیضاب ہوئے اور رسم عام ہو گئی ۔ بازار سج گئے۔ بولی لگائی گئی ۔۔۔۔۔ہر طرف نقرئی کھنک۔۔۔۔۔ ۔نوکریاں ریوڑی کی طرح بٹنے لگی ۔ دس لاکھ میں کوئی بھی فوڈانسپکٹر بن سکتا تھا۔ پندرہ لاکھ میںسپلائی انسپکٹر بیس لاکھ میںپولیس انسپکٹر، انجینئراور میڈیکل میں داخلہ کے لیے پچیس لاکھ اور بس کنڈکٹر کی جگہ لینے کے لیے دو لاکھ ۔۔۔۔۔!
دال چپاتی خوب قہقہے لگاتی ۔۔۔۔۔ پردیش کے ہر شعبے میں وچرتی ۔۔۔۔۔ ۔زلفیں لہراتی ۔۔۔۔۔۔ اٹھلا کر چلتی ۔اس کے نتمب بھاری ہو گئے ۔ زلفوں کے سائے گہرے ہو گئے ۔اور چوگان کا دامن موتیوں سے مالا مال ہو گیا ۔ گورنر صاحب بھی دال چپاتی کے عشق میں گرفتار ہوئے ۔بیٹے کی ہتھیلی پر بھی پھول گرے ۔ بیٹا لکشمی کانت کا پی اے ہو گیا۔ وہ اسکالر ڈھونڈ کر لا تا اور ایڈمٹ کارڈ کی تصویریں بدلتا لیکن جو پھول اس کے حصّے میں آئے اس میں کانٹے بھی چھپے تھے ۔کانٹا اس کی ہتھیلی میں چبھ گیا ۔ خون کی پتلی سی لکیر ابھر آ ئی ۔ دال چپاتی کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔اس نے اتنا ہی کہا ۔
’’ ایک دن یہ ہونا ہے۔ ‘‘
جہاں آگ ہے وہاں دھواں ہوگا ۔ آگ تھی ۔ شروع میں دھواں نہیں تھا ۔۔۔۔ آگ بڑھتی گئی تو دھواں پھیلنے لگا۔ آہستہ آہستہ دھواں کثیف ہو گیا۔ ایک سادھوی بھی اس میں لپٹی نظرآئی کہ میڈیکل میں اپنے بھتیجے کے داخلہ کے لیے اسکالر بلایا تھا۔ آنچ چوگان تک بھی پہنچی ۔ دال چپاتی کی صلاح تھی کہ ایسے کانٹے صاف کرو جو چبھتے ہیں ورنہ آگ میں جھلس جاوگے۔ گورنر صاحب کا پسر عزیز بہت سے راز جانتا تھا۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھا تاہے پسر عزیز کہیں گھومنے گیا اور ہوٹل میںمرا پایا گیا۔ گھر کے بھیدی اور بھی تھے ۔۔۔ ۔کوئی ڈیڑھ سو کے قریب لاشیں۔۔۔۔ ہوٹل کی چھت سے لٹکی ہوئی۔ ریلوے کی پٹریوں پر پھینکی ہوئی۔ تالاب میں تیرتی ہوئی۔۔۔۔۔۔دھوئیں سے بچنا مشکل ہوا توسی بی آئی کوجانچ کا فرمان ملا۔
چوگان تو گیا۔۔۔۔؟
’’ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ ‘‘ دال چپاتی مسکرائی۔
’’ آقائوں کو کبھی کچھ نہیں ہوتا۔کمیٹی بھی ان کی ہے۔جانچ بھی ان کی ہے۔ کوتوال بھی ان کا ہے۔تم پہلے انگریزوں کے غلام تھے۔ اب ان کے غلام ہو۔یہ ہتیاروں کا جشن مناتے ہیں۔گودسے کا مندر بنایا۔ سہراب انکاونٹر کیس میں سب کو کلین چٹ مل گئی اور سینہ چھپن انچ کا ہو گیا۔ حکومت کسی کی بھی ہو استحصال ہمیشہ عام آدمی کا ہوگا ۔عام آدمی کی حیثیت ایک بٹیر سے زیادہ کی نہیں ہے اور میں ہر دور میں رہی ہوں اور ہر دور میں رہوں گی۔ میں مکھیاؤں کے نطفے سے پیدا ہوئی۔میں امر اجر ہوں۔میں ہر شعبے میں موجود ہوں۔۔۔۔ہر گلی ہر نکّڑ ہر آدمی کے دل میں ہوں۔۔۔۔ میں بوفورس سے لے کر کھیل کے میدان تک پھیلی ہوئی ہوں۔میں اس سے پہلے بھی تھی اور آگے بھی رہوںگی ۔تم نے دیکھا کس طرح سشما جی للت گیٹ سے اٹھلاتی ہوئی باہر نکل گئیں۔۔۔بے داغ۔۔۔۔بے خطر۔۔۔۔یہ میرا ہی فیض ہے ۔سشما جی ہوں یا سندھیا جی میری زلفیں سب کے شانوں پر لہراتی ہیں۔ ‘‘
دال چپاتی اٹھلاتی ہوئی عمارت میںروپوش ہو گئی ۔
دھواں کثیف تھا اور گھوٹالے زندگیاں بھی لیتے ہیں۔ سی بی آئی کو جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لکشمی کانت نے کاروائی سے بچنے کے لیے اپنے نائب پنکج ترویدی اور شکلا پر ایف آئی آر درج کرا دیالیکن سی بی آئی نے جو چارج شیٹ داخل کی اس میں لکشمی کانت اور اس کے چیلوں کے نام بھی شامل تھے۔ پرمکھ چوگان کو کلین چٹ مل گئی تھی۔ اصل میں چوگان اجگر منڈلی کی بھٹّی سے نکلا تھا اور اجگر اپنے لوگوں کو آخیر تک بچا تا ہے۔ یہ بات عام ہو گئی کہ ریاستیں جہاں اہل عمارت کی حکومت ہے کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کسی بھی منتری کے یہاں چھاپہ مارو۔ رقم شماری کے لیے مشین کی ضرورت پڑے گی اور مکھیا کے لب سلے تھے۔شعبہ تعلیم کے اس مہاگھوٹالے پر اس کے منہ سے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا تھا ۔ بس یہی کہتا تھا کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوںگا۔۔ ۔۔۔ ۔ لیکن چمراسر ان کا مزید ساتھ دینا نہیں چاہتا تھا لکشمی کانت سے وابستگی ایک انجانے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔وہ ان کا رازدار تھا اور اس کی جان کو خطرہ تھا۔چمراسر چپ چاپ اپنے گاوں لوٹ گیا۔اس نے پھر فارم کارخ نہیں کیا۔ چمراسر اپنے گاؤں چلا آیا۔ گاؤں کی ملی جلی آبادی تھی۔دلت ٹولے میں ستّر گھر ایک دوسرے سے سٹے ہوئے تھے۔پھر بھی عدم تحفّظ کا احساس انہیں پریشان رکھتا تھا۔گاؤں میں راجپوت ٹولہ اور براہمن ٹولہ بھی تھا۔ یہ لوگ ہمیشہ کی طرح دلتوں پر بھاری پڑتے تھے۔ایک کونے میں مسلمان بھی آباد تھے۔چمراسر کا گھرانہ تھوڑا بہت خوش حال تھا۔ ان کا مچھلی کا کاروبار تھا۔گاؤں میں ایک بڑا سا تالاب تھا جس پر راجپوتوں کا قبضہ تھالیکن اس بار تالاب کی نیلامی ہوئی تو مچھلیوں کا ٹھیکہ چمراسر کے چچا موہن داس کو ملا اور یہ بات سورنوںکو کھل گئی۔ چمار سے گھاس بھی جلتی ہے ۔ راجپوت کیسے سہہ لیتے کہ چمار گھرانہ ترقی کرے۔ موہن داس کو دھمکیاں ملنے لگیں۔ وہ جب جال ڈالنے تالاب پر گیا تو امیش سنگھ ہتھیاروں سے لیس اپنے آدمیوں کے ساتھ پہنچ گیا۔موہن داس کو طمانچہ مارا ۔دھمکی دی کہ تالاب کی طرف دیکھا بھی تو آنکھیں نکال لوں گا۔چمراسر کو معلوم ہوا تو موہن داس کو لے کر تھانے گیا۔تھانہ انچارج لالہ تھا۔ اس نے سانحہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔اس کے الفاظ تھے کہ وہ کسی جھمیلے میںپڑنا نہیں چاہتا۔وہ دبنگ لوگ تھے، خود اس کا حشر برا ہو سکتا تھا۔چمراسر غصّے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے عرضی لکھی اور بی ڈی او کے دفتر آیا کہ اس کے ذریعہ تھانہ انچارج پر دباؤڈالنے کی کوشش کرے گا ۔بی ڈی او کا سامنا ہوا تو جیسے ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔اس کا غصّہ ایک خوشگوار حیرت میں بدل گیا۔سامنے کرسی پر بھانجی براجمان تھی۔ چمراسر نے خوشی کا اظہار کیا کہ وہ اس کے گاؤں میں مجسٹریٹ کی حیثیت سے آئی اور عرضی پیش کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔بھانجی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ پہلا جملہ اس کے منھ سے ادا ہوا کہ اب سمجھی تم دلت ہو ۔چمرا سر کا جواب تھا کہ اسے پتا ہونا چاہیے کہ شدر بھی راجپوت کے ونشج ہیں۔ بھانجی نے کندھے اچکائے ’’ربش۔۔۔۔ !‘‘ اس کے ہونٹ بیضوی ہو گئے ۔
’’ ا س کامطلب ہے کہ تم راجپوت ذات کی برتری کو قبول کرتے ہو۔ تب ہی تو اپنا تشخص را جپوت سے قائم کر تے ہو ۔‘‘
چمراسر مسکرایا اور تاریخ بیان کی جو اُس نے دوستوں سے سن رکھی تھی۔ وہ یہ کہ جو دلت فضلہ ڈھوتے ہیں وہ کبھی اونچی ذات کے براہمن ہوا کرتے تھے۔ مسلم حکمرانوں نے جب ہندوستان فتح کیا تو ہندو گھر سے باہر ہی بیت ا لخلا جاتے تھے۔لیکن مسلم حکمرانوں کی یہ روایت نہیں تھی۔بیت ا لخلا کا نظام گھر کے اندر ہی تھا۔گندگی صاف کرنے کے لیے ان راجپوت جنگجوؤں کو لگایا جو جنگ میں قیدی بنائے گئے تھے۔ان قیدیوں کو موقع دیا گیا تھا کہ یا تو فضلہ صاف کریں یا اسلام قبول کریں۔یہ اتنے بہادر تھے کہ اسلام قبول نہیں کیا اور فضلہ ڈھونے میں لگ گئے۔اپنے دھرم اور ذات کی تذلیل نہ ہو اس لیے اپنے لوگوں سے دور بھی ہو گئے۔بعد میں ہندوں نے انہیں سماج سے باہر کر دیا اور انہیں ہمیشہ کے لیے فضلہ ڈھونے پر مامور کر دیا۔
بھانجی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بات کہہ کر ایک دلت نے اپنی اوقات دکھا دی۔چمراسر نے جواب میں آئینے کی طرح اپنا فون اس کے چہرے کے سامنے کر دیا اور تیکھے لہجے میں گویا ہوا ۔
’’ تمہاری اوقات تو اس فون میں قید ہے ۔‘‘
بھانجی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ دیکھ لو یہ ایڈمٹ کارڈ ہے جس پر تمہارا نام اور میری تصویر ہے۔اور یہ دیکھو انسر شیٹ کی تصویر۔ میں اسے اگر سوشل میڈیا پر وائرل کر دوں اور ایک پریس کانفرنس میں راز افشاں کر دوںکہ تم کس طرح مجسٹریٹ بنی ہو تو ماما کی کرسی جائے گی اور تم بھی کہیں کی نہیں رہوگی۔‘‘
بھانجی کا چہرہ زرد پڑ گیا ۔ غصّے سے اس کے ہونٹ کانپنے لگے لیکن وہ کچھ بول نہیں پائی۔ تب چمراسر نے انگلی نچائی اور کڑے لہجے میں بولا۔
’’ جو کہتا ہوں سنو۔تم امیش سنگھ کو گرفتار کروگی۔تم یہاں مجسٹریٹ کی حیثیت سے آئی ہو۔ تمہارا فرض ہے امن و سلامتی بحال رکھنا۔ ہم کل صبح تالاب میں جال ڈالیں گے۔ تم تھانہ انچارج کو لے کر فورس کے ساتھ وہاں موجود رہوگی۔امیش سنگھ اپنے غنڈوں کے ساتھ آیا تو تم انہیں گرفتار کروگی۔ہمارے آدمی بھی ہتھیار سے لیس ہوں گے۔تم انہیں کچھ نہیں کہوگی۔اگر خون خرابہ ہوا تو ذمہ داری تمہاری ہوگی۔اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو دنیا دیکھے گی کہ تمہیں مجسٹریٹ کس نے بنایا۔‘‘
چمرا سر زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بھانجی کے چیمبر سے باہر نکلا۔
گویاایک جنگ شروع ہو گئی ہے ۔چمرا سر نے سوچا۔اسے یقین تھا کہ امیش سنگھ اپنے غنڈوں کے ساتھ تالاب پر آئے گا تصادم یقینی ہے۔پولیس نہیں بھی آ سکتی ہے ۔اسے بھی دل بل کے ساتھ موجود رہنا ہوگا۔یہ جنگ ہر حال میں جیتنی ہے۔اس کو پہلی جنوری سن ۱۸۱۸ء کی اس جنگ کی یاد آئی جو انگریزوں اور پیشوا باجی راو سوم کے درمیان کورے گاؤں بھیما میں ہوئی تھی۔انگریزوں کی فوج میں دلت کثیر تعداد میں تھے۔ انگریزوں کی جیت ہوئی تھی۔ یہ جنگ دراصل دلت اور سورنوں کے درمیاں تھی۔اور یہ جیت دلتوں کی جیت تھی۔
چمراسر نے موہن داس کے گھر دلت ٹولے کے نوجوانوں کو جمع کیا۔ اس میٹنگ میں کچھ بزرگ بھی شامل ہوئے۔ چمراسر نے سب کو غیرت دلائی، اپنے اسر ہونے پر فخر کا اظہارکیا اور کسی منجھے ہوئے لیڈر کی طرح پرجوش تقریر کی جیسی اس طرح کے موقع پر کی جاتی ہے ۔
’’کورے گاؤں میں ہم ہر سال جیت کا جشن مناتے ہیں۔آج وقت آ گیا ہے کہ ہم اس تاریخ کو دہرائیں۔گاؤں کی سطح پر ہی سہی کل ایک جنگ سورن سے ہوگی۔تالاب ہمارا ہے اور سورن ہمیں اپنے حق سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں۔ کتے اور بلّی کی موت مرنے سے اچھا ہے کہ ہم ویر اسُرکی موت مریں۔ہم اسُرہیں۔ہم بزدل نہیں ہو سکتے۔بس ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے ‘‘
چمراسر نے اخیر میں ایک سروے پیش کیا کہ منوسمرتی کی ہی دین ہے کہ ہندوستان میںہر اٹھارہ منٹ پر ایک دلت ذلیل کیا جاتا ہے۔ہر روز تین دلت عورتیں زنا با ا لجبر کا شکار ہوتی ہیں۔دو دلت مارے جاتے ہیں ۔دو دلتوں کے گھر میں آگ لگا دی جاتی ہے۔۳۷ فی صد دلت غریبی ریکھا سے نیچے رہتے ہیں۔ ۵۴ فی صد غذا کی کمی سے جوجھتے ہیں۔ہر ایک ہزار دلت گھر میں ۸۳ بچّے جنم لینے کے بعد ایک سال کے اندر مر جاتے ہیں۔۴۵ فی صد بچّے ان پڑھ رہ جاتے ہیں۔۴۰ فی صد بچّوں کو اسکول میں الگ قطار میں بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے۔۴۸ فی صد گاؤں میں پانی پینے کے لیے دلتوں کو الگ جگہ جانا پڑتا ہے۔
چمراسر کی تقریر سن کر نوجوانوں میں جوش بھر گیا ۔ جے بھیم کے پرزور نعروں سے میٹنگ ختم ہوئی ۔ سب لاٹھی بلّم برچھی اور دوسرے ہتھیاروں سے لیس صبح سویرے تالاب پر پہنچے چمراسر کے ہاتھ میں تلوار تھی ۔اس کی دھمکی کام کر گئی تھی۔بھانجی پولیس فورس کے ساتھ تالاب پر موجود تھی۔چمراسر نے اس کا شکریہ ادا کیا۔کچھ ہی دیر میں امیش سنگھ اپنے آدمیوں کے ساتھ پہنچا۔پولیس نے اسے آگے بڑھنے سے روکا۔ چمراسر اچانک دوڑ کر تالاب کے قریب ایک ٹیلے پر کھڑا ہو گیا تلوار ہوا میں لہرائی اور زور کا نعرہ لگایا۔
’’ جے مہیشاسر۔۔۔۔!‘
اور اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ ایک پل کے لیے وہ سوچے بغیر نہیں رہا کہ مہیشاسر کا لفظ اس کی زبان پر کہاں سے آ گیا؟ اب تک تو جے بھیم ان کا نعرہ تھا۔اس کو لگا کوئی ان دیکھی قوت اس کے ساتھ ہو گئی ہے۔اس کو اپنی پشت پر کسی کا ہاتھ صاف محسوس ہوا۔ تب وہ چیتے کی طرح چلتا ہوا امیش سنگھ کے پاس آیا اور سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔
’’مچھلی کا ٹھیکہ ہمیں ملا ہے لیکن تم لوگ فساد چاہتے ہو تو ہم تیار ہیں ۔‘‘
امیش سنگھ نے اس سے پہلے کسی دلت کو اس طرح للکارتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے سامنے چمراسر سینہ تان کر کھڑا تھا۔۔۔۔کالا بھجنگ۔۔۔۔بال کھڑے کھڑے۔۔۔۔آنکھیں دہکتی ہوئیں۔۔۔۔ہاتھ میں کٹار ۔ بھانجی نے ا میش سنگھ کو واپس جانے کا حکم دیا موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ لوٹ گیا۔
لیکن بھانجی کے چہرے پر ناخوشگواری کے آثار تھے۔ ایسا لگتا تھا یہ سارا منظر اسے گراں گذرا ہے۔ وہ ہونٹوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہی تھی لیکن دلتوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے ۔ گاؤں کے سورن پر یہ ان کی پہلی فتح تھی۔موہن داس نے چمراسر کو بانہوں میں اٹھا لیا۔
جے بھیم ۔۔۔۔! ‘‘
’’ جے بھیم ۔۔۔۔۔!‘‘
انہیں گھیرے میں لے کر سب گول گول گھومنے لگے اور نعرہ لگانے لگے ۔۔۔۔ اور چمراسر نے ایک پل کے لیے سوچا کہ پیشوا کی شکست پر انگریز فوج کے دلت سپاہیوں نے یقینا ایسی ہی خوشی محسوس کی ہوگی۔
وہ سہہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔۔۔۔
چمرا سر ٹیلے پر بیٹھا تھا۔نظر ایک ٹک خلا میں کہیں گھور رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی ۔۔۔۔ وہ دھند کی دبیز تہوں میں ڈوبنے لگا ۔۔۔۔۔اور کسی نے سرگوشی سی کی۔۔۔’’ مہوبہ میں مہیشاسر کا مندر ہے ‘‘
کس کی آواز ہے ۔۔۔۔۔؟اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ لیکن پپوٹے بھاری ہو رہے تھے۔ اسی پل اس کو محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
’’ چلو مہوبہ کی طرف۔۔۔۔!‘‘
اور اس بار اس نے آواز پہچان لی۔یہ پرمود رنجن تھے اور دوسرے لمحے چمراسر اُن کے ساتھ پہاڑی پر گامزن تھا ۔۔۔۔۔۔
ہر طرف سنّاٹا ۔۔۔۔
اور وہ جیسے جیسے پہاڑی چڑھتا گیا سنّاٹا بڑھتا گیا۔۔۔۔ اوپر ایک بڑا سا چبوترا ۔۔۔۔ یہاں کوئی مورتی نہیں ۔۔۔۔ چبوترے پر مٹّی کے پانچ چھوٹے چھوٹے ستون ۔۔۔۔۔۔ان پر مٹّی کی لیپ لگائی گئی ہے ۔ گرمی کی وجہ سے چکنی مٹّی میں دراریں پڑ گئی ہیں۔چمراسر پر لرزہ سا طاری ہے ۔۔۔مہیشاسر کا مندر۔۔۔؟پہاڑی کا طواف کرتے ہوئے لوگ ۔۔۔۔۔۔
پرمود رنجن نے پھر سرگوشی کی ۔۔۔’’ ادھر بھی ہے ۔۔۔دیکھو۔۔۔! ‘‘
کیرت ساگر کے تٹ پر سوکھی ہوئی جھیل۔ زمین کے ایک ٹکڑے کی چاروں طرف دیوار ۔۔۔۔ کوئی چھت نہیں ہے ۔چبوترہ بھی مٹّی کا ہے۔جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی مٹّی۔یہاں جانور اکھاڑ کرتے ہیں۔۔۔۔اچھلتے ہیں ۔۔۔۔کودتے ہیں۔۔۔یہ دیکھ کر مہیشاسر خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔۔وہ جانوروں کا علاج کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک کسان بیمار بھینس لے کر آیا ہے۔
’’ دودھ نہیں دیتی ہے۔‘‘
’’ کٹّے کو بھی دودھ نہیں پلاتی ہے ۔ ‘‘
سادھو اُسے بھبھوت اٹھا کر دیتا ہے۔
پہاڑی کے راستے آگے بڑھتا ہوا چمرا سر۔۔۔۔یہ کون سا گاؤں ہے۔۔۔۔؟ گاؤں سے باہر کھیت میں گڑا ایک پتھر ۔۔۔۔ یہ بھینساسر تو نہیں۔۔۔؟
ایک اونچے مقام پر مندر نظر آ رہا ہے۔۔۔ سیمنٹ کی مستطیل نما سطح۔۔۔۔چارو ںکونے میں ستون جس کے اوپر تکونی چھت ہے ۔چبوترے کے بیچوں بیچ ذرا اونچا ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم جس میں تکونی طاقچے بنے ہوئے ہیں۔طاق میں کوئی مورتی نہیں ہے ۔ اس میں شاید میکاسر رہتے ہیں۔بائیں طرف ایک بھینسا کی مورتی ہے ۔ دائیں طرف گھوڑے کی لگام تھامے ایک عورت ۔۔۔۔۔ اور اوپر مور ہے۔ یہ تکونی طاق بامبی تو نہیں جس میں کارس دیو چھپے تھے۔۔۔۔؟ اور یہ مور وہ مور تو نہیں جس نے کارس دیو کی جان بچائی تھی۔کارس دیو کالے نہیں تھے۔ وہ پہلے گورے چٹّے تھے۔ ان کی بہن جب اکیلی تھیں توان کو بہت دکھ تھا کہ کوئی بھائی نہیں ہے۔ انہوں نے ورت رکھا تو کارس دیو کمل کے پھول سے پیداہوئے۔ ایک بار دشمنوں نے گھیرا تو سرپ یونی میں چلے گئے اور بانس کے پیپے میںگھس گئے۔ انہیں پکڑ کر باہر کھینچا گیا تو بہت سا زہر اگلا لیکن پھر سارا زہر خود پی گئے اور کالے ہو گئے۔کارس دیو مہیشاسر کے بھائی ہیں۔مہیشاسر ، میکاسر ، کارس دیو کریا دیو سب ایک ہیں ۔ یہاں انہیں گول بابا بھی کہتے ہیں۔اور وہ عورت کون ہے ؟ کیا مہیشاسر کی سنگنی ہے۔لیکن گھوڑا تو آرین ہے۔یہ وہی تو نہیں جس نے سنگنی کا ناٹک کیا اور مہیشاسر کا ودھ کیا اور دیوی کہلائی۔۔۔۔؟
چبوترے کے بائیں طرف کھلی جگہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھے ہیں۔یہاں پوجا ہوتی ہے۔وہ پتھر میکاسر ہے اور چبوترے پر کارس دیو ہیںیا شاید دونوں ہی میکا سر ہیں۔تمام دلت ان کی پوجا کرتے ہیں۔ان کا پجاری پال جاتی کا ہی ہو سکتا ہے۔یہاں بہت لوگ آتے ہیں۔منّتیں مانتے ہیں۔ناریل چڑھاتے ہیں۔گوبھی چڑھاتے ہیں۔بھینس ان کی ماں ہے۔ان کا تعلّق بھینس سنسکرتی سے ہے۔ گاؤں کے باہر کھیت میں ایک پتھر گڑا ہے ۔ یہ مہیشاسر ہیں۔ مہیشاسر فصلوں کے اوپر سے گذرتے ہیں تو فصلیں جھک جاتی ہیں اور ہوا چلتی ہے ــــ۔۔۔۔۔ ایک چرواہا آیا ہے۔ اس نے پشو کا پہلا دودھ چڑھایا۔چمرا سر نے اسے غور سے دیکھا۔ کالا بھجنگ۔۔۔۔دراز قد۔۔۔۔بال گھنگھریالے۔۔۔۔
’’تمہارا نام ؟ ‘‘
’’ گاماسر ‘‘
’’ کہاں سے آئے ہو ؟
’’ مان بھوم۔ ‘‘
’’ پال یادو ہو ؟ ‘‘
’’ سنتالی ہوں ‘‘
اور اشونی کمار پنکج درگا سپت شتی کا اسر پاٹھ کرتے ہیں۔
جنگل میں ایک بھینس اور بھینسا کو ایک نوزائدہ بچّی ملی۔دونوں اسے اپنے گھر لے آئے اور بچّی کی پرورش کی۔
سونے کا رنگ لیے غیر معمولی حسن کے ساتھ وہ لڑکی جوان ہوئی۔راجہ کی نظر لڑکی پر پڑی اور وہ عاشق ہو گیا۔راجہ نے اسے اغوا کرنا چاہا۔تب ہی بھینس اور بھینسہ وہاں آگئے۔یہ دیکھ راجہ نے لڑکی کو کمرے میں بند ی بنا لیا اور گھر کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔بھینس نے دروازہ کھولنے کے لیے لڑکی کو آواز لگائی۔لڑکی قید میں تھی۔کیسے دروازہ کھولتی۔لڑکی نے راجہ کی بہت منّتیں کیں کہ دروازہ کھول دے لیکن راجہ ایک نہیں مانا۔بھینس اور بھینسہ سر پٹک پٹک کر مر گئے۔ تب راجہ نے طاقت کے زور پر لڑکی کو اپنی رانی بنا لیا۔اور سنو ۔۔۔۔۔
سنتالوں کا ایک تہوار ہے ’ دسائیں ‘۔یہ درگا پوجا کے متوازی منایا جاتا ہے۔ اس میں سنتال نوجوانوں کی ٹولی جنگجو کے لباس میں ہوتی ہے۔ٹولی کے آگے آگے کمانڈر کے روپ میں کوئی سنتال بزرگ ہوتے ہیں جو گھر گھر میں گھس کر جاسوسی کرتے ہیں ۔اصل میں انہیں اپنے سردار کی تلاش ہے جو کھو گیا ہے۔ٹولی جنگی انداز میں رقص کرتی آگے بڑھتی ہے ۔ٹولی جس سردار کو کھوجتی ہے اس کا نام اجریہ ہوتا ہے جو اپنے ملک میں باہری لوگوں کے ظلم کے خلاف جنگ کرتا ہے ۔اس کی طاقت و شجاعت سے باہری لوگوں پر لرزہ طاری رہتا ہے ۔آ خر کار باہری لوگ چھل کا سہارا لیتے ہیں۔ اسے دھوکے سے مارنا چاہتے ہیں۔اس کام کے لیے ایک کسبی عورت کی مدد لی جاتی ہے۔عورت پوچھتی ہے کہ اس فعل سے اس کو کیا فائدہ ہوگا۔پجاری طبقہ اسے یقین دلاتا ہے کہ اگر اپنی زلفوں کا اسیر کر درگا کو قید کرنے میں مدد کرے گی تو ابد تک اس کی پوجا ہوگی۔اس طرح کسبی عورت اسے جال میں پھنساتی ہے اور اس کا قتل ہو جاتا ہے۔آدی باسی سردار درگا کو قتل کرنے کی وجہ سے ہی اس عورت کا نام اجریہ پڑتا ہے اور اس کی پوجا ہوتی ہے۔اسے مارنے میں نو دن اور نو راتیں لگیں اس لیے نوراتری مناتے ہیں۔اس طرح اجریہ پوجا کا چلن شروع ہوا۔بنگال اس کا مرکز بنا۔ یہاں درگا کی مورتی بنائی جاتی ہے تو اس کی مٹّی میں بالا خانے کی مٹّی ملائی جاتی ہے۔
گاماسر الوداع کہتا ہے۔
’’ دیوالی میںملیں گے ۔‘‘
موہن داس نے چمراسر کے کندھے تھپتھپائے۔چمراسر جیسے نیند سے جا گا ۔
وہ جال سمیٹ رہے تھے ۔ بھانجی بھی انسپکٹر کے ساتھ رخصت ہو رہی تھی ۔ جاتے جاتے اس نے چمراسر کی آ نکھوں میں جھانکااور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔
’’ یہ نہیں بھولو کہ ہر مہیشاسر کے لیئے ایک درگا ہوتی ہے ۔‘‘
چمراسر اگلے پیر کو راج دھانی لوٹ آیا۔ وہ گاؤں سے اپنی تلوار بھی ساتھ لایا تھا۔
زمین پر تھوکو اور چاٹو۔۔۔۔۔۔۔
یہ وی ڈی او بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا اور چمراسر کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں۔
کچھ دن پہلے ہی پاس کے راج پور گاؤں میں ایک حادثہ ہوا تھا۔اس کی وی ڈی او بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جسے دیکھ کر چمراسر ذلّت کے احساس سے بھر گیا تھا۔ اس نے عجیب سی بے بسی محسوس کی۔۔۔۔ اسے ڈر لگا کوئی دلت خودکشی نہ کر لے ۔ یہ سوچ کر وہ دکھ سے بھر گیا کہ لوگ منوسمرتی کو گذرے زمانے کی چیز سمجھتے ہیں ۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ سماجی اور مذہبی سطح پر منوسمرتی کو قبولیت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے سماج آج بھی شدر کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔
چمرا سر کو یاد آیا کہ براہمنوں نے امبیڈکر کے وقت میں جات پات توڑک منڈل کا انعقاد کیا تھا۔ایک بار اُن کو خطبہ دینے وہاں مدعو کیا گیا تھا۔ وہ گئے نہیں تھے لیکن خطبہ لکھ کر بھیج دیا تھا۔براہمن تحریری خطبہ میں ترمیم چاہتے تھے لیکن امبیڈکر راضی نہیں ہوئے۔امبیڈکر نے اسے انہیں لیشن آف کاسٹ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔مہاتما پھولے نے براہمنواد کے خلاف مہم چلائی تھی جسے امبیڈکر نے ہوا دی۔امبیڈکر کے نظریات سماج وادی رہنماؤں نے کیش کیے۔کسی نے نہیں سوچا تھا کہ امبیڈکر کے خیالات کو بنیاد بنا کر اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں نے اس پر عمل کیا اور منزل مقصود پر پہنچے اور اقتدار کا سکھ اٹھایا لیکن جاتی واد ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔چمرا سر کو یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ کسی بھی دور میں ذات پات کو ختم کرنے کے اقدامات حکومت نے نہیںاٹھائے۔امبیڈکر نے کبھی کوشش بھی کی تو منووادیوں نے دبا دیا اور انہیں بودھ مذہب کی پناہ لینی پڑی۔ خود گاندھی نے ان کی مخالفت کی ۔کیوںنہیں کرتے۔وہ بنیاتھے اور امبیڈکر دلت۔منوسمرتی نے تین طبقے کو معتبر بتایا ہے ۔ براہمن راجپوت اور ویشیہ۔ امبیڈکر ذات کے مہار تھے۔ مہار شدر ہے اور بنیا ویشیہ۔ بنیا شدر کو ترجیح کیوں دے گا ؟
لیکن شدر کو ووٹ بینک بنائے گا۔ ۲۰۱۴ء کے چناؤ میں دلت سماج کے پڑھے لکھے طبقے نے اہل عمارت کی جھولی میں ووٹ ڈالے تھے۔تب سے یہ دلتوں کو لبھانے میں لگے ہیں ۔امبیڈکر کو ا پنا آدرش پرش بھی بتانا شروع کر دیا ہے۔سنگھ کے رسالہ پنچ جنیہ نے سو صفحات امبیڈکر پر خرچ کیے اور دوسری طرف دلتوں پر ظلم بڑھ رہے ہیں ۔ سرکار ظلم پر شکنجہ کسنے کی بات کرتی ہے کستی نہیں ہے ۔
چمراسر اِس خیال سے بے چین ہوا کہ گھڑیالی آنسو بہانے والے رہنماؤں سے دلتوں کو کس طرح بچایا جائے ؟ جب تک دلت ووٹ بینک ہیں ان پر ظلم ہوتے رہیں گے۔رہنما انہیں ووٹ بینک کی مشین سمجھتے ہیں۔دلت رہنما صاحب ثروت ہو گئے۔بہن جی ہیرے کے بندے پہننے لگیں اور دلت فاقہ کشی پر مجبور ہے ۔مذہب اور ذات کے نام پر ووٹ پڑیں گے تو کوئی نہ کوئی طبقہ ووٹ بینک بنا رہے گا۔ ضرورت تھی تمام حقائق سے دلت طبقے کو آگاہ کرنے کی۔اپنا ایک ادارہ قائم کرنے کی جہاں دلت متحد ہو سکیں ور منو اسمرتی کے اثر سے باہر نکل سکیں۔منو اسمرتی تو ہندو دھرم کی بنیاد ہے ۔ ہندو ہونے کا مطلب ہے کسی ذات کا ہونا۔منو سمرتی اپنا کام کر چکی۔انسان کو ہمیشہ کے لیے طبقے میں بانٹ چکی۔دلت طبقہ کو انسانی حقوق سے بے دخل کر دیا۔اس کے وجود کو نفرت و حقارت کی آماجگاہ بنا دیااور اہل عمارت خاموش ہیں۔خاموشی ایک پیغام دیتی ہے ۔۔۔۔ہم اونچی ذات کے لوگ ہیں۔۔۔۔ہم ہندتواکا ایجنڈا نافذ کریں گے۔۔۔۔اور تم۔۔۔؟ تم زمین پر تھوکو اور تھوک کر چاٹو۔۔۔۔!!
اور راجپورگاؤں میں ہی تھوک چاٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
ایک دلت کا بغیر دستک دیے سورن کے گھر میں داخل ہونا گناہ کبیرہ ہے ۔ بدھوا چمار کسی کی کرسی پر نہیں بیٹھا تھا۔ وہ دروازہ کھٹکھٹائے بنا سر پنچ کے گھر میں داخل ہو ا تھا جو ذات کا راجپوت تھا۔ سزا ملنی ہی تھی۔گالیوں کی بوچھار کے ساتھ راجپوت نے چمار کو کئی جوتے لگائے پھر حکم دیا کہ چاٹ زمین پر تھوک کر ۔۔۔۔۔سر پنچ کے بیٹے نے سارا منظر ویڈیو میں قید کر لیا اور سوشل میڈیا پر لانچ کر دیا۔جس وقت بدھوا زمین پر گھٹنوں کے بل جھکا تھوک چاٹ رہا تھا چمراسر پر کپکپی طاری تھی۔وہ صاف دیکھ رہا تھا کہ بدھوا کا جسم کانپ رہا ہے۔چہرے پر بے بسی ہے۔آنکھوں میں ذلت کے آنسو لرز رہے ہیں۔ وہ ندامت کے گہرے احساس سے بھر اٹھا۔ اس کو لگاایک پوری قوم زمین پر گھٹنوں کے بل جھکی تھوک چاٹ رہی ہے۔۔۔۔اور تب مایوسی اور بے بسی کے ان لمحوں میں اس کو احساس ہوا کہ آخر کیوں جگدیش مزدور اور دوسرے دلتوں نے خودکشی کو ایسی زندگی پر ترجیح دی تھی۔ویڈیو بنایا اور حکومت خاموش ہے۔ عمارت کے کسی رکن نے بھی اس کی مذمت نہیں کی۔ یہ فاشزم ہے جو حکومت کی ایما پر سوسا ئٹی میں پھیل رہی ہے۔
چمرا سر نے ایک ادارہ قائم کرنے کا خیال ظاہر کیا جس پر دوستوں نے حامی بھری۔ ادارے کا نام ’’ مہیشا سر سنگھرش واہنی ‘‘تجویز ہوا ۔ انورادھا چاہتی تھی کہ ایک رسالہ بھی شائع ہو تا کہ اپنی بات دور تک پھیلا سکیںاوردلت قوم کو آرگنائز کر سکیں۔سیف نے اس بات پر زور دیا کہ پچھڑی جاتی دلت اور مسلم کو ایک ہو جانا چاہیے تب ہی وہ فاشزم سے لڑ سکتے ہیں۔
سیف ا ﷲ نے ادارے کا دستور عمل رقم کرنے کی ذمہ داری لی۔انورادھا بہت جوش میں تھی کہ ہم جاتی واد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم منوواد کی جگہ دلت واد لے آئیں ۔ ہم منوسمرتی کو دلت سمرتی سے نہیں بدل رہے ہیں بلکہ ہمیں اور بھی فلاح کے کام کرنے ہیں۔مثلاًہمارے پاس فنڈ ہوگا تو ہم تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ یہ ادارے جاب اورینٹیڈ ہوں گے جہاں ٹریننگ کے بعد غریبوں کو روزگار مل سکے۔جیسے کمپیوٹراسمبلی اور ہارڈوئر اسمبلی کی ٹریننگ۔ہماراکمپوٹر سینٹر ہوگاجہاںپرو گرامنگ اورویب ڈیزائننگ کی بھی تعلیم دی جائے گی ۔ پسماندہ طلبا کے لیے کوچنگ سینٹر بھی کھولنا ہوگا۔
سیف کا خیال تھا کہ ہر چوراہے پر نکّڑ ناٹک بھی کھیلنا چاہیے جس میں سیاسی اور سماجی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا جائے۔ایک گائن منڈلی بھی ہوگی جو گھوم گھوم کر دلت سانگ گائے گی جس طرح اسکان والے کرشن کے نغمے گاتے ہیں۔
چمرا سر سب کی بات سن رہا تھا۔اچانک گمبھیر لہجے میں بولا ’’ سب سے پہلے ہمیں لڑاکوں کی ٹولی بنانی ہوگی۔۔۔۔مہیشاسر آرمی۔ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے ۔ہم پر حملہ کبھی بھی ہوسکتا ہے اور ہمیں جوابی حملے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ‘‘
’’ اتنے سارے کام کے لیے بہت پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ فنڈ کہاں سے آئے گا ؟‘‘ سیف نے بنیادی سوال کیا۔
چمرا سر کے ہونٹوں پر پراسرار سی مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور رکھ لیا ۔
سیف نے ادارے کے رجسٹریشن کی پیش رفت کی لیکن اڑچن پیدا ہو گئی ۔ رجسٹرار کو مہیشاسر کے نام پر اعتراض تھا۔اس سے سماج میں دہشت کا مسیج جاتا تھا۔اس کامشورہ تھا کہ نام بدل کر دلت سنگھرش واہنی کر دولیکن چمراسر کو یہ قبول نہیں ہوا۔ رجسٹرار ذات کا براہمن تھا۔اپنی بات پر اڑا رہا۔سیف نے ترکیب یہ نکالی کہ رشوت دی جائے۔ چمراسر اور انورادھا متفق ہوئے،تب سیف پچیس ہزار کی تھیلی لے کر رجسٹرار سے اس کے گھر پر ملا۔کچھ پس و پیش کے بعد اس نے رقم قبول کر لی۔
رجسٹریشن کے بعد ڈھائی لاکھ سے ادارے کا بینک اکاونٹ کھلا۔ یہ وہی رقم تھی جو چمراسر کو لکشمی کانت سے ملی تھی۔خازن بنی۔ ضروری تھا کہ ادارے کا نمائندہ رسالہ بھی جاری ہو۔ انورادھا نے ’’ اسر وانی ‘‘ نام تجویز کیا جو سب نے پسند کیا لیکن فنڈ کی فراہمی مسئلہ تھی۔ پھر بھی چمرا سر اس کام کو مشکل نہیں سمجھتا تھا ۔اس کو یقین تھا کہ کچھ پیسے ممبر شپ سے آئیں گے اور دلتوں کا خوش حال طبقہ مالی تعاون کرے گا۔وہ دلتوں کا ایک ڈاٹا بیس تیار کرنے کی فکر میں تھاجس میں سب کے نام اور ای میل درج ہوں گے۔سیف چاہتا تھا کہ رسالہ جلد سے جلد جاری ہو۔اگر رسالہ پابندی سے شائع ہو جس میں دلت کے مسائل اور سیاسی سرگرمیوں پر تفصیلی تبصرہ بھی ہو تو لوگ خود بہ خود ہم سے جڑنا شروع کریں گے۔
رسالہ ’’اسر وانی ‘‘ جون تک شائع ہو گیا۔سرورق دیدہ زیب تھا۔ سیاہ پس منظر میں ابھرتا ہوا نیم برہنہ شخص جس نے کمر کے گرد تہہ بند لپیٹ رکھی ہے۔اس کے بازو پر سفید کبوتر بیٹھا ہے اور اس کا ایک ہاتھ زمین کی طرف جھکا ہوا ہے اور دوسرا عرش کی سمت بلند۔اس کے سر پر سبز رنگ کا سینگ نما صافہ ہے۔اندر کے صفحات میں پریم کمار منی،پرمود رنجن،اشونی کمار پنکج،گوری لنکیش اور ارون نارائن کے مضامین تھے۔امبیڈکر کے ایک مضمون کا ترجمہ بھی تھا جو سیف ا ﷲنے کیا تھا۔کنول بھارتی اور رمنکا گپتا اور مسافر بیٹھا کی نظمیں تھیں۔اداریہ میں انورادھا نے مہیشا سر کا مختصر سا تعارف پیش کیا اورمہیشاسُر سنگھرش واہنی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔
’’ کہتے ہیں کہ براہمن نے متھک کے ذریعہ اسروں پر تہذیبی اور معاشرتی برتری حاصل کی ہے ۔آدی باسی دیوی دیوتاؤں کے نام بدل کر انہیں اپنایا ۔ آج کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ آریوں کے پاس ان کی اپنی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ہندوستان میں کبھی تاریخ نہیں لکھی گئی۔ اس کی جگہ اساطیر اور کلپناؤں سے بھرے پُران لکھے گئے ۔ ہندو صحیفہ نگاروں نے اساطیری توجیہات کی بنا پر علامتوں کا استعمال کر ہندو مذہب کا ڈھانچہ تیار کیا ہے ۔ ہندو مذہب میں ایک خدا ایک کتاب ایک پیغمبر کاتصّور نہیں ملتا ہے۔ہندوستان کے پاس ماضی ہے لیکن اپنا اتہاس نہیں ہے۔ ہمارے اصل ہیرو اور اصل تاریخ اور سنسکرتی کو ملیا میٹ کر براہمن واد تھوپا گیا۔نفسیاتی حربہ استعمال کیا گیا۔آریوں نے ڈراوڈوں کے ساتھ فریب کیا۔ان کے خلاف اپنی حسین عورتوں کا استعمال کیا۔ امبیڈکر نے صحیح نشان دہی کی ہے کہ اسر راجاوں کا قتل خاتون دیویوں کے زریعہ ہواہے۔رکت بیج کو دیوی شکتی نے مارا، واناسر کو کنیا کماری نے مہیشاسر کو درگا نے۔ اندر جب خوف زدہ ہوتے ہیں اور ان کا تخت ڈولنے لگتا ہے تو تپسّوی کا تپ بھنگ کرنے کے لیے اپسراؤں کو بھیجتے ہیں۔اس طرح عورت ہی آریوں کا برہم استر ہے۔ پرمود رنجن نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر درگا کی بے عزتی جرم ہے تو مہیشاسر کی بے عزتی جرم کیوں نہیں ہے۔ مہیشاسر صرف ایک اساطیری کردار نہیں ہے ۔ آج بھی وہ اصل باشندوں اور اسر جاتی کا ہیرو ہے۔قابل پرستش دیوتا ہے اور جنگجو ہے لیکن ان کے ساتھ چھل ہوا ہے۔مکرو فریب سے بھرپور ایسی روایت کی تاریخ کس طرح قلمبند کی جا سکتی ہے۔اس لیے آریوں نے اپنی تاریخ نہیں لکھی متھک لکھا۔اس کے بر عکس اسر زیادہ صالح اور مہذّب تھے۔اپنی عورتوں کی عزت کرتے تھے اور قدرت سے ہم آہنگ زندگی گذارتے تھے۔‘‘
۱۰؍ جون کو رسالے کا رسم اجرا طے پایا۔چمرا سر نوجوانوں کو جوڑنا چاہتا تھا۔اس نے جمعیات کے طلبا کو بھی مدعو کیا۔پروفیسر مدن مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ پروفیسر مدن مارکسسٹ تھے اور اپنے انقلابی نظریے کے لیے جانے جاتے تھے۔ رسم اجرا نو سال کی ایک دلت لڑکی کے ہاتھوں انجام پایا۔پروفیسر مدن کی تقریر کا لب و لباب تھا کہ ہندوستان میں ذات پات کی جڑیں اتنی گہری ہیںکہ انہیں آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔یہاں منووادی نظریے کی غلامی ہمیشہ قائم رہے گی۔ ہم تہذیبی غلامی سے آزاد نہیںہو سکتے۔ تہذیبی غلامی ہمیں سماجی اور معاشی غلامی پر مجبور رکھتی ہے ۔قدرت نے انسان کو بے خوف پیدا کیا ہے لیکن دھرم گرو انسان کو خوف ذدہ دیکھنا چاہتاہے۔اس لیے براہمن ابھی شاپ سے ڈراتا ہے۔دیوی دیوتاؤں کے عتاب سے ڈراتا ہے اور ہمیں تہذیبی اور ذہنی غلامی پر مجبور رکھتا ہے۔‘‘
انورادھا نے سامعین کے درمیان ایم اس ڈبلو [ مہیشا سر سنگھرش واہنی ] کا منشور تقسیم کیا۔
جلسہ کامیاب تھا۔سب نے مبارکباد دی۔رسالہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔کچھ لوگوں نے ممبر شپ کا فارم بھی خریدا۔ان میں سجاتا نامی ایک کالی سی عورت تھی اور ایک نوجوان سلیم کاشف بھی تھا اور ایک لڑکی نیلما کھیتان۔ سلیم پروگرامر تھا۔نیلما ویب ڈیزائنر تھی۔چمرا سر ان سے مل کر بہت خوش ہوا۔سلیم نے دلتوں کا ڈاٹا بیس تیّار کرنے کی ذمّہ داری لی اور نیلما نے ادارہ کا پورٹل بنا نے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔
سجاتا نے بھی فارم بھرا لیکن وہ بے چین سی نظر آ رہی تھی۔اس کے ساتھ ایک نوجوان ببلو بھی تھا۔سجاتا کچھ اکھڑی اکھڑی سی باتیں کر رہی تھی۔اس نے الزام لگایا کہ آ ج کی تقریر سے ایسا محسوس ہوا کہ ایم اس ڈبلو جاتیت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
انورادھا نے سخت لفظوں میں اس کی تردید کی کہ ہمارے ادارے کا مقصد ذات پات کے فرق کو جڑ سے ختم کر دینا ہے۔سجاتا طنزیہ لہجے میں بولی کہ ادارہ ختم ہو جائے گا اور ذات وہیں رہے گی بلکہ ہندوتو کا بول بالا ہوگا۔ انورادھا کا لہجہ بھی طنزیہ ہو گیا۔بولی کہ کسی بھی دور میں ہندوتوا نے ذات پات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی اور سب کو ساتھ لے کر نہیں چلا ہے۔آج اسے دلت اور بہوجن کے چیلنج کا سامنا ہے ۔ دلت اور مسلم مل کر اسے تباہی کی طرف لے جایں گے۔ اس کی حیثیت وہی رہ جائے گی جو پارسی اور یہودیوں کی ہے۔ہندوؤں کے پاس جب بھی اقتدار آیا ہے انہوں نے دوسرے مذہب کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ہے ۔انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں شدر ان کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں سے مل نہ جائیں۔اس لیے یہ مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ دلتوںکو اشارہ ہے کہ دیکھو ان سے دور رہو ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔
سجاتا بول پڑی ’’ کمال ہے یہ تم کہہ رہی ہو جو ہندو ہو۔ ‘‘
انورادھا کا جواب تھا کہ وہ ہندو نہیں انسان ہے۔ سجاتا لاجواب ہو گئی اور ببلو مسکرایا۔چمراسر کو اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگی۔یہ شخص اس کو جچ نہیں رہا تھا۔اس کے ماتھے پر ٹیکے کا ہلکاسا نشان تھا۔کالر کے پیچھے سے جینو کا دھاگہ جھانک رہا تھا۔ بائیں کلائی پر لال پیلے دھاگے بھی باندھ رکھے تھے۔چمراسر نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے۔ معلوم ہوا جن سنگھرش مورچہ کا رکن ہے۔ والد گلف میں ڈاکٹر ہیں۔ وہ اپنی کوٹھی میں تنہا رہتا ہے۔اسی میں اس کی پارٹی کا دفتر بھی ہے۔وہ انورادھا کی باتوں سے متاثر معلوم ہو رہا تھا۔اس نے اسروانی کی سالانہ خریداری کی رقم ادا کی اور ادارے کی رکنیت میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیالیکن چمراسر اس سے متاثر نہیں تھا بلکہ اس سے باتیں کرتے ہوئے کوئی خوشی محسوس نہیں کر رہا تھا۔سجاتا نے بھی اسروانی کی خریداری قبول کی اور کہا کہ وہ لکشمی کانت جی سے کہہ کر اشتہار بھی فراہم کرا سکتی ہے۔ لکشمی کانت کا نام سن کر چمراسر مسکرائے بغیر نہیں رہا۔
چمراسر نے لکشمی کانت سے ملنے کی آرزو ظاہر کی۔ دو دن بعد شام پانچ بجے کا وقت ملا لیکن انورادھا خطرہ محسوس کر رہی تھی۔ اس کو یقین تھا کہ لکشمی کانت ان کی بے عزتی کرے گا ۔ پھر بھی وہ انورادھا کو لے کر منتری کی کوٹھی پر پہنچا ۔لکشمی کانت نے شکایت کی کہ وہ اتنے دن کہاں غائب رہا۔ چمراسر نے کتابچہ دیا اور ادارے کے مقاصد اور غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔اس بات کی وضاحت کی کہ ان کا مقصد ذات پات کی سیاست سے پرے صرف فلاحی کام ہے اور یہ کہ ادارہ تعلیمی مرکز بھی قائم کرنا چاہتا ہے جس میں انہیں مفت تعلیم دی جائے گی جو غریبی ریکھا سے نیچے ہیں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے آتے ہوں۔ لکشمی کانت چمراسر کی باتوں سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔اس نے لفظ مہیشا سر پر ناراضگی ظاہر کی کہ ادارے کا نام راکشس کے نام پر کیوں رکھا۔اس سے کیا سندیس سماج میں جاتا ہے ۔ اور کیا وہ راکشس بن کر دیو تاؤں سے سنگھرش کرے گا۔کیا وہ بدامنی پھیلانا چاہتا ہے۔چمراسر پرجوش لہجے میں گویا ہوا کہ مہیشا سر راکشس نہیں تھا۔وہ ایک شاندار راجا تھا جو اپنی رعایا اور مویشیوں کی باہری لوگوں سے حفاظت کرتاتھا۔اس کے راج میں عورتوں کی بہت عزت تھی لیکن آرین نے ہماری لوک کتھاوں کی چوری کی اور ان کتھاؤں سے اپنی متھ گڑھی اور مہیشاسر کو راکشس اور اجریہ کو من مانے ڈھنگ سے دیوی بنادیا۔لکشمی کانت آگ بگولہ ہو گیا۔
’’ تم دیوی کی بے عزّتی کر رہے ہو ۔ تمہاری کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ تمہارے ادارے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا ۔ اس کے نام پر تم نفرت پھیلاؤگے۔ یہاں سے فوراً دفعہ ہو جا ؤ ۔ ‘‘
چمرا سرخ کی آنکھیں غصّے سے سرخ ہو گئیں لیکن اس نے ایک لفظ بھی کچھ نہیں کہا اور کرسی سے اٹھ گیا۔ ایم اس ڈبلو کے دفتر ’’پہنچ کر اُس نے لکشمی کانت کو ایڈمٹ کارڈ اور انسر کاپی کا فوٹو میسج کے ساتھ واٹس ایپ کیا ۔
’’ ایک فوٹو بھیج رہا ہوں۔ اسے غور سے دیکھ لیجیے۔ میں اگر اسے پریس کانفرنس میں وائرل کر دوں تو سوچیے کیا ہوگا۔بہتر ہے ہم دوستی استوار رکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ‘‘
انورادھا نے اسے خطرناک قدم بتایا لیکن چمراسر خوف زدہ نہیں تھا۔ وہ مہیشاسر آرمی کی بنیاد ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ دوسرے دن گاؤں چلا آیا۔ گاؤں میں تناؤ کا ماحول تھا۔موہن داس سے معلوم ہوا کہ سورنوں سے پھر دھمکی ملنے لگی ہے لیکن ہم لوگ خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ ہتھیاروں سے لیس ان کے ٹولے سے گذرتے ہیں تا کہ وہ بھی خوف زدہ رہیں ۔ان کی ٹولی رات میں پہرہ بھی دیتی ہے کہ اگر سورنوںنے اچانک حملہ کیا تو مقابلہ کیا جا سکے۔چمرا سر نے پیس کمیٹی بنانے کا مشورہ دیا جس میں دونوں فرقے کے لوگ شامل ہوں ۔چمراسر موہن داس کے ساتھ گاؤں کے کچھ سورن بزرگوں سے ملا اور اپنی بات رکھی۔امیش سنگھ کو بھی بلایا گیا۔مہیشا سر نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آ پس میں خون خرابہ سے فائدہ نہیں ہے کہ آج کوئی کسی سے کمزور نہیں ہے۔اس بات پر سمجھوتہ ہوا کہ دلت راجپوت ٹولے میں ہتھیار کا م مظاہرہ نہیں کریں گے اور سورن بھی بھائی چارہ نبھائیں گے۔اس خوشی میں چمراسر نے گاؤں بھر کو مچھلی بھات کی دعوت دے دی۔اس نے کھانا گاؤں کے سورن رسو ئیا سے بنوایا۔وہ جانتا تھا کہ دلتوں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا براہمن طبقہ نہیں کھائے گا ۔پھر بھی کچھ سورن دعوت میں نہیں آئے لیکن امیش سنگھ آیا۔ چرما سر نے محسوس کیا کہ امیش سنگھ بہت حد تک بدل گیا ہے۔گاؤں میں تناؤ ٔبہت حد تک کم ہو گیا۔دلتوں میں چمراسرکی عزت اور بڑھ گئی۔
چمرا سر نے دس نوجوانوں کا انتخاب کیا جو ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔مہیشاسر آرمی کے یہ پہلے دس جوان تھے۔وہ انہیں لے کر راجدھانی آ گیا۔ایم اس ڈبلو کے کارکنان جوش سے بھر گئے تھے۔چمرا سر نے دفتر کے لیے ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لیا۔آرمی کے جوانوں کو رہنے کے لیے نچلی منزل کا ہال وقف کر دیا اور ان کی تنخواہ طے کردی۔ دفتر کے نئے پتے کا اعلان اخبار میں شائع ہوا۔ ایس پی اور ضلع کلکٹر کو بھی اطلاع بھیجی اور اہل کاروں کی ایک میٹنگ بلائی ۔ایجنڈا تھا آ گے کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟ رکمنی نے مشورہ دیا کہ سب سے پہلے ایک کمپوٹر سنٹر قائم کیا جائے جس میں ہارڈوئیر اسمبلی اور پروگرامنگ کی تعلیم دی جائے گی۔چمرا سر نے اس کام کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری کاشف سلیم اور نیلما کو سونپی۔ تخمینہ تیار کرنا تھا کہ کتنے کمپوٹر کی ضرورت ہوگی ہارڈوئیر کہاںسے دستیاب ہوگا اور ٹیچر کی بحالی کی کیا صورت ہوگی ۔ اس بات کا بھی فیصلہ ہوا کہ امبیڈکر کے نظریات اور آدیباسی لوک کتھاوں پر مبنی ہر ہفتے نکّڑ ناٹک کھیلا جائے۔ناٹک کی سکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری انورادھا کو سونپی گئی۔ سیف نے ریلی نکالنے کی تجویز رکھی کہ دلتوں پر ظلم ہو رہے ہیں، دلت لڑکیوں کا ریپ ہورہا ہے اور دلت لڑکوں کی بازار میں سرعام پٹائی ہو رہی ہے لیکن حکومت کوئی کا روائی نہیں کر رہی ہے۔انورادھا نے پورے ماہ کا شیڈول تیار کیا کہ کس دن کون سی سرگرمی عمل میں آئے گی۔انورادھا نے میٹنگ کی رپورٹ تفصیل میں درج کی۔طے ہوا کہ رپورٹ کی تفصیل اخبار میں اشاعت کے لیے بھیجی جائے اور ادارے کے پورٹل پر بھی اپ لوڈ کیا جائے۔
سیف بھی اپنے گاؤں کے کچھ نو جوانوں کو مہیشاسر آرمی میں بھرتی کرنا چاہتا تھا۔اس نے چمراسر سے اجازت لی اور اس ارادے سے اپنے گاؤں کا رخ کیا۔
اور ایک دن چمراسر حیران رہ گیا۔۔۔۔۔!
سامنے بھانجی کھڑی تھی۔اس کے ساتھ سجاتا بھی تھی۔
’’ کیوں۔۔۔۔؟ حیرانی ہو رہی ہے ‘ ‘ بھانجی مسکرائی۔
’’ زہے نصیب ۔۔۔۔!‘‘
’’ سجاتا نے تمہاری بہت تعریف کی۔مجھے خوشی ہوئی کہ تم دلتوں کی طرز زندگی بدلنا چاہتے ہو ۔‘‘
’’ کمال ہے ۔ ‘‘
’’ تمہارے احسانات ہیں ہم پر۔اس ناطے بھی مجھے تم لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ ‘‘
’’ کس طرح کی مدد۔۔۔؟ ‘‘
بھانجی نے پرس سے چیک نکال کر میز پر رکھ دیا۔چمرا سر نے ایک نظر چیک پرڈالی۔پانچ لاکھ کا چیک تھا۔
’’ اسے ادارے کے لیے ڈونیشن سمجھو ۔میں بھی تم لوگوں سے جڑنا چاہتی ہوں اور دلتوں کے لیے کچھ کام کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’میں کیسے یقین کرلوں ؟ ‘‘
’’ مت یقین کرو لیکن اپنے ادارے کے لیے کچھ کرنے کا موقع دو ۔‘‘
’’ کیا کرنا چاہتی ہو۔‘‘
’’ ادارے کی سرگرمیوں میں شامل رہوں گی۔سجاتاسے اسر وانی لے کر پڑھا۔ اس کے لیے بھی کچھ لکھنا چاہوں گی۔‘‘
’’ اچانک دلت پریم کیسے امنڈ پڑا ؟ ‘‘ چمراسر مسکرایہ ۔
’’ یہ میری کم نصیبی ہے کہ تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے۔پھر بھی کم سے کم یہ چیک تو قبول کرو ۔‘‘
چمراسر نے اکاونٹنٹ کو بلا کر چیک اس کے حوالے کیا۔
’’ شکریہ ! ‘‘ بھانجی خوش ہو گئی۔
انورادھا بھانجی کو غور سے دیکھ رہی تھی۔انورادھا کے چہرے پر اداسی کا رنگ چھایا ہوا تھا۔
بھانجی کے جانے کے بعد وہ چمراسر سے مخاطب ہوئی۔
’’ یہ پانی میں پیتل کا مگر مچھ چھوڑنے آئی تھی۔‘‘
’’ یعنی ۔۔۔۔؟ ‘‘ چمراسر نے چونک کر انورادھا کو دیکھا ۔
’’ بس اتنا ہی دیکھ پائی ۔ ‘‘ انورادھا پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’ آخر کیا دیکھا؟ ‘‘
’’ پھر کبھی کچھ دیکھوں گی تو بتاؤں گی لیکن یہ عورت مجھے پسند نہیں آئی۔ اس سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس کا اعلاج میرے پاس ہے ‘‘
اور چمرا سر نے بتایا کہ بھانجی کس طرح مجسٹریٹ ہوئی۔ اس نے موبائل میں قید بھانجی کے اڈمٹ کارڈ کا فوٹو دکھایا جس میں اس کی تصویر چسپاں تھی لیکن انورادھا اور اداس ہو گئی۔
’’ تمہیں خطرہ ہے چمراسر ۔‘‘
چمرا سر نے پرسکون لہجے میں کہا کہ خطرہ ان لوگوں کو ہے اور وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ایک اور لنچنگ کا واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ چمراسر کے گاؤں کا ابو قاسم گائے خرید کر گاؤں لوٹ رہا تھا کہ گئو رکشکوں نے دھر دبوچا۔جائے وقوع پر ہی اس کی موت ہو گئی۔
تھانے میں نامعلوم لوگوں کے خلاف سانحہ درج ہوا۔پولیس یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ اس میں گئو رکشا واہنی والوں کا ہاتھ ہے۔کسی لیڈر نے لنچنگ کی مذمّت نہیں کی تھی۔ چمراسر نے محسوس کیا کہ پولس پر سیاسی رہنماوں کا دباؤ ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ایسی ریاستوں میں جہاں عمارت کی حکومت تھی گائے کے نام پر لنچنگ جائز تھی اور گئو رکشک محفوظ تھے۔
اسروانی کے اگلے شمارے کے لیے چمراسر نے مقالہ قلمبند کیا۔
سینگیں خنجر بن گئیں، گائیں محفوظ نہیں ہیں۔گوشالہ سے ان کے مرنے کی خبر آتی رہتی ہے۔ملک بھر میں ہر جگہ گئو شالہ کی حالت بد تر ہے ۔گائے کو گود لینے والے وید پرکاش نے بتایا کہ غیر قانونی بوچڑ خانے بند کر دیے گئے ہیں۔گایوں کو بیچنے پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن چھوڑی ہوئی گایوں کے لیے کوئی گوشالہ نہیں ہے۔جو ماتا دودھ نہیں دیتی ہے لوگ اسے گھر سے باہر کر دیتے ہیں۔یہ ماتائیں بہت فصل برباد کر رہی ہیں۔گاؤں والوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ گئو شالہ بنا سکیںلیکن جہاں گئوشالہ ہے وہ پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے ۔گائیں بھوک سے مر رہی ہیں۔ مہاماری پھیلنے کا اندیشہ ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔گئوشالہ میں صفائی کا انتظام نہیں ہے ۔ گاؤں میں ڈاکٹر بھی نہیں ہے۔بیمار گائے کے جراثیم اچھی گایوں میں گھس رہے ہیں۔کھانا تو دور پینے کا پانی بھی ان کے لیے فراہم نہیں ہو رہا ہے۔
بد ترین حالت بہادر گڑھ کے مندر کے گوشالہ کی تھی ۔گوشالہ میں ہر طرف گندگی تھی۔پانی برسنے سے کیچڑ ہو جاتا تھا۔گائیں بیٹھ نہیں پاتی تھیں۔یہاں چالیس گائیں تھیں۔دو کی بھوک سے موت ہو گئی ۔پولس پہنچی تو دو کو مردہ پایا دو بیمار تھیں۔پچیس گائیں اور ان کے پندرہ کٹّے دوسرے گئوشالہ میں پہنچائے گئے۔گائے کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا اور بیمار گائے کو علاج کے لیے بھیج دیا گیا۔
جس گئو شالہ میں ماتاؤں کو شفٹ کیا گیا تھا خبر ملی کہ بھوک سے مر رہی ہیں۔پولس پہنچی تو وہاں کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ جیسے ہی گئو شالہ کا دروازہ کھلا بھوکی ماتائیں ہریالی کی طرف دوڑ گئیں۔تین گائیں بھوک سے مری پڑی تھیں۔ انہیں دفنایا نہیں جا سکا۔انہیں گئوشالہ کے الگ الگ کمروں میں رکھ دیا گیا جس سے ہر طرف بدبو پھیلنے لگی۔
اچاریہ سدیپ گو سدن ٹرسٹ کے گوشالہ کا اور بھی برا حال تھا۔یہاں چودہ سو ماتائں تھیں۔ایک دن تیس مری ہوئی پائی گئیں ۔
یہ نیاگوشالہ تھا اور اس کی تعمیر میں پچاس لاکھ کی لاگت آئی تھی۔بڑے بڑے تین کمرے تھے اور وسیع برامدہ تھا۔چارہ اور گوونش کے لیے ٹین کے تین شیڈ بھی بنائے گئے تھے۔ سارا پیسہ خرچ ہو گیا تھا لیکن فرش اور کھڑکیوں کے کام ادھورے رہ گئے تھے۔کھڑکیوں میںسلاخیں نہیں تھیں،ماتائیں بغیر سلاخوں والی کھڑکیوں سے سر باہر نکال کر رمبانے لگتیں۔ان کے رمبانے کی آواز سے بھی گاؤں والے پریشان تھے۔سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ مری ہوئی ماتاؤں کو کہاں دفنایا جائے ۔
آخرپنچایت نے ایک انوکھا فیصلہ کیا۔وہ یہ کہ آوارہ ماتاؤں کو لوگ رضا کارانہ طورپراپنے گھروں میں رکھیں گے ۔اس کے لیے انہیں گائے کے حساب سے اکتیس ہزار روپے ماہوار اجرت دی جائے گی ۔جس کی ماتا آوارہ گھومتے ہوئے پکڑی گئی اسے اکیاون ہزار روپے جرمانہ بھرنا ہوگا۔ جو رقم گاؤں والوں کو دی جائے گی وہ گاؤں والوں سے وصول کی جائے گی ۔
اچانک علان ہوا کہ اب جیلوں میں گئوشالے بنائے جائیں گے۔ قیدی ماتا کی سیوا کریں گے اور ان کا اخلاق سدھرے گا۔
چمرا سر نے اسر وانی کے تازہ شمارے کے لیے مضمون قلمبند کیا ۔
’’ نہرو کے وقت میںگائے کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ ۱۹۶۶ء کے گائے رکشا آندولن میں اندرا گاندھی نے تو گولی تک چلوا دی تھی ۔ ونووا بھاوے نے ۱۹۶۶ء میں سارے ملک میں گائے کشی کے خلاف قانون بنانے کی مہم چلائی تھی۔ بی جے پی جب جن سنگھ تھی تو اس وقت بھی اس نے گائے کو سیاسی حربہ بنایا تھا۔۱۹۶۶ ء کے آندولن میں شری سنت پربھو دت براہمچاری اور پوری کے جگت گرو شنکراچاریہ کے آمرن انشن نے جان ڈال دی تھی لیکن جن سنگھ اسے حربے کے طور پر استعمال کر رہاتھا۔
دلّی میں کئی سادھو سنتوں کو جمع کیا اور جن سنگھ نے ان کا استعمال کیا۔اس کا مقصد حکومت میں انتشار پھیلا کر اپنا الّو سیدھا کرنا تھا۔پہلے تو جن سنگھ نے پربھودر برہمچاری سے انشن کروایا اور جب خاطر خواہ نتائج کے در آمد کا وقت آیا توانشن تڑوادیا ۔ شنکراچاریہ جی کا انشن ختم کرنے کے لیے سوامی کرپاتراجی کو تیار کیا اور ہوائی جہاز سے ان کو بھیجا ۔ انشن ایسے وقت میں ٹوٹا جب کہ سرکار کی طرف سے کوئی وعدہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔جن سنگھ نے ۱۹۶۷ء کے عام چناو ٔکے مدّ نظر گروگوالکر کو بیچ میں لاکر ستیہ گرہ بند کرایا اور اتنے لوگوں کی قربانی رائیگاں گئی۔
گئو رکشا کوئی مذہبی فریضہ نہیں تھا۔ بی جے پی نے اسے سیاست میں لا کر بھاری غلطی کی تھی۔۱۹۹۸ء میں پہلی بار جب این ڈی اے کی سرکار بنی تھی تو گئو رکشا کی مانگ تیزی سے اٹھی تھی۔کچھ ریاستوں میں گومُتراور گائے سے متعلق ریسرچ کا کام بھی زور شور سے شروع ہوا تھا لیکن ۲۰۰۴ ء میں یو پی اے کی سرکار آئی تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔۱۸۸۲ء میں دیانند سرسوتی نے گئو رکشنی سبھا کی بنیاد ڈالی تھی۔تب سے گورکشا آندولن شروع ہوا تھا۔ان کا مقصد تھا گائے کے تحفّظ کے نام پر ہندؤںکو ایک جُٹ کرنا۔۱۸۸۲ء کے کچھ سالوں بعد بمبئی اور اعظم گڑھ میں فرقہ و ارانہ فساد ہوئے۔یہ آندولن زیادہ دن نہیں چلا لیکن بعد میں جب ۱۹۲۵ ء میںآرایس ایس کی بنیاد پڑی تو آراساس نے اسے آگے بڑھایا۔نہرو کے وقت میں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھالیکن گائے کو گائے ماتا بنانے والوں میں ونو ا بھاوے کا نام اہم ہے۔وہ اپنی مانگ کے ساتھ پارلیامنٹ کی طرف بڑھے۔لیکن اندرا گاندھی نے گولی چلوا دی تھی اور کئی لوگ مارے گئے۔مرارجی دیسائی نے وعدہ کیا تھا کہ ایسے قانون پر غور کیا جائے گا لیکن معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔گائے کشی پر موت کی سزا کسی دور میں نہیں رہی۔ انیسویں صدی میں بھارت ماتا اور گائے ماتا جیسے نعرے وجود میں آئے۔دیانند سرسوتی نے گائے رکشا پر زور دیا اور بنکم چٹرجی نے بھارت ماتا کا تجربہ کیا۔
آج گائے ہندوستان کی مقدّس سی چیز کی علامت بن گئی ہے۔اسے ملیچھ چھونے کی بھی کوشش کرے گا تو سزا ملے گی۔ گائے کی حفاظت کے لیے تشدد جائز ہے ۔ یہ رنگ فاشزم کا ہے ۔سوسائٹی کا فاشسٹ ہونا ملک کے فاشسٹ ہونے سے زیادہ خطرناک ہے ۔اسٹیٹ اگر فاشسٹ ہے تو معاشرہ اس کی روک تھام کر سکتا ہے لیکن معاشرہ اگر خود فاشزم کی راہ چل رہا ہے تو جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔پولیس جس طرح اگنور کر رہی ہے تو اس کا اس طرح نظر انداز کرنا جمہوری نظام کو فاشسٹ نظام میں بدلنے کی کوشش ہے۔اہل عمارت اس کوشش میں کامیاب نظر آ رہے ہیں ۔‘‘
رسالہ منظر عام پر آ یا تو ایم اس ڈبلو کے دفتر میں فون پر دھمکیاں ملنے لگیں۔ مہیشاسر آرمی الرٹ ہو گئی۔چمراسر نے بیس فون میں رکارڈنگ سسٹم لگا دیا اور ایک جوان کو تعینات کیا کہ فون رکارڈ کرے اور جواب میں اپنا لہجہ ٹھنڈا رکھے ۔
چمراسر کو ہر لمحہ حملے کا انتظار تھا۔اس کی تلوار اس کے ساتھ تھی۔
اور وہ دن آ گیا۔ سنیچر کے روز قریب گیارہ بجے صبح جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے حملہ آور ہتھیارسے لیس دفتر کے احاطے میں گھسے۔شور سن کر مہیشاسر سینا کے جوان نے جے مہیشاسر کا جوابی نعرہ لگا یا اور لاٹھی،ہاکی اسٹک اور بلّم برچھی کے ساتھ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ انہیں جوابی حملے کی امید نہیں تھی۔ وہ بوکھلا گئے۔ جوانوں نے بے دریغ لاٹھی برسانا شروع کیا۔کسی کا سر پھٹا کسی کا بازو زخمی ہوا کسی کی ٹانگ اور کمر پر چوٹ آئی۔چمراسر نے بھی زوردار نعرہ لگایا اور تلوار لے کر پل پڑا ۔ ایک کو ضرب کاری لگا ۔ وہ چلّاتے ہوئے بھاگا۔باقی حملہ آوروں نے بھی بھاگنا شروع کیا۔جوانوں نے ایک کو پکڑلیا۔ اسے زمین پر گرا کر لاٹھی برسانے لگے۔ انورادھا چیخی۔۔۔۔لنچنگ نہیں۔۔۔لنچنگ نہیں۔۔۔۔چمرا سر نے جوانوں کو روکا۔
’’ بس اس کے گھٹنے توڑ دو۔ ‘‘
گھٹنے پر ایک جوان نے ہاکی اسٹک سے پے درپے وار کیے۔وہ زور زور سے چلّانے لگا۔ انو رادھا پھر چیخی۔
’’ اب نہیں۔۔۔۔اب نہیں۔۔۔! ‘‘
’’ کس نے بھیجا۔۔۔؟ ‘‘چمراسر نے تلوار کی نوک اس کے سینے میں گڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’ اجگر ٹولی کے ضلع ادھیکش نے۔ اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
چمرا سر نے پولیس کو فون کیا اور جوانوںکو ہدایت دی کہ اپنے ہتھیار اسٹور روم میں چھپا دیں۔ اس نے اپنی تلوار بھی اسٹور روم میں رکھ دی ۔سیف سے کہا کہ زخمی کی تصویر اتار لے اور جب پولیس آئے تو پوری کاروائی کی ویڈیو گرافی کر لے۔
پولیس کچھ دیر میں پہنچ گئی۔انسپکٹر کی نظر سب سے پہلے زخمی آدمی پر پڑی۔
’’ یہ کون ہے ؟ زخمی کیسے ہوا ؟
’’ یہ اسی گینگ کا آدمی ہے جو فساد کرنے آئے تھے۔ ہم ان سے بھڑ گئے اور مار بھگایا۔ یہ آدمی بھاگتے ہوئے زمین پر گر گیا اور زخمی ہو گیا۔‘‘
’’ اچھا ۔۔۔۔؟ آپ لوگ اتنے بہادر ہیں ؟ ‘‘ انسپکٹر مسکرایا۔
’’ ہم مہیشا سر کے ونشج ہیں انسپکٹر۔‘‘
اور اچانک چمراسر نے جے مہیشا سر کا نعرہ لگایا۔سب نے ایک ساتھ آواز ملائی۔ انسپیکٹر گھبرا گیا۔ چمرا سر بہت جوش میں تھا۔ مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں اور بال کھڑے ہو گئے تھے۔
’’ یہ لوگ ہمیشہ دھمکیاں دیتے تھے۔‘‘ چمرا سر نے ٹیپ سنایا۔
انسپکٹر نے خاموشی سے چمرا سر کا بیان درج کیا کہ کتنے لوگ تھے۔کس وقت آئے۔ ہتھیار کیا کیا تھا۔پھر زخمی شخص کو جیپ پر لادا اور چلا گیا۔
واہنی کے دفتر میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں لگا تھا۔اب جگہ جگہ کیمرے لگ گئے ۔ تب پریس کانفرنس بلائی۔سیف کو ہدایت دی کہ وہ کانفرنس کی الگ سے ویڈی او بنائے گا۔ چمراسر نے کاشف کو بلا کر ڈاٹا بیس کی انٹری چیک کی۔ابھی تک ہزار سے زیادہ نام اور پتے درج ہو گئے تھے۔کاشف نے ان لوگوں کی فہرست الگ مرتّب کی تھی جو الٹ کلاس میں شمار ہوتے تھے۔سیف کا خیال تھا کہ ان کے نام اسر وانی جاری کرنا چاہیے ۔ یہی وہ طبقہ تھا جس سے فنڈ کی اچھی خاصی فراہمی ہو سکتی تھی۔
کانفرنس شروع ہوئی تو پہلے ادارے کا کتابچہ تقسیم ہوا ۔ چمراسرنے دلتوں کے ڈاٹابیس کے بارے میں بتایا اور ادارے کے نصب ا لعین اور کارگردگی سے واقف کرایا کہ ہمارا مقصد دلت اور دبے کچلوں کو ایک بہتر طرز زندگی دینا ہے لیکن سورنوں کو برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ دلتوں کو اوپر اٹھتا ہوا دیکھیں۔دفتر میں دھمکیوں بھرے فون ملنے لگے اور دو دن قبل حملہ بھی ہو گیا۔ وہ ٹیپ بجا کر سنایا گیا اور زخمی کی تصویر بھی دکھائی گئی۔ چمراسر نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ پولیس نے اب تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے جب کہ اسے ثبوت مہیاکرا دیا گیا ہے۔پولیس اس زخمی شخص سے سب کا پتہ اگلوا سکتی ہے اور انہیں گرفتار کر سکتی ہے۔چمراسر نے اس بات کی وضاحت کی کہ اگر دو دنوں میں گرفتاری عمل میں نہیں آئی تو ہم دھرنے پر بیٹھیں گے ۔
ایک رپورٹر نے پوچھا کہ مہیشاسر تو راکشس تھا۔اس کے نام پر ادارے کا نام کیوں رکھا ؟ چمرا سر کا جواب تھا کہ مہیشاسر ہمارے آدی دیوتا ہیں۔وہ بہادر راجا تھے ۔ہم ان کے ونشج ہیں۔
’’ گویا آپ ہندو نہیں ہیں؟ ‘‘
’’ ہم اسر ہیں ۔‘‘
’’ کیوں نہ سمجھا جائے کہ آپ دلتوں کو گمراہ کر رہے ہیں ؟‘‘
’’ منو اسمرتی گمراہ کرتی ہے۔ دلتوں کو ہندو تسلیم نہیں کرتی ۔وہ انہیں کتّے بلّی سے بھی گیا گذرا سمجھتی ہے۔آپ جب ہمیں مندر جانے نہیں دیتے تو ہم کیوں آپ کے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کریں۔ ہم اپنے آدی دیوتا کی پوجا کریں گے۔ہم اپنا مندر الگ بنائیں گے۔ ‘‘
کیوں نہ سمجھا جائے کہ آپ دیش میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ نفرت ہم کہاں پھیلا رہے ہیں۔نفرت تو سورن پھیلا رہے ہیں۔ابھی کسی ٹھاکر نے بیان دیا کہ کوئی دلت مندر میں جائے تو اسے کتے کی طرح مار کر بھگا دو۔ یہ سب کیا ہے۔کسی نیتا نے اسے کنڈم نہیں کیا۔مکھیا بھی خاموش رہتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دیش صرف سورنوں کا ہے اور ہماری حیثیت کتے اور بلی کی ہے۔اس لیے میں دلتوں سے کہتا ہوں تم ہندو نہیں ہو۔تم اسر ہو۔ تمہیں جگریہ پوجا نہیں منانا چاہیے ۔ تمہیں شہادت دیوس منانا چاہیے ۔
’’ آ پ کرانتی لانا چاہتے ہیں ‘‘
چمراسر مسکرایہ۔ ’’ ہم بیداری لانا چاہتے ہیں۔یہ جب بیدار ہوں گے تو سنہاسن ان کا ہوگا۔‘‘
کانفرنس کے آخیر میں کسی نے جے مہیشاسر کا نعرہ لگایا ۔
ایک رپورٹر نے اس کا نام پوچھا۔
’’ بلدیو اسر ۔ ‘‘
پورا نام ؟ ‘‘
’’ بلدیو اسر ‘‘
چمرا سر نے وضاحت کی ۔ ’’پہلے نام بلدیو پاسبان تھا۔پاسبان اور رجک جیسے ٹائٹل سورنوں نے تھوپے ہیں۔اس نے اپنے کو پہچانا کہ وہ اسر ہے تو اس نے ٹائٹل بدل دیا ۔‘‘
رپورٹر مسکرا کر رہ گیا۔
اخبار میں رپورٹ جلی حرفوں میں چھپی۔عنوانات دلچسپ تھے ۔
’’ دلتوں نے سورنوں کی پٹائی کردی ‘‘
’’ دلت ہند و نہیں ہیں ۔‘‘
’’ مہیشاسر کا آگمن۔ اب دلت مہیشاسر کی پوجا کریں گے ۔ ‘‘
’’ مہیشا سر آندولن کی شروعات ۔ ‘‘
اخباروں کی رپورٹ میں ایک بات مشترک تھی۔سب نے اس بات کو تسلیم کیا کہ چمراسر دلتوں کی ترقّی کے لیے کوشاں ہے ۔ ان کا ادارہ تعلیمی مرکز بھی قائم کرے گاجہاں ایسے لوگ مفت تعلیم حاصل کریں گے جو غریبی ریکھا سے نیچے ہیں۔کچھ اخباروں نے اسر وانی کا سرورق بھی شائع کیا تھا۔
رپورٹ کا خاطر خواہ اثر پڑا۔ لوگوں کی آمدورفت بڑھ گئی۔ قریب سو سے زیادہ نوجوانوں نے واہنی کی رکنیت حاصل کی۔ اسر وانی کے خریدار بڑھ گئے۔ چمراسر نے محسوس کیا کی دلتوں کی آنکھوں میں امید کی کرن ہے اور اب اس کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔
ایک دن گوپال رجک نام کے ایک صنعت کار کا ای میل موصول ہوا۔اس کا نام واہنی کے ڈاٹا بیس میں بھی تھا جو کاشف نے تیار کیا تھا۔اس کو اسر وانی بھی جاری کیا گیا تھا ۔چمراسر نے واہنی کا کتابچہ بھی پوسٹ کیا تھا ۔ ادارے کی سرگرمیوں سے متعلق ای میل کر تا رہتا تھا۔گوپال رجک نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا جسے پڑھ کر چمرا سر بہت خوش ہوا اس نے ملنے کا وقت مقرر کیا اور سیف کے ساتھ اس کی کوٹھی پر پہنچا۔یہ ایک وسیع کوٹھی تھی جس کے وسط میں ایک لویہ کا مجسمہ نصب تھا۔چمرا سر نے ایسا مجسمہ پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔احاطہ بھی کوٹھی کی طرح وسیع تھا جس کے چاروں طرف حاشیے پر پھو لو ں کی کیاری بنی ہوئی تھی۔ کیاری سے سٹ کر قریب تین فٹ چوڑا سفید ماربل کا فٹ پاتھ بنا ہوا تھا۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے دونوں پورٹیکو میں پہنچے جہاں سرخ رنگ کی مرسیڈیز لگی ہوئی تھی۔دروازے پر نیلے یو نیفارم میں ملبوس دربان کھڑا تھا۔چمرا سر نے اپنا نام بتایا۔ دربان جیسے اس کا ہی انتظار کر رہا تھا۔انہیں اندر ڈرائنگ روم میں لے گیا۔وہاں گوپال رجک پہلے سے موجود تھا۔ وہ ان سے تپاک سے ملا اور صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’ آپ کا کتابچہ مجھے ملا تھا۔آپ کے ای میل بھی پڑھتا رہتا ہوں۔‘‘
’’ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے توجہ دی ۔ ‘‘
’’ پہلے سمجھا تھاکہ آپ کا ادارہ معمولی سا ان جی او ہے اور آپ لوگوں نے کمانے کھانے کا دھندہ شروع کیا ہے۔
چمرا سر مسکرایہ۔
’’ اخبار میں رپورٹ پڑھی تو جی خوش ہوا ۔‘‘
’’ مہیشا سر کی کرپا ہے۔‘‘
’’ آپ کو بتا دوں کہ میں بھی مہیشا سر کا بھکت ہوں۔ مہوبہ میں مہیشا سر کا مندر ہے۔ میں وہاں ہر سال جاتا ہوں۔
چمرا سر نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’ آپ کو بھی وہاں جانا چاہیے۔‘‘
’’ ہم یہاں مندر بنائیں گے۔‘‘
’’ ضرور بنایئے۔میںآپ لوگوں کی مدد کروں گا۔‘
’’ آپ کے آشرواد سے ہم مہیشاسر آندولن شروع کر رہے ہیں ۔‘‘
’’ مجھے یقین ہے کامیابی ملے گی۔آپ لوگوں کے اندر آگ ہے۔ ‘‘
’’ آپ کا بہت بہت دھنیہ واد۔آپ کی باتوں سے شکتی مل رہی ہے ۔ ‘‘
’’ آپ لوگوں نے جس طرح مقابلہ کیا بڑی بات ہے۔ایسا اتہاس میں نہیں ہوا ۔‘‘
’’ ہم پہلے سے تیار تھے۔‘‘
’’ آگے کیا پروگرام ہے ؟ ‘‘
’’ ہم دلتوں میں بیداری لانا چاہتے ہیں ۔ ان کی جیون شیلی بدلنا چاہتے ہیں۔انہیں احساس دلانا چاہتے ہیں کہ تم کمزور نہیں ہو۔تم مہیشاسر کے ونشج ہو۔ ‘‘
’’ اس کے لیے آپ کیا کریں گے۔‘‘
’’ ہم سماجی پروگرام منعقد کریں گے ۔گلی گلی میں نکّڑ ناٹک کریں گے۔ گھر گھر اپنی پتریکا بانٹیں گے۔‘‘
’’ بہت خوب ۔‘‘
’’ ہم تعلیمی سینٹر بھی کھولنا چاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں جو غریبی ریکھا سے نیچے ہیں مفت تعلیم حاصل کر یں۔اس طرح ہم ان کے لائف اسٹائل میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘‘
’’ مجھے یقین ہے آپ ایسا کر سکیں گے‘‘
’’ آپ کا ایک بار پھر دھنیہ واد۔‘‘
’’ اپنی سنستھا کا اکا ونٹس نمبر دیں۔‘‘
چمرا سر کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے نمبر نوٹ کرایا۔پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔
’’ ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ کیا ؟ ‘‘
’’ اسر وانی میں آپ کا نام پیٹرن کے روپ میں دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ نہیں۔ آپ مجھے پردے میں رہنے دیجیے۔ پردے میں رہ کر میں آپ کی زیادہ مدد کر سکتا ہوں۔‘‘
چمرا سر کو وداع کہنے گوپال رجک دروازے تک آیا۔ جاتے جاتے چمراسر نے ایک بار پھر گوپال رجک کا شکریہ ادا کیا۔
ادارے کے اکاونٹس میںاچانک بیش بہا اضافہ ہوا۔ چمراسر نے گوپال رجک کا فون پر شکریہ ادا کیا۔قریب دو سو لوگوں نے ادارے کی رکنیت حاصل کی تھی۔ان لوگوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر معاون کی رقم پیش کی۔ ان میں ایک گورا چٹا نوجوان تھا گولڈن علی۔ یہ ذات کا حلال خور تھا۔یہ رنگ کرمی تھا۔ اس کے پاس اپنی رنگ منڈلی تھی۔ گولڈن علی کو جب معلوم ہوا کہ گاؤں گاؤں میں نکّڑ ناٹک بھی کھیلے جاینگے تو بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ انورادھا نے جس ناٹک کی اسکرپٹ لکھی تھی اس میں میں گولڈن علی نے ترمیم کی اور نظیر اکبر آبادی کی نظم آدمی نامہ بھی شامل کر لی ۔ عنوان تھا ’’ مہیشاسر کی تلاش ‘‘ ۔انو رادھا اور چرماسر کو اسکرپٹ پسند آئی۔ طے ہوا کہ مہیشاسر شہادت دیوس کے موقع پر اسے کھیلا جائے گا۔
سلیم کاشف نے کمپوٹر سینٹر کا تخمینہ پیش کیا۔ رپورٹ میں پندرہ عدد کمپوٹر کی تجویز تھی لیکن چمراسر نے پانچ عدد کمپوٹراور ایک ہارڈوئر کے سیٹ پر اکتفا کیا۔ گراونڈفلور کے ایک بڑے سے کمرے کے دروازے پر مہیشاسر کمپوٹر سینٹر کا بورڈ لگا دیا گیا۔پروگرامنگ سکھانے کی ذمے داری نیلما اور کاشف نے اپنے سر لی۔ہارڈ وئر اسمبل کی ٹریننگ کے لیے گوپال رجک نے اپنا ایک انجینئر دیا۔
اس درمیان نیلما کھیتان نے مہیشاسر سنگھرش سمیتی کا خوبصورت پورٹل تیار کیا۔انٹرنیٹ سے کچھ تصویریں اور متھ ڈاون لوڈ کیے۔سر ورق پر اس نے مہیشاسر کی تصویر شاہی لباس میں پیش کی لیکن ہاتھ میں تلوار کی جگہ مویشی چرانے والا ڈنڈا تھا اور سر کے پیچھے چاروں طرف نور کا ہالہ تھا۔پس منظر میںسیاہ بھینس کی تصویر تھی۔نیچے مہیشاسر کا مختصر سا تعارف پیش کیا گیا تھا۔
مہیشا سر صرف ایک اساطیری کردار نہیں ہے بلکہ وہ اسر جاتی اور دوسرے اصل باشندوں کا آج بھی دیوتا ہے ۔ہندوستان کے مختلف قبیلے اور فرقے مہیشاسر کو اپنے ہیرو کے روپ میںدیکھتے ہیں۔کچھ گروہ ایسا بھی ہے جو اجریہ پوجا کے موقع پر مہیشاسردیوس مناتا ہے۔ملک کے اس کنارے سے لے کر اس کنارے تک ایسے کئی مقام ہیں جہاں مہیشاسر کا جائے مقام ہے اورلوگ دور دور سے زیارت کے لیے آتے ہیں۔ان میںاترپردیش[مہوبا]کرناٹک،مہاراشٹر،مدھیہ پردیش،[ کھجراہو ، چھتر پور]وغیرہ شامل ہیں۔جھارکھنڈ اور مغربی بنگال وغیرہ میںمہیشا سر کے ونشج موجود ہیں۔
پورٹل میںسوال و جواب اور ای میل کے علاوہ سرگرمیوں سے واقف ہونے کا بٹن بھی شامل تھا جسے کلک کرنے سے سمیتی کی کارگذاریوں پر ایک نظر ڈالی جاسکتی تھی ۔اس کالم میںاسروانی کے رسم اجرا کی تفصیلی رپورٹ پوسٹ کر نیلما نے پورٹل اپ ڈیٹ کر دیا تھا۔
سلیم کاشف بھی بہت دلجمعی سے کام کر رہا تھا۔ اس نے اب تک ایک ہزار سے زائد دلتوں کا بائیو ڈاٹا پوسٹ کیا تھا۔چمرا سر کی ہدایت تھی کہ ایسے دلتوں کی فہرست الگ بنائی جائے جو سورن کے ظلم و ستم کے شکار ہوئے ہیں۔
کاشف کے ذہن سے ابو قاسم کا ویڈی او چپک گیا تھا۔وہ بار بار یہی سوچ رہا تھا کہ کس اعتماد سے قاسم کی لنچنگ کی گئی ۔ وی ڈی او بنایا اور وائرل کیا۔ یہ اعتماد فاشزم کی سیاست پیدہ کر رہی ہے۔ کبھی اخلاق کو مار دیا جاتا ہے کبھی پہلو خان کو کبھی جنید کو کبھی عمر کو۔ تشدد کی ہر خبر موسم کے بلیٹین جیسی ہوتی ہے۔ کسی جرم کو اگر سیاسی سرپرستی مل جائے تو دائرہ اثر بڑھ جاتا ہے۔کاشف کو یاد آیا کہ اڑیسہ کے پادری گراہم اسٹینس اور اس کے دو بچّوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا اور اس واقعہ کو تبدیلی مذہب کا رخ دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔
اس بار اسروانی کے لیے کاشف نے مقالہ لکھا۔
’’فاشزم‘‘
فاشزم جمہوریت کے رستے آتی ہے اور جمہوریت کو ختم کر دیتی ہے ۔ فاشزم کسی بھی ملک میں اپنے پاؤں جما سکتی ہے۔کسی بھی ایسے ملک میں جہاں سماجی تحریک کمزور ہوتی ہے اور لوگ فاشزم کے تئیں با شعور نہیں ہوتے۔فاشزم فرضی خوف پیدہ کر جمہوری سوچ کو ختم کر دینا چاہتی ہے ۔اس کے لیے قدآور لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو بے رحم فیصلے کر سکتا ہے۔ عمارت کا مکھیا ایسا ہی لیڈر ہے۔ اس نے سفّاک نظروں سے سابرمتی کے ساحل کو دیکھا اور ندی کا پانی سرخ ہو گیا۔انسان کچلے جا رہے ہیں لیکن مکھیا کے لب نہیں ہلتے۔ایسا لیڈر را شٹر کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔اپنے گرد آبھا منڈل تیّار کرتا ہے۔پوری قوم پر مذہبی اصول نافذ کیے جاتے ہیں۔جو اتفاق نہیں کرتے ان کو سزا دی جاتی ہے۔ گجرات کے اسکولی نصاب میں ہٹلر کو مہان راشٹروادی بتایا گیا ہے۔گجرات ہندو راشٹرواد کادارالتجر بہ ہے۔ فاشزم اپنے نشانے پر ہمیشہ دوسری نسل کو رکھتی ہے اور ان کے خلاف اجتماعی سوچ پیدہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اکثریت خاموش رہتی ہے۔ یہ خاموشی فاشزم کو بڑھاوا دیتی ہے۔کراماتی لیڈر کے بغیر فاشزم نہیں پنپتا۔عمارت کے مکھیا کو چمتکاری نیتا کا روپ حاصل ہو گیا ہے۔اس لیے اسے اور بھی چمتکاری بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔مکھیا تشدد پر یقین رکھتا ہے۔جذبات کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مکھیا عالمی لیڈر اور غریبوں کے رہنما کے طور پر اپنا امیج بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔حزب مخالف معتبر نہیں ہے اس لیے بھی مکھیا کو کامیابی ملی ہے۔ اقلیت دلت اور آدیباسیوں پر منظّم ڈھنگ سے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جو اس ظلم کے خلاف اٹھتا ہے اس کی زبان بند کر دی جاتی ہے۔ گوری لنکیش کو قتل کر دیا گیا۔ فاشسٹ حکومتیں کارپوریٹ کے مفادات کا تحفّظ کرتی ہیں۔مکھیا نے یہی کیا۔ یہاں تک کہ بینک قرض بھی معاف کر دیااور رافیل کو امبانی کی جھولی میں ڈال دیا۔
’’ہمیں منظّم ہونا ہوگا۔ صورت حال سے نبٹنے کے لیے کارگر پالیسی کی ضرورت ہے۔مستقل سماجی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے۔عوام میں ایک مقبول مورچہ وقت کی ضرورت ہے۔یہ مورچہ کارپوریٹ فاشزم کا بھی مقابلہ کرے گا۔ ہمیں ہند راشٹرواد نہیں چاہیے۔ہمیں ۱۸۵۷ کے راژترواد اور دیش بھکتی کی ضرورت ہے جہاں مسلمان بھی پیش پیش تھے۔سڑک پر لمپٹ اور غنڈوں سے لڑنے کے لیے بھی ٹولی چا ہیے ۔ قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے ۔گرو گوالکر نے اپنی تصنیف we are our nationhood. میں فاشزم کی وکالت کی ہے۔یہ کتاب نسلی امتیاز کو واجب قرار دیتی ہے اور غیر ہندو سے نپٹنے میںسفّاک رویے کی وکالت کرتی ہے ۔ فاشزم ہندو سنسکرتی کو راشٹریہ سنسکرتی کے روپ میں قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔
دسہرہ کی آمد آمد تھی۔
چمرااسر نے شہادت دیوس کی تیّاری شروع کر دی۔ وہ چوک بازار میں نو روزہ تقریب منعقد کرنا چاہتا تھا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ سرکار سے اجازت نہیں ملے گی لیکن بھانجی نے اس کی مشکلیں آسان کر دیں۔ بھانجی نے لکشمی کانت سے رجوع کیا ۔ لکشمی کانت نے ضلع مجسٹریٹ اورایس پی کو فون پر ہدایت دی کہ شہر سے کوئی بیس کیلومیٹر دور حسن گنج کے علاقے میں تقریب منانے کی اجازت دی جائے۔یہاں زیادہ تر آبادی مسلم اور دلتوں کی تھی۔
چمرا سر نے پورنیما سے تین دن پہلے حسن گنج میں پرچے تقسیم کرائے جس میں شہادت دیوس کی جانکاری دی گئی تھی۔
شہادت دیوس شرد پورنیما کے دن مناتے ہیں۔یہ پورنیما دشہرے کے ٹھیک پانچ دنوں بعد آتی ہے ۔کہتے ہیں کہ مہیشاسر کے پاس وہ آسن ماہ کے سولہویں دن پہنچی تھی۔ اسے آرین نے بھیجاتھا جن کی مقامی لوگوں سے لڑائی چلتی رہتی تھی۔مہیشاسر کے قلعے کے آس پاس ہتھیاروں سے لیس دیوتا چھپے ہوئے تھے۔ساتویں دن اس نے قلعے کا پٹ کھول دیا ۔دیو تاؤں نے حملہ کردیا۔ خون آشام جنگ ہوئی۔دیوتاوں کے لیے مہیشاسرکو شکست دینا ممکن نہیں تھا۔اس لیے انہوں نے نویں دن پھر اس کو آگے کردیا۔مہیشاسر نے عہد کیا تھا کہ وہ عورت اور جانور کی ہمیشہ حفاظت کریں گے۔ کبھی ان پر حملہ نہیں کریں گے ۔ان لوگوں نے ا س کا فائدہ اٹھا یا اور مہیشاسر کا دھوکے سے قتل کر دیا۔ اس ہتیا کی خوشی میں یہ لوگ جشن مناتے ہیں ۔لیکن اس واقعہ کے پانچ دنوں بعد یعنی شرد پورنیما کے روز مہیشاسر کی پرجا نے ایک عظیم جلسہ منعقد کیا اور اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے کی قسم کھائی اور اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو دوبارہ حاصل کرنے کا عہد کیا۔اسی دن کی یاد میں ہمیں شہادت دیوس منانا چاہیے۔تمام دلت بھایئوں سے اپیل ہے کہ زیادہ سے زیادہ کی سنکھیا میں شرد پورنیماکے روز حسن چوک پر جمع ہوں اور اپنی کھوئی سنسکرتی کو پھر سے حاصل کرنے کا عہد لیں۔
شرد پورنیما کے دن بازار چوک پر خیمہ لگا یا گیا جس کی لمبائی ستّر فٹ اور چوڑائی پچاس فٹ رہی ہوگی۔خیمہ کے لیے نیلے رنگ کے کپڑ ے اور تھرماکول کا استعمال ہوا۔خیمے میں پھولوں سے آراستہ ایک بڑا سا منچ بنا۔ جگہ جگہ برقی قمقمے اور رالیکس لگائے گئے۔
تقریباً صبح گیارہ بجے سے ہونی تھی ۔چمراسر دل بل کے ساتھ پہنچا ۔ اپنی تلوار لینا نہیں بھولا تھا۔ سینا کے جوان بھی ساتھ تھے۔گائن منڈلی آدمی نامہ گاتی ہوئی گشت پر نکلی۔ ڈھولک کی تھاپ سے سماں بندھ گیا۔منڈلی چوپال پر واپس آئی تو بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔چوپال پرمہیشا سر سنگھرش واہنی کا بینر لگ گیا۔
منچ پر مہیشاسر کی بڑی سی تصویر لگائی گئی۔ گوپال رجک نے بھی اپنی موجودگی درج کی۔تقریب کی شروعات مہیشاسر کی تصویر کی گل پوشی سے ہوئی۔سب سے پہلے گوپال رجک نے تصویر کو پھولوں کی مالا پہنائی۔ پھر سب نے باری باری سے پھول چڑھائے۔ یہ جلسہ ایک طرح سے مہیشاسر پر مذاکرہ تھا۔مورتی پوجا کی اجازت نہیں تھی۔خواتین کی شرکت کافی تعداد میں تھی۔
آغاز میں انورادھا نے چمرا سر کا مختصر سا تعارف پیش کیا ۔
تعار ف کے بعد سیف نے امبیڈکر کے ایک مضمون کی قرأت کی ۔اس کے بعد اسکالر نے اظہار خیال کیا۔گوپال رجک نے بھی تقریر کی ۔دوپہر میں کھانے کا عمل شروع ہوا۔ کھانے میں سبزی پوری اور مٹھایئوں کے پیکٹ تقسیم کیے گئے۔ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد گولڈن علی نے قبائلی متھ پر مبنی نکّڑ ناٹک پیش کیا جس میں نیلما اور کاشف بھی شریک ہوئے ۔
جنگی لباس میں ملبوس جوانوں کی ٹولی۔۔۔۔دائرے میں چکّر کاٹ رہی ہے اور گانا گا رہی ہے۔ا آگے آگے ایک بزرگ آدی باسی گھر گھر گھس کر جاسوسی کر رہا ہے ۔ انہیں اپنے راجہ کی تلاش ہے جسے بندی بنا لیا گیا ہے۔ ایک گھر میں راجہ مل جاتا ہے۔ جنگجوئں کی ٹولی حملہ کرتی ہے اور اپنے راجہ کو چھڑا لیتی ہے۔
گاؤں والوں نے بہت دلچسپی سے ناٹک دیکھا۔
جلسہ کامیاب تھا گرچہ زیادہ لوگ نہیں جٹے تھے۔آخری دن چمراسر نے اعلان کیا کہ حسن گنج میں مہیشا سر کا مندر بھی بنے گا۔
خبر آئی کہ دوسرے شہروں میں بھی شہادت دیوس پر امن طریقے سے منایا گیا ہے۔گویا لہر آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔
ادارے کی رکنیت میں پھر اضافہ ہوا۔کچھ دولت مند دلت بھی ممبر بنے ۔ اچھی خاصی رقم چندے میں دی لیکن ریکسن بلڈرز کی طرف سے دس لاکھ کا چیک ایک خط کے ساتھ مو صول ہوا ۔ لکھا تھا کہ رقم کمپوٹر سینٹر کے لیے عنایت کی گئی ہے۔چمراسر کو حیرت ہوئی کہ یہ کون لوگ ہیں اور اچانک یہ نظر عنایت کیوں۔ سیف نے چھان بین کی تو کمپنی کے تار لکشمی کانت سے جڑے نظر آئے۔چمراسر نے فون پر رابطہ قائم کیا۔ لکشمی کانت نے قبول کیا کہ رقم اس نے بھجوائی ہے۔ وہ ادارے کی کارکردگی سے خوش ہے کہ غریب طلبا کے لیے کمپوٹر پروگرامنگ کا کورس شروع کیا ہے۔چمرا سر مسکرایا۔اس نے جوابی مسیج بھیجا ’’ آپ جب تک دوست ہیں آپ کا راز راز رہے گا ۔
دیوالی کے دن ایک نوجوان دفتر آیا۔نوجوان بہت مانوس لگا۔چمراسر کو محسوس ہوا جیسے اس کو کہیں دیکھا ہے۔لیکن ذہن پر بہت زور دینے کے باوجود بھی اسے کچھ یاد نہیں آیا۔ نوجوان کی رنگت سیاہ تھی اور بال گھنگھریالے تھے۔اس نے بتایا کہ وہ مان بھوم کا رہنے والا ہے تو چمرا سر چونک اٹھا۔ اس نے نوجوان کو غور سے دیکھا۔ اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔وہ جیسے کھو گیا اور ایک ٹک خلا میں کہیں گھورنے لگا۔۔۔۔ایک منظر نگاہوں میں ابھرا۔۔۔۔چھوٹے چھوٹے تکونی طاق۔۔۔۔چار ستون پر کھڑی چھت۔۔۔۔! چمرا سر اچانک بول اٹھا۔
گاماسر۔۔۔۔۔؟ ‘‘
نوجوان نے اثبات میں سر ہلایا اور چمراسر نے سہرن سی محسوس کی۔
چمرا سر کا چہرہ ایک پراسرار سی خوشی سے دمکنے لگا تھا۔اس نے بڑھ کر گاماسر کو گلے لگایا۔
’’ تمہیں یاد ہے تم نے کہا تھا دیوالی میں ملوگے۔‘‘
’’ میں آپ سے کبھی نہیں ملا ۔ ‘‘
’’ لیکن میں مل چکا ہوں۔‘‘ چمراسر مسکرایہ ۔
’’ تم نے بھینس کا پہلا دودھ مندر میں چڑھایا تھا ۔ ‘‘
گاماسر نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’ خوشی ہے کہ تم آئے۔‘‘
’’ میں کمپوٹر سینٹر میں داخلہ لینے آیا ہوں۔‘‘
چمرا سر نے اسے ایک فارم خانہ پری کے لیے دیا اور پوچھا کہ وہ رہتا کہاں ہے ۔گاماسر نے بتایا کہ وہ مان بھوم کے اسر جاتی سے آتا ہے لیکن کچھ سالوں سے اپنے خاندان کے ساتھ اسی شہر میں رہائش اختیار کی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ آج دیوالی کی شام گھر پر مہیشاسر شوک دیوس منایا جائے گا اور ان کی پوجا ہوگی۔ گاماسر نے چمراسر کو پوجا میں شریک ہونے کی دعوت دی جسے اس نے خوشی سے قبول کیا۔
چمرا سر رکمنی ، سیف اور دفتر کے عملے کے ساتھ شام گاماسر کے گھر پہنچا۔ایک بزرگ نے ان کا استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ مہیشاسر مندر کے پجاری ہیں۔
ایک طرف آنگن میں مٹّی کا چبوترہ بنا تھا جس پر کھپّر کی چھت تھی۔یہاں ایک بھینس بندھی جگالی کر رہی تھی۔ ناد میں ارنڈی کی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک طرف مٹّی کے چھوٹے چھوٹے دیے رکھے تھے۔ چبوترے کو بھی مٹّی سے لیپا گیا تھا۔گاماسر نے بتایا کہ ہم اماوس کے دن صبح صبح اپنے مویشی کو نہلاتے ہیں اور ان کے آگے ارنڈی کی شاخیں ڈالتے ہیں۔
بزرگ نے پوجا کی تیّاری شروع کی۔مٹّی کے دیے میں گرم گرم کرنج کا تیل ڈالا گیا۔ساتھ ہی ا رد کی دال بھی ڈالی گئی۔تیل کو سب نے ناف چھاتی اور کانوں پر ملا۔گاماسرنے بھینس کی سینگوںپر بھی تیل ملا۔چبوترے کے قریب سب جمع ہوئے ۔ پجاری نے منتر پڑھا۔گاماسر نے منتر کا مطلب سمجھایا۔ ’’ پُرکھوں کو تباہ کرنے والی تمام شیطانی طاقتوں سے ہمارا تحفّظ ہو ۔۔۔۔‘‘
پوجا میں عورتیں شامل نہیں تھیںلیکن گاماسر کی چھوٹی بچّی ساتھ تھی۔راؤ کے پتّے پر مرغ کا گلا دبا کر بلی دی گئی۔بچّوں کو خون کا ٹیکہ لگایا گیا۔پھر سب کو کھانے کے لیے کھیر ا پیش کیا گیا۔عورتوں نے ہڑیہ مشروب بھی تیّار کیا تھا۔سب کو ہڑیہ پروسا گیا۔بھینس کو بھی چارے کے ساتھ ہڑیہ پیش کیا گیا۔ انورادھا نے ہڑیہ سے پرہیز کیا۔
چمراسر وہاں سے لوٹا تو اس پر مدہوشی سی طاری تھی۔گاماسر سے دوستی نے اسے ایک نئی توانائی سے سرشار کیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ مہیشاسر آندولن آگے بڑھے گا اور براہمن واد سے دلتوں کا موہ بھنگ ہوگا ۔
مہیشاسر کے شہادت دیوس سے سورن طبقے میں بے چینی تھی۔ انہیں اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ دلتوں میں ایک نئی طاقت ابھر رہی ہے۔اجگر منڈلی سوچنے کے لیے مجبور تھی کہ اس نئی طاقت کو کس طرح کاونٹر کیا جائے۔اس دوران گاماسر نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی ۔
’’ شپرنکھا بہوجن سماج کی بیٹی تھی۔لکشمن نے اس کے ناک اور کان کاٹے اور تم جشن مناتے ہو۔ یہ کھیل اب بند ہوناچاہیے۔ہم تمہیں جشن منانے نہیں دیں گے۔ ہم اب مہیشا سر شہادت دیوس منایں گے۔مہیشا سر اور راون کا ہر سال اپمان کیا جاتا ہے جو برداشت سے باہر ہے ۔‘‘
واویلا مچ گیا۔ اس پوسٹ نے آگ میں تیل کا کام کیا۔سدھیر پاٹھک کی سربراہی میں اجگر منڈلی نعرے لگاتی ہوئی سڑکوں پر اتر آئی۔
مہیشاسر کی اولادوں کو
جوتے مارو سالوں کو
سدامہ چوک پہنچ کر جلوس نے امبیڈکر کی مورتی پر جوتے برسائے ۔وہاں پر ایک موچی کا چھوٹا سا ٹھکانہ تھا جہاں بیٹھ کر وہ جوتے گانٹھتا تھا۔جلوس نے اسے پیٹ پیٹ کر ادھ مروا کر دیا۔ایک دو مکانوں پر بھی پتھر برسائے اور نعرہ لگاتے ہوئے تھانہ پہنچے۔ سدھیر پاٹھک نے تھانے میں چمراسر اور گاماسر کے خلاف سانحہ درج کرایا کہ دیوی ماں کی بے عزتی کی اور ہمارے مذہب پر کیچڑ اچھالا۔دونوں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو گیا۔ ایک سورن افسر پستول لہراتے ہوئے چلّایا کہ ہم تیرا انکاونٹر کر دیں گے۔ آئی جی نے دھمکی دی کہ ایسا سبق سکھائیں گے کہ شہادت دیوس بھول جائے گا۔
چمراسر اور گاماسر گرفتار ہو گئے لیکن ان کی ٹیم نے جوابی کاروائی میں شہر بند کا علان کیا اور ر سڑکوں پر اتر آئے ۔ مہیشاسر زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا جلوس تھانے پہنچا ۔ انورادھا نے مجمع سے خطاب کیا۔
دوستو !
یہ تہذیبی جنگ ہے ۔ اسر ہی یہاں کے اوریجنل باشندے ہیں۔یہ دلت پچھڑے اور آدی باسی ہیں جن کی تہذیب کو آرین نے ملیا میٹ کرسماجی معاشی اور سیاسی دسترس حاصل کیا اور اپنی تہذیب تھوپی۔تہذیبی غلامی سماجی سیاسی اور معاشی غلامی کو جلا بخشتی ہے ۔ضرورت ہے تہذیبی غلامی کے خلاف جنگ کرنے کی ۔مہیشا سر آندولن تہذیبی غلامی سے بغاوت کا اعلان ہے ۔راجہ مہیشاسر نے ہی ان کی قومیت کو چیلنج کیا تھا جسے یہ ابھی تک بھلا نہیں سکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مہیشاسر کا نام لیتے ہی ان کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں ۔انہوں نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ یہ ملک سب کا ہے اور سب کو جینے کا اختیار ہے۔ آئین سکشن ۲۵ ہر کسی کو دھرم اور عقیدے کی آزادی دیتا ہے۔کسی کو مہیشاسر پر عقیدہ ہے تو اس کی تبلیغ کیوں نہیں کرے گا؟میں پوچھتی ہوں سوورنوںکی ملک پرستی کیا ہے؟ ان کی ملک پرستی ہے سوورن جاتی کی انانیت کو قائم رکھنا۔یہ قومیت کا ٹکراؤ ہے کہ ملک ایک قوم نہیں ہو کر کئی قوم میں بٹ گیا ہے۔ایک کی قومیت دوسرے کی قومیت کو ہیچ نظروں سے دیکھتی ہے ۔آدی باسی اور پچھڑوں کو سوورن قومیت آدمی ہی نہیں مانتی ۔سوورن حکومت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔انہیں کس نے حق دیا کہ امبیڈکر صاحب کی بے عزّتی کریں ؟ کیا یہ ملک ہمارا نہیںہے صرف ان کاہے ؟ ہم ان پر ایف آئی آر درج کریں گے۔ہم ان کی گرفتاری کی مانگ کرتے ہیں۔
سیف نے مائک ہاتھ میں لیا اور زور دار آواز میں بھیڑ سے مخاطب ہوا۔
’’ہمارا سانحہ درج نہیں ہوا تو دھرنے پر بیٹھیں گے۔‘‘
’’ بولو مہیشاسر کی جے ۔۔۔۔‘‘
بھیڑ نعرے لگانے لگی ۔ تھانے دار نے سدھیر پاٹھک کے خلاف سانحہ درج کیا۔اس کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہوا۔بھانجی نے چمراسر کی مدد کی۔ گاماسر اور چمراسر کو ضمانت پر چھڑا لیا۔اجگر ٹولی سمجھوتہ چاہتی تھی۔ چمراسر بھی یہی چاہتا تھا۔ دونوں نے اپنے کیس واپس لے لیے ۔
چمراسر بہت خوش تھا۔ بھانجی پر اس کا اعتماد بڑھ گیالیکن انورادھا اداس تھی۔ چمراسر نے اداسی کا سبب پوچھا تو پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’ بل سے نہیں مار سکتے تو چھل سے مارو۔۔۔ سبھی چھل سے مارے گئے۔۔۔ ۔۔ بھیشم پتامہ۔۔۔۔کرن۔۔۔۔۔
سمجھا نہیں۔‘‘ چمرا سر نے کچھ جھنجھلا کر کہا۔
’’ تمہیں پانی میں اترتا ہوا دیکھ رہی ہوں۔ ‘‘
’’ اچھا۔۔۔اور کیا دیکھا ؟ ‘‘
’’ پہلے بتا چکی ہوں۔‘‘
’’ کیا ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ایک عورت نے پانی میں پیتل کا مگر مچھ چھوڑا۔۔۔۔۔‘‘
’’ اور وہ زندہ مگر مچھ بن گیا۔‘‘
’’ مگر مچھ تو یہاں ہے۔ ‘‘ چمرا سر نے جیب سے موبائل نکال کر ایڈمٹ کارڈ کا فوٹو دکھایا۔
’’ یہ بھی چھل ہے۔ ‘‘ انورادھا مسکرائی۔
’’ بالکل۔۔۔اسی چھل نے انہیں پراست کیا ہے۔یہ میرے خلاف نہیں جا سکتے۔‘‘
انورادھا خاموش ہوگئی اور دور خلاوں میں کہیں گھورنے لگی۔
چمرا سر کا موبائل بج اٹھا۔بھانجی کی کال تھی۔
’’ کیسے یاد کیا ؟ ‘‘
’’ آج میرا جنم دن ہے ۔‘‘
’’ مبارک ! ‘‘
’’آج شام سات بجے ہوٹل شیراٹن میں آو ٔ۔‘‘
’’ او کے ۔ ‘‘
سلسلہ ادھر سے منقطہ ہو گیا۔
’’ کس کا فون تھا ؟ ‘‘ انورادھا نے پوچھا۔
’’ مگرمچھ والی کا۔ اس کا برتھ ڈے ہے۔ مجھے بلایا ہے۔‘‘
’’ اکیلے مت جاؤ۔‘‘
’’ کچھ نہیں ہوگا ۔ ‘‘
’’ گاماسر اور سیف کو ساتھ لے لو ۔ ‘‘
’’ انہیں بلایا نہیں ہے تو کیسے جائیں گے؟ ‘‘
’’ مجھے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘
’’ سبھی چھل سے مارے گئے ۔ ‘‘
چمرا سر مسکرا کر رہ گیا۔
چمرا سر سات بجے شام ہوٹل شیراٹن پہنچا ۔بھانجی نے اس کا استقبال کیا ۔ لکشمی کانت بھی موجود تھا ۔
’’ بہت اونچے اڑ رہے ہو آج کل۔۔۔۔؟ ‘‘ لکشمی کانت نے اس کو مخاطب کیا۔
چمراسر مسکرا کر رہ گیا۔
چمرا سر ایک بے چینی سی محسوس کر رہا تھا۔اس محفل میں اسے سبھی اجنبی لگ رہے تھے۔اسے لگا وہ دشمنوں میں گھر گیا ہے۔ لیکن بھانجی اس کی دلجوئی میں لگی تھی۔وہ اس لے کر اوپر کمرے میں آئی۔
’’ تمہارے لیے خاص ڈرنک کا انتظا م ہے ۔‘‘ بھانجی بہت ادا سے بولی۔
’’ اچھا۔۔۔۔؟‘‘ چمرا سر بے دلی دے بولا۔
بھانجی نے انیکس کے آرڈر دیے اور وہسکی کی بوتل نکالی جس پرپرتگال کا لیبل چسپاں تھا۔
’’ ماما نے خاص پرتگال سے منگوائی ہے۔ سو سال پرانی شراب ہے ۔‘‘
’’ آج تمہارا ساتھ دونگی۔ ‘‘ بھانجی نے اپنے لیے بھی پیگ بنایا۔
’’ تمہارے لیے پٹیالہ پیگ بناؤں۔‘‘
’’ یہ بٹیر کے کباب جو تمہیں بے حد پسند ہیں ۔‘‘
’’ تمہارے یہاں کلیجی نکال لی جاتی ہے۔‘‘ چمرا سر مسکرایا ۔
’’ اب سیاست نہیں ۔میں یہاں انجوائے کرنے آئی ہوں۔‘‘
بھانجی نے اپنا جام اس کے جام سے ٹکرایا۔
’’ تمہاری کامیابی اور صحت کے نام۔۔۔۔‘‘
چمرا سر نے پہلا گھونٹ بھرا۔شراب کا ذائقہ عام وہسکی سے الگ تھا۔چمراسر نے دوتین لمبے گھونٹ بھرے۔۔۔۔اس کو محسوس ہوا کہ شراب پہلے پیگ میں ہی چڑھنے لگی ہے ۔ اسے انورادھا کی یاد آئی۔اسے لگا وہ پانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بھانجی نے دوسرا پیگ بنایا۔۔۔۔پھر تیسرا۔۔۔۔
اورچمرا سر کا نشہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔آنکھیں بند ہو گئیں۔ پپوٹے بھاری ہو گئے۔اس کو محسوس ہوا کہ وہ پانی میں پوری طرح اتر چکا ہے۔
اور بھانجی نے جیب سے پیتل کا مگرمچھ نکالا اور پانی میں چھوڑدیا۔پیتل کا مگر مچھ زندہ مگر مچھ میں بدل گیا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔کسی طرح اس نے آنکھیں کھولیں۔بجلی کی طرح کوئی چیز نگاہوں میں چمکی اور دوسرے ہی لمحے تیز چمچماتا ہوا خنجر اس کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا۔اس کے سینے سے دل خراش چیخ نکلی۔ کرسی سے اٹھنے کی کوشش میں وہ فرش پر گر پڑا اور ذبح کیے ہوئے بٹیر کی طرح تڑپنے لگا۔
دوسرے دن چمرا سر کی لاش بورے میں بند پانی میں بہتی ہوئی ملی۔
دلتوں میں کہرام مچ گیا۔انوارادھا جیسے سکتے میں آگئی۔اس کے ہونٹ سل گئے۔بہت بڑی تعداد میں دلت اس کی آخری رسومات میں شریک ہوئے لیکن چمراسر کو جلایا نہیں گیا۔ اس کی تدفین دفتر کے احاطے میں ہوئی۔
سیف نے تعزیاتی نشست منعقد کی۔گاما سر کو چمراسر کی کرسی پر بٹھایا ۔ چمراسر نے اتنا ہی کہا :
’’ یہ لڑائی جاری رہے گی۔ چمرا سر اپنے نظریات اور افکار کے ساتھ ہمیشہ ہمارے درمیان موجود رہیں گے۔‘‘
سب نے ڈیڑھ منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
گاما سر نے اعلان کیا کہ سب گاندھی چوک پر دھرنا پربیٹھیں گے۔دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قاتل گرفتار نہیں ہوتا ہے۔
شموئل احمد کی مطبوعہ کتب
افسانے
1۔ بگولے 1988ء
2۔ سنگھار دان 1996ء
3۔ القمبوس کی گردن 2002ء
4۔ عنکبوت 2010ء
5۔ نملوس کا گناہ [انتخاب] 2017ء
6۔ کوچۂ قاتل کی طرف 2019ء
ناول
1۔ ندی 1993ء
2۔ مہاماری 2003ء
3۔ گرداب 2016ء
خودنوشت
1۔ اے دلِ آوارہ [سوانحی کولاژ] 2015ء
دیگر
1۔ اردو کی نفسیاتی کہانیاں(ترتیب) 2014ء
2۔ پاکستان:ادب کے آئینے میں(ترتیب) 2014ء
3۔ کیکٹس کے پھول(تنقید) 2018ء
4۔ انگریزی میں ناول ۔ River
5 ۔ انگریزی میں افسانوں کا مجموعہ ۔ The Dressing Table
ہندی میں بھی تمام ناول اور افسانے۔
6 ۔ گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے ترجمہ ( ساہتیہ اکاڈمی۔نئی دہلی )
7 ۔ پنجابی زبان میں نمائندہ کہانیوں کا انتخاب ۔ مرگ ترشنا۔
8 ۔ ٹیلی فلمیں ۔ مرگ ترشنا ، آنگن کا پیڑ ، کاغذی پیراہن
اعزازات ؛ مجلس فروغ اردو دوحہ قطر کا بین ا لاقوامی اعزازا ۔ 2012ء
اتر پردیش اردو اکاڈمی لکھنئو اور بہار اردو اکاڈمی پٹنہ کے اعزازات۔