شام ہونے لگی تھی سورج نے آہستہ آہستہ اپنی دھوپ کی چادر سمیٹنا شروع کی۔ بس درختوں کی پھنگیوں نے دھوپ کا دامن پکڑ رکھّا تھا۔ گرد اور دھول سے ماحول میں ایک عجیب سی گھٹن اور بیزاری کا احساس جاگ اٹھا تھا، بس اسٹینڈ پر گرد اور ڈیزل کی کی بوکی وجہ سے سانس لینا محال تھا۔ آج پھر دوپہر والی بس چھوٹ گئی اس نے کوفت سے اس پاس کے ماحول پر نظر ڈالی،یہ بس اسٹینڈ گاؤں کے باہر پکّی سڑک پر بنا تھا، جہاں سے لوگوں کو کام لئیے شہر جانا آسان ہو گیا تھا۔ شام ہوتے ہوتے سارے لوگ واپس گاؤں آ جاتے تھے۔ وہ سارے کام نپٹا کر دوپہر کیبس سے شہر جاتی، پھول بیچتی، پھولوں کے گجرے بناتی اور وہ بھی بیچ آتی شام کو خالی ٹوکری اور تھوڑے سے پیسے لے کر واپس آ جاتی۔ ۔ چند دنوں کا سہارا ہو جاتا۔ جب سے گود والا بچہ گھٹنیوں چلنے لگا تھا اس کو مائی نزیراں کے پاس چھوڑ کر روز ہی شہر کا چکّر لگا لیتی۔ ۔ ۔ مگر نکلتے نکلتے اکثر دیر بھی ہو جاتی تھی اور آج بھی یہی ہوا۔ ۔ ۔ ۔ گاؤں میں تو کوئی پھول لیتا ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ شاید پھولوں کی ضرورت ختم ہو گئی تھی یا ان کی جیب اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنی گھر والی کے لئیے ایک گجرا ہی خرید لیں۔ ۔ ۔ وہ پھولوں کی بھری ٹوکری لئیے،بس اسٹینڈ کے پاس بہت دیر سر جھکائے بیٹھی رہی، بھوک سے اس کا سر چکرا رہا تھا بڑی مشکل سے اس نے اٹھ کر پاس لگے ہنڈ پمپ سے چلّو بھر کے پانی پیا اور شہر کے رستے کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ آج پھر واپس گھر جانا پڑے گا بس تو چھوٹ چکی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ پھولوں سے بھری ٹوکری؟؟؟ کل ان باسی پھولوں کو کون خریدے گا؟ آج کل تو لوگ ویسے ہی پھول کم لیتے ہیں۔ ۔ ۔ شاید اب لوگ ان کی قدر کرنا بھول گئے ہیں۔ ۔ ۔ اس نے جھنجھلا کر پوری ٹوکری پاس لگے ہوئے پیڑ کے نیچے الٹ دی اور رات اگے بڑھ آئی تھی جانے والے واپس آنے لگے ڈرائیور۔ ۔ مزدور اور دوسرے مسافر دھیرے دھیرے باتیں کرتے ہوئے اپنے اپنے گھر کی جانب جانے لگے۔ اّکا دکّا لوگ آس پاس کی دوکانوں سے بیڑی سگریٹ لینے کے لئیے رک گئے تھے ایک ڈرائیور پیپل کے گھنے درخت کے پاس سے گزرا، اس نے پتھّر پر پڑے ہوئے تازے پھول دیکھے تو کچھ حیران ہوا۔ ۔ ۔ دل ہی دل میں اپنے لئیے دعائیں مانگ کر اگے بڑھ گیا۔ ایک شخص نے رک کر ان پھولوں کو دیکھا اور پاس کی دوکان سے ایک اگربتی لے کر وہیں پھولوں میں اٹکا دی اور اپنے اچھّے دنوں کی دعا مانگ کر اپنے گھر کی راہ ہو لیا۔ ۔ ۔ دوسرے دن صبح صبح کئی لوگوں نے ان پھولوں اور اگربتّی کو دیکھا۔ ۔ تو حیران ہوئے۔ ایک نے تازے پھول رکھ دے اور دوسرے نے اگربتّی اور شمع جلادی۔ ۔ ۔ شام کو جب سب جمع ہوئے تو ان پھولوں اور اگربتیوں کی بات چلی۔ ۔ ۔ ۔ بہت حیران تھے وہ لوگ کچھ نے بتاشے چڑھائے اورکچھ نے پھول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روشنیاں بھی جلائی گئیں۔ ۔ ۔ دعائیں بھی مانگی گئیں۔ ۔ بات گھروں تک پہنچ گئی۔ ۔ ۔ عورتیں جوق در جوق پیپل کے پیڑ کے نیچے جمع ہونے لگیں۔ ۔ ۔ وہاں کھڑے ہو کر دکھڑے روئے جاتے اگر بتّیاں جلائی جاتیں اور تھوڑا سا سکون لے کر واپس چلے جاتے۔ کئی دنوں تک کہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اب تو آس پاس کی دوکان کے لوگ خود ہی روشنی اور خوشبو کا انتظام کر دیتے تھے اور تو اور۔ ۔ ۔ اب ’’پیپل والے بابا‘‘ کے قصے بھی سنائے جانے لگے۔ ۔ ایسے ہی ایک بار بمبئی میں سمندر کا پانی میٹھا ہو گیا تھا، کئی مریض وہاں جا کر ٹھیک ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ دیکھا جائے تو وہاں بھی سوائے عقیدے کے کچھ نہیں تھا۔ ۔ ۔ یوں ہی دیوار پر ’’سائیں بابا‘‘ کی تصویر ابھر آئی تھی۔ ۔ کرشن جی را توں رات دو دھ پینے لگے تھے۔ سب ایک کمزور عقیدے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ۔ ۔ اب یہاں کے قصّے بھی یوں ہی مشہورہوئے۔ ۔ ۔ کہ جب پھول دیکھے گئے تو بالکل تازے تھے اور اچانک اُگ آئے تھے کچھ لوگوں نے آوازیں سنی، عجیب عجیب قصّے کہانیاں آس پاس کے علاقوں میں گشت کرنے لگیں۔ کئی دنوں کی میٹنگ کے بعد طے پایا کہ باقاعدہ مزار بنایا جائے، ایک چہار دیواری کھینچ کر اس جگہ کو محفوظ کرنا ہے۔ ۔ بس لوگ لگ گئے۔ ۔ کسی نے اینٹوں کا انتظام کیا کسی نے سیمنٹ کا۔ ۔ ۔ ۔ سبھی نے حسب حیثیت پیسوں کا انتظام کیا۔ اور اچھی خاصی عمارت بنکر تیّار ہو گئی۔ ۔ باقاعدہ چادریں چڑھنے لگیں، جس روز عمارت بنی اس دن وہاں ایک جشن ہوا۔ بسوں کی گھڑ گھڑاہٹ لوگوں کو پسند نہیں آئی تو ایک درخواست دے کر بس اسٹینڈ وہاں سے ہٹا دیا گیا، اس پاس کی دوکانیں بھی ہٹانی پڑیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کا بہت نقصان بھی ہوا۔ لیکن ایک ہستی ایسی تھی جس کو مزار بننے سے بہت فائدہ ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو اب شہر جانے والی بس کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا کیونکہ اس کے سارے پھول اسی مزار پر بِک جاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...