جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، چماری کا تعلق ہندوستان کے ساٹھ لاکھ اچھوتوں سے تھا۔ اپنی بیوی کے ساتھ، کہ جس کے چہرے پر غربت کے گہرے نقوش تھے اور اس کے دو بچے جو اپنی ماں کی پھٹی ہوئی قمیض تھامے ہوئے تھے، اس نے مجھ سے نوکری مانگی۔ چماری چھوٹی جسامت کا اور کمزور انسان تھا۔ چونکہ وہ شیڈز میں کام کے قابل نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے اور اس کی بیوی کو کوئلہ ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ اگلی صبح میں نے انہیں ٹوکریاں اور بیلچے تھمائے اور انہوں نے اپنی طاقت سے بہت باہر والا کام شروع کیا۔ شام کو مجھے ان کی مدد کے لیے اضافی بندے لگانے پڑے ورنہ پچاس بوگیوں کا کام ان کی وجہ سے رک جاتا اور کئی سو مزدور متاثر ہوتے۔ایک دو روز تک چماری اور اس کی بیوی اپنا کام پوری محنت سے کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ تیسری صبح ان کے چھالوں والے ہاتھ دھجیوں میں لپٹے تھے اور وہ کام دیے جانے کے منتظر تھے کہ میں نے چماری سے پوچھا کہ آیا وہ لکھ پڑھ سکتا ہے۔اس پر وہ بولا کہ اسے تھوڑی بہت ہندی آتی ہے۔ میں نے اسے ہدایت کی کہ ٹوکریاں اور بیلچے سٹور میں جمع کرا کے میرے دفتر مزید احکامات کے لیے آئے۔ کچھ دن قبل میں نےا یک نگران فارغ کیا تھا کہ اس کا رویہ بہت غیر مناسب تھا۔ یہ واحد بندہ تھا جسے میں نے نوکری سے نکالا۔ اب میں نے دیکھا کہ چماری اور اس کی بیوی کوئلے کا کام نہیں کر سکتے، سو میں نے چماری کو تجربے کے طور پر نگران بنانے کا فیصلہ کیا۔
چماری کو خوف ہوا کہ میں شاید اسے نوکری سے نکال رہا ہوں، مگر جب میں نے اسے بہی کھاتے کا رجسٹر تھمایا اور پنسل دے کر بولا کہ جا کر براڈ گیج بوگیوں کی گنتی کرے جن سے کوئلے کو اتارنا تھا اور ہر بوگی پر کام کرنے والے مرد اور عورت کا نام بھی لکھ کر لائے۔ انتہائی فخر سے وہ میرے دفتر سے نکلا۔ نصف گھنٹے بعد وہ مطلوبہ معلومات کے ساتھ واپس لوٹا اور یہ سب تفصیلات انتہائی صاف طور پر تحریر تھیں۔ جب میں نے ان کی تصدیق کر لی تو میں نے یہ رجسٹر اسے تھما دیا اور بتایا کہ وہ کوئلے والے عملے کا نگران بن گیا ہے جو اس وقت دو سو مرد وز ن پر مشتمل تھا۔ پھر میں نے اسے اس کی ذمہ داریاں تفصیل سے سمجھائیں۔ پیدائش سے ذلت کا شکار ہونےو الا یہ شخص ایک گھنٹہ قبل ہر اعتبار سے ناکام شمار ہوتا تھا، اب میرے دفتر سے نکلا تو رجسٹر اس کی بغل میں، پنسل کان کے پیچھے اڑسی ہوئی اور زندگی میں پہلی بار سر فخر سے بلند تھا۔
میں نے آج تک چماری سے زیادہ محنتی اور محتاط بندہ ملازم نہیں رکھا۔ کوئلے کے عملے میں ہر ذات بشمول برہمن، چھتری اور ٹھاکر مرد اور عورتیں کام کرتے تھے اور کبھی چماری نے کسی اونچی ذات والے کی عزت میں کمی نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی نے اس کے احکامات کے خلاف کچھ کیا۔ اس کے ذمے عملے کے ہر فرد کے کام کی تفصیل لکھنا تھی اور بیس سال اس نے میرے ساتھ کام کیا اور کبھی اس کے لکھے ہوئے کام پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا۔
ہر اتوار کی شام میں سٹول پر اور چماری چٹائی پر بیٹھتے اور ہمارے سامنے تانبے کی پائیوں کا اونچا ڈھیر لگا ہوتا تھا اور کالک سے لپے ہوئے چہروں والے مرد و زن پورے ہفتے کی مزددوری لینے کے منتظر دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے۔ مجھے اس وقت ان لوگوں کے جیسی ہی خوشی ہوتی کہ ان لوگوں کی یہ کمائی خون پسینے کی کمائی ہوتی تھی۔ سو انہیں لیتے ہوئے جتنی خوشی ہوتی، اتنی خوشی مجھے دیتے ہوئے ہوتی۔
سارا ہفتہ یہ لوگ نصف میل طویل پلیٹ فارم پر کام کرتے اور بعض میرے مہیا کردہ کوارٹروں میں رہتے تو بعض کا قیام پاس کے دیہاتوں میں ہوتا۔ سو سماجی سرگرمیوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ اتوار کی شام ان کی یہ کمی کسی حد تک پوری ہو جاتی۔ محنتی لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں کہ ان کے پاس فرضی تکالیف اور مشکلات کے بارے سوچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ فرضی مشکلات حقیقی مشکلات سے ہمیشہ بری ہوتی ہیں۔ میرے ملازمین انتہائی غریب تھے اور ان کی اپنی مشکلات ہوتی تھیں مگر وہ پھر بھی ہمیشہ خوش رہتے اور چونکہ مجھے ان کی زبان آتی تھی، اس لیے میں ان کی گفتگو سمجھتا اور ان کے لطائف سے حظ اٹھاتا۔ ریلوے مجھے وزن کے حساب سے ادائیگی کرتی تھی اور میں ان لوگوں کو چاہے وہ کوئلے پر کام کرتے ہوں یا پھر شیڈز پر، بوگیوں کے حساب سے ادائیگی کرتا تھا۔ میں ہر عملے کے معاوضے کی ادائیگی ان کے نگران کو کرتا جو آگے رقم تقسیم کر دیتا۔ مگر کوئلے والے عملے کی ادائیگی میں الگ سے اور خود کرتا تھا۔ چماری کو میں نوٹ دیتا جو بازار سے تڑوا لاتا اور اتوار کی شام کو بیٹھ کر ہم مزدوری تقسیم کرتے۔ پیسوں کا ڈھیر سامنے رکھ کر چماری متعلقہ بندے یا بندی کا نام پکارتا اور میں فوراً ذہن میں اس کے پورے ہفتے کے کام کا اندازہ لگا کر معاوضہ اسے دے دیتا۔ ہر بوگی پر میں چالیس پیسے یعنی دس آنے دیتا تھا۔ بعض اوقات پیسے پوری طرح تقسیم نہ ہو پاتے کہ کام کرنے والوں کی تعداد کچھ ایسی ہوتی تو ایک پیسہ اضافی دے دیتا تھا جس سے ایک بندہ نمک لے کر سب میں بانٹ دیتا۔ اس نظام سے ہر کوئی خوش تھا اور اگرچہ کام بہت مشکل اور دن طویل ہوتے، مگر کھیت میں کام کی نسبت انہیں تین گنا زیادہ معاوضہ ملتا اور کھیت کا کام موسمی اور عارضی تھا جبکہ میرا کام مستقل۔
میں نے چماری کی ابتدائی تنخواہ پندرہ روپے ماہوار مقرر کی اور بتدریج بڑھاتے ہوئے چالیس تک لے گیا جو اس وقت ریلوے کے زیادہ تر کلرکوں سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ میں نے اسے شیڈز میں کام کرنے کے لیے دس افراد مزید بھرتی کرنے کا بھی اختیار دے دیا تھا۔ ہندوستان میں کسی انسان کی وقعت اس کی آمدنی اور اخراجات کی بنا پر ہوتی ہے۔ چماری کو اس کی آمدنی کی وجہ سے بہت عزت ملتی تھی مگر اس کے اخراجات کی بنا پر اسے اور زیادہ عزت ملتی تھی۔ بھوکا وقت گزارنے کی وجہ سے چماری کو بھوک کا علم تھا اور اس نے یہ اپنا نصب العین بنا لیا تھا کہ اس کے اردگرد کوئی انسان بھوکا نہیں رہے گا۔ اس کا دروازہ اس کی ذات کے ہر فرد کے لیے ہر وقت کھلا تھا اور وہ کسی بھی وقت آ کر کھانا کھا سکتے تھے۔ جن کی ذات اس بات کی اجازت نہ دیتی کہ وہ اچھوت کے ہاتھ کا پکا کھا سکیں، چماری انہیں کھانے کا سامان دے دیتا اور وہ اپنا کھانا خود بنا لیتے۔ ایک بار چماری کی بیوی کے کہنے پر میں نے چماری سے اس کے اخراجات کے بارے بات کی تو اس نے بتایا کہ جب میں نے اسے پندرہ روپے ماہانہ پر بھرتی کیا تھا تو وہ تنخواہ اس کے پورے خاندان کے لیے کافی تھی۔ اس سے زیادہ پیسے سے اس کی بیوی فضول خرچ ہو جاتی کیونکہ اب بھی وہ مستقل سناتی رہتی تھی کہ اس کے ماتحتوں کا لباس اس سے بہتر ہوتا ہے جبکہ چماری کا خیال تھا کہ غریبوں پر صرف کی گئی رقم نئے کپڑوں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ پھر اس نے اپنی دلیل کی مضبوطی کی خاطر کہا، “دیکھیں مہاراج، آپ کتنے برسوں سے ایک ہی جوڑا پہن رہے ہیں۔ اگر آپ پہن سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟” اس نے مجھے پہلے روز سے مہاراج کہنا شروع کیا تھا اور آخر دم تک یہی کہتا رہا۔ مگر اسے غلط فہمی ہوئی تھی کیونکہ میرے پاس ایک ہی جیسے دو جوڑے تھے۔ ایک دھلنے جاتا تو میں دوسرا استعمال کرتا تھا۔
مجھے موکمہ گھاٹ پر سولہ سال ہو گئے تھے کہ قیصر ویلہم نے جنگ چھیڑ دی۔ ریلوے والے جنگ میں میری شمولیت کے مخالف تھے مگر جب میں نے معاہدہ جاری رکھنے کا وعدہ کیا تو وہ مان گئے۔ جب لوگوں کو جمع کر کے میں نے بات کی تو انہیں جنگ کی مشکلات کی سمجھ نہیں تھی۔ تاہم ہر ایک میری غیر موجودگی میں اپنا کام کرنے کو تیار تھا اور جتنے برس میں نے جنگ میں گزارے، موکمہ گھاٹ پر کام ایک بار بھی نہیں رکا اور اس کی وجہ ان کی وفاداری ہے۔ پہلے میں فرانس اور پھر وزیرستان میں جنگ لڑتا رہا۔ رام سرن میری عدم موجودگی میں میری ذمہ داریاں پوری کرتا رہا اور جب چار سال بعد لوٹ کر میں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو لوگوں کی محبت سے مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں ایک دن ہی ان سے دور رہا ہوں۔ میری بحفاظت واپسی کو انہوں نے مندروں، مسجدوں اور درگاہوں میں مانگی گئی میری سلامتی کی دعاؤں سے منسوب کیا۔
میری واپسی کے بعد موسمِ گرما میں پورے بنگال میں ہیضہ اپنے عروج پر تھا ایک وقت ایسا بھی تھا کہ میرے عملے میں دو عورتیں اور ایک مرد بیک وقت اس سے متاثر ہوئے۔ چماری اور میں باری باری ان کی دیکھ بھال کرتے رہے اور ان کی ہمت بڑھاتے رہتے اور خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ اس سے کچھ دن بعد رات کو میں نے برآمدے میں آواز سنی۔ سٹورر ترقی پا کر یہاں سے چلا گیا تھا اور پورا بنگلہ میرے استعمال میں رہتا تھا۔ جواب ملا کہ میں چماری کی بیوی ہوں اور آپ کو بتانے آئی ہوں کہ چماری کو ہیضہ ہو گیا ہے۔ اسے وہیں رکنے کا کہہ کر میں جلدی جلدی کپڑے بدلے اور لالٹین جلا کر لاٹھی اٹھائی اور چل پڑا۔ موکمہ گھاٹ میں زہریلے سانپ بکثرت تھے۔
چماری سارا دن کام کرنے کے بعد سہ پہر کو میرے ساتھ پاس والے دیہات گیا تھا جہاں ہماری ایک مزدور خاتون سخت بیمار تھی۔ پربتی تین بچوں کی ماں اور بیوہ تھی۔ موکمہ گھاٹ پر جب میں نے کام شروع کیا تھا تو یہ پہلی خاتون تھی جس نے میرے لیے کام کرنے کی حامی بھری تھی اور پورے بیس سال اسی لگن اور تندہی سے کام کرتی رہی۔ ہمیشہ خوش رہتی اور ہر ایک کی مدد کرتی تھی۔ اتوار کی شام کو ہمارے “جلسے” کی روح ہوتی تھی۔ بیوہ ہونے کی وجہ سے انتہائی محتاط زندگی گزارتی تھی۔ جس بچے نے اس کی بیماری کی خبر لا کر دی، وہ بیماری کی نوعیت کے بارے کچھ نہ کہہ سکا۔ سو میں نے چند ٹوٹکے اپنے ساتھ لیے اور چماری کو بلا کر اس گاؤں کو روانہ ہو گیا۔ پربتی فرش پر پڑی تھی اور اس کا سر اس کی کھچڑی بالوں والی ماں کی گود میں رکھا تھا۔ وہ تشنج کا پہلا مریض تھی جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھا تھا اور خلوصِ دل سے دعا ہے کہ دوبارہ کبھی ایسا منظر نہ دیکھنے کو ملے۔ پربتی کے دانت کسی فلم سٹار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتے مگر اب کسی نے پانی پلانے کی خاطر اس کا منہ کھولنے کے دوران توڑ دیے تھے۔ وہ ہوش میں تھی مگر بولنے کے قابل نہیں تھی اور اس کی تکلیف کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ اس وقت میں محض اس کے گلے کے عضلات کی مالش ہی کر سکتا تھا تاکہ اس کا سانس بحال ہو، سو میں نے مالش شروع کر دی۔ اسی دوران اس کے جسم کو ایسا زوردار جھٹکا لگا جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ عین اسی وقت اس کا دل رک گیا اور اس کی تکلیف ختم ہو گئی۔ اس کو جلانے کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں جب چماری اور میں خاموشی سے واپس لوٹے۔ اگرچہ اس اونچی ذات کی عورت اور ہمارے درمیان ذات پات کی وسیع خلیج حائل تھی، مگر ہم سبھی اس سے لگاؤ رکھتے تھے اور ہمیں علم تھا کہ ہم اسے کتنا یاد کریں گے۔ اس کے بعد مجھے سماریہ گھاٹ جانا پڑا اور چماری کو پھر نہیں دیکھا۔ اب رات کو اس کی بیوی اس کی بیماری کی خبر لائی تھی۔
ہم ہندوستان کے باشندے ہیضے سے خوف کھاتے اور نفرت کرتے ہیں مگر قسمت پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے شاید ہمیں اس بیماری کے لاحق ہونے سے اندیشے سے ڈر نہیں لگتا۔ سو مجھے یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی کہ چماری کے بستر کے اردگرد بہت سارے لوگ بیٹھے تھے۔ کمرے میں روشنی کم تھی مگر شاید میرے لالٹین کی روشنی میں چماری نے مجھے پہچان لیا اور بولا، “صاحب بے وقت تکلیف دینے کے لیے اس خاتون کو معاف کر دیجیے (رات کے دو بج رہے تھے)، میں نے اسے منع بھی کیا تھا کہ صبح تک رک جائے مگر اس نے میری بات نہیں مانی۔” دس گھنٹے قبل چماری جب گیا تو اس کی صحت قابلِ رشک تھی۔ دس گھنٹوں میں ہونے والی تبدیلی خوفناک تھی۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سے دبلا پتلا تھا مگر اب وہ اپنی اصل جسامت کا بھی نصف رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں حلقوں میں دھنس گئی تھیں اور اس کی آواز محض سرگوشی سے مشابہہ تھی۔ کمرے میں شدید گرمی تھی اس لیے میں نے اس کے جسم کو چادر سے ڈھک دیا اور پاس موجود بندوں سے کہا کہ وہ اس کی چارپائی کو باہر لے آئیں۔ اگرچہ بیمار آدمی کو کھلے میں لانا بہت اچھی بات نہیں تھی مگر پھر بھی ایسے کمرے سے تو بہتر ہی تھا جہاں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔
چماری اور میں نے ایک ساتھ ہیضے کے بہت سارے مریضوں کی دیکھ بھال کی تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ ہیجان اور پریشانی سے زیادہ کوئی نقصان دہ چیز نہیں۔ اسے میرے بنائے ہوئے ٹوٹکوں پر پورا یقین رکھنا تھا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور ہر وہ چیز جو میں نے اسے دی، اس نے پوری ہمت کے ساتھ کھائی۔ اتنی شدید گرمی کے باوجود اس کا جسم ٹھنڈا تھا اور دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی اس کے پاس رکھنے سے اس کے جسم کا درجہ حرارت کچھ بڑھا۔ میں نے آس پاس لوگوں سے اس کے پیروں اور ہتھیلیوں پر پسی ہوئی ادرک ملنے کا کہا۔ یہ کشمکش ۴۸ گھنٹے جاری رہی اور ہر لمحہ اس کی جنگ موت کے ساتھ تھی۔ پھر یہ بہادر آدمی بیہوش ہو گیا اور نبض مدھم ہوتی گئی اور سانس بھی کم ہوتا گیا۔ نصف شب سے صبح چار بجے تک وہ اسی حالت میں لیٹا رہا اور مجھے علم ہو گیا تھا کہ میرا دوست جانے والا ہے۔ آس پاس موجود لوگ اس دوران خاموشی سے ہمیں دیکھتے رہے۔ اچانک چماری اٹھ کر بیٹھ گیا اور عام آواز میں بولا، “مہاراج، مہاراج! آپ کہاں ہیں؟” میں اس کے سرہانے کھڑا تھا، سو میں نے جھک کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور بولا، “مہاراج، پرمیشور مجھے بلا رہا ہے، مجھے جانا ہے۔” پھر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنا سر جھکایا اور بولا، “پرمیشور، میں آ رہا ہوں۔” جب میں نے اسے لٹایا تو اس کی جان نکل چکی تھی۔ مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم سو افراد نے چماری کی یہ بات سنی اور ان میں سے ایک اجنبی بھی تھا جس کے ماتھے پر صندل کے نشانات اس کی ذات کا بتا رہے تھے۔ جب میں نے چماری کے بے جان جسم کو لٹایا تو اس بندے نے پوچھا کہ یہ کون تھا۔ میں نے بتایا کہ چماری تھا تو وہ بولا، “میری طویل تلاش ختم ہوئی۔ میں کاشی میں وشنو کے بڑے مندر کا پجاری ہوں۔ میرے آقا جو کہ مہا پجاری ہیں، نے اس نیک انسان کی بہت تعریف سنی تھی اور مجھے بھیجا تاکہ میں اسے تلاش کر کے مہا پجاری کے پاس لے جاؤں۔ وہ اس کے درشن کرنا چاہتے تھے۔” یہ کہہ کر اس نے اپنی پوٹلی زمین پر رکھی اور اپنی کھڑاؤں اتار کر پائنتی کی جانب آ کر اس اچھوت کو ڈنڈوت کیا۔
موکمہ گھاٹ پر چماری کے جنازے جیسا جنازہ پھر کبھی نہیں ہوگا کہ اس میں ہر ذات کے، امیر اور غریب، ہندو، مسلمان، اچھوت اور عیسائی، سبھی شریک ہوئے۔ یہ بندہ جب آیا تو اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور ہر طرح سے ناکارہ سمجھا جاتا تھا اور جب گیا تو ہر کوئی اس کی عزت کرتا اور اس سے پیار کرتا تھا۔ ہمارے عیسائی عقیدے کے مطابق چماری بے دین اور ہندوستان میں اسے اچھوت سمجھا جاتا تھا مگر جہاں وہ گیا، میں وہاں بخوشی جانے کو تیار ہوں۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...