مس مہ جبین جیسی مقدس ہستی کے بارے میں اتنا گھٹیا لفظ سنتے ہی میرے کانوں کے پردے پھٹ گئے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، خدا کی پناہ کوئی شخص اتنا بھی لوفر ہو سکتا ہے کیا۔
ہمارے اسکول کے عین سامنے کریانے کی دکان والے کا بیٹا جو شاذ و نادر ہی دکان پر بیٹھتا تھا اس کے خیالات جان کر مجھے شدید دکھ ہوا۔۔ اس واقعے کی مثال یوں سمجھیں جیسے کسی نے برسوں کی ریاضت کے بعد خدا کا بت تراش لیا ہو۔۔۔ مگر ایک دن اچانک کوئی آ کر کہہ دے کہ جسے تم خدا سمجھ رہے تھے وہ شیطان ہے۔۔ کیا ایسے شخص کا منہ نہ نوچ لینا چاہئیے؟ میں اس کی دکان پر چار آنے والی
چیونگم خریدنے گیا تھا تبھی میں نے دیکھا کہ اس کی نگاہیں بار بار اسکول کے دروازے کی طرف اٹھ رہی ہیں پھر اس نے پیسے لے کر چیونگم میرے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ آج میری چھمک چھلو نظر نہیں آ رہی۔ میں کچھ نہ سمجھ پایا تو اس کا منہ تکنے لگا، اس نے پوچھا تمہاری استانی کیا آج اسکول نہیں آئی؟ پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا مس مہ جبین خوبصورت پرس کے ساتھ اسکول سے نکلیں اور اپنے گھر کی طرف جانے لگیں۔۔۔۔ ۔۔ آ گئی۔ دکاندار کے بیٹے نے خوشی سے نعرہ لگایا اور دو انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجائی۔۔ میری ہتھیلی پر رکھی چیونگم زہر آلود ہو چکی تھی
اس وقت میں چھٹی کلاس میں تھا میرے دل میں اپنی مس کے لیے جتنا ادب احترام اور محبت تھی اس سے کہیں زیادہ نفرت مجھے دکاندار کے بیٹے سے ہو چکی تھی میں آتے جاتے ہوئے اسے نہ صرف کراہیت سے دیکھتا بلکہ دل ہی دل میں دعائیں بھی مانگتا کہ جس بائک پر وہ اسکول کے سامنے سے کرتب دکھاتا ہوا گزرتا ہے اسی بائک سے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں۔۔ مجھے مس مہ جبین پر ترس آتا جو اسے دیکھ کر سہم جاتیں اور اپنے آپ میں سمٹ کر چلنے لگتیں۔۔۔ اور وہ کیوں نہ ایسا کرتیں۔ وہ ایک دیوی کی طرح جو تھیں۔ خدا نے ان کے وجود کو نہایت پاک صاف مٹی سے بنایا تھا۔۔ جب کلاس میں پڑھانے کے دوران کسی بات پر وہ مسکراتیں تو ان کے سفید موتیوں سے دانت یوں جھلملاتے جیسے سیاہ رات میں بہت سے ستارے ایک ساتھ جمع ہو گئے ہوں، ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں کیسی پاکیزہ چمک ہوتی تھی۔
اور وہ چمک جیسے ہی میری طرف آتی۔
میں جھک کر سجدہ ریز ہو جاتا۔
سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسے اس پاک ہستی کو اس غلاظت کے ڈھیر میں پلے مکروہ جانور یعنی دکاندار کے بیٹے کے شر سے بچاؤں۔۔
اس کی دیدہ دلیری روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی اسکول سے چھٹی کے بعد جیسے ہی مہ جبین نکلتیں وہ ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا اور ہنس ہنس کر ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔ مہ جبین غصے سے اسے گھورتیں اور ہٹ جاو میرے راستے سے کہہ کر رخ بدل کر جانے لگتیں۔۔۔
میں بے بسی سے دور کھڑے ہو کر یہ
منظر دیکھتا اور روہانسا ہو جاتا۔
صبر و تحمل اور برداشت کی بھی
کوئی حد ہوتی ہے۔ میں نے فیصلہ کر
لیا کہ اب پرنسپل سے اس کی شکایت کروں گا۔۔
جب پرنسپل اپنی مخصوص سٹک سے بیچ سڑک پر اس شیطان کی پٹائی کریں گے تو جبھی وہ ستانے سے باز آئے گا۔
مگر ہوا یہ کہ جیسے ہی میں پرنسپل کے کمرے میں جانے کی کوشش کرتا پاوں منوں بھاری ہو جاتے اور دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگتا جیسے ابھی پسلیوں سے نکل آئے گا۔ پھر مجھے ایک اور ترکیب سوجھی۔ میں اپنے دوست مجو کے پاس گیا، اس کے پاس ایک بڑی سی غلیل تھی جس سے وہ اکثر چڑیوں کا شکار کیا کرتا تھا۔
منت خوشامد کر کے ایک دن کے لیے میں نے وہ غلیل حاصل کر لی اور ایک نسبتاً بڑے پتھر پر لمبی سی نوکیلی کیل باندھ کر تمام انتظامات مکمل کر لیے۔۔
اس دن میں اسکول سے غیر حاضر رہا کیونکہ ایک تو مجھے غلیل کی پریکٹس کرنی تھی دوسرا اس جگہ کا حساب کرنا تھا جہاں کھڑے ہو کر بھر پور طریقے سے اسے نشانہ بنا سکوں
مجھے یقین تھا کہ پتھر میں لگی کیل جیسے ہی اس خبیث کے جسم میں اترے گی وہ موٹر سائیکل سے گرے گا اور۔ ہلاک۔ ہو جائے گا۔
چھٹی کا وقت جوں جوں قریب آتا جا رہا تھا میری دھڑکنیں بے قابو ہوئی جا رہی تھیں۔۔ انتظار کا وہ لمحہ برسوں پر محیط ہو گیا یہاں تک کہ میں وہاں کھڑے کھڑے بوڑھا ہو گیا اور میرے جسم کے تمام بال سفید ہو گیے۔۔ مگر پھر اسکول سے چھٹی ہونے کی گھنٹی جیسے ہی بجنا شروع ہوئی خدا نے میرے بدن میں ایک نئی روح پھونک دی۔ میں نے غلیل کو اپنے ہاتھ میں کس کے پکڑ لیا ایک ایک کر کے تمام بچے گھروں کو رخصت ہونے لگے۔۔۔ اور اب سب سے آخر میں مہ جبین کو باہر آنا تھا۔ اف۔ کتنا پیارا نام تھا ان کا۔ مہ جبین۔ مہ جبین۔ رات دن میں اس نام کی مالا جپتا رہتا تھا۔
یکدم موٹر سایکل کی غراہٹ نے اس وحشی کے آنے کی اطلاع دی اور دوسری طرف اسکول کے گیٹ سے مہ جبین برآمد ہوئیں۔۔۔
آج صبح سے میں نے ان کو نہیں دیکھنا تھا۔ میری آنکھوں نے دیوانہ وار ان کا طواف کیا، جانے کیوں آج وہ خاص طور سے بنی سنوری لگ رہی تھیں اور انہوں نے اپنے نازک لبوں پر لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی۔
موٹر سایکل کی غراہٹ تیزی سے قریب آ رہی تھی میں نے غلیل کو کھینچ کر ایک بار اور اطمینان حاصل کیا کہ یہ سو فی صد درست کام کر رہی ہے یا نہیں۔
اس سور کے بچے نے مہ جبین کے بالکل قدموں میں بریک لگائی اور یقیناً کوئی غلیظ بات کی۔ میں نشانہ باندھ چکا تھا مگر مہ جبین غصے ہونے کے بجائے مسکرانے لگیں اور چمکتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر جانے کیا کیا کہنے لگیں۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اس کے ساتھ بائک پر بھی بیٹھ گئیں اور وہ دونوں ہنستے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔۔
٭٭٭
صفر کی توہین پر ایک دو باتیں
اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی...