’’چلو… چلو نکلو ادھر سے …‘‘ جاوید بولا۔ ’’اوپر چل کر کچھ سوچتے ہیں …‘‘
’’مم… مگر… یہ … اس کا کیا کریں …؟‘‘ کامران ہکلایا۔ ’’اسے یونہی چھوڑ دیں؟‘‘ اس کا اشارہ لاش کی جانب تھا۔
’’فی الحال بحث مت کرو باہر نکلو…‘‘ جاوید سختی سے بولا۔ دونوں چپ چاپ اس کے پیچھے تہہ خانے سے نکل کر اوپر آ گئے۔
’’سنو…‘‘ جاوید نے کامران اور راشد کو مخاطب کیا ’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو اور اچھی طرح ذہن میں بٹھا لینا۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اسے اپنی ذات تک محدود رکھنا، ورنہ بڑی مشکل میں پھنس جاؤ گے۔ ہم واپس جائیں گے اور بتائیں گے کہ ایک مقام پر ہم لوگ رکے تھے، تاکہ کچھ آرام کر لیا جائے۔ جب ہم سو کر اٹھے تو ہمارا سارا ساز و سامان غائب تھا۔ ساتھ ہی آصف کا بھی کوئی پتا نہ تھا۔ آثار ایسے نظر آئے تھے کہ کسی نے ہمیں سوتے میں لوٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن آصف کی آنکھ کھل گئی۔ لوٹنے والوں نے آصف کو بھی اغوا کر لیا۔ ہم نے آصف کو بہت تلاش کیا، مگر کچھ پتا نہ چلا۔ آخر تھک ہار کر ہم واپس آ گئے … سمجھ گئے …؟‘‘
’’لیکن… لیکن وہ ہمارا سامان تو… گاڑی میں ہی ہے۔‘‘ کامران نے فکر مندی سے کہا۔
’’تو اسے تہہ خانے میں پہچانے میں کتنا ٹائم لگے گا؟‘‘ جاوید سپاٹ لہجے میں بولا۔ ’’اپنا سامان ہم تہہ خانے میں پہنچا دیں گے۔‘‘
’’اگر اتفاق سے کسی نے آصف کی لاش تہہ خانے میں دریافت بھی کر لی تو…‘‘ راشد نے تیزی سے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ’’تو مسئلہ الجھ جائے گا جاوید…‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ جاوید اسے گھورنے لگا۔
’’عقل سے سوچو… اگر سامان بھی آصف کی لاش کے ساتھ برآمد ہوا… تو کیا لوگ یہ نہیں سوچیں گے کہ لٹیرے سامان کو جوں کا توں لاش کے پاس کیوں چھوڑ گئے …؟ اگر سامان سے ان کو کوئی غرض نہیں تھی تو آصف کو کیوں مارا…؟ نہیں جاوید نہیں … اس طرح ہم مشکوک ہو جائیں گے … ہمیں سامان کو کہیں اور پھینک دینا چاہیے۔‘‘ راشد نے عقل کی بات کی تھی۔ جاوید سر ہلانے لگا۔
بعد میں ان تینوں نے بڑی پھرتی دکھائی اپنا تمام سامان انہوں نے ایک گہرے کھڈے میں دبا دیا۔ اوپر بڑے بڑے پتھر رکھ دئیے۔ آس پاس جھاڑیاں تھیں، اس لیے اس جگہ کسی کے آنے کے امکانات بھی نہیں تھے۔ پھر انہوں نے پرانی عمارت میں اپنی موجودگی کے تمام آثار ختم کر دئیے۔ جہاں جہاں ان کے ہاتھ لگے تھے۔ وہاں سے فنگر پرنٹس بھی حتی الامکان مٹا دئیے گئے تھے۔ گرد ومٹی سے اَٹے ہوئے فرش پر سے قدموں اور جوتوں کے نشانات بھی مٹا دئیے گئے۔ الغرض وہ ہر طرح سے مطمئن ہو گئے تھے۔ ابھی ایک مسئلہ اور باقی تھا۔ وہ لوگ چوں کہ کار کو بھی مین روڈ سے کچی زمین پر کافی دور تک لائے تھے، اس لیے کچی زمین پر گاڑی کے ٹائروں کے نشانات بھی پڑ گئے تھے۔ گاڑی مین روڈ تک دوبارہ لائی گئی۔ پھر جاوید اور راشد نے واپس جا کر جہاں تک ٹائروں کے نشانات تھے، مٹا دئیے اور اس احتیاط سے گاڑی تک پہنچے کہ ان کے جوتوں کے نشانات بھی نہ بن سکیں۔
اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ کامران اور راشد کے چہرے خوف اور احساس جرم کے باعث اپنی اصل رنگت کھو چکے تھے۔ اب تک ان کو اپنے ذہن ماؤف لگ رہے تھے۔ اپنی شرارت کی وجہ سے انہوں نے اپنے دوست کو مار ڈالا تھا۔ خوف زدہ تو جاوید بھی تھا، مگر اس نے خوف کو چہرے سے ظاہر ہونے نہیں دیا تھا۔ وہ بڑی سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ انہیں کھانے پینے اور آرام کرنے کا بھی خیال نہ رہا۔ صرف ایک ہی جگہ گاڑی کا ایندھن لینے رکے تھے۔ جاوید کئی مرتبہ راستے میں تاکید کر چکا تھا کہ کہنا وہی ہے، جو اس نے بتایا ہے۔ کہیں بھی کسی کے بیان میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، ورنہ پھندا تینوں کے گلے میں آ جائے گا۔
اور پھر اس افسوس ناک واقعہ کو پورے دو ماہ بیت گئے۔
تینوں نے وہی من گھڑت کہانی سنائی تھی۔ آصف کے گھر والے رو پیٹ کر آخر کار صبر کر کے بیٹھ گئے۔ بہت تلاش کیا گیا۔ پولیس میں رپورٹ کرائی گئی، لیکن پولیس کی کارکردگی ویسے ہی زیرو ہوتی تھی۔ یہاں بھی صفر ہی رہی۔ یوں معاملہ دب گیا۔ صرف جاوید، کامران اور راشد ہی اصل معاملہ جانتے تھے اور تینوں نے اس راز کو سینے میں دفن کر لیا تھا، کیوں کہ اسی میں ان کی بقاء تھی۔
یوں آصف کی کہانی ختم ہو گئی، لیکن اصل کہانی تو اب شروع ہوئی تھی۔
اس کہانی کا آغاز رات ڈیڑھ بجے ہوا تھا۔ کامران اپنے کمرے میں ویڈیو پر انگلش مووی دیکھ رہا تھا۔ فائٹ فلم تھی اور کامران بڑی دل چسپی اور انہماک سے فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس نے تقریباً آصف والا معاملہ فراموش کر دیا ہے۔ اس کے گھر والے اپنے اپنے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ یک بیک ٹی وی خود بخود آف ہو گیا، اسکرین پر سے تصویر ایک جھماکے کے ساتھ غائب ہو گئی۔ کامران چونک گیا۔ وہ جھنجلا کر اٹھا اور ٹی وی کے قریب پہنچ گیا۔ کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ کامران ٹی وی کا بٹن دبا کر دیکھنے لگا، کیوں کہ اس کا ریموٹ بھی کارآمد ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے عقب والی دیوار پر زیرو کا بلب روشن تھا۔ ٹی وی کو چھیڑ چھاڑ کرتے کرتے کامران چونک گیا۔ ہلکی سبز روشنی میں سامنے کی دیوار پر اس کا سایہ بن رہا تھا۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات تو نہ تھی۔ کامران کے چونکنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ سایہ کامران کے قد وقامت اور انداز سے الگ تھا۔ کامران نے ہلکا کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا، جب کہ سائے سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہے۔ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سایہ کسی اور کا تھا، مگر کس کا؟
کامران کا دماغ ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر سائے کو گھور رہا تھا۔ کہیں اسے وہم تو نہیں ہو رہا ہے؟ کہیں اس کی آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہی ہیں؟ کامران کو یاد آ رہا تھا… کچھ یاد آ رہا تھا۔ آصف کے بالوں کا اسٹائل… اس کا لباس… جو دوران سفر اس کے جسم پر تھا اور آخر وقت بھی وہی سوٹ اس کے بدن پر تھا۔ اور پھر… پھر ایک دل ہلا دینے والی بات ہوئی۔
کامران کے حلق سے چیخ تک نہ نکل سکی۔ دہشت نے اس کا حلق دبوچ لیا تھا۔ اس کے جسم نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کامران تو اپنی جگہ ہی کھڑا تھا، مگر اس کا سایہ… بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’وہ‘‘ سایہ اپنی جگہ سے متحرک ہو گیا تھا۔ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار پر آ گیا۔ روشنی کی سمت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کامران نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنا سایہ دیکھنا چاہا تو اسے حیرت اور خوف کا ایک اور جھٹکا لگا۔ اس کا اپنا سایہ غائب تھا، جب کہ ٹی وی کا عکس بھی دیوار پر نمایاں تھا۔ تپائی کا عکس، ٹیلی فون کا عکس، پردوں کا عکس، رائیٹنگ ٹیبل اور کرسی کا عکس، حتیٰ کہ ہر اس شے کا عکس، جو روشنی کا زد سے آ رہی تھی نظر آ رہا تھا، لیکن خود کامران کا عکس کدھر گیا؟ ’’وہ‘‘ پراسرار سایہ دیوار پر واضح نظر آ رہا تھا، جیسے کامران کی حالت زار سے محفوظ ہو رہا ہو اور کامران سمجھ گیا۔
’’وہ‘‘ آصف کا سایہ تھا۔
ہاں ہاں … وہ آصف کا ہی سایہ تھا، جو ان کے مذاق کانشانہ بن کر اپنی زندگی گنوا بیٹھا تھا۔ اس کے دل میں آئی کہ وہ مدد کے لیے حلق پھاڑ کر چلائے، لیکن وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ ناجانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا جسم تابع نہیں رہا۔ اس کی زبان، ہاتھ، پیر اس کے حکم کی تعمیل نہیں کر رہے تھے۔ دفعتاً پر اسرار سائے نے قہقہہ لگایا۔ کامران نے اسے واضح سنا تھا۔ سو فیصد آصف کی آواز تھی۔ وہ بھلا آصف کی آواز کو کیسے بھول سکتا تھا۔ ایک طویل عرصہ انہوں نے ساتھ گزارا تھا۔ اس کے ایک ایک انداز سے وہ بخوبی آشنا تھا۔ پھر کامران نے آصف کی سرگوشیانہ آواز سنی، جو اس سے کہہ رہی تھی۔
’’مار ڈالا ناں تم نے …؟ مار دیا ناں؟ تم نے بھی… کامران، تم تو میرے اچھے دوست تھے۔ تم بھی راشد اور جاوید کے ساتھ مل گئے تھے … تم… تم جانتے تھے کہ میرا دل کتنا کمزور ہے۔ پھر تم نے انہیں منع بھی نہیں کیا اور نہ ہی روکا… یعنی تم بھی میرے قتل میں برابر کے شریک ہو… اب… ڈر کیوں رہے ہو دوست…؟ تم تو بزدل نہیں تھے۔ بزدل تو میں تھا۔ تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے … تم تو بہادر ہو… دیکھو مجھے … مرنے کے بعد بھی چین نہیں ملا… بے چین روح ادھر ادھر پھرتی رہی اور اب میری روح کو چین اس وقت ہی آئے گا جب تم تینوں کو بھی مار ڈالوں … تم کچھ نہیں کر سکتے ہو۔ کسی کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو اور نہ ہی کہیں بھاگ سکتے ہو۔ شاید تم ہر چیز سے فرار ہو سکتے ہو، مگر سائے سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے … میں تو اب تمہارا سایہ بن گیا ہوں … سمجھے … سایہ… ہا ہا ہا …‘‘
دہشت کے مارے کامران کے جسم سے پسینہ دھاروں دھار بہہ رہا تھا۔
’’وہ‘‘ سایہ دیوار سے ہٹ گیا اور فرش سے ہوتا ہوا کامران کے قدموں سے سائے کے قدم جڑ گئے۔ پھر ایک اَن دیکھی طاقت کامران کو قدم بڑھانے پر مجبور کر دیا۔ کامران پراسرار سائے کا تابع ہو چکا تھا۔ وہ اس کے احکامات کی تکمیل کرنے پر مجبور تھا۔ اس کا ہر قدم اس کی مرضی کے بغیر آگے بڑھتا جا رہا تھا، ورنہ کامران کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پلٹ کر بھاگ لے اور لوگوں کو مدد کے لیے جمع کرے، مگر اس کی زبان پر بھی چپ کے تالے پڑ گئے تھے۔ صرف ذہن بیدار تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا، دل ہی دل میں چیخ چلا سکتا تھا، ڈر سکتا تھا، دیکھ سکتا تھا، محسوس کر سکتا تھا، مگر صرف اس کا پورا جسم اور زبان قابو میں نہیں تھی۔ چھوٹے سے گیراج میں اس کی ہیوی بائیک کھڑی تھی۔ اسے ہیوی موٹر بائیک چلانے کا جنون تھا۔ اس نے ان دیکھی طاقت کے ایماء پر گیراج میں سے بائیک نکالی اور اسے مین گیٹ تک لایا۔ پھر مین گیٹ کھول کر بائیک باہر نکالی۔
کامران کا ذہن چیخ رہا تھا۔ آخر ’’وہ‘‘ کیا چاہتا ہے؟
شاید سائے نے اس کا ذہن پڑھ گیا تھا۔ اس کے کانوں سے سرگوشی ٹکرائی۔ ’’جو بویا ہے، وہ کاٹنا تو پڑے گا میرے پیارے دوست…‘‘
کامران سمجھ گیا۔ اس محاورے میں چھپا ہوا ہولناک مطلب اس کے دماغ میں آ گیا۔ کامران دماغ میں گڑگڑاتا ہوا بولا۔ ’’مجھے معاف کر دو آصف… مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے … یقین کرو مجھے خود بہت دکھ ہوا تھا تم مجھے معاف نہیں کر سکتے؟‘‘
سرگوشی ذہن میں گونجی۔ ’’اگر تمہیں احساس ہوتا تو خود کو قانون کے حوالے کر دیتے۔‘‘ کامران ذہن میں چیخا۔ ’’مجھے پھانسی سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
سائے نے کہا۔ ’’بے فکر رہو پیارے دوست… میں تم کو پھانسی ہرگز نہیں دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘
مین گیٹ کھلا ہی رہا۔ کامران نے میکانکی انداز میں بائیک اسٹارٹ کی۔ کچھ ہی دیر بعد ہیوی بائیک شہر کی خوابیدہ سڑکوں پر دوڑ رہی تھی، حتیٰ کہ بائیک ہائی وے پر آ گئی۔ کامران کا ذہن چوں کہ بیدار تھا، اس لیے کامران سوچ رہا تھا کہ بائیک کی رفتار کم رکھے، لیکن اس کے ہاتھ پیروں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ دفعتاً کامران کو یوں لگا کہ اس کی زبان اَن دیکھی طاقت کے اثر سے آزاد ہو گئی ہے۔ وہ پوری قوت سے چلانے لگا۔ ساتھ ساتھ بائیک کی رفتار بھی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ آصف کے قہقہے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ہوا کے تیز تھپیڑے اس کے جسم سے لگ رہے تھے۔ سر کے بال بالکل سر سے چپک گئے تھے۔ آنکھیں کھولنا انتہائی دشوار ہو گیا تھا۔ کانوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں۔ ہائی وے پر بڑی گاڑیاں حسب معمول چل رہی تھیں۔ کئی مرتبہ اسے یوں لگا کہ وہ ٹرک کے نیچے بائیک سمیت گھس گیا ہے۔ کامران نے یہ منظر دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ پھر اسے قہقہہ سنائی دیتا۔ وہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا۔ بائیک برق رفتاری سے اُڑی جا رہی تھی۔ بڑی گاڑیوں والے اسے گالیاں دے رہے تھے۔ کوئی پاگل، جنونی اور سرپھرا کہہ رہا تھا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ خوشی اور دیوانگی کے عالم میں چلا رہا ہے۔ کامران اپنے جسم پر کسی اور کا بھی وجود محسوس کر رہا تھا۔ وہ سایہ اس کے بدن پر چھایا ہوا تھا۔ اسپیڈ کی سوئی خطرے کے نشان سے تجاوز کر چکی تھی۔ اگر کوئی سڑک پر کھڑا ہو کر موٹر بائیک کو دیکھنا چاہتا تو وہ اس کو محض ایک دھبے کی مانند لگتی۔ ایسا لگتا کہ کوئی موٹی سی لکیر اس کے نزدیک سے گزر گئی ہے۔ کامران انتہائی دہشت کے عالم میں حلق پھاڑ کر چلا رہا تھا، لیکن اس کی چیخ یہاں کون سنتا۔ آصف کے قہقہے بھی اس کی چیخوں کے ساتھ گونج رہے تھے۔ بمشکل کامران نے آنکھیں کھول کر سڑک پر دیکھا۔ وہ ہر گاڑی کو پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔ کبھی کوئی ٹرک اس کے سامنے اچانک آ جاتا تو کامران موت کے خوف سے آنکھیں بند کر یتا تھا۔ اگلے ہی لمحے سائے کے قہقہے سن کر آنکھیں کھولتا تو دیکھتا کہ موٹر بائیک ٹرک میں گھسنے سے بچ گئی ہے اور مزید تیز رفتاری سے آگے دوڑی جا رہی ہے۔