چَلو اَب لَوٹ آؤ تُم____
سُنو تُم نے کَہا تھا نا
مُجھے جَذبہ مُحَبّت سے کَبھی
جَو تُم پُکارَو گے
میں اُس دِن لَوٹ آؤں گا
تَو دَیکَھو نا
کَئی لَمحُوں
کَئی سالُوں
کئی صَدِیُوں
سے تَیرا رَستہ تَکتی
یہ مَیری مُنتظِر آنکَھیں
مَیرے دِل کی یہ دَھڑکَن اَور سانسَیں
بَس تُمہارا نام لَیتی ہیں
وَہی اِک وِرد کَرتی ہیں
مَیری آنکُھوں کے ساحِل پَر
تَیری خَواہِش کی مَوجُوں نے
بَڑی ہَلچَل مَچائی ہے
تَیری تَصوِیر،سُوکھے پُھول اَور تحفے
تَیری چاہَت کی خُوشبُو میں
اَبھی تَک سانس لَیتے ہیں
وہ سَب رَستے کہ جِن پَر تُم ہَمارے ساتھ چَلتے تھے
وہ سَب رَستے جَہاں تَیری ہَنسی کے پُھول کِھلتے تھے
جَہاں پَیڑُوں کی شاخُوں پَر
ہَم اَپنا نام لِکھتے تھے
اُداسی سے بَھرے مَنظَر
تُمہارے لَوٹ کَر آنے کی اُمِیدَیں دِلاتے ہیں
سُنو کُچھ بھی نَہیں بَدلا
تُمہارے پاؤں کی آواز سُننے کی
مَیرے کَمرے کی بے تَرتِیب چِیزَیں مُنتظِر ہیں
سُنو !
تَکمِیل پاتی چاہتُوں کَو یُوں اَدھُورا تَو نَہیں چَھوڑَو
مُجھے مَت آزماؤ تُم
چَلو اَب لَوٹ آؤ تُم
۔
وہ آج بھی آیا تھا ۔ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں والا شاپر تھامے۔
حسبِ معمول وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ان دو قبروں کے پاس پہنچ گیا جن کی مٹی ابھی تازہ ہی تھی۔ان قبروں پر سوکھے ہوئے پھولوں کی پتیاں تھیں جو شاید وہ کل ان پر نچھاوڑ کر کے گیا تھا۔اس نے جیب سے ایک خالی شاپر نکالا اور ان قبروں سے سوکھی پتیوں کو اٹھا کر اس شاپر میں ڈالنا شروع کردیا۔
’’ان پھولوں کی قسمت بھی عجیب ہوتی ہے۔خوش نصیب ہوں تو خوبصورت ہاروں کا اور اگر بدقسمتی اپنی دھول ان پر جما دے تو قبروں مزاروں کی چادروں کاحصہ بن جاتے ہیں۔‘‘
ایک ایک پتی کو شاپر میں ڈالنے کے بعد وہ شاپر کو گرہ لگا وہیں قبروں کے نزدیک رکھ گیا چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں پانی کی بالٹی تھی جو وہ قریب ہی کسی نلکے سے بھر کر لایا تھا۔اس نے قبروں پر پانی چھڑکا اور بالٹی کو واپس رکھ آیا۔اس عمل کے بعد اس نے شاپر سے تازہ پھولوں کی پتیاں ان قبروں پر نچھاوڑ کیں۔یہ عمل کرتے ہوئے وہ بہت ٹوٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
اگر بتیاں جلانے کے بعد اس نے باری باری دونوں قبروں پر فاتحہ خوانی کی ۔اس کے بعد وہ داہنی جانب والی قبر کے قریب بیٹھ گیا۔
آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں سے امڈ آیا تھا۔
کتنا دکھ ہوتا ہے ناں جب جان سے پیارا منوں مٹی تلے دفن ہوجائے اور آپ اس صورت کو کبھی دیکھ نہ سکیں جسے آپ دیکھ کر جیتے ہوں۔
کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک سائیں بابا اسے روز ایسا کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔قبر کے قریب بیٹھے اس اجنبی جوان کا چہرہ تر ہورہا تھا۔وہ وہاں آکر بہت روتا تھالیکن زبان سے کچھ نہ کہتا تھا ۔صرف اس قبر کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہتا تھا۔خاموشی کی یہ زبان صرف وہ قبر ہی سمجھ سکتی تھی۔
سائیں بابا سے رہا نہ گیا۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس کا ان قبروں سے کیا تعلق تھا؟
وہ ’’حق اللہ‘‘ ’’حق اللہ ‘‘بلند آواز میں کہتے ہوئے اس کے پاس آگئے۔وہ رو رہا تھا۔رونے میں شدت آچکی تھی۔وہ سر نیچے کیے ہوئے تھا اور ہچکی بندھنے سے اس کا جسم پوری طرح سے لرز رہا تھا۔
’’بیٹا۔‘‘
انہوں نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھا۔
اجنبی نے دھیرے سے اپنا تر چہرہ اٹھایاتو سامنے ایک نورانی چہرے والا فرشتہ صفت انسان کھڑا تھا۔
وہ آنسو صاف کرتا کھڑا ہوگیا۔انہوں نے اس کا کاندھا دباتے ہوئے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
‘‘بیٹا۔’’
انہوں نے دوبارہ پکارا۔
‘‘جی سائیں بابا۔’’
وہ سر سے رومال کھول رہا تھا جسے اس نے فاتحہ پڑھنے کے لیے سر پر باندھا تھا۔
’’آہ ۔افسوس کے موت تمہارے بہت ہی پیاروں کو تم سے چھین کر یہاں لے آئی ہے۔‘‘
سائیں بابا کے کہنے پر اس نے ان قبروں کو دیکھا اور پھر رخ موڑ کر آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’کیا میں جان سکتا ہوں کہ ان قبروں میں تم نے اپنے کن پیاروں کو اتارا ہے؟‘‘
ان کا ہاتھ ابھی بھی اس کے کندھے پر تھا۔
وہ کچھ دیر تک لب وا کرنے کے لیے ہمت جمع کرتا رہا۔
’’اس لحد میں میری زندگی مقید ہے سائیں بابا۔‘‘
دائیں جانب والی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ ایک دفعہ پھر اپناضبط کھو بیٹھا تھا۔آنکھ میں آب کو روکنے کے لیے جو اس نے بند اونچے کیے تھے ،لمحہ ہی تو لگا تھا ان کو ریت کی دیوار کی طرح بیٹھنے میں۔سائیں بابا نے کچھ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور خاموشی سے اس نوجوان کو تکنے لگے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
’’میں اس ہفتے اپنی ماما کو تمہارے گھر بھیجنا چاہ رہا ہوں۔‘‘
کالج چھوڑنے جاتے ہوئے میجر بلال نے اپنے دل کی بات ابرش کے سامنے رکھ دی۔
’’وہ کیوں؟‘‘
ابرش نے ناسمجھی کا ناٹک کیا۔
’’ویسے ہی ،وہ آپ لوگوں کا گھر دیکھنا چاہ رہی ہیں۔ ہم لوگ نیا گھر بنوا رہے ہیں اس کے لیے وہ آپ لوگوں کے گھر کی طرز تعمیر دیکھنے آنا چاہتی ہیں۔‘‘
میجر بلال نے مصنوعی خفگی سے راستے میں پڑے ایک پتھر کو ٹھوکر لگا کر راستے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔ٹھیک ہے۔موسٹ ویلکم۔‘‘
اسے میجر بلال کو تنگ کرنے میں مزا آتا تھا۔
’’ابرش۔‘‘
انہوں نے رک کر ہولے سے اسے پکارا۔
وہ پلٹی تو پیچھے میجر بلال ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کراور دوسرا کھڑا کیے بیٹھے تھے۔ہاتھ میں ایک سرخ مخملی ڈبیا تھی۔جس میں سے انہوں نے ایک انگوٹھی نکالی۔
’’کیا تم ایک خوبصورت فوجی کی ہمسفر بننے کا اعزاز لینا چاہو گی؟ ‘‘
انگوٹھی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے انہوں نے اسے نہایت خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ پرپوز کیا۔
وہ کچھ پل حیرت میں ڈوبی رہی۔
’’مس ابرش!میں اپنی بات دہراتا ہوں ۔کیا آپ ایک خوبصورت فوجی کی ہمسفر بننے کا اعزاز لینا چاہیں گی؟‘‘
وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
ابرش نے اردگرد دیکھا۔اسے میجر بلال سے ایسی حرکت کی توقع نہ تھی۔مگر میجر بلال کب کسی کی توقع پر پورا اترتے تھے۔
’’آپ کی اسٹیٹمنٹ ہی غلط ہے۔ ‘‘
اس نےلبوں تلے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔
’’مطلب؟‘‘
وہ حیران ہوئے۔
’’مطلب یہ کہ آپ ایسے کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ۔۔۔‘‘
وہ رکی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
’’کہ مس ابرش۔کیا آپ ایک پاگل فوجی کی خوبصورت ہمسفربننے کی سزا لینا چاہیں گی؟‘‘
وہ بازو سینے پر باندھے کسی مہارانی کی طرح کھڑی تھی۔جس کے آگے کسی سلطنت کا بادشاہ شکست مان کر گھٹنے زمین پر ٹکائے اس کے سامنے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو اور اس کا سر فخر سے بلند ہورہا ہو۔
’’فوجی اپنی کہی گئی بات میں ردوبدل نہیں کرتے لیکن اب تم کہہ رہی ہو تو میں اپنے جملےمیں ان الفاظ کا اضافہ کر ہی لیتا ہوں۔‘‘
انہوں نے دوبارہ انگوٹھی اس کی جانب بڑھائی اور گلا کھنکارنے کے بعد کہا۔
’’مس ابرش! کیا آپ ایک خوبصورت فوجی کی پاگل ہمسفر بننے کا اعزاز لینا چاہیں گی؟‘‘
’’ہاہاہاہاہاــ‘‘
ہاتھ منہ پر رکھ کر ابرش نے ایک قہقہہ فضا کی نذر کیا۔وہ جانتی تھی کہ وہ اپنی بات نہیں بدلنے والے تھے۔
وہ کچھ دیر سوچنے کے لیے رکی۔اور توقف سے بولی۔
’’میں یعنی مس ابرش مسٹر بلال احمد کے زندان میں خود کو مقید کرنے کے حکم پر سر تسلیم خم کرتی ہوں۔‘‘
جتنا قول خوبصورت تھا۔۔۔
اتنا ہی اقرار دلفریب تھا۔
فضائیں رقص کرتی میجر بلال کو مبارک باد دینے آئیں۔
مہارانی کے اقرار سے بادل جھومنے لگے۔
کلیاں سر اٹھانے لگیں۔اور بہارِعشق کی آمد پر مبارک باد پیش کرنے لگیں۔
میجر بلال نے اپنی محبت کی نشانی اس کے خوبصورت ہاتھ کی انگلی کے سپرد کردی۔
’’تھینک یو ابرش۔‘‘
خوشی سے بس وہ اتنا ہی کہہ سکے۔فرط جذبات سے ایک ننھا سا آنسو ان کی آنکھ سے بہہ نکلا تھا۔چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جس نے ابرش کے دل کی سلطنت کو فتح کیا تھا۔
ابرش سر جھکائے کھڑی تھی۔سرخ ہوتے گالوں کے ساتھ۔
کتنے ہی لمحے تھے جو گزر گئے تھے وہاں۔خاموشی سے۔وہاں شور تھا تو صرف دونوں کے دلوں کی بڑھتی ہوئی دھڑکنوں کا۔
دونوں کی نگاہیں اس انگوٹھی پر تھیں جو ان کی محبت کی پہلی نشانی بننے پر نازاں تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
آج وہ بہت خوش تھی کیونکہ میجر بلال کی والدہ اس کے گھر تشریف لا رہی تھیں۔اس نے کالج سے چھٹی لے لی تھی۔صبح سے ہی تیاریوں میں مصروف تھی۔گھر میں اِدھر اُدھر بھاگ کر وہ کام نمبٹانے کی کوشش کر ہی تھی۔
چچا جان تو اپنی پری کو یوں خوش دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے۔جبکہ چچی جان بار بار ماشاءاللہ کہتیں تاکہ بیٹی کو نظر نہ لگ جائے۔اس نے ماں باپ سے بڑھ کر چاہنے والے اپنے چچا جان اور چچی جان کو میجر بلال کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ ان کو اپنی بیٹی کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔اس لیے انہوں نے میجر بلال کی والدہ کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔
اس نے چائے کے ساتھ سرو کیے جانے والے تمام لوازمات خود تیار کیے تھے۔اس کے بعد وہ تیارہونے کے لیے چلی گئی۔کچھ ہی دیر بعد وہ بالکل تیار کھڑی تھی۔ہلکے گلابی رنگ کی کلیوں والی فراک ،جس کے ساتھ وائٹ پاجامہ تھا،زیب تن کیے وہ اسی رنگ کا حصہ نظر آرہی تھی۔سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ ابرش کا کوئی اور ہی روپ نظر آرہی تھی۔ایسا روپ کہ جس پر ملکہ حسن بھی رشک کیے بنا نہ رہ سکے۔
’’چچی جان میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘
تیار ہونے کے بعد لونگ روم میں آگئی ،جہاں چچا جان اور چچی جان مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔
’’ماشاءاللہ ،ماشاءاللہ۔میری بیٹی تو آج چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے۔ انہوں نے اس کی بلائیں لیں۔‘‘
’’میری بیٹی تو ہمیشہ سے ہی چاند کا ٹکڑا ہے۔‘‘ چچا جان نے اسے پیار سے اپنے پہلو میں بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی بیٹی ہوں ناں اس وجہ سے۔‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے اپنا سر چچا جان کے کندھے پر ٹکا دیا۔
’’ہاہاہاہا۔یہ تو ہے۔شکر کرو کہ تم اپنی چچی پر نہیں چلی گئی۔ ‘‘انہوں نے چچی جان کی طرف تیر چلاتے ہوئے کہا۔
’’میری بیٹی میرے جیسی ہی ہے۔‘‘ وہ ابھی اٹھ کران کے پاس چلی آئیں ۔
’’میں آپ دونوں جیسی ہوں ۔اسی لیے تو اتنی خوبصورت ہوں۔‘‘ اس نے دونوں کو بازؤں میں لیتے ہوئے کہا۔
’’اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے ،آمین۔‘‘ بیٹی کو اتنا خوش دیکھ کر چچا جان کے دل سے بس یہی دعا نکل رہی تھی۔
’’آمین،ثم آمین۔ ‘‘چچی جان نے بھی دل سے دعا دی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
باہر ڈور بیل بجی تو وہ کیچن میں آگئی ۔جبکہ چچا جان دروازہ کھولنے چلے گئے۔دروازہ کھولا تو سامنے میجر بلال اور ان کی والدہ مہرالنساء کھڑی تھیں۔
’’السلام علیکم۔‘‘مسکراتے ہوئے انہوں نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ چچا جان نے نہایت خوش دلی سے جواب دیا۔
میجر بلال نے بھی اپنی ماں کی پیروی کرتے ہوئے سلام کیا۔چچا جان نے انہیں گلے سے لگایا اور ان سے خیریت دریافت کی۔
’’آیئے،اندر آیئے۔ ‘‘چچا جان نے انہیں اندرآنے کیلئے راستہ دیا۔
ہال میں داخل ہوتے ہی چچی جان نےان کا پرتپاک استقبال کیا۔
ابرش نے انہیں کیچن کی کھڑی ،جو کہ ہال کی طرف کھلتی تھی،سے دیکھا۔میجر بلال بلیک کلر کے تھری پیس میں ملبوس تھے۔کوٹ کی جیب میں سرخ رنگ کا رومال تکون کی شکل میں آدھا باہر کو نکلا ہوا تھا۔اس روپ میں وہ انہیں پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔
’’اگر میں انہیں پہلی دفعہ اس روپ میں دیکھ لیتی تو خود کو ہارٹ اٹیک کروا لیتی۔ماننا پڑے گا کہ اس طلسمی شہزادے میں کچھ توطلسم ہے۔‘‘
وہ خود سے ہمکلام ہورہی تھی۔
چچی جان نے انہیں صوفوں پر بٹھایا۔چچی جان پھولے نہ سما رہی تھیں۔وہ لوگ بہت مہمان نواز تھے۔
’’بھابھی آپ کو یہاں آنے میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟ ‘‘چچی جان مہرالنساء کے ساتھ بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’ارے نہیں،بلال کے ہوتے ہوئے کیسا مسئلہ۔ ویسے بھی اپنی بیٹی سے ملنے آرہے تھے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔وہ بھی اپنے بیٹے کی طرح ایک شائستہ شخصیت کی مالک تھیں۔
’’ہمیں اس وقت جتنی خوشی ہورہی ہے وہ ہم بیان نہیں کرسکتے۔ ‘‘چچی جان کی خوشی چھلکتی نظر آہی تھی۔
’’یہ تو آپ لوگوں کا خلوص ہے جو ہمیں یہاں کھینچ لایا۔‘‘ کتنی عاجزی تھی مہرالنساء کے لہجے میں۔
’’برخودار ! آپ سنایئے،کیا کرتے ہیں؟‘‘ چچا جان نے میجر بلال کے کندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’اس ملک کی خدمت و حفاظت۔‘‘ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتے ہوئے انہوں نے نہایت دھیمے مگر پر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’ماشاءاللہ،بڑے خوش قسمت ہو برخودار۔ ‘‘چچا جان نے ستائش سے بھر پور لہجے میں کہا۔
’’جی انکل،بس پروردگار کی مہربانی ہے‘‘۔وہ خود کو کم بولنے پر مجبور کر رہے تھے ۔ورنہ وہ اس موضوع پر سانس لیے بنا تقریر کر سکتے تھے۔
’’بھئی ہماری بیٹی کو بلائیں۔کب سے بے تاب ہورہی ہوں اسے دیکھنے کے لیے۔‘‘ مہرالنساء بیگم نے بے چینی سے کہا۔
’’جی ،جی ضرور۔میں ابھی بلا کر لائی۔‘‘یہ کہتے ہوئے چچی جان وہاں سے چلی گئیں۔کیچن میں آتے ہی انہوں نے ابرش کو ہال میں چائے لانے کا کہا۔
اس نے ٹرالی میں تمام لوازمات پہلے سے ہی سیٹ کر لیے تھے۔
’’چچی جان میں بہت کنفیوز ہورہی ہوں‘‘۔ اس نے ہاتھوں کی انگلیاں مسلتے ہوئے کہا۔
’’کیوں بیٹا؟ ‘انہوں نے پریشان ہوکر اسے کندھوں سے تھاما۔
’’اگر ان کی ماما کو میں اچھی نہ لگی تو؟ ‘‘یہ سوال اس کے دل میں کب سے کھٹک رہا تھا۔
’’تمہیں دنیا کی کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کے لیے ریجیکٹ نہیں کرسکتی۔‘‘انہوں نے اس کے گال کو نرمی سے چھوتے ہوئے کہا۔
’’چلو شاباش اب جلدی سے چائے لیکر آؤ،مہمان انتظار کررہے ہیں۔ ‘‘محبت سے کہتیں وہ باہر چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد اس نے اپنا جائزہ لیا اور آہستہ آہستہ ٹرالی کو دھکیلتے وہ ہال میں آگئی۔ابرش کے یوں داخل ہونے پر میجر بلال نے اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کیا جس کی ضرورت بھی نہ تھی۔
’’ماشاءاللہ۔ ‘‘ابرش پر نظر پڑتے ہی مہرالنساءبیگم کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے۔
’’السلام علیکم۔ ‘‘ٹرالی ایک طرف کھڑی کرتے وہ ان کی والدہ کے پاس آگئی تھی۔مہرالنساءبیگم نے اسے گلے لگاتے ہوئے اپنی تمام ممتا اس پر نچھاوڑ کردی تھی۔
میجر بلال احمد کو سلام کرتے ہوئے وہ کپوں میں چائے انڈیلنے لگی۔ چائے سب کو پیش کرنے کے بعد وہ مہرالنساءبیگم کے پاس آبیٹھی۔
’’ہمم۔چائے تو بہت اچھی بناتی ہے ہماری بیٹی۔ ‘‘چائے کا پہلا سپ لیتے ہوئے ان کی والدہ نے اسے داد دی۔اس نے سرجھکائے بس مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔
ہال میں خوش گپیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔میجر بلال کی والدہ کے سوالوں کے وہ بس مختصر سے جواب دے رہی تھی۔جبکہ میجر بلال احمد نہایت خاموشی سے چائے پی رہے تھے۔
’’شکر ہے ہڈیاں توڑنے کے علاوہ مادام کو چائے بھی اچھی بنانی آتی ہے۔‘‘ وہ خود سے ہمکلام ہوئے۔ اس وقت وہ خود سے ہمکلام ہونے کے علاوہ اور کسی سے بھی بات نہیں کرسکتے تھے۔
’’برخودار! لگتا ہے کہ آپ بہت کم گوہیں‘‘؟چچا جان نے میجر بلال کو یوں کافی دیر سے خاموش بیٹھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں انکل،ایسی بات نہیں۔میں تو بس آپ سب کی باتیں سن رہا ہوں۔‘‘اسی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے جواب دیا۔
’’مجھ سے پوچھ کر دیکھیں کہ یہ کتنے کم گو ہیں۔‘‘ ابرش دل ہی دل میں کڑھی۔
’’اسے یوں بیٹھا دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہی وہی ابرش ہے جس نے اپنے ہونے والے مجازی خدا پر کئی بار حملے کیے ہیں۔‘‘ میجر بلال نے ترچھی نگاہوں سے ابرش کی طرف دیکھا جوکہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔حیا کا پیکر بن کر۔مشرقی لڑکیوں کی شان بن کر۔
’’بھئی مجھے تو اپنے بیٹے کی پسند پرفخر ہورہا ہے۔‘‘ان کی والدہ نے اس کے ماتھےپرشفقت بھرا بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’بھائی صاحب اگر آپ لوگوں کی اجازت ہو تو کیا میں اپنی بیٹی کو انگوٹھی پہناسکتی ہوں؟‘‘ ان کی والدہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگوٹھی اتارتے ہوئے اس کے چچا جان سے اجازت چاہی۔
’’جی ضرور بہن جی اب یہ آپ کی ہی امانت ہے۔ہمیں بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ ان کی بیٹی کو اتنا چاہنے والے لوگ اور کہاں سے ملیں گے۔
’’لاؤ ،بیٹا ہاتھ لاؤ۔یہ ہماری خاندانی انگوٹھی ہے۔یہ میری ساس نے مجھے دی تھی اور آج میں یہ تمہارے سپرد کررہی ہوں۔ ابرش نے اپنا بایاں ہاتھ ان کی جانب بڑھایا جس کے درمیان والی انگلی میں میجر بلال کی پہنائی ہوئی انگوٹھی تھی۔ ان کی والدہ نے انگوٹھی اس کے سپرد کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس کی جبیں پر بوسہ دیا۔
’’مبارک ہو برخودار۔‘‘ چچا جان نے اٹھ کر میجر بلال کو گلے لگایا۔
’’شکریہ انکل، شکریہ آنٹی اور شکریہ ماما۔ ‘‘ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی ماما کو بانہوں میں لیکر گول گول گھمائے جیسا کہ وہ خوشی میں کرتے تھے مگر زماں و مکاں ہردفعہ موقع نہیں دیتے۔
ابرش ان کی اس حالت سے بہت محظوظ ہوئی تھی۔
’’بھئی آنسہ بیگم ! مہمانوں کا منہ میٹھا کرواؤ۔‘‘ چچا جان نے ابرش کی چچی کو کہا۔اس کے بعد چچی جان نے باری باری سب کا منہ میٹھا کروایا۔
ہال میں ایک دفعہ پھر خوش گپیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔کافی دیر تک ان کے درمیان ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہی۔
’’اچھا ،آنسہ بہن اب ہم چلتے ہیں۔‘‘ مہرالنساءبیگم نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’بھابھی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔کھانا کھا کر جایئے گا۔ ‘‘چچی جان نے انہیں مزید رکنے کیے لیے کہا۔
’’کھانا پھر کبھی سہی۔ ‘‘سہولت سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے بلال احمد کو اشارہ کیا۔
’’ہم آپ لوگوں کا انتظار کریں گے۔‘‘ وہ چچی جان کے گلے ملیں۔
’’میں بہت خوش قسمت ہوں بیٹا کہ تمہارے جیسی بیٹی میرے گھر کی رونق بننے آرہی ہے۔ ‘‘انہوں نے ابرش کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے برخودار۔اب تو ملاقاتوں کا سلسلہ رہے گا ہی۔‘‘ گلے سے لگاتے ہوئے انہوں نے میجر بلال کی کمر پر تھپکی دی۔
وہ سب انہیں دروازے پر چھوڑے کے لیے آئے تھے۔ محبت کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے وہ انہیں اپنے ہی خاندان کا حصہ لگے تھے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
محبت کا پنچھی اب اڑنے لگا تھا۔محبت کی دھنک کے ساتوں رنگ باران ِ عشق کے بعد چاہت کی سنہری دھوپ میں آسمانِ الفت پر بکھر چکے تھے۔محبت کا آزاد پنچھی ان رنگوں کو چھونے کے لیے اڑان بھر چکا تھا۔
ہر آنے والا لمحہ انہیں محبت کے اور قریب کر رہا تھا۔
میجر بلال ابرش کو اس کی چچی جان کی اجازت سے پہلی بار کسی ریسٹورنٹ میں لیکر آئے تھے۔میجر بلال اس کے سامنے میز پرکہنیوں کو ٹکائے ٹھوڑی کو ہاتھوں پر رکھے اسے بغور دیکھ رہے تھے ۔اور وہ ان کے یوں دیکھنے پر کنفیوز سی ہورہی تھی۔وہ اس وقت انہیں کتنی پیاری لگ رہی تھی اس بات کا ابرش کو اندازہ نہیں تھا۔
’’مادام اگر آپ نے جی بھر کر شرما لیا ہوتو کچھ کھانے کا آرڈر کریں؟‘‘ میجر بلال نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کو چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔
’’جی بالکل، اگر آپ نے میرا جی بھر کر جائزہ لے لیا ہےتو کردیں آرڈر۔ ‘‘وہ خفا ہوئی تھی۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔میں تو یہ دیکھ رہا تھاکہ تم کنفیوز کیوں ہورہی ہو؟ ہم کونسا پہلی بار مل رہے ہیں۔ ‘‘وہ کہنیوں کا سہارا چھوڑتے ہوئے پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
ابرش نے پل بھر کے لیے ان کی طرف دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اسکائی بلیو شرٹ پہنے، آستین کہنیوں تک موڑے ، فوجی ہئیرکٹ میں وہ طلسمی شہزادہ اس وقت کسی کو بھی مسحور کردینے کی طاقت رکھتا تھا۔
’’میں کب کنفیوز ہورہی ہوں؟‘‘
یہ بات سچ تھی کہ وہ بہت نروس ہورہی تھی اور وجہ وہ خود نہیں جانتی تھی۔
’’پھر شاید میں کنفیوز ہورہا ہوں۔ ‘‘ٹیبل کو ایک ہاتھ کی انگلیوں سے آہستگی سے بجاتے ہوئے انہوں نے کہا۔
’’آپ مجھے یہاں ایسی باتیں کرنے کے لیے لیکر آئے ہیں؟‘‘ وہ اپنی ٹون میں آرہی تھی ۔
’’میں ایسی باتیں کررہا ہوں یا تم؟ انہوں نے کولڈ ڈرنک کا ایک سپ لیتے ہوئے کہا۔
’’ظاہری سی بات ہے کہ آپ۔‘‘ اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے انہیں چرایا۔
’’ہاں،ہاں۔سارا الزام میرے سر ڈال دیا کرو۔‘‘
’’اچھا ناں۔اب لڑتے ہی رہیں گے یا کچھ منگوائیں گے بھی۔‘‘ اسے زبردست بھوک لگی ہوئی تھی۔
’’میں کب لڑائی کررہا؟ ‘‘انہوں نے دونوں ہاتھ تھوڑا سا اوپر اٹھاتے ہوئے حیرت سے استفسار کیا۔
’’تو آپ کا مطلب ہے کہ میں لڑ رہی ہوں؟‘‘ بازو سینے پر باندھ کر خفگی سے کہتے وہ رخ موڑکر بیٹھ گئی۔
’’تمہارا کچھ نہیں بننے والا ابرش۔ ‘‘ایک لمبا سانس لیتے ہوئے انہوں نے کہا۔
’’تو آپ نے میرا کچھ بنانا ہی کیوں ہے؟‘‘ اس نے رخ موڑے ہی کہا۔
’’اچھا بابا، سوری۔ ‘‘انہوں نے دونوں ہاتھ اس کے آگے جوڑتے ہوئے کہا۔
’’ایک شرط پر معاف کروں گی۔ ‘‘وہ ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
’’اللہ۔۔۔۔ کیسی شرط؟ ‘‘وہ واقعی چڑ گئے تھے۔
’’پہلے اس بات کا حلف اٹھائیں کہ میں یعنی میجر بلال آج کے بعد مس ابرش کو کبھی تنگ نہیں کروں گا۔اور اگر میں نے ایسا کیا تو مس ابرش جو بھی سزا تجویز کریں گی میں اس کا پابند ہوں گا۔ مہارانیوں کی طرح وہ اپنا حق جتوا رہی تھی۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ تم واقعی پاگل ہو۔ ‘‘میجر بلال کے لبوں پر اس کی یہ بات سن کر ہنسی رینگ گئی۔ابرش نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ٹھیک ہے میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں،یعنی میجر بلال آج کے بعد مس ابرش کو کبھی تنگ نہیں کروں گا اور اگر آج کے بعد میں نے ایسا کیا تو مس ابرش جو بھی سزاتجویز کریں گی میں اس کا پابند ہوں گا۔ ایک وہی تو تھی جو انہیں لمحوں میں شکست دے سکتی تھی ۔اور ایک وہی تو تھی جس کے آگے فوج کے ایک ناقابل شکست سپاہی کو بار بار ہارنا اچھا لگتا تھا۔
’’یہ ہوئی نہ اچھے فوجیوں والی بات۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے انہیں کچھ جتا گئی تھی۔جواب میں وہ بس مسکرائے ہی تھے۔
’’اچھا اب بتاؤ بھی کیا آرڈر کرنا ہے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔‘‘ ابرش کی ضد کی وجہ سے وہ اپنی بھوک کو بمشکل قابو کیے ہوئے تھے۔
’’جو آپ کا دل کرتا ہے منگوالیں۔میں بھی تو دیکھوں کہ جناب کو کونسی ڈشز زیادہ پسند ہیں۔ ‘‘ وہ اب نارمل ہوچکی تھی۔ کیفیوز بیٹھی ابرش کہیں اڑن چھو ہوگئی تھی۔
”ٹھیک ہے جناب۔ آج اپنی پسند کا کھا لیتا ہوں پھر ساری عمر آپ کی ہی پسند کا کھانا ہے۔”‘
میجر بلال نے ایک ٹھینڈی آہ بھری۔
”ہاہاہاہا۔۔۔سمجھدار ہوتے جارہے ہیں۔ ”
اس نے کولڈ ڈرنک کا گلاس منہ کو لگاتے ہوئے کہا۔
”جی بس آپ کی صحبت کا اثر ہے۔ ”
مینیو کارڈ واپس میز پر رکھتے ہوئے انہوں نے ویٹر کو بلایا۔اور اپنا آرڈر اسے لکھوایا۔ ویٹر مینیو کارڈ لیکر چلا گیا۔
میری فرینڈز کہتی ہیں کہ آرمی والے خوبصورت ہوتے ہیں ”
لیکن آپ کی طرف دیکھ کر ایسا لگتا نہیں ہے۔”آج وہ جتنے حساب لے سکتی تھی ،لے رہی تھی۔
آرمی والے خوبصورت نہیں ہوتے بلکہ بہت بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔”
مگر یہ خوبصورتی بھی صرف خوبصورت لوگوں کو ہی نظر آتی ہے۔ ”وہ بھی میجر بلال تھے۔ حساب اسی وقت چکا دینے کے عادی۔
اور یہ خوش فہمی بھی صرف خوش فہم لوگوں کو ہی ہوتی ہے۔ ”وہ بھی چوٹ لگا رہی تھی۔ ”
ہاہاہاہاہا۔۔۔ ”جواباََ میجر بلال کا کانوںمیں رس گھولتا قہقہہ فضا میں ابھرا۔”
کھلکھلا کر ہنسنے سے میجر بلال کی آنکھوں کے کونے نم ہوگئے ۔
انہوں نے ہاتھ سے آنکھیں صاف کیں۔
تب تک ویٹر کھانا لے آیا۔ اس نے سلیقے سے ٹیبل پر کھانا چنا اور چلا گیا۔وہ دونوں کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔
اور محبت کا پنچھی منزل کیے مزید قریب پہنچنے والا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
وائلن کی وہی آواز قریب تر ہورہی تھی۔وہ قدم قدم آگے بڑھ رہی تھی۔وائلن کی وہ آواز اسے اپنے سحر میں جکڑ کر اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔اردگرد کا منظر واضح تھا۔وہ یہاں پہلے بھی کئی بار آچکی تھی شاید۔اونچے اونچے پہاڑ جو آسمان سے سرگوشیاں کرتے محسوس ہورہے تھے۔ ایک طرف بہتا دریا وائلن کی دھن سے مسحور ہورہا تھا اور اسی دھن میں مگن اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا۔بائیں جانب آٹھ سے نو سال کی بچیاں سفید رنگ کی پوشاک پہنیں دھن پہ محو رقصاں تھیں۔سامنے ہی ایک اجنبی سفید رنگ کے کپڑوں میں وائلن بجا رہا تھا۔وہ آج بھی اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی کیونکہ اس کا رخ دوسری جانب تھا۔ایک سحر طاری کردینے والی دھن فضا کی نذر ہورہی تھی۔وہ خاموشی سے یہ تماشا دیکھنے لگی۔آٹھ سے نو سال کی ان پریوں کو اس کے آنے کی خبر تک نہیں ہوئی وہ اسی طرح رقص میں مگن تھیں۔وہ کبھی ایک پاؤں اوپر اٹھاتیں تو کبھی دوسرا ۔کبھی ایک دوسرے کے قریب آکر دائرے کو تنگ کردیتیں تو کبھی گول گول گھومتے ہوئے ایک دوسرے سے دور چلی جاتیں۔اجنبی بھی اس کی آمد سے بے خبر تھا۔شائد وہاں موجود ہر چیز اس سے بے خبر تھی۔اس جنت کے ٹکڑے کی ایک ایک چیز اس وقت صرف و صرف اس اجنبی کی دھن کو سن رہی تھی۔جو شوخ سی باتیں اپنی دھن کی صورت میں ان کی سماعتوں کی نذر کر رہا تھا۔
وہ بھی اس دھن میں جکڑنے لگی۔جیسے کسی طلسم میں کوئی شہزادی جکڑی جائے یا پھر پرستان کی کوئی پری کسی جن کے جادو کے جنگلے میں آجائے۔جس سے رہائی ناممکن ہو۔
لیکن یہ کیا منظر پھر بدلنے لگا تھا۔نیلے آسمان کو کالی گھٹا گھیرنے لگی۔بچیاں جو پہلے اپنے رقص میں محو تھیں ننھے ننھے ہاتھ سینے پر رکھ کر سامنے کی جانب سے اٹھنے والی گھٹا کو دیکھنے لگی۔وائلن کی دھن میں بہتا دریا خون کی ندی بن گیا تھا۔وہ شوخ سی دھن جو اس پر سحر طاری کررہی تھی اب ماتم میں بدل گئی تھی۔وہاں موجود ہر زرے کو فرق پڑا تھا مگر اجنبی ویسے ہی کھڑا تھا۔وائلن کو کندھے اور سرکے درمیان ٹکائے۔گھٹا آگے بڑھنے لگی۔بچیوں نےبلند آواز میں رونا شروع کردیا۔جیسے وہ جانتی ہوں کہ کیا ہونے والا ہے۔اور شاید کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے۔گھٹا اجنبی کی جانب بڑھ رہی تھی۔بچیاں دور ہوتی جارہی تھیں۔وہ وہاں کھڑی اس اجنبی کو آوازدے رہی تھی۔مگر بچیوں کے رونے کے شور میں وہ اسے نہیں سن پارہا تھا۔بچیاں اب بہت دور جاچکی تھیں مگر ان کے رونے کی آوازیں ابھی بھی آرہی تھیں۔وہ کانوں پر ہاتھ رکھے انہیں چپ ہونے کا کہہ رہی تھی۔اس نے اجنبی کو بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔
گھٹا اجنبی کے سر پر پہنچ چکی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتی گھٹا نے اجنبی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔وہاں اب کچھ نہیں تھا۔نہ ہی وہ بچیاں،نہ ہی ان کے رونے کی آواز اور نہ ہی وہ دھن بجاتا اجنبی۔وہاں تھی تو صرف ایک غائبی آواز جو نجانے کس سمت سے آرہی تھی۔
”یہاں آؤ گی تو ماتم بن جاؤ گی۔”
بار بار انہیں لفظوں کی پکار۔وہ پاگل ہورہی تھی شاید۔اس نے بے سمت بھاگنا شروع کردیا۔وہ بھاگ رہی تھی مگر زمین پھیلتی جارہی تھی۔اچانک کسی پتھر سے ٹھوکر لگنے سے وہ گہری کھائی میں جا گری۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں تھی اپنے بستر پر۔وہ پسینے سے شرابور تھی۔اور اس کے دل کی دھڑکن بہت تیز چل رہی تھی۔اور تنفس بھی بگڑ چکا تھا۔اس نے وال کلاک پر دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔وہ ہاتھ سے چہرہ صاف کرتی بیٹھ گئی۔سائیڈ ٹیبل سے اس نے پانی کا جگ اٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے پانی گلاس میں انڈیلنےلگی۔
دونوں ہاتھوں سے گلاس کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس نے گلاس کو منہ سے لگایا اور دو گھونٹ پینے کے بعد گلاس کو واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔
یہ خواب کس چیز کی جانب اشارہ کر رہا ہے؟ اگر میں وہاں گئی تو میری زندگی ماتم میں ڈوب جائے گی مگر کہاں؟یہ خواب جب بھی اسے آتا تو سوالوں کا ایک انبار اپنے ساتھ لاتا۔اور اسے ان سوالوں کے بھنور میں دھکیل کر چلا جاتا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتی کھڑکی کے پاس آگئی جو باہر کی جانب کھلتی تھی۔ اس نے پردہ سرکایا تو ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس کے جسم میں سرائیت کرگیا۔سامنے لندن کی خاموش گلیاں تھیں۔نیم روشنی میں ڈوبی ہوئیں۔اور دھند میں لپٹا آسمان جس پر ستارے بھی اسے اپنے خواب کی طرح مبہم نظر آرہے تھے۔سردی اپنے عروج پر تھی مگر اس خواب سے زیادہ سرد نہیں جس کی سل پر وہ لیٹ گئی تھی۔جس کے ساتھ اسے زنجیروں سے جکڑ دیا گیا تھا اور ہر دفعہ صرف ایک مبہم سا اشارہ دیا جاتا تھا رہا ہونے کے لیے۔وہ سوچ کے بھنور میں پھنسی تاریکی میں ڈابے آسمان کو تکنے لگی جہاں سے نجانے کونسا فیصلہ آنے والا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
صبح گیارہ بجے اس کی آنکھ کھلی۔اس کا یونی جانے کو دل نہیں کررہا تھا اس لیے وہ بیڈ پر سستی سے لیٹی رہی۔اچانک موبائل کی بیپ بجی تو اس کی سکرین پر آسٹن کا نمبر جگمگا رہا تھا۔اس نے کوئی پیغام بھیجا تھا۔اس نے نیم وا آنکھوں سے میسج چیک کیا تو اس میں آسٹن نے اسے پاکستان کی ٹکٹس بک ہونے کی اطلاع دی۔آسٹن نے سب کے لیے اگلے ہفتے کی ٹکٹس بک کروائئ تھے۔اس نے موبائل کو واپس رکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
مجھے آسٹن کے ساتھ اپنی اس بات کو شئیر کرنا چاہیے۔شاید وہ اس کا کوئی حل نکال لے۔وہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔میری اس پریشانی کا اس کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا۔اور وہ اسے حل کرنے کی ضرور کوشش کرے گا۔
وہ آسٹن کو اس خواب کے بارے میں بتانے کا ارادہ کرنے لگی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
میرا دل تیری محبت کا ہے جان بخش دیار
میرا سینہ تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جان ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن
کیپٹن عاطف اور ان کے دو ساتھی سپاہی سرمایہ تن کو ٹھکانے لگا چکے تھے۔حوصلے اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے وہ دشمنوں کی پہلی صفوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔دشمن کے قریب پہنچ کر انہوں نے شدید حملے کیے۔بہت سے درندہ صفت انسانوں کو وہ ٹھکانے لگانے کے بعد مزید آگے بڑھ تھے۔ میجر بلال کی ہدایت پر انہوں نے بائیں جانب سے دشمن پر حملہ کیا تھا اور چوٹی کی
جانب پیش قدمی کی تھی۔ دشمن پوری طرح سے بوکھلا چکا تھا۔ میجر بلال اور ان کی یونٹ کے تمام جوانوں نے دشمن کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک ایک کر کے دشمن کے ساتھی اپنے اپنے انجام کو پہنچ رہے تھے۔اتنے میں ہی ایک دستی بم دشمن کی طرف سے آیا اور کیپٹن عاطف اور انکے ساتھیوں کے قریب پھٹ گیا۔بم پھٹنے کی وجہ سے کیپٹن عاطف اور ان کے قریب دشمن کی جانب بڑھتے ہوئے دو سپاہی اپنی جان کا نذرانہ وطن کی خدمت میں پیش کرچکے تھے۔
”سر کیپٹن عاطف شہید ہوگئے ہیں۔ ”
میجر بلال کو وائرلیس پر یہی سنا تھا۔ کیپٹن عابد کی آواز انہیں اس وقت پرنم لگی تھی۔
اللہ اکبر۔ ”میجر بلال صرف یہی کہہ سکے۔”
کیپٹن عاطف میجر بلال کے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھے۔ جن کے ساتھ انہوں نے پانچ سال کا عرصہ گزارا تھا۔
ہمت رکھو جوانوں۔وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ شہادت جیسا مرتبہ ہم سے پہلے حاصل کرگئے ہیں۔ ”
اللہ کا نام لو اور آگے بڑھتے رہو۔دشمن بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔”وائرلیس کے ذریعے میجر بلال نے کیپٹن عابد کی ہمت بندھائی جن کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔کیپٹن عابد اور کیپٹن عاطف بچپن کے دوست تھے ۔وہ زندگی کے ہر میدان میں ایک ساتھ رہے تھے۔ انہوں نے آرمی بھی اکٹھے ہی جوائن کی۔ ہر آپریشن پر وہ ہمیشہ ایک ساتھ گئے۔مگر قدرت کو ان کا مزید ساتھ قبول نہیں تھا۔اس لیے اس نے کیپٹن عاطف کو شہادت کا جام پیش کردیا تھا۔
ان شاءاللہ سر۔ بوجھل دل سے رابطہ ختم کرنے کے بعد کیپٹن عابد آگے بڑھ گئے۔کیونکہ یہ وقت وطن کےدشمنوں کا صفایا کرنے کا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جرتوں کے طلبگار ہوتم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
دشمن اگر تین ہزار بزدلوں کا لشکر لیکر نکلا تھا تو پہلی پیش قدمی میں اس ملک کے تیس ہزار بیٹے اپنی دھرتی ماں پر اپنا تن من قربان کرنے سر پر کفن باندھ کر نکلے تھے۔یہ تو سیلِ رواں تھا ،جسے روکنے کے لیے دشمن میں دم نہیں تھا۔ یہ تو جذبہ تھا وطن سے عشق کا کہ جس کی آنچ لہو کو گرما رہی تھی۔وطن کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کے لیے یہ بیٹے کسی بھی خوف سے بالا تر ہوکر مقتل گاہ پہنچ گئے تھے ۔ یہ مقتل گاہ اس ملک کے بیٹوں کے لیے جنت کی بشارت تھی جب کہ دشمن کے لیے جہنم واصل ہونے کا سندیسہ۔موت دونوں کے لیے بازو پھیلائے ان سنگلاخ پہاڑیوں میں کھڑی تھی لیکن اس ملک کے بیٹوں کے لیے وہ دائمی حیات کا فرشتہ بن کر آئی تھی اور دشمن کے لیے عبرت کا نشان ۔
؎جس دھج سے کوئی مقتل گیا ،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی چیز ہے،اس جان کی کوئی بات نہیں
مادرِگیتی کے بیٹے جس دھج سے مقتل گاہ گئے تھے موت حیران رہ گئی۔زمان و مکان حیرت سے ایک دوسرے کا چہرا تکنے لگے۔ناقابلِ تسخیر فوج عزم لیے دشمن کا منہ توڑنےمیدان جنگ پہنچ چکی تھی اور پہلی ہی کاروائی میں میجر بلال کی قیادت میں 031 کےقریب دشمنوں کو جہنم جانے کا راستہ دکھا چکے تھے۔
آنکھوں میں موت کے خوف کی جگہ وطن سے عشق کی چمک نے لے لی تھی جو کہ دشمن کی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔تاریخ لکھی جارہی تھی ۔اس ملک کے بیٹوں کے نام ،جو اس پر اپنا سب کچھ قربان کر گئے تھے، کے نام بڑی شان سے اس میں رقم ہورہے تھے۔عبرت کا نشان بنے دشمن تاریخ کے ابواب میں اپنا نام سیاہ صفحوں پر لکھوا چکے تھے کہ جن پر سیاہی کے سوا اور کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
گفتگو اچھی لگی ،ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
ایک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
”گڈ مارننگ ۔”
اس غزل کے ساتھ گڈ مارننگ کا میسج میجر بلال کے موبائل کی سکرین پر جگمگا رہا تھا۔ ابرش کا میسج دیکھ کر میجر بلال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ بیڈ سے اٹھ کر وہ صوفے پر آکر بیٹھ گئے اور میسجز کا فولڈر کھنگالنے لگے۔ان کے پاس شاعری کی اتنی کلیکشن تھی مگر اس وقت انہیں کوئی میسج نہیں ملا۔
پھر بھی جلدی ریپلائی کرنے کے لیے انہوں نے ایک شعر کے نیچے جو ابھی ابھی ان کے دماغ میں آیا تھا ،کے نیچے گڈ مارننگ مائی لو لکھا اور ابرش کو فارورڈ کردیا۔
؎کچھ خاص نہیں بس اتنی سی ہے داستانِ محبت میری
ہررات کا آخری خیال،ہر صبح کی پہلی سوچ ہوتم
”گڈ مارننگ مائی لو!۔ ”
میسج کھولتے ہی ابرش کا انگ انگ اک نئے احساس میں ڈوبنے لگا۔اس نے محبت بھری ایک نگاہ موبائل پر ڈالی اور پھر کالج جانے کی تیاری کرنے چلی گئی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...