اس بیوفا کی جھوٹی کہانیوں نے لوٹا دیکھے جو اس کی آنسو تو پانیوں نے لوٹا
کوئی لوٹ سکتا ہے ہم کو کس کی تھی یہ مجال صادقؔ ہمیں تو دل کی نادانیوں نے لوٹا
چلی سرخ جوڑے میں سب کچھ بھلا کر یہ ڈولی نہیں ہے جنازہ ہے میرا
ذرا دیکھ لے اک نظر اس طرف بھی کیوں زلفوں سے اپنا چھپاتی ہو چہرہ
تیری گلی میں رات گئے تک میری موت کا چرچہ تھا مار کے مجھ کو سوچ رہے ہو مرنے والا اچھا تھا
ٹوٹ کر بکھری ہیں جیسے میرے دل کر کرچیاں سوچوں ذرا تو کوئی شیشہ ٹوٹ کے ایسے بکھرا تھا
ٹوٹے ہیں ایسے محبت کے وعدے جیسے کوئی ٹھوکر سے ٹوٹے کھلونا
عمر بھر اٹھائے تیرے ناز میں نے حق تیرا بنتا تھا کچھ دیر رونا
اگر اپنے ہاتھوں سے دفناتے مجھ کو ارے بیوفا کچھ نہ جاتا تیرا
چلی سرخ جوڑے میں سب کچھ بھلا کر یہ ڈولی نہیں ہے جنازہ ہے میرا
ذرا دیکھ لے اک نظر اس طرف بھی کیوں زلفوں سے اپنا چھپاتی ہو چہرہ
اپنوں سے دور جانے کا درد سبھی کو ہوتا ہے شاخ سے ٹوٹے پھول سے پوچھو کتنی دیر وہ رویا تھا
میری موت نے اس پتھر کو پانی پانی کر ڈالا آج میری جب میت نکلی اس کا آنچل بھیگا تھا
خبر میرے مرنے کی سن کر او سنگدل اگر تیرے من میں ہے جاگی محبت
تیری مہربانی اگر آ گے ہو تم دیکھنے یہ وفاہوں کی میت
صدا خوش رہے تو کبھی غم نہ دیکھے تیرے جگ میں اپنا تھا اتنا بسیرا
چلی سرخ جوڑے میں سب کچھ بھلا کر یہ ڈولی نہیں ہے جنازہ ہے میرا
ذرا دیکھ لے اک نظر اس طرف بھی کیوں زلفوں سے اپنا چھپاتی ہو چہرہ
ہوتا ہے محسوس جو دل کو کرتی ہے تقدیر وہی کل بھی خواب میں میرے ہاتھ سے تیرا دامن چھوٹا تھا
لے کر آنسو آنکھوں میں تم ڈھونڈ رہے ہو صادقؔ کو پوچھو موت کی راہوں سے تم جا کے کوئی آیا تھا
میں جب یاد آؤں سجا لینا خود کو جُوڑے میں دو گُل لگا لینا ظالم
وہ صادقؔ کے لٹنے کا دن یاد رکھنا محبت کی برسی منا لینا ظالم
ذرا دو گھڑی اس جگہ جا کے رونا جہاں نام لکھا درختوں پہ میرا
چلی سرخ جوڑے میں سب کچھ بھلا کر یہ ڈولی نہیں ہے جنازہ ہے میرا
ذرا دیکھ لے اک نظر اس طرف بھی کیوں زلفوں سے اپنا چھپاتی ہو چہرہ