آگے وہ نہیں بولے تھے نہ ہی وہاں موجود کسی شخص میں سننے کی ہمت تھی۔
میری ماں۔۔؟ فرشتے کے اس سوال پر گوپال کی گردن اور جھک گئی تھی۔ کاش کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں
کہاں ہے میری ماں ؟ اس بار فرشتے کی آوازبلند تھی اور غصہ اسکی آنکھوں سے لاوے کی طرح چھلک رہا تھا
پاگل خانے۔۔۔۔
مجھے اس کتاب کی رو سے تاکید تھی کہ پھر پیچھے نہیں دیکھنا اور تیزی سے وہاں سے بھاگنا ہے کیونکہ دیوی ما جاندار ہو کر بیٹی کو اوپر لے جائیگی لیکن اگر پیچھے دیکھا تو وہ دیکھنے والے کا خون کر دیگی۔
میں بھی تیز بھاگتا گھر پہنچا جہاں تمہاری ماں پہلے سے جاگ رہی تھی۔ میں ابھی کچھ بول نہیں سکتا تھا اور حمل ٹھرانے کے لئے بس ایک وہی رات ملی تھی۔ میں حیوان بن چکا تھا اور تبھی اسکے دماغ نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ شائد اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں کیا کر کے آیا ہوں۔ میں اسے لاہور لے آیا۔ زمینیں میں پہلے ہی بیچ چکا تھا۔ شناختی کارڈ کی ایک کاپی تھی اسی سے کام چلایا تھا ہر جگہ
تمہاری ماں کا پاگل پن بڑھتی گئی اور جیسے ہی اجمیر پیدا ہوا میں نے اسے پاگل خانے بھیج دیا اور پھر کبھی اسکے پیچھے نہیں گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتے اور جہانزیب کی خیال میں وہ اپنی سفاکی انہیں بتا رہے تھے پر حقیقت میں وہ خود خود کو اپنا اصلی چہرہ دکھا رہے تھے۔ انتہائی مکروہ اور حیوانی چہرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتے کی تلاش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اسے ابھی اپنی ماں سے ملنا تھا
وہ واحد ہستی جو سگی بھی تھی اور اسکی عاشق بھی
وہ کسی کو بھی بتائے بغیر اگلے دن مطلوبہ پاگل خانے پہنچ چکی تھی
جی فرمائے۔۔؟
پاگل خانے کے ڈاکٹر نے اس سے آنے کا مقصد پوچھا تھا
جی مجھے بسنتی نامی patient سے ملنا ہے جنہیں شائد 22 سال پہلے گوپال ٹھکر کے نام سے ایک شخص یہاں داخل کروا کر گیا تھا
ہممم آپ انکی کون؟
بیٹی۔۔!
اسنے پرانی فائلز الٹ پلٹ کی تھیں اور مسز گوپال ٹھکر کی فائل لے کر اسکے سامنے سیٹ پہ بیٹھ گیا تھا۔
آئی ایم سوری پر آپ کی مدر کو تو کل ڈسچارج کروا لیا گیا تھا۔
وہ اب یہاں نہیں ہیں۔ ڈسچارج۔۔؟ پر کس نے؟ اس کا پہلا خیال اپنے پاپا کی طرف ہی گیا تھا پر جواب سوال سے زیادہ حیران کن تھا
آااں ان کا نام اجمیر ٹھکر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حیران سی گھر آئی تھی
اسکی ماں گوپال ٹھکر جیسے وحشی کے گھر تھی یہ بات سوچ کر ہی اسے غصہ آ رہا تھا
گوپال ٹھکر کا ایڈریس اسکے پاس نہیں تھا اور وہ جانتی تھی اجمیر کل ڈسچارج ہو چکا ہے اس لئے کلینک جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاپا سے ہیلپ لی جائے؟ پر پاپا کو اتنی اذیت دی ہے اب اپنی ماں کے لئے وہ انہیں اذیت نہیں دے سکتی پر اب کرے کیا؟
وہ اپنے کمرے میں بےچینی سے ٹہل رہی تھی جب ہمیشہ کی طرح شاہ میر نے کمرے میں داخل ہو جانے کے بعد داخل ہونے کی اجازت مانگی تھی
آ چکے ہو پوچھو مت
فرشتے نے سادگی سے پر جتا آج بھی دیا تھا
عادت ہو گئی ہے یار برداشت کرو
شاہ میر کے اس ڈھیٹ پن پہ فرشتے مسکرا دی تھی۔
دل صاف ہو تو عادتیں بری نہیں لگتیں خاص کر ایسے شخص کی جو دل کے بہت پاس ہو
مجھے تمہاری ایک favour چاہئے تھی urgently
خیریت کیا ہوا؟ فرشتے ایک دم پریشان ہوئی تھی
کچھ نہیں بس میرے ساتھ چلو پلیز
پر کہاں؟
پلیز سوال مت کرو بس چلو پلیز ابھی
اس نے ok کہتے ہوئے اپنا ہینڈ بیگ پکڑا اور چلنے کے لئے تیار تھی۔
ناشتہ کیا یا فاقے کا روزہ رکھے ہوئے ہو۔
شاہ میر ڈرائیو کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا
بس وقت نہیں ملا ناشتہ کرنے۔ فرشتے ایک دم شرمندہ سی ہو گئی تھی۔ سب سے چھپ کر صبح صبح mental hospital جانا کا عمل اسے ایسے شرمندہ کر رہا تھا جیسے اسنے کوئی چوری کی ہو۔
شاہ میر نے گاڑی McDonald کے سائیڈ پہ پارک کی تھی اور اسے گاڑی میں ٹھہرنے کا کہ کر خود اندر چلا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ چاکلیٹ اور سٹرابری شیک لئے اسکی طرف آیا
گاڑی میں بیٹھ کر اسنے سیک اسکی طرف بڑھائے تھے تاکہ وہ اپنی مرضی کا شیک لے لے پر وہ دونوں ہی پر قبضہ جما چکی تھی۔
بہت عرصے بعد آج وہ سب کچھ بھولے شاہ میر کے ساتھ شیک انجوائے کر رہی تھی۔
سٹراء (پائپ) اپنا اپنا پر شیک دونوں ہی دونوں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ہجویری کالونی ہائوسنگ سکیم میں داخل ہو چکی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے چھوٹے بڑے کئی گھر تھے پر جو چیز فرشتے کو اٹریکٹ کی وہ ہر گھر کے باہر لگائے گئے درخت اور سبزہ تھا۔ گاڑی ایک گھر کے سامنے رک چکی تھی۔ وہ دونوں اب کچھ سیڑھیاں چڑھ کر اب مین گیٹ کے باہر کھڑے تھے۔ شاہ میر ڈور بیل بجا رہا تھا اور فرشتے ارد گرد کے ایریا کا جائزہ لے رہی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ اپنا ماضی حال سب بھول چکی تھی۔
دروازہ کسی لڑکے نے کھولا تھا شائد وہ وہاں کا نوکر تھا۔ فرشتے متجسس نظروں سے شاہ میر کو دیکھتے گھر میں داخل ہوئی
یہ حصہ گھر کا صحن تھا لیفٹ سائیڈ پہ موتئے،گلاب اور چمبیلی کے پھول نفاست سے اگائے گئے تھے۔ سامنے دروازہ تھا جسے کھولے شاہ میر اسکا منتظر تھا۔
وہ کمرے کی طرف بڑھی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر صوفے پر بیٹھے جس شخص پر پڑی تھی وہ اجمیر تھا۔۔
مطلب وہ گوپال ٹھکر کے گھر تھی۔ ایسے شخص کے گھر جو کہ اسے نفرت کے قابل بھی نہیں لگا تھا۔ وہ انہی پیروں وہاں سے لوٹ جاتی پر یہاں اسکی ماں تھی اور اس سوچ نے اسے رکنے پر مجبور کیا تھا
شاہ میر سے نپٹنے کے لئے بھی کوئی اور وقت منتخب کرتی وہ اجمیر کی طرف بڑھی تھی
میری ماں کہاں ہے؟ وہ اجمیر سے نظریں ملائے بغیر مخاطب ہوئی تھی۔ اجمیر ہی کی خاطر ببا نے یہ سب کیا تھا۔ اور پتا نہیں وہ کس حد تک ببا جیسا ہو؟
وہ دل میں اسکے لئے زہر بھر رہی تھی اور اجمیر مسکرا کے بولا تھا میری نہیں ہماری ماں کہئے دی دی
میں ماتا کو لے آیا ہوں وہاں سے۔ بہت فضول جگہ ہے وہ تو اف ڈاکٹرز خود آدھے پاگل لگے مجھے تو ہاہاہاہا again thank you شاہ میر بھائی میری help کرنے کا ورنہ وہیل چئیر پہ اکیلے ہوسپٹل جانا اف بہت مشکل تھا۔
لیکن یہ گھر۔۔ تمہیں یہاں نہیں لانا چاہئے تھے ماں کو۔۔ ہم ماں کو کسی اور گھر لے جاتے
لیکن اس گھر میں کیا ہے فرشتے؟ کیا یہ گھر تمہیں پسند نہیں آیا؟
شاہ میر تم میری بات سمجھ نہیں رہے یہ ببا،،، مطلب گوپال ٹھکر کا گھر ہے اور ماں کا انکے گھر رہنا مجھے قبول نہیں۔
اوہ مس سٹوپڈ آپکو کس نے کہا یہ انکا گھر ہے؟
شاہ میر نے دونوں ہاتھ لڑاکا عورتوں کیطرح کمر پر رکھ کر اس سے پوچھا تھا
اور فرشتے سمجھ گئی تھی اسنے کوئی بیوقوفی دکھائی ہے
اجمیر یہاں ہے تو میں نےسوچا۔۔۔ خیر ماں کہاں ہے مجھے ان سے ملنا ہے
اس نے شاہ میر کے ہاتھوں متوقع تواضع سے بچنے کے لئے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا
تمہاری ماں تمہارے گھر میں آئی ہے فرشتے۔ یہ گھر تمہارے لئے خریدا تھا میں نے تاکہ تم آزاد ہو چاہو تو ہمارے ساتھ رہو ورنہ ۔۔۔
آو میرے ساتھ
شاہ میر یہ کہ کر اسے معافی مانگنے کا موقع دئے بغیر ایک کمرے کی جانب بڑھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمبیلی اے چمبیلی تو میری پتری اے نا؟
میں تیرے وسطے کھیر لائی آں
کھا لے تھوڑی جئی کھا لے تینوں چنگی لگدی سی نا کھیر
(چمبیلی اے چمبیلی تو میری بیٹی ہے نا؟ میں تیرے لئے کھیر لائی ہوں کھا لو تھوڑی سی کھا لو تمہیں اچھی لگتی تھی نا کھیر)
سائیڈ پہ ڈاکٹر اور ایک نرس کھڑے شاہ میر کو بسنتی کی موجادہ حالت سے باخبر کر رہے تھے
انکے مطابق مریضہ کسی چمبیلی کے حوالے سے شدید صدمے سے دوچار ہوئیں جسے ذہن قبول نہیں کرنا چاہتا اور اس ہی لئے مریضہ اندر ہی اندر اپنے آپ سے لڑ رہی ہے لیکن اگر چمبیلی کے حوالے سے مریضہ کو مطمئین کر دیا جائے تو patient میںimprovement لائی جا سکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمبیلی اپنی ماتا کے سامنے کھڑی تھی پر ماتا نے نظر اٹھا کر اسے ابھی تک دیکھا بھی نہیں تھا
ماتا کے بالوں میں سفیدی اتر چکی تھی۔ گرم جرسی اپنے گرد لپیٹے وہ اپنی گود میں پڑی گڑیا کو فرضی کھیر کھلا رہی تھی
شاہ میر ڈاکٹر اور نرس کو لے کر کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔ عجیب جادوگر تھا ہمیشہ فرشتے کے دل کی بات اس کے کہنے سے پہلے ہی پوری کر دیتا تھا
چمبو گل سن۔۔ تیرا ببا تینو چنگا لگدا اے نا؟ مینوں پتہ تو اونو ویکھنی ایں وار وار (چمبو بات سن۔۔ تمہارا باپ تمہیں اچھا لگتا ہے نا؟ مجھے پتہ ہے تم اسے دیکھتی ہو بار بار)
پر او تینوں پیار نئی کردا اوہدے کلو دور رے اوہ جادو کردا اے تینوں کھو لے گا میرے کلو (پر اس سے دور رہو وہ جادو کرتا ہے چھین لے گا تمہیں مجھ سے)
وہ بڑے راز دارانہ انداز میں گڑیا کو تنبیہ کر رہی تھیں
اور پھر ایک دم سے وہ بین کرنے لگی تھیں
گوپال میری چمبو کتھے اے کتھے چھڈ آیا اونو گوپال دیوی واسطہ میری چمبیلی دے دے مینوں چمبا۔۔۔۔۔۔(گوپال میری چمبو کہاں ہے کہاں چھوڑ آئے ہو اسےگوپال دیوی کا واسطہ میری چمبیلی دے دو مجھے چمپا۔۔۔۔)
فرشتے ایک دم سے انکے بین کرنے پہ انکی طرف بڑھی تھی پر ماتا اسی وقت رونا چھوڑ پھر گڑیا سے مخاطب ہوگئی تھی
چمبو گل سن! تےرا ببا تینوں چنگا اے نا؟مینوں پتا اے تو اونو ویکھنی ایں
اور پھر سہم کر ماتا نے کہا تھا
۔ او تیری اکھاں کڈ لے گا نا ویکھ اونو۔۔۔ اے لے تیرے ببے دی فوٹو وے ایس وچ اینو ویکھیا کر (وہ تمہاری آنکھیں نکال لے گا مت دیکھو اسے۔۔ یہ لو تمہارے باپ کی تصویر ہے اس میں اسے دیکھا کر)
اور بسنتی نے ایک فرضی کارڈ گڑیا کی فرضی جیب میں ڈال دیا تھا
فرشتے اب بسنتی کے پاس زمین پہ بیٹھی اپنے تعارف کے لئے موثر الفاظ کا انتخاب کی کوشش کررہی تھی جب بسنتی نے گڑیا کو اپنے منہ کے قریب کیا تھا اور سرگوشی کے سے انداز میں کہا تھا
مینوں پتا اے تو میری چمبیلی نئی۔۔ چمبیلی تے دیوی کول اے پر او میری چمبیلی نئیں دیندا تو ہک واری مینوں ماتا کہ دے ہک واری بس۔ گوپا۔۔۔۔۔ل میری چمبیلی دے دے (مجھے پتہ ہے تم میری چمبیلی نہیں ہو چمبیلی تو دیوی کے پاس ہے پر وہ میری چمبیلی نہیں دیتا واپس۔ تم ایک بار مجھے ماتا کہ دو ایک بار بس
گوپا۔۔۔میری چمبیلی دےدے)
وہ پھر سے بین کرنا شروع کرچکی تھیں جب فرشتے نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی
پر بسنتی ایک دم خوف سے پیچھے ہٹی تھی وہ ابھی بھی فرشتے کی طرف دیکھنے کے بجائے سامنے کسی غیر مرئی مخلوق کو دیکھ رہی تھی
میں نئی جانا میں نئی جانا ہجے میری چمبا نئی آئی میں نئی جانا ہجے آ جا چمبو لین اگئے نیں مینوں میں نئی جانا (میں نے نہیں جانا میں نے نہیں جانا آجائو چمبیلی لینے آگئے ہیں مجھے میں نے نہیں جانا) بسنتی ایسے ہاتھ پائوں چلا رہی تھی جیسے کوئی اسے اپنے شکنجے میں پھنسا رہا ہو اور وہ خود کو اس شکنجے سے نکال رہی ہو
ماتا۔۔۔
ماتا میں چمبیلی آ گئی میں واپس دیکھ مجھے تیری چمبیلی میں ماتا
فرشتے بھرائی آواز میں اسے بلا رہی تھی
بسنتی حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی
آنکھیں بھی وہی تھیں نیلی روشن، رنگ روپ بھی ویسا ہی تھا دمکتا انگارے جیسا اور کیسی مشابہت تھی اس چہرے میں گوپال کی
یہ میری چمبیلی ہی ہے
انہوں نے ایک دم اسے اپنی بانہوں کے حلقے میں لیا تھا اور اب یقین اور بےیقینی کے بیچ مبتلا کبھی اسے چومنے لگتیں اور کبھی آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولتیں جیسے سمجھ نا پا رہیں ہوں کے یہ حقیقت ہے یا خواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...