(Last Updated On: )
چلے چلو کہ ٹھہرنے کا یہ مقام نہیں
کسی بھی منزل مقصود کو دوام نہیں
بلا کشی میں مری ہاتھ موسموں کا بھی ہے
شکست توبہ فقط اعتبارِ جام نہیں
گھروندے ریت کے بن بن کے مٹتے جاتے ہیں
گمانِ خام خیالی، خیالِ خام نہیں
نہ گیسوؤں ہی کی چھاؤں، نہ عارضوں ہی کی دھوپ
یہ صبح صبح نہیں ہے، یہ شام شام نہیں
زمانہ سازی انسان دشمنی، توبہ
رواج و رسمِ محبّت کا احترام نہیں
خلا سے تا بہ خلا کور چشم اندھیرے میں
یہاں بھی جشن چراغاں کا اہتمام نہیں
کشاں کشاں چلا آیا ہوں ان کے در پہ ضیا
اب اُن سے کیسے کہوں مجھ کو ان سے کام نہیں
٭٭٭