نئی فلمیں بنانا ہی میرا کام ہے! یہ کام ہی جیون ہے! جیون جینے کے لیے ہے! اسے اصل میں جینا چاہیئے! میری سوچ اس طرح پختہ ہوتی جا رہی تھی۔
اور اُسی سمے یاس پسندی کو اجاگر کرنے والی ایک فلم ‘دیوداس’ لوگوں کو بہت متاثر کر رہی تھی۔ کلکتہ کی نیو تھئیٹرز فلم کمپنی کی بنائی اس فلم کے ڈائرکٹر تھے پرمتھیش بروا۔ ایک فلم کے روپ سے وہ بہت ہی سُندر تھی۔ اس میں سہگل کا گایا ایک گیت ”دکھ کے اب دن بیتت ناہیں” بہت ہی سُندر تھا۔ آج بھی وہ گیت مجھے بہت پسند ہے، لیکن یہ یاس پسند فلم نوجوان نسل کے من میں ایک طرح کی مایوسی پیدا کرتی جا رہی تھی۔ دیوداس شراب کا عادی ہو جاتا ہے، ویشیا کے یہاں جانے لگتا ہے اور آخر میں پیار کی خاطر اپنے آپ کو شراب میں پورا ڈبو دیتا ہے۔ اُسی میں اس کا انت ہو جاتا ہے۔ اس فلم کو دیکھتے سمے جوان لوگ رونے لگتے تھے۔ سچے پریم کے لیے مر جانا چاہیئے، خود کشی بھی کر لینی چاہیئے، یہ کھوکھلا آدرش جوان نسل کے من پر حاوی ہونے لگا تھا۔ لیکن ہمارے سماج کو اس طرح ناامید، غیر فعال نوجوانوں کی ضرورت نہیں تھی۔ اِسے تو چاہیئے تھے ایسے نوجوان لوگ جو دکھ میں بھی راستہ نکالتے ہوے سورماؤں کی طرح جیون کی راہ پر امنگ اور خوشی کے ساتھ چلتے ہی رہیں۔ پیار کی ناکامی کے کارن دکھ سے چُور ہو کر مر جانے کا نام جیون نہیں۔ جیون تو اِسی کو کہتے ہیں جو اپنے پیار کی یاد کو من میں سنجو کر فرض کی ادائیگی موت تک کرتا ہے۔ جوانوں کو اِس نتیجے پر پہنچانے والی مقصدی اور اُمید پرست فلم بنانے کا میں نے فیصلہ کیا۔ ‘دیوداس’ کے کارن نا امیدی کی جو لہر اٹھی تھی، اس کو روکنا سماجی مفاد کے لیے بے حد ضروری تھا۔
اسی سوچ سے میں نے اپنے معاون بھاسکرراؤ امینبل کو سارا خیال بتا دیا اور اس پر ایک کہانی کا موٹا خاکہ بنا کر لانے کو کہا۔ اس خاکے کے مطابق نئی فلم کے بارے میں ہمارے خیالات دھیرے دھیرے واضح ہوتے گئے۔ ‘دیوداس’ کی اصل کتھا مشہور بنگالی لیکھک شری چندر چٹرجی کی تھی۔ وہ بہت ہی مضبوط قلم کے دھنی تھے۔ ان کی یاس پسند فکر کو کرارا جواب دینے والی کہانی تیار کرنے کے چیلنج کو میں نے خود پہل کر قبول کیا۔
ظاہر ہے کہ محض بذلہ سنجی اور محاوروں سے بھرے مکالمے ایسے اثر کی تخلیق نہیں کر سکتے تھے، کہانی تو ایسے آدمیوں کی ہونی چاہیئے جو بالکل ہی سادہ اور عام جیون جیتے ہیں۔ وہ لوگ چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا سکھ دکھ بھی عام ہوتا ہے۔ اپنے خوف، ہمت، خوبی، خامی وغیرہ کے کارن ہی وہ لوگ آدمی کہلاتے ہیں، آدمی لگتے بھی ہیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ان کے جیون پر مبنی کہانی ہو۔ اس طرح جانے انجانے میں ہی نئی فلم کا نام ‘آدمی’ طے ہو گیا۔
سوچا کہ ‘آدمی’ کا ہیرو راستے پر گشت لگاتا ایک معمولی پولیس والا ہو۔ پولیس کو ڈیوٹی کرنے کے لیے کسی بھی محلے میں جانا پڑتا ہے۔ اس کام میں اس کا شہر کے مختلف طبقے کے لوگوں سے رابطہ ہوتا ہے۔ اِسی چکر میں ایک دن جوے کے ایک اڈے پر چھاپہ مارتے سمے اس معمولی پولیس والے یعنی ہمارے ‘آدمی’ کے ہیرو کی ملاقات ایک ویشیا سے ہو جاتی ہے۔ اس کے من میں اس ویشیا کے لیے ہمدردی جاگتی ہے۔ دونوں میں آگے چل کر میل جول بڑھتا جاتا ہے یہ تھا اِس سکرین پلے کا آغاز۔
اِس کے لیے ہم لوگوں نے پولیس والوں کا گھریلو جیون، ان کے مکانوں کی حالت اور پریڈ جا کر دیکھی۔
اب باری تھی ویشیاؤں کے جیون کو غور سے دیکھنے کی! اِس کے بارے میں ہم نے کئی کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن صرف سنی سنائی باتوں پر کہانی لکھتے تو وہ حقیقت سے دور رہ جاتی۔ اس لیے ویشیاؤں کے چکلوں میں جا کر اُن کے جیون، رہن سہن، اُن کی کٹھنائیاں اور سوال وغیرہ کا خود معائنہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، یہ جان کر میں اور بھاسکرراؤ بمبئی گئے۔ بابوراؤ پینڈھارکر کے ایک واقف کار دتارام کو ہم نے پکڑا۔ اُس کی مدد سے ہم ہر رات چکلہ بستی میں جانے لگے۔ میں تو کبھی پان تک نہیں کھاتا تھا۔ لیکن یہ جتانے کے لیے کہ میں اِس بستی میں روز کا آنے والا ہوں، میں دو تین پان چبا کر ہونٹ لال کر لیتا، بِنا ٹوپی کے گھومتا، اور شکل ایسی بنا لیتا کہ کچھ نہ پوچھیے۔ بال بکھرے ہوے، کپڑے مٹ میلے اور سلوٹیں پڑے ہوے، منہ میں پان، رنگیلے ہونٹ۔۔۔ ایسے جاتا تھا میں اس بستی میں۔ سب سے آگے ہوتا تھا ہمارا رہبر دتارام، اس کے پیچھے میں، میرے پیچھے پیچھے بابوراؤ پینڈھارکر اور سب سے آخر میں پسینے پسینے ہو رہے بھاسکرراؤ، ایسی ہوتی تھی ہماری پلٹن کی تیاری۔
ہمارا رہبر دتارام دھندا کرنے والا یا ویشیاؤں کا کوئی بھڑوا نہیں تھا۔ یقیناً وہ ایک سماج سیوک تھا۔ اسے سب طرح کی چکلہ بستیوں کی جانکاری تھی۔
شروع میں ہم لوگ نچلے طبقے کی چکلہ بستی میں گئے۔ وہاں کا ماحول دیکھ کر مجھے تو گِھن سی آ گئی۔ ایک کمرے میں رسی باندھ کر اُس پر پرانے کپڑے پردے جیسے ڈالے گئے تھے اور ان کے پیچھے ایک جوڑے کے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس طرح سے چار پانچ ‘بیڈ’ اسی کمرے میں بنائے گئے تھے۔ باہر صحن میں ایک لڑکی بالوں میں کافی تیل ڈالے، چہرے پر پوڈر پوت کر ہونٹوں پر بھڑکیلی لپ سٹک لگائے کسی گاہک کے ساتھ بڑے پیار سے اِٹھلا رہی تھی۔ تبھی اندر سے شراب کے نشہ میں دھت ایک شخص اپنے کپڑوں کو سنوارتا ہوا باہر آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اُسی طرح سے تڑک بھڑک کاسٹیوم پہنے ہوئی ایک لڑکی بھی باہر آئی۔ وہ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی اس آدمی کے کپڑوں کو کھینچنے لگی۔ صحن میں کھڑی وہ لڑکی فوراً ہی اپنے گاہک کو ہاتھ پکڑ کر اس مٹ میلے پردے کی اوٹ میں لے گئی۔
من گِھن سے بھر گیا تھا۔ لیکن چہرے پر اس کا ذرا بھی احساس نہ دکھاتے ہوے ہم وہیں بے شرمی سے ہنستے ہوے کھڑے رہے۔ ایک بڑھیا ہمارے پاس آئی۔ اس کا پہناوا بھی چمک دمک والا تھا اور رنگ روغن بھڑکیلا۔ اپنی عمر سے سیدھی بے میل شوخی اور ادا سے عاشقانہ ادا پھینک کر اس نے ہنستے ہوے کہا، “تھوڑا صبر کیجئے۔ ابھی ایک ایک لڑکی خالی ہوئی جاتی ہے۔ پھر وہ آپ لوگوں کو اندر لے جائیں گی۔۔۔ آپ کو بہت ہی جلدی ہو، تو میں جو حاضر ہوں!”
میں نے اُس بڑھیا کا اپنی فلم میں کہیں نہ کہیں کچھ استعمال کرنا طے کیا۔
لوگوں کی اتنی آمد ورفت میں ویشیا جیون اور ان کے کاروبار کے بارے میں کچھ اور جانکاری حاصل کرنا ناممکن ہی تھا۔ وہاں تو بیٹھنے تک کے لیے جگہ نہیں تھی۔
دوسرے دن ہم نے کچھ اونچے طبقے والی چکلہ بستی میں جانا طے کیا۔ کینیڈی برِج پر ایک گووا والی رہتی تھی۔ اس کے یہاں جانا تھا۔ لیکن ہمارے کتھا لیکھک بھاسکرراؤ وہاں آنے کو تیار نہیں ہو رہے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی وہیں کہیں آس پاس رہتے تھے۔ کسی نے اُس بائی کے کوٹھے پر جاتے دیکھ لیا تو خیر نہیں، یہ خوف انہیں وہاں جانے سے روک رہا تھا۔ وہ کافی ٹال مٹول کرتے رہے، لیکن میں نے انہیں چھوڑا نہیں۔ آنکھیں بند کر چوری سے دودھ پینے والی بلی کی طرح بھاسکرراؤ بِنا اِدھر اُدھر دیکھے، سر جھکائے سیدھے اس بائی کے کوٹھے میں گھس گئے۔
بائی کے گھر کی سجاوٹ عام مڈل کلاس کے لوگوں کے گھروں جیسی تھی۔ بائی نے ہمارے لیے پان بنوائے اور بڑی نشیلی ادا سے دیکھتے ہوے ہمیں دے دیے۔ اس نے ایک گانا بھی سنایا۔ اس کا گانا ایک دم معمولی تھا۔ اُس کے من کی بات جاننے کے لیے ہم نے اس سے باتیں شروع کیں۔ لیکن اس کی باتوں سے ہم ایک بات جان گئے: ویشیا کے یہاں آنے والے لوگ صرف لطف لینے کے لیے ہی آتے ہیں، لہذا انہیں اپنی بھلی بُری آپ بیتی سنا کر دکھی کرنا کہاں تک مناسب ہے؟ اسی بھاونا سے وہ اپنے من کی ذرا بھی گہرائی پانے نہیں دے رہی تھی۔ اس کے رویے میں اتنی فارملیٹی تھی کہ ہمیں وہ ذہنیت وہاں مل پانا لگ بھگ ناممکن لگنے لگا تھا، جس کی کہ ہمیں تلاش تھی۔ ہم نے اسے سو روپے دے دیے، اور فوراً وہاں سے کھسک آئے۔ کل کی طرح آج کا دن بھی اس طرح بے کار گیا تھا۔
میں ‘آدمی’ کی ہیروئین کی تلاش میں تھا، لیکن قِسم قِسم کے چکلوں کے زینے چڑھنے اترنے کے باوجود وہ مجھے مل نہیں رہی تھی۔ ایک رات دتارام ہمیں ایک ایسی جگہ پر لے گیا جہاں ایک ٹھیک ٹھاک چہرے والی ادھیڑ گوری عورت نے ہمارے سامنے اپنی پسند چننے کے لیے سات آٹھ جوان لڑکیوں کو کھڑا کر دیا۔ سب نے مجھے دیکھا۔ میں بھی کسی پرانے کھلاڑی کی نظر سے انہیں دیکھنے لگا۔ شاید ابھی ابھی اس کاروبار میں آئی لڑکی اپنا درد دل بتلا دے گی، یہ سوچ کر میں نے ان میں سے ایک خوبصورت لڑکی کو پسند کیا۔ اوپری منزل کے ایک کمرے میں وہ مجھے لے گئی۔ اس کمرے میں لکڑی کی ایک پارٹیشن لگی تھی۔ اس چھوٹے سے کمرے میں ایک پلنگ اور ایک کرسی جیسے تیسے جمع کر رکھی تھی۔ نیچے دیوان خانے میں دتارام، بابوراؤ پینڈھارکر اور بھاسکرراؤ میری راہ دیکھ رہے تھے۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میں نیچے آیا۔ وہ سب لوگ شرارت سے مسکرا رہے تھے۔ ہم سب لوگ وہاں سے چلنے کو تیار ہوے۔ زینے کی سیڑھیاں اترنے ہی لگے تھے کہ اس ادھیڑ کُٹنی نے میرے گھنگھرالے بال پکڑ کر کھینچے اور اپنی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی، “اجی، یہ بھی اچھا خاصا تجربے کار مال ہے!” میں نے اپنے بالوں کو جھٹکا دے کر چھڑا لیا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر آیا۔
دوسرے دن شام ہو جانے کے بعد چکلہ بستی میں گھومنے کے لیے ہم نے ایک وکٹوریہ کرائے پر لیا۔ وکٹوریہ میں بیٹھتے ہی دتارام نے میرے چرن چھو لیے اور کہنے لگا، “آپ واقعی دیوتا ہیں!”
میں نے اسے کندھے پکڑ کر اٹھا لیا۔
بھاسکرراؤ نے پوچھا، “دیوتا؟”
“اور نہیں تو؟ اجی کل آپ اس جوان چھوکری کو لے کر اوپر گئے اور ویسے ہی سوکھے رہ کر نیچے چلے آئے۔ لیکن اِن کے اس طرح سب سے نیارے طرز عمل کے کارن آج مجھے کافی کچھ بھلا بُرا سننا پڑا۔”
بابوراؤ اور بھاسکرراؤ دونوں میرا منھ تاکتے رہ گئے۔
بابوراؤ نے دتارام سے پوچھا، “کیوں، اور کیا ہو گئی بات؟”
“ہونا جانا کیا تھا؟ چکلے کی اس کٹنی نے آج مجھے بلا بھیجا اور پھٹکارتی ہوئی بولی کل تم نے جس آدمی کو لایا تھا، وہ چھوکری کو لے کر اوپر گیا۔ وہ چھوکری اس کے سامنے ننگی ہو گئی لیکن وہ سُسرا اس کے سنگ سویا ہی نہیں۔ بےکار کی پوچھ تاچھ کرتا رہا۔ لگتا ہے شی۔آئی۔ڈی C.I.D)) کا آدمی ہوے گا۔ پھر کبھی ایسے شی۔ آئی۔ڈی والے کو اِہاں لائے تو میری جوتی ہو گی اور تیرا سر، سمجھے؟”
بابوراؤ سے رہا نہیں گیا۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا، “یعنی شانتارام بابو۔ پھر آپ اوپر جا کر آخر کیا کر آئے؟”
“کچھ بھی تو نہیں۔ اوپر گیا۔ جاتے ہی وہ بائی پلنگ پر لیٹ گئی اور ”چلو! آؤ!! بیٹھو!!!” کہہ کر مجھے اپنے پاس سونے کی درخواست کرنے لگی۔ میں نے اُس سے کہا، “اری، ایسی بھی کیا جلدی پڑی ہے؟ آؤ، پہلے کچھ باتیں کر لیں۔” ــ سچ تو یہ تھا کہ میں اس سے پہلے کے اس کے جیون کے بارے میں کچھ باتیں جاننا چاہتا تھا۔ اسے تھوڑا پچکار کر، سہلا سہلا کر سہج بھاؤ سے اس سے ساری باتیں نکلوانی چاہیئے تھیں۔ لیکن ایسے موقع کے لیے میں بھی تو ایک دم اناڑی تھا۔ اس لیے میں نے اسے سیدھے رنگیلے ڈھنگ سے پوچھا، ”تم کس گاؤں سے آئی ہو؟‘‘ اس پر وہ جَھلّا کر بولی، “تم کو کیا کرنا ہے؟ آؤ، بیٹھو!”
“میں تو کرسی سے مانو چپک کر ہی بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے کہا، “اری! یہ بیٹھو، بیٹھو، کیا لگا رکھا ہے؟ پہلے کچھ باتیں ہو جائیں۔ اچھا بتاؤ، تم اپنی خوشی سے یہاں آئی ہو کیا؟ یا کوئی تمہیں ورغلا کر، دھوکا دے کر یہاں پھنسا گیا ہے؟”
“اس چھوکری کو میری اِن باتوں پر کافی غصہ آیا۔ پاس ہی والے پارٹشن کی طرف منہ کیے وہ زور زور سے بڑبڑانے لگی۔ وہ کنڑ بھاشا میں بول رہی تھی۔ پارٹشن کے اُس پار سے بول رہی عورت نے اسے چیتاونی دی کہ مجھے کوئی بھی جانکاری نہ دے۔ کنڑ میں تھوڑی سمجھ لیتا تھا، اسی لیے میں یہ بات جان سکا۔”
“اس کے بعد کافی دیر تک اس کا ‘آؤ، بیٹھو’ جاری تھا۔ میں نے لاکھ کوششیں کیں کہ اس کا نجی جیون معلوم کر لوں، لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔ اس کا ریٹ دو روپے تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ پر پانچ پانچ کے پانچ نوٹ رکھ دیے اور چلنے کو تیار ہوا۔ اس نے مجھے روکا اور بولی، “تو ہم پر بیٹھا نہیں اور پیسہ کیوں دیتا ہے؟ ہم کو نئ (نہیں) چییے پھوکٹ (چاہیے مفت) کا پیسہ!”
“ایک ویشیا کے منہ سے ایسے معتبر خیالات سن کر مجھے کافی حیرانی ہوئی۔ میں نے اس کے ہاتھوں میں ان نوٹوں کو زبردستی ٹھونس دیا اور کمرے سے باہر چلا آیا۔” یہ سارا قصہ سن کر سبھی لوگ حیرت میں پڑ گئے۔
اس کے بعد اور پانچ چھ دن ہم لوگ مختلف چکلوں پر گئے، لیکن ہمیں ایسی ویشیا نہیں ملی جو اپنی صحیح کہانی دل کھول کر ہمیں بتاتی۔ ہوا اتنا ہی کہ ہمیں الگ الگ ڈھنگ کا ماحول، طرح طرح کی شخصیت اور ان کے جذبات وغیرہ دیکھنے کو ملے۔ اِدھر اُدھر کی تھوڑی بہت جانکاری بھی ملی، لیکن ہیروئین کی شخصیت کی اچھی کہانی کہیں نہیں مل رہی تھی۔ ہر روز ان غیر مہذب بستیوں میں بے کار ہی جانے سے ہم لوگ اوب چکے تھے۔
رات ہو گئی۔ روز کی منڈلی چالو ہو گئی۔ آج جہاں گئے، وہاں دو ادھیڑ عورتیں ملیں۔ کمرا اچھا خاصا بڑا تھا۔ اسی کمرے میں ایک کونے میں پردہ لگوا کر اوٹ تیار کی گئی تھی۔ ان دونوں عورتوں میں ایک بہت ہی باتونی تھی۔ دتارام کو دیکھتے ہی اس نے کہا، “ارے، اتنے دن کہاں چھپا بیٹھا تھا؟” بعد میں فوراً ہماری جانب مڑ کر بولی، “آئیے، آئیے۔ بیٹھیے۔ چائے لیں گے نا آپ؟” کہتی ہوئی ہمارا جواب جاننے سے پہلے ہی میرے بدن پر جھکتی ہوئی کھڑکی سے نیچے دیکھ کر زور سے آواز لگائی، “اے چائے والا، چار چائے بھیجنا۔”
نیچے سے لوٹتی آواز میں سوال آیا، “سنگل یا ڈبل”
”ڈبل!” اس نے جواب دیا اور ہماری طرف ہنس کر دیکھتے ہوے آنکھ مارتی ہوئی شوخی سے کہنے لگی، “کیا پوچھتا ہے گدھا کہیں کا؟ اِہاں سب ڈبل ہی لگت (لگتا) ہے!”
اپنے اس فحش مذاق پر خوش ہو کر وہ خود ہی کھی کھی کھی کر ہنسنے لگی۔ ہم بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گئے۔ ‘ڈبل’ کہنے کی اس کی ادا مجھے اچھی طرح یاد رہی۔ وہ بائی ان پڑھ تھی۔ اس کی بول چال دیہاتی شہراتی کھچڑی تھی۔ اس کی بولی میں کنڑ، پنجابی، گجراتی وغیرہ کئی بھاشاؤں کی ملاوٹ تھی۔
میں نے سہج بھاؤ سے اس سے کہا، “تمہارے اس کاروبار کے کارن تمہیں شاید ناٹک، سنیما دیکھنے کا سمے نہیں ملتا ہوگا، ہے نا؟”
اس پر وہ دھڑلے سے کہنے لگی، “کیوں، اِہاں ہم لوگ کیا جیل میں بیٹھے ہیں؟ تین کا شو ہم تھئیٹر میں دیکھتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے اپنا گاہک بھی ڈھونڈ لیوت ہیں۔ پھر چلے آوت ہیں وہ لوگ ہمرے پیچھے پیچھے!” لیکن فوراً ہی وہ سٹپٹا گئی اور بولی، “لیکن وہ ہمرا راجہ بنت ہے خالی گھڑی دو گھڑی کو!”
باتیں کرتے کرتے اب وہ کافی کھلتی جا رہی تھی۔ اس سے اور زیادہ کہلوانے کے لیے میں نے کہا، “حال میں کون سا سنیما دیکھا تم نے؟”
“دو چار دن پہلے دیکھا وہ ‘دنیا نہ مانے’ بہوت بڑھیا تھا! کچھ بھی کہیو، وہ شانتارام سالا سنیما بہوت بڑھیا بناوت ہے!”
میرے نام پر اس نے جو گالی جوڑ دی، سن کر ہم سبھی کو بڑی ہنسی آئی۔ پھر ہم لوگوں نے اس کے منہ سے ‘دنیا نہ مانے’ کی کہانی سنی۔ لیکن کہانی سناتے سناتے اس نے اس میں اپنے من سے اتنی تبدیلی کر دی، کہ میں خود تذبذب میں پڑ گیا کہ میری ڈائرکٹ کی ‘دنیا نہ مانے’ یہی تھی یا کوئی اور۔ تبھی وہ چائے والا چھوکرا چائے لے کر آیا۔ اس کی وہ میلی کچیلی پلیٹیں، گھسے پٹے کپ، لال کالی چائے وغیرہ دیکھ کر اس چائے کو پی پانا میرے لیے مشکل سا لگ رہا تھا۔ لیکن بے کار ہی اپنے بارے میں کوئی شک کھڑا نہ ہو، اس وچار سے میں نے وہ چائے جیسے تیسے پی لی۔
چائے پان کے بعد وہ اور بھی کُھل گئی۔ اپنے جسم کے چھپے انگوں کے بارے میں وہ کھلم کھلا اس ڈھنگ سے بولے جا رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا، وہ اپنے آپ کو ایک زندہ ناری نہ مان کر مردوں کی ہوس مطمئن کرنے کی ایک مشین سمجھ رہی ہے۔ باتیں کرتے کرتے وہ اچانک سیدھے میری گود میں آ کر بیٹھ گئی اور بولی، “چاہیں تو آپ خود پڑتال کر دیکھ لیجیے!”
میں پس و پیش میں پڑ گیا۔ اتنی کوشش کرنے کے بعد ایک ویشیا ملی جو کھل کر باتیں کر رہی تھی۔ اب میرے دقیانوسی رویے سے کہیں اس کے من میں شُبہ جاگا تو سارا گُڑ گوبر ہو جائےگا! میں اسی حالت میں بیٹھا رہا۔ لیکن اس بار دتارام نے میری مدد کی۔ وہ لپک کر آگے آیا اور اس نے اسے اٹھا کر ایک طرف ہٹایا۔ میں نے راحت کی سانس لی۔ نظر اٹھا کر سامنے دیکھا، تو وہاں بھگوان کی تصویر ٹنگی دیکھی۔ تصویر پر چڑھائے گئے پھول تازہ تھے۔ میں نے جان بوجھ کر کھسیانے کے لیے اس بائی سے پوچھا، “کی ماں کو، یہاں تم ایسا گندہ بولتی ہو اور وہاں بھگوان کی تصویر لٹکا کر اس پر پھول بھی چڑھاتی ہو!”
جیسی کہ مجھے امید تھی، وہ ایک دم جھلّا اٹھی۔ میری بات کو بیچ میں ہی کاٹ کر بولی، “اے صاب! تم ہم کو کیا سمجھتا ہے؟ ہر روز سویرے اٹھ کر بھگوان کی پوجا کیے بِنا ہم منہ میں پانی تک ناہیں ڈالت ہیں، سمجھا؟”
میں دنگ رہ گیا۔
“تم کو کیسے پتہ ہوے گا، ہم موئی یہ دھندا کیوں کرت ہیں؟ ہم کو اچھا لگت ہے اس لیے؟ صاب، ہمری پیڑھا ہم ہی جانت ہیں! کبھی کبھی ایسا بھی ہووے ہے کہ کوئی گاہک آتا ہی نہیں۔ پھر تو گھر کا برتن بھانڈا گروی رکھ کر چولھا جلانا پڑت ہے! اور تب بھی منہ پِچکا کر ہنس کر نئے گاہک کی باٹ جوہنا (انتظار کرنا) پڑت ہے! کچھ پھوکٹ والے موالی شراب پی کر آوے ہیں۔ ان کو بھی ناراض کیسے کر پاوے؟ تو ان کی آگ میں بھی اِی شریر (جسم) جھونکنا پڑے ہے۔ کمرے کا کرایہ لینے کے لیے مکان مالک کا نوکر آوت ہے، تو اس کو بھی خوش کرنا ہی پڑے ہے! زندگی ایک دم نرک بن گئی ہے نرک!”
“کبھی کوئی بڑا آدمی بنا آوت ہے۔ ہمرے ادھار (نجات) کی یا نہ جانے کاہے کاہے کی، لمبی چوڑی ڈینگیں ہانکت ہے اور خود رات ما ہمرے سنگ رنگ رلی اڑا کے منھ اندھیرا ما چور کی نائی (چور کی طرح) منھ چھپائے بھاگ جاوت ہے!”
“صاب، کبھی کبھی لاگے ہے، اِی گندا کام چھوڑ چھاڑ کے چنگی زندگی جیوے، پر دو جون کھانے کو کون دیوے گا؟ اُدھر ہمرے گاؤں میں ماں باپ ہیں، چھوٹے بھائی بہن ہیں، سبھی کو لالے پڑ جاویں گے نا۔۔۔ صاب، اِہاں کوئی نوکری ڈھونڈنے آئی ہتی میں، پر کون دیوے ہے نوکری؟ تو بس سہیلی کے سنگ لگ گئی اسی دھندے ما۔۔۔”
اس کا درد پھوٹ پھوٹ کر سامنے آنے لگا تھا۔
بیچ میں وہ چپ ہو گئی۔ پھر یکایک بولی، “صاب تم لوگ ایہاں مزہ لوٹن کے واسطے آئے اور میں موئی اپنی کرم کہانی سنان لگی۔ چھما (معاف) کرو صاب!”
سچ پوچھو تو مجھے اس کی باتوں سے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اسے ویسا بتا بھی دیا۔ پھر ساری رات وہ ہمیں اپنے جیون کے ایک سے زیادہ واقعات جی کھول کر سناتی رہی۔ اس کا من اتنا دو ٹوک ہو گیا تھا کہ جیون میں بیتی اور ہر دن دن بیت رہیں گندی گھناؤنی باتیں وہ بے شرمی کے ساتھ کھلے عام کہتی جا رہی تھی۔ اس کی بھاشا بہت ہی بھدی اور فحش تھی۔ جذبات میں تو اتنی مسخ تھی کہ وہ جو کچھ بتا کر دکھا رہی تھی، اس کا دس فی صد بھی میں اپنے فلم میں لا نہیں سکتا تھا۔ اور لاتا بھی، تو یقینی ہی سنسر اسے ہرگز پاس نہیں کرتا۔ اس کے درد اور تکلیف نے میرے دل کو ہلا دیا۔ ‘آدمی’ کی ہیروئین اپنی تمام بے عزتی اور قابل رحم درد دل کے ساتھ زندہ ہو کر میرے سامنے کھڑی تھی۔
بمبئی سے لوٹا تو معلوم ہوا کہ داملے جی اور فتے لال ‘گوپال کرشن’ کے باہری شوٹنگ کے لیے بمبئی کے پاس ہی ڈونبِولی گئے ہیں۔ پندرہ دن ہو گئے شوٹنگ کے لیے گئے ان کے گروپ کے واپس آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔ کام بھی کوئی خاص زیادہ تو تھا ہی نہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ تبھی بابوراؤ پینڈھارکر کا فون آیا کہ ”آپ خود یہاں آ کر ایک بار شوٹنگ کے کام کو دیکھ جائیں۔” میں ڈونبِولی گیا۔ شوٹنگ کافی دھیمی رفتار سے چل رہی تھی۔ فوراً شوٹنگ کی ساری ذمہ داری میں نے اپنے ہاتھ میں لی اور چار پانچ دن میں وہاں کا سارا کام پورا کر پُونا واپس لوٹ آیا۔ پُونا لوٹتے ہی سٹوڈیو کے کھلے احاطے میں ایک سیٹ کھڑا کیا اور اس پر بھی شوٹنگ شروع کر دی۔
ایک دن دیکھا کہ داملے جی، فتے لال شوٹنگ کا کام بیچ ہی میں روک کر آرام سے بیٹھ گئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تو کہنے لگے — “شوٹنگ کرتے سمے ہمیں غش کھا کر گرنے جیسا لگا، یہ چلچلاتی دھوپ ایک دم ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔”
میں نے ان سے کہا، “کوئی بات نہیں۔ آپ یہیں آرام کریں، شوٹنگ میں کیے دیتا ہوں۔”میں فوراً باہر آیا اور وہاں کی ساری شوٹنگ پوری کر لی۔
کنس کے سینا پتی (سپاہ سالار) کیشی نے کرشن کو اپنے کیمپ میں قیدی بنا لیا ہے۔ اسے رہا کرانے کے لیے کرشن کے گوپ گوالے ساتھی گایوں اور بیلوں کا گروہ لے کر کیشی کے کیمپ پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ کیشی اور اس کے سپاہیوں کی ناک میں دم کر دیتے ہیں۔ یہ سین شوٹنگ کے نقطہ نظر سے بے حد کٹھن تھا۔ اس میں براہ راست گائے بیلوں اور ان کی ‘ڈمیز’ کا استعمال ناممکن تھا۔ سین کو انتہائی پراثر بنانا ضروری تھا۔ اس سین کا پورا آوٹ ڈور شوٹ بھی داملے جی فتے لال جی کے کہنے پر مجھے ہی کرنا پڑا۔
‘گوپال کرشن’ کی ایڈیٹنگ کا کام شروع ہوا۔ لیکن اس کے ڈائرکٹر داملے جی اور فتے لال بھولے سے بھی ایڈیٹنگ روم کے پاس نہیں آئے، نہ ہی انہوں نے کبھی یہ بھی پوچھا کہ ایڈیٹنگ کا کام کہاں تک آیا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا جیسے انہیں اس ‘گوپال کرشن’ سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔
‘گوپال کرشن’ ریلیز ہو گئی۔ اس نے بڑی شہرت حاصل کی۔ اس میوزیکل فلم کے گیت لوگوں کو بہت ہی پسند آئے۔ اس میں کھیل کھیل کے جو سین ڈالے ان کو تو ناظرین نے سر پر اٹھا لیا۔ ‘گوپال کرشن’ کے ریلیز ہونے کے دوسرے دن اس کے سکرین پلے لیکھک شِورام واشیکر، بابوراؤ پینڈھارکر آفس میں مجھ سے ملنے آ گئے۔ دیکھتے ہی انہوں نے کہا، “شانتارام بابو، ‘گوپال کرشن’ کی کہانی کا کریڈٹ لینے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔
“اجی وشیکرن جی، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟”
“سچ ہی تو کہہ رہا ہوں۔ اس کے خاص سین، اس کی بذلہ سنجی کے ساتھ میں نے ویسے کے ویسے اتار لیے جیسے آپ نے بتائے تھے۔ آپ بتاتے گئے، میں لکھتا گیا۔ لہذا اس کا سارا کریڈٹ اصل میں آپ کو جانا چاہیے، آپ کی محنت کو ملنا چاہیے۔ میری یہی پکی سوچ ہے، اور پریس کانفرنس بلا کر میں اس کا اعلان بھی کرنے جا رہا ہوں۔”
“نہیں، نہیں۔ ویسا آپ کچھ بھی نہیں کریں گے۔ آپ کا کرِئیر اس میں مات کھا جائے گا۔ آپ کو جو لگتا ہے اسے آپ ایمانداری سے قبول کرتے ہیں، یہی کافی ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو کہوں گا کہ یہ احساس ہی آپ کی مستقبل میں ترقی کا اشارہ ہے۔”
‘گوپال کرشن’ کی ریلیز کے سمے ہم سبھی لوگ بمبئی گئے تھے۔ وہاں بابوراؤ پینڈھارکر نے ہمیں ایک بہت ہی اچھی خبر سنائی کہ بمبئی کا پوتھے سنیما (آج کل اس کا نام سوستک سنیما ہو گیا ہے) بیچا جانے والا ہے۔
‘پوتھے’ سنیما میں گیلری وغیرہ کچھ بھی نہیں تھی، اسی لیے مجھے وہ بہت پسند تھا۔ بمبئی میں ‘پربھات’ کی فلم کی ریلیز کے لیے اس سنیما گھر کو خرید لینے کی رائے سب نے ظاہر کی۔ اس سے پہلے پُونا کا ‘پربھات تھئیٹر’ بھی ہم لوگوں نے لیا تھا اور اس کا کامیاب استعمال ہم کر رہے تھے۔ ہم نے بابوراؤ پینڈھارکر کو ‘پوتھے’ کے مالک سے فوراً ملنے کو کہا اور اس سے باتیں کر کے ضروری دستاویز اور کانٹریکٹ وغیرہ بنوا لینے کے بھی ہدایات دیں۔ داملے جی پُونا گئے۔ میں اور فتے لال جی دو دن بمبئی میں ہی رہے۔ ہم دونوں ‘پوتھے’ سنیما دیکھنے کے لیے گئے۔ فتے لال جی بڑے چاؤ سے مجھے سمجھا رہے تھے کہ ایک فلم کی نظر سے اس تھئیٹر میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ میں بھی تکنیکی نظر سے اس تھئیٹر کا ٹھیک ٹھیک معائنہ کر رہا تھا۔ بابوراؤ ہمارے ساتھ ہی تھے۔ اپنی ہمیشہ کے اتاولے پن سے میں نے ان سے کہا، “آج ہی سودا پکا کر سیل پتر تیار کروا لیجیے۔”
بابوراؤ نے کہا، “میں نے کل ہی انہیں ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کی پیشکش کی ہے۔ کل تک راہ دیکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کی مانگ کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روپے میں سودا طے کیے لیتے ہیں۔” میری بہت دنوں کی چاہ تھی کہ ‘پربھات’ کی بنائی فلم ریلیز کرنے کے لیے ملک بھر میں سنیما گھروں کی ایک سیریز ہو۔ اب اپنا وہ سپنا کچھ کچھ سچ ہوتا دیکھ کر میرا من کافی پرجوش ہو اٹھا۔
پُونا لوٹنے کے بعد دوسرے دن سویرے کمپنی کا اخبار دیکھ رہا تھا کہ داملے جی، فتے لال جی اور سیتارام پنت کلکرنی میرے آفس میں آئے۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے کافی جوش سے پوچھا، “سیتارام بابو کو ‘پوتھے’ کے بارے میں وہ خوش خبری دی نہ آپ نے؟”
انہوں نے ‘ہاں’ کہا۔ لیکن سب کے چہرے بہت ہی گمبھیر دکھائی دے رہے تھے۔ داملے جی نے پوچھا، “کیا ‘پیسے’ کا قرارنامہ ہو گیا ہے؟”
“نہیں، لیکن بابوراؤ سے اسے فائنل کرنے کے لیے ہم کہہ آئے ہیں۔ ممکنہ آج ہو جائے گا۔”
داملے جی نے گمبھیر ہو کر کہا، “میری راۓ میں ہمیں وہ تھئیٹر نہیں خریدنا چاہیئے!”
داملے جی کی وہ بات سن کر مجھے دھچکا لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، داملے جی نے ہی آگے کہا، “پیسے کی زمین تھئیٹر کے مالک کے پاس لمبی لیز پر ہے۔”
“جی ہاں، اسی لیے تو وہ تھئیٹر ہمیں اتنی کم قیمت پر مل رہا ہے۔”
اُس جگہ کا ماہانہ کرایہ تین ہزار روپے ہے۔ اتنے بھاری خرچ کا بوجھ ہم اپنے اوپر لیں، یہ ہمیں پسند نہیں!” میرا اپنا ماننا تھا کہ کاروبار اور ‘پربھات’ کی شہرت کی نظر سے تھئیٹر کو خریدنا بہت اہم ہے۔ میں دلیل کرنے لگا، “اجی، پُونا کا ‘پربھات’ سنیما گھر بھی لیز پر ہی تو ہے۔”
“لیکن اس کا کرایہ اتنا زبردست نہیں ہے۔ میری رائے میں ہر ماہ تین ہزار روپے کا بوجھ ہمیں ہرگز نہیں اٹھانا چاہیے!”
“آپ ایک بات دھیان میں رکھیں۔ ‘سینٹرل’ اور ‘کرشن’ سنیما گھروں کے مالک بھی لیز کا بھاری کرایہ دیتے ہیں اور وہاں ہمارے ‘پربھات’ کی فلم ریلیز کر وہ ہر سال پچاس پچاس ہزار روپے کا منافع کما لیتے ہیں۔ پھر ہم ہی اس بات سے کیوں ڈریں؟ یہ بھی تو سوچئے کہ دیگر شہروں میں اس طرح ‘پربھات’ کے اپنے سنیما گھر ہوں تو ہر بار سنیما گھر کرائے پر لینے میں ہمارا جو پیسہ خرچ ہو جاتا ہے، اس میں کتنی بچت ہو گی؟”
میرے ان بیوپاری اور کاروباری دلائل کا بھی داملے جی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں مایوس ہو گیا۔ آخر میں نے آج تک ‘پربھات’ کے زمانے میں بھی کبھی استعمال میں نہ لایا گیا ایک پینترا چلنے کا طے کیا۔ ہمارے حصہ داری کانٹریکٹ میں ایک دفعہ تھی کہ ‘پربھات’ کا سارا کاروبار ہمیشہ اکثریت سے چلایا جائے۔ اب اس دفعہ کا استعمال کرنے کا سمے آ گیا تھا! کل ہی میں اور فتے لال جی ‘پوتھے’ کی عمارت میں کھڑے کھڑے پتہ نہیں کیا کیا خیالی پلاؤ بنا چکے تھے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ فتے لال جی ضرور ہی میری سائیڈ لیں گے۔ سیتارام بابو پشتینی بیوپاری ہیں، میری کاروباری بات انہیں بھی پسند آ ہی جائے گی مجھے امید تھی۔ لہذا من ہی من مجھے یقین ہو گیا کہ اکثریت میرے حق میں ہو گی۔ اپنا غصہ دبا کر ہنستے ہنستے میں نےکہا، “اکثریت سے جو طے رہے گا، اسے ہی مان لیتے ہیں۔”
“مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” داملے جی نے کہا۔
میں نے سب سے پہلے سیتارام بابو سے پوچھا۔ ان کا جواب میں دھیان سے سن رہا تھا۔
انہوں نے کہا، “میرا خیال ہے، داملے جی کی بات میں کافی وزن ہے!” میں سن کر ٹھنڈا پڑ گیا۔ پھر بھی لگاتار مسکرا کر میں نے فتے لال جی کی طرف دیکھا۔ فتےلال جی نے کہا، “داملے جی کی بات صحیح ہے!” سامنے ہی بیٹھے داملے جی کے چہرے پر جیت کی مسکراہٹ چمکنے لگی۔ انہوں نے مجھ سے کہا، “تو پھر شانتارام بابو، بمبئی فون کر بابوراؤ پینڈھارکر سے کہیں گے نا آپ کہ سنیما گھر کے بارے میں آگے بات چیت نہ چلائیں؟”
میں مجبور تھا۔ بھاری من سے میں نے فون اٹھایا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...