ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جس کا گوشہ گوشہ برقی قمقموں کی دودھیا روشنی میں جگمگ کر رہا تھا اورسجے ہوئے سٹیج پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شہر کی بڑی بڑی شخصیات فخر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے شہر کے ضلع کونسل ہال میں ایک بہت بڑی تقریب جاری تھی۔ میڈیا کے لوگ کیمرے اٹھائے مختلف زاویوں سے تقریب کے رنگا رنگ لمحوں کو محفوظ کرنے میں مصروف تھے جبکہ اخباری نمائندے بھی ہاتھوں میں کیمرے لئے روشنی کے جھماکے کرتے ہوئے تقریب کے چمکتے دمکتے منظر اپنے اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔ کافی سارے لوگوں نے سٹیج پر آ کر بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے بڑی خوبصورت باتیں کیں اور ملک میں غربت کا شکار اور تعلیم سے محروم بچوں کی ہمدردی میں بہت کچھ کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے۔ جن کی باتیں سن کر ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔ جن میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کے بچے دوسرے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے۔
تقریب کے خاتمے پر کئی تصویری سیشن چلے۔ میڈیا کے لوگ بھی اس یادگار پروگرام کے حوالے سے بڑی ہستیوں سے انٹرویو لیتے ادھر سے ادھر بھاگتے رہے۔ آخر میں پر تکلف کھانے کا دور چلا۔ کھانے کے دوران لوگ اتنے خوبصورت اور کامیاب پروگرام کی خوب تعریفیں کرتے رہے اور کئی لوگ تو ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ تقریب کے اختتام پر لوگ خوش گپیاں کرتے ہوئے جب باہر نکلے تو اچانک سامنے کا منظر ان کے چمکتے چہروں سے روشنیاں نچوڑنے لگا اورسبھی چہرے مرجھاتے چلے گئے۔ گیٹ پر ایک عورت بینر اٹھائے اپنے دو بچوں کے ساتھ ننگے پاؤں چپ چاپ کھڑی تھی، جس پر لکھا ہوا تھا ’’بچے برائے فروخت‘‘
٭٭