“اے لڑکی تجهے شرم وارم نہیں آئی تهوڑی سی بهی”
دوسری طرف سے صبا حیرت زدہ سی بولی
“یار میں نے خود تهوڑی نا کیا بجیا اور آپو نے بولا تها اس میں شرم کی بات کہاں سے آگئی”
وہ بهی گویا اپنے نام کی ایک هی تهی
“تیرا کچھ نہیں ہوسکتا لڑکی تجهے اللہ ہی سمجهے”
صبا نے ایک سانس کهینچ کرکہا
صبا عنایہ کی بہترین اور بیسٹ فرینڈ میں سے ایک تهی دونوں اس وقت فون پر مصروف تهیں عنایہ اسے اپنا چاۓ کا عظیم قصہ سنا چکی تهی جبکہ صبا اسکی اس حرکت پر افسوس کے ساتھ ساتھ حیران تهی
“اچها سن تو سارہ کی شادی میں تو آرہی ہے نا”
کچهه دیر ادهر أدهر کی باتوں کے بعد اچانک سے صبا نے عنایہ سے پوچها
“آف کورس… شادی کیا میں تو ہر ایک فنکشن اٹینڈ کرنے والی ہوں عنایہ نے چہک کر کہا
سارہ عنایہ اور صبا کی مشترکہ فرینڈ تهی خوش قسمتی سے سارہ کی فیملی کے عنایہ کی فیملی سے اچهے تعلقات تهے دونوں خاندان اکثر ایک دوسرے کے گهر آتے جاتے تهے
سارہ ندرت بیگم کی اکلوتی اولاد تهی اپنی لاڈلی بیٹی کی شادی پہ انہوں نے خاندان سمیت سبهی دوست رشتے داروں کو دعوت دے ڈالی تهی
اور اب عنایہ کی بے چین روح شادی اٹینڈ کرنے کو بے تاب تهی جو کہ اگلے مہینے تهی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اگلے کچھ دن انصاری ہاؤس میں خوب چہل پہل رہی۔۔۔ وجہ ملحیہ اور صالحہ کی شادی تهی وسیم صاحب اور انکی بیگم کو ملحیہ اور صالحہ کچھ اتنی پسند آئیں کہ جهٹ پٹ شادی کی ڈیٹ فکس کر دی اگلے پندرہ دنوں میں دونوں بہت سا پیار اور دعائیں لے کر اپنے پیا گهر سدهار گئیں
شادی کا ہنگامہ تهما تو فائزہ بیگم جو پچهلے دنوں گهن چکر بنی ہوئی تهیں انہوں نے بهی سکون کا سانس لیا تبهی عنایہ بیگم کے گن کهل کر سامنے آۓ اب انہیں پتہ چلا کہ دونوں بہنوں کی آڑ میں رہنے والی انکی بیٹی کو چاۓ تو درکنار پانی ابالنا تک نہیں آتا تها
اور اب انہوں نے خود عنایہ کی پریکٹس کرنے کا تہیہ کیا
“آنی… آنی… ادهر آؤ جلدی سے”
کچن میں کهڑی فائزہ بیگم نے آواز لگائی
“جی امی…”
“چلو میرا بیٹا یہ سارے برتن سمیٹو اور جلدی سے دهو لو”
فائزہ بیگم نے لنچ کے لئیے پیاز کاٹتے ہوۓ کہا جبکہ عنایہ کو لگا شاید اس سے سننے میں غلطی ہوگئی ہے
“کیا امی….”
کان قریب لا کر بولی
“برتن سمیٹ کے دهولو… اب سمجهی…”
قدرے اونچی آواز میں بولیں اور عنایہ ایک جهٹکے سے پیچهے ہوئی
“امی۔۔۔۔ میں کیسے برتن دهوؤں؟؟”
صدمے کی سی کفیت میں بولی “کیا مطلب کیسے دهوؤں… ہاتهوں سے دهوؤ اور کیسے چلو شاباش جلدی کرو”
“مگر مجهے نہیں آتے یہ گندے برتن دهونے”
ایک نظر برتنوں پر ڈالتی ہوئی بولی ” تمهیں صرف کهانا سونا اور موبائل پہ گپیں لڑانا ہی آتا ہے بس…… اگلے گهر جاکر میرے سر پہ خاک ڈالوانے کا ارادہ ہے جب ساس بولے گی ماں نے کچھ سکهایا نہیں بیٹی کو”
فائزہ بیگم غصے سے بولتی جا رہی تهیں
“اچها نا امی کر دیتی ہوں آپ غصہ تو مت کریں طبعیت خراب ہو جاۓ گی آپ کی”
عنایہ نے فائزہ بیگم کو کہا اور چپ چاپ برتن سمیٹنے لگی
.”ٹهاہ…….”
ایک زور دار آواز پہ فائزہ بیگم نے چونک کر پیچهے دیکها جہاں عنایہ کهڑی جگ کے ٹوٹے ہوۓ ٹکڑوں کو دیکھ رہی تهی
“افففف… عنایہ یہ کیا کر دیا ”
“امی میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ہاتهه سے چهوٹ گیا”
روہانسے سے لہجے میں بولی
“اچها اچها کوئی بات نہیں باقی کے برتن دهو لو پهر اسے اٹها لینا”
فائزہ بیگم کبهی بهی اسکی آنکهوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتیں تهیں سو قدرے نرم لہجے میں بولیں
“اففففف اللہ… کیا بنے گا اس لڑکی کا”
افسوس کے ساتھ سوچتی پهر سے کهانا بنانے کیطرف متوجہ ہوگئیں
جبکہ عنایہ آنکهیں رگڑتی برتن دهونے میں جت گئی
¤ ¤ ¤ ¤
“ارے گڑیا یہ کیا ہوا تمهارے ہاتهه پہ”
رات کو کهانے کی ٹیبل پر اسد صاحب نے سفید پٹی میں لپٹا ہاتھ دیکهتے ہوۓ فکرمندی سے کہا “کچھ نہیں بابا بس ذرا سا کانچ لگ گیا تها”
شان بے نیازی سے بولی
“کانچ لگ گیا….. مگر کیسے؟؟”
“کانچ کا جگ ٹوٹ گیا تها بس اسی کو اٹهاتے ہوۓ ہلکا سا لگ گیا بابا اٹس اوکے امی نے دوائی لگا کر پٹی کر دی ہے اب تو فل ٹهیک ہے.”
“درد وغیرہ تو نہیں ہو رہا اگر ہو رہا ہے تو چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں”
اسد صاحب اٹهتے ہوۓ بولے
“نہیں بابا اب بالکل ٹهیک ہے”
“پکا نا؟؟”
وہ ابهی تک فکرمند تهے
“جی بابا”
“یہ تمهاری ماں کہاں ہے نظر نہیں آرہی”
فائزہ بیگم کی غیرموجودگی محسوس کرکے عنایہ سے پوچها
“امی روم میں ہیں ندرت آنٹی کی کال آئی ہے نا تو ان سے بات کر رہی ہیں” “لو بهئی آگئی تمهاری ماں”
اسد صاحب نے فائزہ بیگم کو آتے دیکھ کر کہا
“ہاں بهئی بیگم کرلی برائیاں وغیرہ”
“حد کرتے ہیں آپ بهی میں کیوں کروگی بهلا برائیاں ندرت کی بیٹی سارہ کی شادی ہے ہم سب کو بلایا ہے”
فائزہ بیگم نے ہاتھ میں پکڑا موبائل عنایہ کو دیتے ہوۓ بتایا
“اچها… ماشاء اللہ.. کب ہے شادی؟”
نپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ انہوں نے پوچها
“کل رات مہندی کا فنکشن ہے پرسوں شادی ہے اور دو دن بعد ولیمہ”
فائزہ بیگم نے تفصیل بتاتے ہوۓ کہا
“اچها…. تو پهر تم اور عنایہ چلے جانا….. اور ولیمہ کی دعوت کیسے دے دی بهئی وہ تو غالباََ لڑکے والے کرتے ہیں”
“ہاں…. مگر سارہ کے سسرال والے اسی شہر کے ہیں نا تو ندرت نے لگے ہاتھ ولیمے کی بهی دعوت دے ڈالی”
“جاؤ گڑیا جاکر تیاری وغیرہ کرلو تم بهی فائزہ کوئی گفٹ لے آنا کل جاکر سارہ بیٹی کے لئیے”
اسد صاحب بولے
“میں نہیں جاؤں گی طبعیت تهوڑی خراب ہے عنایہ تم صبا کے ساتھ چلی جانا”
فائزہ بیگم نے خاموش بیٹهی عنایہ کو کہا جو جهٹ سے تیار ہوگئی
“میں صبا کو بتادیتی ہوں”
خوشی سے کہتی فون لے کر کمرے کیطرف دوڈی جبکہ اسد اور فائزہ بیگم نے اسے محبت پاش نظروں سے دیکها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“کب پہنچے گی یار کب سے تیرا ویٹ کررهی ہوں”
صبا نے چوتهی بار عنایہ کو کال کی جو اب تک آئینہ کے آگے کهڑی خود کا جائزہ لے رہی تهی
“ایم ریڈی…. بس دس منٹ میں پہنچ رہی ہوں”
“اوکے… جلدی آ باۓ”
.
“بابا چلیں مجهے چهوڑ کر آئیں”
نک سک سے تیار عنایہ نے ٹی وی لاؤنج میں آکر کہا
عنایہ کی آواز پہ اسد صاحب کے ساتھ ساتھ فائزہ بیگم نے بهی پلٹ کر دیکها یلو فراک اور گرین چوڑی دار پاجامہ پہنے لمبے بالوں کو کهولے دودھ سی رنگت پہ بہت ہی لائٹ سا میک اپ کیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تهی
“ماشاء اللہ میری گڑیا تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے خدا نظر بد سے بچاۓ آمین”
اسد صاحب نے اٹھ کر پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پهیرتے ہوۓ کہا
“میری بیٹی کو کسی کی نظر نہ لگے آمین ثم آمین”
فائزہ بیگم نے بهی دل سے دعا دی
“اچها بابا اب دعاؤں کا سیشن ختم کریں اور چلیں دیر ہورہی ہے”
“ہاں ہاں چلو..”
گاڑی کی چابی اٹهاتے ہوۓ بولے
“گفٹ پیک رکھ لیا تها نا”
پیچهے سے فائزہ بیگم بولیں
“جی امی… رکھ لیا تها خدا حافظ”
“اللہ حافظ… یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا”
انہوں نے دل میں دعا کی
•••••••••••|•••••••••••••
“یار کیا بورنگ پارٹی ہے”
سکندر اکتاۓ ہوۓ لہجے میں بولا
“اوۓ الو یہ پارٹی نہیں میری کزن کی مہندی کا فنکشن ہے سمجها”
اسامہ نے اسکے سر پر چپت لگا کر کہا
“واٹ ایور یار ایک ہی بات ہے میں جارہا ہوں”
“کدهر اوۓ کدهر جارہا ہے ابهی تو فنکشن سٹارٹ بهی نہیں ہوا”
اسامہ بهی اٹھ کر کهڑا ہوگیا
“فکر مت کر گهر نہیں جارہا ایک جگہ بیٹھ بیٹھ کر اکڑ گیا ہوں تهوڑی واک کر رہا ہوں ادهر ہی”
“اچها چل ٹهیک ہے تو واک کر میں ذرا اندر دیکھ لوں کام وغیرہ تو نہیں کوئی”
اسامہ یہ کہہ کر اندر کی جانب چل پڑا جبکہ سکندر ادهر ادهر ٹہلنے لگا تبهی ایک بے جد خوبصورت آواز اسے اپنے کانوں میں رس گهولتی محسوس ہوئی
ایکسکوزمی….. بات سنیں
”
پلٹ کر دیکها تو گویا نظریں ہٹانا بهول سا گیا اور مہبوت سا ہوکر اس حسن کی پری کو دیکهے گیا
“ہیلو..؟؟
عنایہ اسکی آنکهوں کے آگے ہاتھ ہلا کر بولی
“جج…جی جی بولیں.”
خود پہ قابو پاتے ہوۓ بولا
“آپکو اسامہ بهائی بلا رہے ہیں وہ گیٹ پر”
عنایہ نے گیٹ کیطرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا
اور سکندر نے گیٹ کی سمت دیکها جہاں واقعی اسامہ کهڑا اسکا منتظر تها
“اوہ… اچها تهینکس”
یہ کہہ کر وہ گیٹ کیطرف بڑها جبکہ عنایہ بهی سر جهٹک کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
یہ کون تهی”
اسامہ کے قریب پہنچ کر سکندر نے پہلا سوال کیا
“تو چل پہلے میرے ساتھ مٹهائی لینے کم پڑ گئی ہیں چل بیٹھ”
اسامہ اسے گاڑی میں بیٹهاتے ہوۓ بڑبڑایا
“بتا نا کون تهی وہ”
اسکی سوئی اب تک وہیں اٹکی ہوئی تهی
“کون…. اچها وہ.. وہ عنایہ ہے سارہ کی فرینڈ”
اسامہ نے بتایا
“عنایہ….”
سکندر بڑبڑایا
“کیا؟؟ کچھ کہا تو نے”
“نہیں کچھ بهی تو نہیں”
جلدی سے بولا۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••
“اچها ابهی چلتی ہوں بارہ بج گئے ہیں چل صبا بابا آنے والے ہیں کال کر دی ہے میں نے”
سارہ سے مل کر دونوں باہر لان میں آگئیں “ویسے مغرور مت ہوجانا آج تو بہت ہی بیوٹی فل لگ رہی ہے سچی”
سارہ نے اسے دیکهتے ہوۓ کہا
“وہ تو میں پیدائشی خوبصورت ہوں”
عنایہ نے بالوں کو اک ادا سے جهٹکتے ہوۓ کہا اور کچھ ہی فاصلے پر کهڑے سکندر کے دل کو کچھ هوا
“ارے عنایہ ٬صبا یہ کیا اتنی جلدی جارہی ہو تم دونوں”
ندرت بیگم نے آکر کہا
“آنٹی جلدی کہاں ہے بارہ بج رہے ہیں اور شہر کے حالات تو آپ جانتی ہیں نا”
صبا بولی
“ہاں یہ تو ہے…
کل شادی میں ضرور آنا اور اپنی اپنی اماؤں کو بهی لانا”
ندرت بیگم نے پیار سے دونوں کے سر پر ہاتھ پهیرتے ہوۓ کہا “جی آنٹی ضرور.”
عنایہ نے سعادت مندی سے کہا تبهی اسد صاحب کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا
“اچها انٹی چلتے ہیں اب خدا حافظ”
دونوں نے رخصت لی اور گاڑی کی جانب چل دیں جبکہ فاصلے پر کهڑا سکندر جو بظاہر دوستوں میں مصروف تها اسے محفل ایک دم بے رونق سی لگنے لگی اور کچھ دیر بعد وہ بهی معذرت کرکے گهر کی جانب چل دیا۔۔۔
اگلے دن عنایہ اور فائزہ بیگم شادی میں نا جا سکیں وجہ اسد صاحب کی ناساز طبعیت تهی سو فائزہ بیگم نے ندرت بیگم سے معذرت کرلی.
¤¤ ¤¤ ¤¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...