آدھی دنیا کا سفر طے کر چکی تھی وہ … کہاں کہاں چل کر آ رہی تھی وہ … محبت کی تلاش میں چلتی چلی جا رہی تھی شالنی…
پو را آسمان ستاروں سے سجا ہوا تھا… ان کی روشنی سے اس کی راہ منوّر تھی… دھر تی کی گود میں کروڑو جیو جنتو اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے … ہر کو ئی کسی نہ کسی کا منتظر تھا کسی نہ کسی کے لیے جھولی پھیلائے … سب کچھ مل جائے تب بھی لگتا ہے کہ کچھ نہیں ملا…خالی ہا تھ! آرزوؤں تمناؤں کے پورے ہو جا نے کے بعد بھی وہی ہا تھ پھیلے ہوئے ہیں … دوسری نئی تمنا کے لیے … چنتاؤں کی چتا میں جلنے والے لاکھوں کروڑو جیو جنتو … بے چین بیا کل… ایک دوسرے سے جھپٹ لینے والے … ایک دوسرے سے چھین لینے والے … ایک دوسرے سے مانگنے والے … جا نوروں کی طرح انسان… سب ایک طرح جیتے ہوئے مر تے ہوئے …
دھرتی پر چھایا ہوا یہ اندھکار دور کیسے ہو۔ ؟ روز سورج صبح صبح پوری امید لے کر اندھکار دور کرنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے مگر سانجھ ہوتے ہی تھک ہار کر مایوس ہو کر واپس اپنی گھپا میں جا بیٹھتا ہے۔
تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا … انسانوں … تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا میں کہاں تک اپنے آپ کو تمہارے لیے جلاؤں۔ بھگو ان نے مجھے اجالا کرنے کو بھیجا ہے مگر کیا میں اجالا کر پا رہا ہوں۔ وہی کا لک وہی پستی… وہی اندھیرا کب تک…؟؟
سو رج دیوتا کی کراہ کسی کو سنا ئی نہیں پڑتی۔
شا لنی اسی اندھ کار میں ٹھوکر یں کھا رہی ہے … کچھ پتہ نہیں راہ کہاں ختم ہو گی انت کہاں ہے۔ محبت کی اک نظر ملے گی … کہاں ہو شیو؟
پیروں میں چھالے پڑنے لگے ہیں … انگوٹھے پر کسی پتھر سے زخم لگ گیا ہے اس سے خون رس رہا ہے مگر وہ ہر بات سے بے خبر چلتی جا رہی ہے … محبتوں کی تلاش میں … کپڑوں پر گرد کی تہیں جم گئی ہیں … با لوں پر غبار… مٹی چہرے پر ہاتھوں پر … گویا وہ خود ایک مٹی کی مو رت ہو … مٹی میں مل جا نے والی… ہمیشہ اپنی جڑوں سے الگ ہو تے رہنے والی عورت … جب ماؤں نے بیٹیوں کو چھوڑ کر بیٹوں کو گلے لگا لیا… بیٹیوں کو پرایا کر دیا… بس یہ ریت اسی دن سے شروع ہو گئی… عورت اکیلی پڑ گئی … محبتیں ڈھونڈنے کے لیے آگے بڑھنا پڑتا ہے …
آگے بڑھنے کے لیے اپنی جڑوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ کرب سہنا پڑتا ہے …
وہ ماں باپ ہوں بہن بھا ئی یا اس گھر کی چو کھٹ … جہاں اس نے ٹھو کر بھی کھا ئی ہو گی اسی چو کھٹ پر دیوالی کے دیے بھی جلائے ہو نگے وہ چو کھٹ بھی اپنے سے الگ کرنی پڑتی ہے۔
بڑا کرب سہنا پڑ تا ہے کیوں سہتی ہے وہ ؟ کیوں کر تی ہے ایسا ؟ بس محبت پا نے کے لیے اور وہ بھی نہ ملے تو ڈھونڈ نے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ زمینوں کو چھوڑنا … جڑوں کو کاٹنا جدائیوں کا درد سہنا … یہی عورت ہے … کو ئی مرد کیا جا نے کسی عورت کا درد… بڑا مشکل ہے یہ سب کر پا نا… کر جا نا… اور پھر بھی جینا… اور دوسری زمین پر مر جانا۔
شا لنی نے ٹٹول کر راستہ دیکھا… تا رے کم ہونے لگے تھے … روشنی کم ہو رہی تھی… اب وہ پتھروں کے درمیان چل رہی تھی بہت سا ری مورتیاں آس پاس نرت کر رہی تھیں … شیو جی چٹان پر براجمان تھے … اس نے تھک کر شیو کے گھٹنوں پر سر ٹیک دیا۔ وہ تھک کر چور چور ہو رہی ہے … پیاس سے گلا سو کھ چکا ہے … پیر کے زخموں نے بے چین کر رکھا ہے … مگر محبتوں کی تلاش جاری ہے … اور اب شیو جی… جیسے اسی کے منتظر ہیں ایک آس … محبت کی آس … اک دکھے دل کی امید… اور شیو کے گھٹنوں پر سر دھرتے ہی جیسے سا رے دکھ درد آپ ہی آپ کم ہونے لگے … ٹھنڈی ہواؤں نے جسم کو سہلایا…کہ محبت تو مدا وا ہے …
شیو کے پتھر سے بنے سفید ٹھنڈے پیروں نے اسے راحت دی… کہ پیار کا احساس تو ہر دکھ کا مر ہم ہے … پیاس کی شدت آپ ہی آپ کم ہو گئی… ایک عجیب سی لذت ایک تو انا ئی کا احساس رگ و پے میں دوڑ گیا… پور پور شیو کے پیار کے نشے میں ڈوبی پجا رن… پر یم کے سا گر میں ڈوب ڈوب گئی ہر دکھ دور ہونے لگا کہ محبت عطا کر تی ہے … نفرت چھین لیتی ہے … دکھ درد کو جنم دیتی ہے نفرت اور محبت سکھ اور شانتی لاتی ہے … ہر کو ئی پیار چاہتا ہے …… اندھ کار تب ہی ہوتا ہے جہاں پیار کا انت ہو جائے …ایک دوسرے سے گھڑنا ہونے لگے … ایک کو دوسرے کا وجود کھٹکنے لگے …تب مایا کچھ نہیں کر پاتی … کتنی بھی بھری پڑی ہو …پیار نہ ہو تو مایا دھن سب بیکار … چہرے پر نر می مایا سے نہیں پر یم سے آتی ہے …
لہجوں میں خو شبو عطر سے نہیں دل کے درد سے آتی ہے … وہ درد جو بر سوں سے چھپا رکھا ہو اور پریمی سے اچانک ملن ہو جائے …
ہے شیو! مجھے اپنے چرنوں میں پڑا رہنے دو گے نا …؟ اس نے دونوں ہاتھوں سے دھول بھرے با لوں کو سمیٹ کر جو ڑا بنایا اور سفید پتھر کے گھٹنوں پر اپنا سر رکھ کر وہیں بیٹھ گئی سارا دکھ کرب بھاپ بن کر ہردے سے دور ہو گیا… سب کچھ شا نت ہو گیا… اور اندر کا تلاطم کھو گیا… وہ پر سکون ہو گئی… تھکی تھکائی پجارن شیو کے چرنوں میں پڑی رہی اور پھر شیو جاگ گیے … ان کے اندر محبتوں کے آنسوؤں نے ہلچل مچا دی تھی ان کے اندر ایک عورت نے جان ڈال دی … وہ عورت نہ جانے کب سے ان کو کھوج رہی ہے۔ ان کے پیروں میں پڑی بے حال شا لنی … حسین تر ین شا لنی…اس کے چہرے کا چاند چمک رہا ہے اس کے گو رے ہاتھوں کی نیلی رگیں کپکپا رہی ہیں … اس کے گھنیرے لمبے بال ایک بار پھر کھل کر ان کے چرنوں میں ڈھیر ہیں۔ چمکتی پیشانی پر اک غرور… جیت کا غرور … ’’میں نے شیو کو پا لیا… میں نے محبت کو پا لیا…‘‘
بند آنکھوں میں اک سپنا … ہو نٹوں پر آسو دہ مسکا ن…
شیو نے اسے سویکار کر لیا تھا۔ شیو نے ہاتھوں میں شا لنی کا چاند چہرہ تھام لیا۔ ۔ … اس کی محبت کو تھام لیا… اس کی تپسیا کو ارتھ دیا۔ ۔ اور یہی محبت کی جیت ہے … یہی انت ہے … یہی آرنبھ ہے …؟
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...