میرے خدا میں نے کیا کر دیا ……
مجھے پتہ ھوتا کے حسن ایسے چاہتا مجھے میں کبھی بھی بابا کے لاۓ رشتے کے لیے ہاں نا کہتی ………
اک طرف محبت دوسری طرف میرے بابا کی عزت ……
میں تو ا لجھ کے ره گئی ہوں
حسن کی آنکھوں میں چاہت کا سمندر تھا
کاش میں اسے پہلے سمجھ لیتی تو ایسی نوبت ہی نا آتی
یہ کاش ہی تو اب ره گیا ہے میری زندگی میں ……….
پلیز میرے اللہ میری مدد فر ما
جو تجھے میرے لیے بہتر لگتا وہ کر دے ……
میرے دل کو قرار دے …….
میں نے اسکا دل توڑا میرا کوئی قصور نہیں
اللہ دلوں میں تو بستا مجھے ایسے کسی کا دل توڑنے کی سزا نا دے …….
مجھے معاف کر دے
نوال جب سے حسن کو انکار کر کے ائی تھی بہت زیادہ ڈسٹرب تھی
خیا لوں میں ہی کھوئی رہتی
اک دو بار زہرا اور سبین نے بات کرنے کی کوشش کی حسن کے بارے میں لیکن اسنے سختی سے منع کر دیا تھا
سحرش کی تو ہمت نہیں ہوئی بات کرنے کی اس سے
ہوسٹل میں ساتھ ہونے کے باوجود
اب وہ سحرش سے بھی صرف کام کی بات کرتی تھی
……………………
ایسا تو کبھی نہیں سوچا تھا جیسا ھو گیا
حسن نے تو ھم سب سے رابطہ ختم کر دی اگر کال کرنے تو بہت مشکل سی ریسو کرتا ….
اور نوال نے تو مجھ سے بولنا بھی چھوڑ دیا
اس دن میں نے دوکھے سے ادھر بولیا تھا …….
وہ کہتی آگر آپ مجھے بتا دیتے تو بھی آپکی خاطر مل لیتی لیکن اپنے بھائی ھو کے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ
بہت سخت ناراض ہے وہ مجھ سے
رضا نے سبین کو کہا
نوال تو ھم سے بھی کم بولتی ہے
اگر کوئی بات کر دیں تو جواب دے دیتی
ورنہ چپ بیٹھی رہتی
رضا میں اپنی دوست کی ایسی حالت نہیں دیکھ سکتی بہت دکھ ھوتا مجھے اسے ایسے دیکھ کے
پہلے تو ہار وقت ہنسی مذاق کرتی رہتی تھی
ہر کام میں سب سے آگے آگے ھوتی تھی
لیکن اب تو وہ مسکرنا بھی بھول گئی
ہماری منگنی کی سب سے زیادہ خوشی اسے ھوتی
لیکن اب تم نے دیکھا نا کیسے چپ چپ تھی ……..
اور شر کت بھی فرض نبھا نے کے طور پے کی
سبین کو نوال سے بہت گلے تھے
سبین سب دعا ہی کی جا سکتی سب ٹھیک ھو جاۓ
نجا نے میری بہن کو کس کی نظر لگ گئی
کاش میں کچھ کر سکتا
مجھے لگتا
اب یہ صرف کاش ہی ہماری زندگیوں میں رہنے والا
رضا سرد آہ بھر کے ره گیا
……………
زہرا تم مجھے موٹی لگ رھی ھو یا سچ میں موٹی ھو چکی ھو
سحرش نے گھو ر سے
زہرا کو دیکھتے کہا
ہا ں زہرا تم موٹی ھو گئی ھو
سبین نے بھی سحرش کی ھاں میں ھاں ملائی
یار شادی کے بعد
پلیز اب یہ مت کہنا کے شادی کے بعد موٹی ھو جاؤں ی سمارٹ کوئی فرق نہیں پڑے گا اب امپریس کس کو کرنا جو ملنا تھا مل چکا
سبین نے اسکی بات کاٹی
ہاہاہا سبین بہت باتیں کرنے لگ گئی ھو رضا بھائی کی کمپنی کا اثر لگتا ہے
ویسے میرے ساتھ کو اور بھی اس وجہ سے
سچ کیا میں خالہ بننے والی ہوں
نوال نے چلاتے ہوۓ کہا
واہ یار مجھ پتہ ھوتا یہ نیوز مجھ پر ا نی نوال واپس دے دی گی تو کب کا بتا چکی ھوتی
اسنے نوال کو گالے لگا لیا
ہاے اللہ کتنی اچھی خبر دی تو نے
باقی دونو ں بھی اس کے ساتھ چمٹ گئی
میرے خدا تیرا شکر آج ہمارا گروپ پہلے جیسا ھو گیا ورنہ مجھے تو کوئی امید نہیں تھی
سبین صرف سوچ کے ره گئی
اٹھو چلو کچھ کھاتے اسی خوشی میں
نوال نے کہا اور باقی تینوں بھی اس کے پیچھے کینٹین کی جا نب چل دی
وہ بہت خوش تھی کے پہلے والی نوال واپس مل گئی
…………………….
پتہ نہیں سعد کا نمبر کیوں بند جا رہا کب سے ٹرائ کر رھی ہوں لیکن بند ہی مل رہا اللہ کرے خیر ھو پہلے تو انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا
سحرش نے پرشانی سے اسکا نمبر بار بار ٹرائ کرتے کہا
کچھ نہیں ہوا ھو گا میٹنگ میں بیزی ہوں گے فری ھو کے خود کنٹیکٹ کر لینے گے
نوال نے اسے سمجھا یا
یار چو بیس گھنٹے ھو گے کوئی رابطہ نہیں کیا انہو ں نے اور انکل بھی اے ہوۓ ہے مجھ ٹینشن کوئی جھگڑا نا ھو گیا ھو
سحرش فضول نا سوچو آرام سے بیٹھ جاؤ کچھ بھی ایسا نہیں ہوا ھو گا
نوال نے بیٹھا یا
اسی وقت سحرش کا موبائل بجا
سکرین دیکھی تو
وٹس اپ پے سعد کی کال تھی
کیسے اپ ٹھیک تو ہیںں
سحرش نے ریسو کرتے ہی پوچھا
ھاں میں بلکل ٹھیک تم کیسی ھو
سعد نے پوچھا
شکر ہے میں تو پرشان ھو گئی تھی
میں بھی ٹھیک
سحرش نے سکون کا سانس لیتے کہا
سحری دار اصّل میں کام کے سلسلے میں بابا کے ساتھ سنگا پر آیا ہوں تو رابطہ نہیں کر سکا پرشان نا ھو کچھ دنوں تک میں آ جاؤں گا
سعد اپ مجھ سے ملے بنا ہی چلے گے
سحرش کو دکھ ہوا
یار بابا نے ار جنٹ جانے کا کہا ملنے کا ٹائم نہیں ملا
اچھا بعد میں بات کروں گا
کہتے ہی سعد نے کال بند کر دی
سحرش کیا ہوا
سب ٹھیک تو نا تم نے ایسی شکل کیوں بنائی ہوئی
نوال نے اسے دیکھ کے کہا جو رونے والی تھی
نوال سعد سنگا پور چلے گے مجھے بتایا تک نہیں اب ادھر جا کے کال کر رہے
سحرش رو پڑی تھی
یار رونا بند کرو کوئی ایمرجنسی ھو گی تو گے ہوں گے
اب رات کافی ھو گئی سو جاؤ
صبح مجھے نا جا گنا پڑے
اورخدا کہ واسطہ پوری رات رونے نہ بیٹھ جانا
نوال نے اسے ڈانٹا
وہ ایسا کرنا تو نہیں چاہتی تھی لیکن وہ سحرش کو ایسا نہ کہتی تو سحرش نے پوری رات وہ ہی بات بار بار کرتے رہنا تھا
کمینے میری کال کیوں نہیں ریسو کر رہے تھےکسی مجنو کی اولاد
ہادی کا موڈ آج حسن کی کلاس لینے کا تھا
یار بیزی تھا تو نہیں کال بیک کر سکا
مجھے پتہ تو جتنا بیزی کسی اور کے سامنے بہانے بنانا جو تمہیں جنتا نہ ھو …….
میں تیری رگ رگ سے واقف ہوں
اب بس کر اور اس سیڈ سیڈ گٹ اپ سے نکل آ
یار عرصہ ھو گیا وہ ہستہ مسکرتا ہوا حسن دیکھے
اب تو خواب لگتا کے تم پہلے جیسے ھو جاؤ گے
ہی ہی ہی ہی ہی
اب خوش میں نے ہنس دیا حسن نے ہادی کی بات کے جواب میں کہا
لعنت ہے تجھ پے میرے خلوص کہ جلوس نکل دیا
ہادی کو اس پے بہت غصہ آیا
یار غصہ نہ ھو میں بہت خوش ہوں کچھ وقتتو لگے گا نہ پہلے جیسے ہونے میں
یہ کی میرے یار والی بات دل خوش ھو گیا
ہادی نے نارمل ہوتے کہا
………………….
تھوڑی دیر اور بات کر کے حسن نے کال بند کر دی
اسنے بہت مشکل سے ہادی کے سامنے نے خود کو سنمبهلے رکھا
وہ اپنے دوستوں کو اور پرشان نہیں کرنا چاہتا تھا
اس نے سب کچھ خود تک محدود رکھنے کا فصلہ کر لیا
سحرش تم اتنی دیر سے کدھر گئی تھی کب سے انتظار کر رھی ہوں
نوال نے سحرش کو دیکھتے ہی کہا
ادھر ہی تھی میں کدھر جا سکتی ہوں
سحرش نے افسر د گی سے کہا
یہ کیا
نوال نے سحرش کے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کے کہا
سحرش کچھ نہ بولی نوال نے اسکے ہاتھ سے لفافہ لے کھولا
یار اتنی اچھی خبر اور تم پرشان ھو گئی ھو
تمہیں تو خوش ہونا چائیے
میں کیسے خوش ھو سکتی جس کی یہ نشانی وہ تو ایسے لگتا مجھے بھول چکا
سحرش یار پرشان نہ ھو انھے کوئی مجبوری ھو گی ورنہ بھائی ایسے نہیں
اللہ کرے ایسا ہی ھو
سحرش نے کہا
آمین
بھائی کو بتایا تم نے
نوال نے پوچھا
نہیں یار وہ جب بھی کال کرنے بند کرنے کی انے زیادہ جلدی ھوتی کیسے بتاتی پھر
سحرش نے روہنسی آواز میں کہا
اچھا میں ہوں نہ تمہارے پاس چھوڑ سب اچھا اچھا سوچو بس
نوال نے اسے گالے لگایا
سحرش کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کے گرے
وہ جیسے سب سے پہلے بتنا چاہتی تھی وہ ہی اس سے بہت دور
سحرش کو لگ رہا تھا سعد اسے چھوڑ دے گا پھر وہ کیا کرے گی
نوال اک بات تو بتاؤ
سبین نے رازداری سے پوچھا
جی پوچھو
نوال نے کھوے کھوے اندز سے کہا
یار جب سے تمہاری منگنی ہوئی
تم نے کبھی ججو کی بات تک نہیں کیسے وہ
یا انکے بارے میں کچھ بھی
سبین نے تشویش سے پوچھا
دراصل میں نے خود انھیں نہیں دیکھا نہ کوئی تصویر
تو تم لوگوں کو کیسے بتاتی کیسے وہ
نوال نے سرد آہ بھری
یار ویسے سوچنے والی بات ججو نے تم سے رابطے کی کوشش بھی نہیں کی
ورنہ آج کل کے لڑکے منگنی بعد میں ھوتی پہلے ہی بات کرنے لگ جاتے
اللہ کرے سب کچھ ھو ٹھیک ہی
سبین نے فکر مندی سے کہا
اللہ بہتر کرنے گے ابھی سے سوچ کے پرشان کیوں ھو ما لک اچھا کرے گا سب
آمین
نوال نے سب اللہ پے چھوڑ دیا
نوال تم اڑتی چڑیا کے پر گننے کا دعوا کرتی تھی پھر بھی حسن بھائی کی نظروں کو نہ سمجھ سکی
سبین نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
سبین مجھے لگا تھا وہ مجھ میں انٹرسٹڈ لیکن پھر سوچا میرا وہم بھی ھو سکتا
اور اس نے بھی تو مجھے کبھی احساس نہیں دلایا
پھر میں ایسے کیسے اک
سراب کے پیچھے بھاگتی
میرے لیے فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا لیکن کوئی آس امید اسکی طرف سے ھوتی تو نا
اور اسنے اپنے احساسات کا یقین بھی دلایا تو کب جب سب کچھ ختم ھو چکا تھا
میرے ہاتھ میں تو کچھ رہا ہی نہیں
نوال نے افسر دگی سے کہا
نوال کیا تم بھی حسن میں انٹرسٹڈ تھی
سبین نے حیران ہوتے پوچھا
نوال نے صرف ہا ں میں سر ہلا یا
سبین پر تو حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا
سبین میری چھوڑو میں تو ٹھیک ھو ہی جاؤں گی سحرش کے بارے میں کچھ سوچو
نوال نے اسکا د ھیا ن خود سے ہٹنا چاہا
اسے کیا ہوا اچھی بھلی تو ہے
سبین نے بھویں اچکا کے کہا
یار وہ ماں بننے والی اور ایسے وقت میں سعد بھائی کو پاس ہونا چائیے تھا لیکن وہ سنگا پور گے ہوۓ
اور کال بھی بہت کم کرتے ہفتے میں دو بار
میں نے انٹی فوزیہ کا پتہ کیا وہ بھی ادھر نہیں
یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رھی کیا کروں بیچاری کا
نوال نے تفصیل بتائی
او ھو یہ تو بہت پرشانی والی بات ہے پتہ نہیں سعد بھائی ایسا کیوں کر رہے
سبین بھی پرشان ھو گی
یار کچھ سمجھ نہیں آ رہا سحرش کو کیسے سنبھالوں دن بدن مشکل ھوتا جا رہا
نوال نے اسے سحرش کی ساری کنڈیشن کا بتایا
نوال میرے پیریڈ کا ٹائم ھو گیا میں جا رھی کلاس میں بعد میں بات ھو گی اسی ٹا پک پےسبین کہتی چل دی
وقت کا کام گزرنا
وہ آج تک کس کے لیے روکا
جیسا بھی
اچھا یا برا گزر ہی جا تا ہہے
ایسا ہی سحرش کے ساتھ
سعد کوگے چھ مہنے سے زیادہ کا وقت ھو چکا تھا لیکن وہ نا آیا واپس رابط بھی بہت کم تھا
سحرش ماں کے گھر گئی رہنے
جب ماں نے سعد کا پوچھا تو
انھیں دلاسہ دے دیا کے بہت اچھے بہت خیال رکھتے
اور وہ آنے والے مہمان کیلئے بہت خوش بھی
اب انھیں کیا کہتی کے اسے تو آنے والی خوشی کا پتہ بھی نہیں
اک نوال کا ہی آسرا تھا
وہ اسے ہر پل خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھی
تابی سحرش کچھ دن ماں کے پاس ره کے واپس آ گئی تھی
وہ یہ ہی سوچتی کے اگر نوال نا ھوتی تو کیا بنتا اسکا
نوال کو وہ کہتی بھی کے تمہارے بنا میرا کیا ھوتا تو
نوال کہتی اللہ کوئی نا کوئی اور وسیلہ بنا دیتا
سحرش مطمئن ھو جاتی
اور
نوال کی اچھی قسمت کی ہر وقت دعا کرتی
……………….
سبین کدھر تھی کب سے ڈھونڈ رھی ہوں تمہیں
نوال نے سبین کو انگلش ڈیپارٹمنٹ سے نکلتے دیکھا تو زور سے کہا
ادھر ہی تھی آوارہ گردی کر رھی تھی
اور پورا پیریڈ کیسے گزرتی
اس ہٹلر کے جان نشیں نے تو کلاس میں انٹر نہیں ہونے دیا آج
سبین نے کافی غصے سے کہا
نوال کی آنکھوں کے سامنے گھنٹہ پہلے والا کلاس کا منظر گھوم
آج وہ دونوں ائی تھی صرف
سبین کینٹین چلی گئی نوال کہتی بھی رھی کے بعد میں جو مرضی کہا لینا ابھی کلاس میں چلو لیکن سبین نا ائی
جب کلاس میں گئی تو پندرہ منٹ لیٹ ھو چکی تھی
محتر مہ آپ کدھر آ رھی یہ ٹائم کلاس میں آنے کا آپ پندرہ منٹ لیٹ آپ نہیں آ سکتی ثوبیہ اٹھ کے دروزہ بند کر دو
رضا نے اسے کلاس میں داخل نہ ہونے دیا وہ بند دروزے کو گھورتی رھی
اس بے عز تی کا بدلہ نہ لا تو میرا نام بھی سبین نہیں کہتی چل دی
ویسے سبین اب تم کرو گی کیا بھائی کے ساتھ
نوال نے شرارت سے پوچھا
تمہیں کیوں بتاؤں تم بھی تو اسکی بہن بتا دو گی اسے
پتہ نہیں سمجھتا کیا خود کو
سبین بہت غصے میں تھی
کیا ھو رہا
رضا ان کے پاس آ کے بولا
کچھ نہیں جو آج آپ نے کیا اس کے رد عمل کے لیے بھی تیار رہے گا
میں نے کچھ غلط نہیں کیا میری کال ریسو نہ کرنے کی سزا
رات کو کالز کر کر کے لیکن اک بھی ریسو نہیں کی کسی طرح تو میں نے بھی غصہ نکلنا تھا
رضا نے اپنے عمل کی وجہ بتائی
سبین جو چپ بیٹھی تھی
اٹھ کے چل دی
ویسے موسم بہت خراب لگ رہا طوفان آنے کا خدشہ ہے رضا نے
نوال سے کہا
دونوں جاتی
سبین کو دیکھ کے ہسنے لگ گے
………………
ہیلو ہادی بھائی کدھر ہو آپ
نوال نے بہت پرشانی سے ہادی کے کال ریسو کرتے کہا
نوال ٹھیک تو ہو نہ
ہادی نے تشویش سے پوچھا اسے نوال کے انداز سے پرشانی لگ رہی تھی
بھائی سحرش بہت کریٹیکل کنڈیشن میں ہے پلیز آپ ہسپتال آ جاؤ سعد بھائی کی فیملی میں سے آپکو ہی جنتی ہوں صرف میں آپ ہونا بہت ضروری میں اڈریس سنڈ کرتی ہوں
نوال نے اک سانس میں ہی سب کچھ کھ کے کال بند کر دی
کیا ہوا
فوزیہ بیگم نے ہادی سے پوچھا جس کے چہرے سے پرشانی جھلک رھی تھی
انٹی سحرش کی حالت بہت خراب اتنا کھ کے نکل گیا
زہرا ائی اس نے فوزیہ بیگم کو ساری بات بتائی سحرش کی پرگنانسی ولی بھی
فوزیہ بیگم سر پکڑ کے بیٹھ گئی پھر کچھ سوچتے سعد کو کال کی جو آج ہی پاکستان آیا تھا ابھی ڈرائیور اسے ایر پورٹ سے لینے گیا تھا
فوزیہ بیگم نے اسے ہسپتال آنے کا کہا اورخود بھی چل دی
…………….
ریاض صاھب نے اک پلین سے سعد کو ادھر بیزی رکھا تھا
ساتھ فوزیہ بیگم کو بھی کچھ وقت بعد بولا لیا تھا
وہ دونوں ماں بیٹے کو اس لڑکی سے دور رکھنا چاہتے تھے
سعد کے ساتھ تو وہ سا یے کی طرح رہے مکمل اسکی نگرنی کرتے
کالز تک کا حساب رکھنے کی کوشش کرتے تابی وہ سحرش کو کم کالز کرتا تھا
اب انھیں لگا کے اس لڑکی کو بھول چکا تابی واپسی کا عند یا دیا فوزیہ بیگم اک دن پہلے ائی تھی وہ سعد کے ساتھ سحرش کو ملنے جانا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے ہی انھیں یہ خبر مل گئی