“چچی…ہانی کہاں ہے…؟؟” حسن پرجوش سا ان کے گھر داخل ہوا… سامنے ہی لان میں چئیر پر بیٹھی چاۓ کی چسکیاں لیتی مہرالنساء کو دیکھا تو انہیں مخاطب کر گیا…
“ارے حسن… تم… آؤ… بیٹھو…چاۓ پیو گے…؟؟ ہانیہ اپنے روم میں ہے…” اسے چاۓ کی آفر کرتے ہوۓ مہرالنساء نے اس کی بات کا جواب دیا…
“نہیں چچی…شکریہ… مجھے ہانیہ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی… میں بس ابھی آیا اس سے مل کے… ” حسن کا چہرہ کسی انجانی خوشی سے چمک رہا تھا… مہرالنساء قدرے حیران ہوئیں…اور اس کی اس ایکسائٹمنٹ پر مسکرا دیں… حسن تیز قدموں سے اندر کی جانب بڑھ گیا…
ہانیہ کے دروازے کے سامنے رک کر اس نے اپنا پھولا ہوا سانس درست کیا… ایک ہاتھ میں پکڑا گفٹ کمر کے پیچھے چھپایا… اور لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لیے دروازے پر دستک دی… پہلی دستک پر کوئ آواز سنائ نہ دی… اندر سے اجازت بھی نہ دی گئ تھی…
“ہانیہ…” حسن نے اسے پکارتے ہوۓ دوبارہ دستک دی…لیکن کوئ جواب نہیں دیا گیا… حسن نے قدرے حیران ہو کر دروازے کا ہینڈل گھمایا… دروازہ کھلتا چلا گیا… اس نے نظریں ادھر ادھر گھمائیں…گمان تھا کہ شاید وہ واشروم میں ہو گی تبھی جواب نہیں دیا…لیکن حسن کو حیرت کا جھٹکا لگا جب ہانیہ کو بیڈ پر ہی آلتی پالتی مارے بیٹھے دیکھا…
“ہانی…کیا ہوا یار… دستک بھی دی میں نے…آواز بھی…کوئ جواب کیوں نہیں دیا تم نے…؟؟” وہ تھوڑا پریشان سا ہو گیا… پچھلے کچھ عرصے سے ہانیہ کا رویہ بہت عجیب سا ہو گیا تھا… بالکل کمرہ نشین ہو کر رہ گئ تھی وہ… ہر وقت ہنسنے مسکرانے والی لڑکی کو نہ جانے کیوں خاموشی کا دورہ پڑ گیا تھا…
اس بار بھی کوئ جواب نہ پا کر حسن قدم بڑھاتا اس تک آیا… چہرے کی خوشی بھی ماند سی پڑ گئ تھی اس کی سرد مہری کو دیکھ کر…
“ہانیہ میں تم سے مخاطب ہوں…” اس کے سامنے بیٹھ کر حسن قدرے سخت لہجے میں بولا… وہ جو سامنے موجود کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی اس نے ایک پل کو ہاتھ روکا… نظریں اٹھا کر حسن کو دیکھا… اور پھر سے اسی کام میں مصروف ہو گئ… اس کا بے رنگ چہرہ اور خالی خالی آنکھیں دیکھ کر حسن کے اندر کہیں گہری تکلیف کا احساس جاگا تھا… کہاں تو وہ سلیقہ مند, نک سک سے تیار رہنے والی لڑکی تھی… لپ اسٹکس کی تو شیدائ تھی وہ… حسن نے کبھی اسے لپ اسٹک کے بغیر نہ دیکھا تھا لیکن پچھلے کچھ عرصے سے وہ جیسے خود اپنے ہی وجود سے بے نیاز سی ہو گئ تھی… کسی اور کے جذبات و احساسات کا تو کیا خیال کرتی اسے خود اپنا ہوش نہ تھا…
چند لمحے بے بسی سے اس کے جھکے سر کو دیکھتے رہنے کے بعد حسن نے کمر کے پیچھے چھپایا گفٹ نکالا…
“مبارک ہو ہانیہ… تمہارا رزلٹ آیا ہے آج… اور فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئ ہو تم…” کچھ دیر پہلے کی خوشی ایک بار پھر اس کے لہجے سے جھلکنے لگی تھی…
ہانیہ نے پنسل روکی… اس کے بڑھاۓ گۓ گفٹ کو دیکھا… پھر گہرا سانس بھرتے ہوۓ وہ گفٹ تھام کر بغیر اسے دیکھے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا…
حسن جو یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جاۓ گی… چینخ اٹھے گی… فوراً گفٹ کھول کر دیکھے گی… سارے گھر والوں کو جا کر یہ خوشخبری سناۓ گی… اس کا ایسا سردو سپاٹ سا رویہ نہ جانے کیوں اسے الجھن میں مبتلا کر گیا…
“ہانیہ…کیا ہوا ہے یار… تم ایسی روکھی پھیکی سی کیوں ہو گئ ہو…؟؟ مجھ سے ناراضگی ہے کوئ…؟؟” وہ پہلے بھی کئ بار کوشش کر چکا تھا اس کے اس رویے کی وجہ ڈھونڈنے کی… اپنی کوئ غلطی, کوئ کوتاہی تلاش کرنے کی…لیکن لاکھ کوشش کے باوجود اسے اپنی کوئ غلطی یاد نہ آئ جس پر ہانیہ خفا ہو سکتی…
“میں نے کیا کیا ہے…؟؟” حسن کے شکوہ کرنے پر بالآخر ہانیہ نے زبان کھولی…
“یہ تو میں پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ میں نے کیا کیا ہے…؟؟ تم مجھ سے ٹھیک طرح بات نہیں کرتی… اب میرے ساتھ کہیں باہر نہیں جاتی… ہمارے گھر نہیں آتی…کوئ ہنسی مذاق نہیں…کوئ شور شرابا نہیں… کوئ شوخی شرارت تک نہیں… اور تو اور… اتنی بڑی خوشخبری سنانے آیا میں آج تمہیں… جانتی ہو ابھی تک کسی اور کو اس بارے میں نہیں بتایا میں نے…کہ پہلے تمہیں ہی بتاؤں گا… ایک اور بھی گڈنیوز تھی میرے پاس… لیکن تم نے اپنے پاس ہونے پر ہی کوئ ری ایکشن نہیں دیا تو دوسری نیوز پر کیا کہو گی… یہاں تک کہ آج میرے دئیے گفٹ پر تھینکس تک نہیں کہا تم نے…جبکہ پہلے بے تابی سے میرا دیا گفٹ کھولتی تھی… کئ کئ بار اپنی خوشی کا اظہار کرتی تھی… ایسی تو کبھی بھی نہیں تھی تم…” وہ اداس سا کہہ رہا تھا…
“تھینکس…” اس نے سپاٹ لہجے میں فقط ایک لفظ کہا… گفٹ کو کھولنے کی زحمت ابھی بھی نہیں کی تھی…
“یار مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ… آخر کس خطا کی سزا دے رہی ہو مجھے…؟؟ کوئ وجہ تو بتاؤ یوں منہ بنانے کی… اگر تم اس دن ریسٹورنٹ والی بات سے خفا ہو تو ٹھیک ہے… لے جاؤں گا تمہیں رات کے وقت کسی قبرستان یا پرانی حویلی میں… سہہ لوں گا سب کی لعن طعن… سب کی ڈانٹ بھی سن لوں گا… لیکن خدارا اب یہ ناراضگی ختم کر دو…تم جانتی ہو تمہاری خاموشی مجھ پر گراں گزرتی ہے…تم ناراض ہوتی ہو تو میری جان پر بنی رہتی ہے… تم سے…” وہ جھنجھلاۓ ہوۓ سے انداز میں کہے جا رہا تھا یہ دیکھے بغیر کہ قبرستان اور پرانی حویلی کے نام پر وہ خوف سے سفید پڑنے لگی تھی… آنکھوں میں وحشت کا جہان آباد ہوا تھا…
“مم…مجھے نہیں جانا کسی قبرستان…مجھے کسی حویلی میں نہیں جانا… جاؤ چلے جاؤ یہاں سے… دفع ہو جاؤ تم… مم…مجھے یہیں رہنا ہے…میرے کمرے میں…کوئ مت آیا کرو میرے پاس…” وہ ایک دم ہذیانی انداز میں چینخنے چلانے لگی تھی… حسن اپنی بات بھول کر بوکھلاہٹ میں اسے تکنے لگا جو بے ربط سے جملے بولتی پیچھے کی جانب ہوتی جا رہی تھی…دونوں بازو اپنے وجود کے گرد لپیٹے وہ جیسے سب سے چھپنے کی کوشش کر رہی تھی… اس کی سانسیں بھی ناہموار تھیں…
“ہانی…کیا ہوا ہے تمہیں… ہانی پلیز چینخنا بند کرو… ٹھیک ہے…کہیں نہیں لے کر جاؤ گا تمہیں…پلیز ریلیکس…” وہ اس کے قریب کھڑا اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا… لیکن ہانیہ اس کے ہاتھ جھٹکتی بار بار پیچھے کی جانب کھسکتی جا رہی تھی…
مہرالنساء اس کی چینخیں سن کر بھاگتی ہوئیں کمرے میں آئیں… سوالیہ نگاہوں سے حسن کو دیکھا…
حسن نے بے بس سی نگاہ ان پر ڈالی… پھر شانے اچکا دئیے… کہ وہ خود بھی نہ جانتا تھا ہانیہ کی اس حالت کی وجہ… مہرالنساء نے ہانیہ کو پچکارتے ہوۓ اسے ٹھنڈا کرنا چاہا… وہ ڈرے سہمے سے انداز میں مہرالنسا کے گلے لگ گئ… کسی چھوٹی سی بچی کی طرح… جو خواب سے اچانک ڈر جاتی ہے… مہرالنساء کے اشارہ کرنے پر حسن ایک نگاہ اس پر ڈالتا کمرے سے نکل گیا…
💝💝💝💝💝💝
دادا جی کی طبیعت اچانک بےحد خراب ہو گئ تھی… ان سب کے تو گویا ہاتھ پاؤں ہی پھول گۓ… دادا جی چونکہ ہانیہ کے گھر رہائش پذیر تھے اسی لیے ہانیہ سے کچھ زیادہ ہی محبت تھی انہیں… اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ لاڈلی تھی وہ ان کی… اور شاید اسی وجہ سے دادا جی بھی آج کل اس کی طبیعت کے پیش نظر کافی پریشان رہنے لگے تھے… بہت سے ڈاکٹرز سے اس کا علاج کروایا گیا لیکن سب اس کی اس حالت کی وجہ ڈپریشن قرار دے کر میڈیسنز دے دیتے… اور کل رات دادا جی نے ہانیہ کے حوالے سے شاید کوئ بہت برا خواب دیکھا تھا جس کے باعث وہ خاصے پریشان تھے…کیونکہ ان کے اکثر خواب سچے ہوا کرتے تھے… اور اسی بات کی ٹینشن لیتے ہوۓ انہوں نے اپنی طبیعت خراب کر لی… بی پی خطرناک حد تک شوٹ کر گیا تھا… انہیں ہاسپٹل لے جانا پڑا… اور جب حالت خطرے سے باہر آئ تو گھر آتے ہی انہوں نے ایک ہی رٹ لگا دی کہ جلد سے جلد ہانیہ اور حسن کی شادی کی جاۓ… ان کی اس اچانک ضد کے باعث دونوں گھرانے خاصے پریشان ہو چکے تھے…کہ اس طرح ایک دم سے کیسے شادی کر دی جاۓ… ان کے لیے بہت سے پلانز سوچ رکھے تھے دونوں گھروں نے… اب پندرہ دن میں تیاریاں کرنا بے حد مشکل تھا…لیکن چونکہ یہ حکم دادا جی کا تھا… لہٰذا اس حکم کو ٹالنا ناممکن تھا… اسی لیے سب بڑوں نے اکٹھے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ سات دن بعد یعنی اگلے جمعہ کو نکاح کر دیا جاۓ اور پھر پندرہ دن بعد جمعہ کو ہی رخصتی کا عمل طے پا جاۓ… کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ شادی اتنی جلدی ہو جاۓ گی…کیونکہ ابھی ہانیہ کو مزید پڑھنا تھا… حسن کی نئ نئ جاب لگی تھی… اسے اسٹیبلش ہونا تھا… اپنا کیرئیر بنانا تھا… پھر تین سے چار سال بعد تک شادی متوقع تھی… لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا… سب گھر والے تو خوش تھے ہی… لیکن دادا جی کی خوشی کا تو کوئ ٹھکانہ ہی نہ تھا… جبکہ ہانیہ کا رویہ ویسا ہی تھا…. سرد اور خاموش… اور حسن… خوش تو وہ بھی تھا لیکن ہانیہ کا پراسرار سا رویہ اسے الجھا رہا تھا… خیر…گھر والوں نے یہ امید دلائ تھی اسے کہ ہانیہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جاۓ گی…حسن نے بھی پورا ارادہ کر رکھا تھا کہ شادی کے بعد ہانیہ کو اتنی خوشیاں دے گا کہ وہ پھر سے چہکنے لگے گی…پہلے کی طرح ہنسنے بولنے لگے گی… کون جانتا تھا کہ شادی کے بعد کیا طوفان آنے والا تھا ان کی ذندگی میں…
💝💝💝💝💝💝
نکاح کا دن آن پہنچا تھا… شام سات بجے نکاح کا وقت رکھا گیا تھا… سب مہمان بھی آ چکے تھے… گھر بھرا بھرا سا لگ رہا تھا… ہر طرف چہل پہل تھی…پورے گھر کو لائیٹنگ سے سجایا گیا تھا… اس وقت دوپہر کے دو بج رہے تھے جب حسن سب گھر والوں اور مہمانوں سے نظر بچا کر ہانیہ کے کمرے کی جانب آیا… امکان تھا کہ اس وقت ہانیہ کے کمرے میں اس کے سوا کوئ نہیں ہو گا… حسن نکاح سے پہلے ایک بار اس سے پوچھ کر اس کی رضامندی جاننا چاہتا تھا… بے شک یہ رشتہ پہلے ان دونوں کی مرضی سے ہی طے ہوا تھا…لیکن اب ہانیہ کے روہے سے الجھ کر وہ یہ سمجھنے لگا تھا کہ کہیں ہانیہ کسی اور میں تو انٹرسٹڈ نہیں… اس رشتے پر اور اس شادی پر بھی اس نے زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا… اور اسی بات نے حسن کو یہ سب سوچنے پر مجبور کیا تھا… بہرحال وہ ایک بار ہانیہ سے اس کی مرضی پوچھنا چاہ رہا تھا… اگر واقعی ایسی کوئ بات تھی تو حسن خود گھر والوں کے سامنے اس شادی سے انکار کرنے کا ارادہ کر چکا تھا…کہ ہانیہ کی رضا کے بغیر اسے حاصل کرنے کی کوئ خواہش نہ تھی حسن کو…
دروازے پر دستک دیتا وہ اندر داخل ہوا تو ہانیہ کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھے پایا… وہ دروازہ بند کرتا دھیمے قدموں سے چلتا اس کی پشت پر آ کھڑا ہوا… ایک نظر ڈریسنگ ٹیبل پر بکھری چیزوں کو دیکھا جن میں ہانیہ کا نکاح کا جوڑا, جیولری, سینڈلز وغیرہ تھے… دوسری نظر حسن نے آئینے میں نظر آتے ہانیہ کے وجود پر ڈالی جو بالکل سادگی کی حالت میں بیٹھی خالی خالی نگاہوں سے ان سب چیزوں کو دیکھے جا رہی تھی… حسن پر ایک نگاہ تک نہ ڈالی تھی اس نے… پتا نہیں کیوں وہ حسن کی طرف سے ایسی بے نیازی برت رہی تھی…
“ہانی…” نرم آواز میں حسن نے اسے پکارا… ہانیہ نے قدرے چونک کر آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھا…لیکن اگلے ہی پل نظریں چرا گئ…
حسن چلتا ہوا اس کے سامنے آیا… اس کے اسٹول کے سامنے خود نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا… کچھ سوچتے ہوۓ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیا…
“کیا سوچ رہی ہو…؟؟ کوئ پریشانی ہے تو مجھ سے شئیر کرو…” اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ دباتے ہوۓ جیسے اسے حوصلہ دینا چاہا… ہانیہ چند پل یونہی بے خیالی میں اسے دیکھے گئ…
“نن…نہیں…کوئ پریشانی نہیں…” اس نے دھیمی آواز میں کہتے ہوۓ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالنا چاہا…لیکن حسن نے گرفت مزید مضبوط کر دی…
“تو پھر اس رویے کی وجہ…؟؟ ہانی کیا بات ہے جو تمہارے دل میں کھٹک رہی ہے…؟؟ دیکھو ہمارے درمیان باقی سب رشتے بعد میں ہیں… سب سے پہلے ہم بہترین دوست ہیں… اور دوست ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتے… تم اپنے دل کی خلش مجھ سے بیان کرو… ہو سکتا ہے ہم دونوں مل کر کوئ حل نکال سکیں… ” وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ کم از کم ایک بار ہی سہی…لیکن ہانیہ کھل کر اس سے بات تو کرے…
“کوئ بھی بات نہیں ہے حسن… میں ٹھیک ہوں… ” اس نے سر جھکاتے ہوۓ کہا… ساتھ ہی وہ اپنے ناخنوں سے کھیل رہی تھی…جیسے اپنے اندر کے اضطراب کو چھپانے کی ایک ادنٰی سی کوشش کر رہی ہو…
“کیا تم اس رشتے سے خوش نہیں…؟؟” آخری حربہ آزمایا تھا حسن نے… لیکن یہ سوال پوچھتے ہوۓ اس کے لہجے میں خوف کی جھلک ہانیہ نے بھی واضح محسوس کی تھی… اس کی آنکھوں میں ایک ڈر سا تھا… شاید ہانیہ کی جانب سے مثبت جواب ملنے کا ڈر… ہانیہ خاموش سی ہو گئ…
“دیکھو ہانیہ… میرے لیے ہمیشہ تمہاری مرضی اہم تھی اور آج بھی تمہاری بات ہی اہم ہے… میں نہیں چاہتا کہ کوئ بھی بات تمہاری مرضی کے خلاف ہو… تم بھی جانتی ہو اور میں بھی… کہ یہ رشتہ ہم دونوں کی پسندیدگی کے باعث ہی جڑا تھا… اور اب ہمارا یہ رشتہ نکاح کے بندھن میں بندھنے جا رہا ہے… ابھی وقت ہے تمہارے پاس… اگر تم… اگر تم کسی اور کو لائک کرتی ہو تو مجھے بتا دو… یقین کرو تم پر حرف تک نہیں آنے دوں گا… سارا الزام میں اپنے سر لے لوں گا…لیکن پلیز…آج خاموش مت رہو… اپنے دل کی بات کہو آج بس… کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تمہیں… ” حسن نے ہمیشہ ہر پل اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا تھا… اور وہ آج بھی یہی کر رہا تھا…
ہانیہ نے نم آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا… اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر اس کے ہاتھوں کو اپنے نازک ہاتھوں میں تھاما…
“تم کل بھی مجھے پسند تھے حسن… تم آج بھی مجھے پسند ہو…کیونکہ جتنا تم مجھے سمجھتے ہو کوئ اور نہیں سمجھ سکتا… تمہیں اپنے ہمسفر کے طور پر پا کر میں خود کو خوش قسمت تصور کروں گی… لیکن شاید… شاید میں تمہارے قابل نہیں حسن… مجھے ڈر لگتا ہے… خوف آتا ہے کہ ذندگی میں کبھی کسی مقام پر اگر تم نے مجھے تنہا چھوڑ دیا تو…؟؟ میں تو جیتے جی مر جاؤں گی… کسی کو کھونا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا کسی کو پا کر کھو دینا اذیت دیتا ہے… اور اگر میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی…” وہ سسک اٹھی تھی…اور اس کی یہ سسکیاں پگھلے سیسے کی مانند حسن کی سماعتوں تک پہنچی تھیں…
“ایسا کبھی نہیں ہو گا یار… تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو… تمہارا ہاتھ تھاما ہے تو ساری زندگی وفا کروں گا تم سے… چاہو تو لکھوا لو… چاہو تو قسم اٹھوا لو… تمہیں چھوڑنا تو میرے لیے یوں ہے جیسے میں سانس لینا چھوڑ دوں… اور سانس لیے بغیر جوئ زندہ رہا ہے کبھی…؟؟ آئندہ ایسی کوئ بات سوچنا بھی مت… سمجھی…” وہ پیار بھری دھونس جما کر اس سے کہہ رہا تھا جبکہ ہانیہ کے جواب پر دل سکون و اطمینان سے بھر گیا تھا… سارے خدشات کہیں دور جا سوۓ تھے…
💝💝💝💝💝
“حسن بھائ… آپ کو چاہے ساری رات بھی یہاں کھڑا رکھنا پڑے ہم رکھیں گے…لیکن جب تک آپ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کر دیتے تب تک ہم آپ کو ہانیہ سے ملنے نہیں دیں گے بس… ” ہانیہ کی خالہ کی بیٹی کومل نے باقاعدہ بازو لمبا کر کے اس کا راستہ روکا ہوا تھا…
“یار…ابھی شادی کہاں ہوئ ہے ہماری… صرف نکاح ہی تو ہوا ہے… یہ سارے چونچلے اور یہ نیگ وغیرہ کے چکر اگلے ہفتے شادی پر پورے کر لینا نا… اس کا دیدار تو کر لینے دو ایک بار ظالمو…” ہانیہ کے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی اس پوری پلاٹون کو حسن نے رحم طلب نظروں سے دیکھا… ساتھ ہی بے بس نگاہوں سے دروازے کی طرف بھی… جس کے پیچھے وہ دشمنِ جان موجود تھی… حسن بے چین ہو رہا تھا اسے نکاح کے جوڑے میں دیکھنے کے لیے…
“نہیں نہیں… بالکل نہیں… آپ نے ان کے جملہ حقوق تو آج ہی اپنے نام محفوظ کرواۓ نا… تو آج بھی ہمارا نیگ بنتا ہے… آج تو آپ کی پتلی حالت دیکھ کر ڈیمانڈ کم رکھی ہم نے… رخصتی کے دن تو اچھی خاصی رقم وصول کریں گے آپ سے…کیوں لڑکیو…” کومل کچھ زیادہ ہی اچھل رہی تھی… سب لڑکیوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائ…
آخر کچھ دیر بحث کے بعد حسن نے ان کی ڈیمانڈ پوری کرتے ہوۓ تیس ہزار روپے ان کی ہتھیلی پر رکھے… تب کہیں جا کر ہانیہ سے ملنے کی اجازت نصیب ہوئ… وہ مسرور سا, دلکش مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا… بے تاب نگاہوں نے اسے تلاشنے کی چاہ کی… لیکن وہ دکھائ نہ دی تھی کہیں…
“ہانیہ…” اس نے محبت بھرے لہجے میں پکارا… تبھی باتھ روم سے کچھ کھٹ پٹ کی آوازیں سنائ دیں… ساتھ ہی چند سسکیاں… وہ حیران ہوتا باتھ روم کی جانب بڑھا… دروازے کے قریب پہنچا تو جیسے سکتہ زدہ ہو گیا… قدموں تلے سے زمین کھسک گئ تھی… سامنے ہانیہ ایک ہاتھ میں تیز دھار چھری پکڑے اپنے دائیں ہاتھ پر چھریاں چلاتے ہوۓ خود کو زخمی کر رہی تھی… اس کے منہ سے سسکیاں برآمد ہو رہی تھیں…لیکن آنکھوں میں جنون اور چہرے پر نہ جانے کیسی عجیب سی چمک تھی… لبوں پر پراسرار مسکراہٹ نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا…حسن نے ہوش میں آتے ہوۓ آگے بڑھ کر تیزی سے اس کے ہاتھ سے چھری چھین کر زمین پر پھینکی اور جلدی سے اس کا ہاتھ تھام کر زخم دیکھا… ہاتھ پر ان گنت زخم تھے جن سے خون بہتا زمین پر گر رہا تھا… پریشانی کے عالم میں حسن نے دیوار گیر شیشے کی طرف دھیان ہی نہ دیا جس پر خون کے چھینٹوں سے ہی لکھا تھا…
“You + Me = LoVe”
“ہانیہ…پاگل ہو گئ ہو تم…؟؟ یہ…یہ کیا کر رہی ہو…؟؟” وہ چلایا… اس کا خون دیکھ کر حسن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا… جبکہ ہانیہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے کو زور آزمائ کر رہی تھی…
“ہانی…بس کر دو…کیا پاگل پن ہے یہ… دیکھو کتنا خون بہہ گیا ہے… چچی… چچا جان… محسن… ” ماہی بے آب کی طرح تڑپتی مچلتی ہانیہ کو بمشکل سنبھالتے ہوۓ حسن نے باقی گھر والوں کو آوازیں دی… چند ہی لمحوں بعد سب بھاگتے دوڑتے وہاں تک پہنچے… اور سامنے کا منظر دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گۓ… چچا جان اور چچی جان نے آگے بڑھ کر ہانیہ کو قابو کرنے کی کوشش کی جو حسن سے کنٹرول ہی نہ ہو رہی تھی… چند لمحوں کی زور آزمائ کے بعد ہانیہ کنزوری اور نقاہت کے باعث ان کے بازوؤں میں جھول گئ… جبکہ باقی سب افراد منہ پر ہاتھ رکھے ہکا بکا یہ منظر دیکھ رہے تھے…