لفظوں کو جستجو ہوئی اپنے وجود کی
مفہوم اپنے رشتے نئے ڈھونڈنے لگے
معنوں کی اک بساط بھی بچھنے لگی نئی
محبوب کے حوالے سے تفہیم چاند کی
اب صرف ایک قصۂ پارینہ بن گئی
ایٹم کے دَور نے ہر اک شے کو بدل دیا
تہذیب ِنَو کے نام پہ قدریں بدل گئیں
حسِ لطیف مٹ گئی ، انسان پٹ گئے
یہ دُور سے چمکتا ہوا چودھویں کا چاند
دراصل پتھروں کا اک ایسا طلسم ہے
جو اس کی چاندنی کے سرابوں میں تیر کر
پہنچے وہاں تو روح بھی پتھرا کے رہ گئی
لیکن میں اپنے دور سے بالکل الگ تھلگ
اور اپنے نظریات کو بھی رکھ کے اک طرف
لفظوں کے وہ پرانے مفاہیم چوم کر
سوچوں تو تیرا چاند سا چہرہ دکھائی دے
میں ڈوب جاتا ہوں تری کرنوں کے نُور میں
تیری نگاہوں سے یوں اُمڈتی ہے چاندنی
لیکن میں جانتا ہوں کہ تُو صرف چاند ہے
وہ چاند جس کا دل ہے فقط پتھروں کا ڈھیر
ڈرتا ہو ں تیرے قُرب سے پتھرا نہ جاؤں میں
میں چاہتا ہوں صرف تجھے سوچتا رہوں
جب جانتا ہوں دل ترا ہے پتھروں کا ڈھیر
پھر آئینۂ روح کیوں ٹکراؤں گا بھلا؟
تسخیر کر کے میں تجھے کیا پاؤں گا بھلا؟
اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی دیکھتا رہوں
اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی سوچتا رہوں!