” لیکن کیسے ۔۔۔؟؟ اس قدر سخت سکیورٹی کے ہوتے ہوئے ہم کارلوس پر ہاتھ کیسے ڈالیں گے ؟” ہیزل۔
” میرے پاس ایک پلان ہے ۔۔۔ لیکن اس سے قبل مجھے ڈریم کیفے کا ایک راؤنڈ لگانا ہوگا، باہر سے ہی۔۔۔۔ میں اس کی سکیورٹی میں کوئی کمی کوئی کمزوری تلاش کرنا چاہتی ہوں۔” ستی کے کہا ۔
” لیکن سب سے بڑا ایشو تو اب بھی برقرار ہے۔۔۔۔اگر ہم نے کارلوس کو اغواء کر بھی لیا اور اس کے عوض کورا کو بازیاب کروا بھی لیا تو ظاہر ہے اس سے مکاریوس کا نیٹورک تو ختم نہیں ہوجائے گا ۔۔۔ وہ دوبارہ ہم پر حملہ کر سکتے۔۔۔ انہیں ہمارے گھروں کا علم ہے ، ہمارے کالج کا علم ہے۔۔۔ وہ ہماری فیملیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔۔۔ اس صورتحال میں آخر ہم ان سے کیسے نبٹیں گے۔۔۔؟؟ ہیزل نے کہا۔
جس پر ستی معنی خیز انداز میں مسکرائی۔۔۔۔
” سَن زُو نے کہا تھا ‘ اگر میں جنگل میں ایک باگھ اور ایک شیر کے درمیان گھِر جاؤں تو میری کوشش ہوگی کہ انہیں آپس میں ہی لڑوا دوں۔۔۔’
اب باگھ سے تو ہمارا سامنا ہونے ہی والا ہے ، شیر ہمیں خود ہی پیدا کرنا ہوگا۔” ستی نے کہا ۔
” ایک منٹ۔۔۔۔ سن زو یہ کہاں لکھا ؟ میں نے تو اس کی کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں پڑھا ۔۔۔” کورا ثانی نے کہا۔
” اچھا۔۔۔؟ پھر یقیناً یہ میں ہی کہا ہوگا ۔۔۔” ستی نے کہا ۔
” ہم یہ آپریشن کس وقت شروع کریں گے۔۔۔؟” ہارلین نے کہا۔
” صبح 6 بجے، جب کیفے میں ناشتے کا وقت چل رہا ہوگا۔۔۔” ستی نے کہا۔
” آخری سوال۔۔۔ ہم مغوی کارلوس کو رکھیں گے کہاں ؟” ہیزل نے کہا۔
ملبری ٹاؤن کے ٹھیک مضافات میں 6 ماہ قبل ایک پرائیویٹ کنسٹرکشن کمپنی نے اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹ پر کام شروع کیا۔۔۔ لیکن 4 ماہ کے کام کے بعد ہی وہ زمین متنازعہ قرار دے دی گئی اور عدالت کا فیصلہ آنے تک مزید کام ملتوی کردیا گیا ۔۔۔ کارلوس کو ہم عارضی طور پر وہیں رکھیں گے ۔۔۔” ستی نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملبری ٹاؤن پر صبح کا اجالہ طلوع ہوچکا تھا ۔۔۔
ستی نے اس آپریشن کے لیے سب ساتھیوں کو تین ٹیموں میں تقسیم کردیا تھا ۔۔۔ ہیزل اور ستی کو ڈریم کیفے میں قائم کارلوس کی رہائش گاہ تک رسائی حاصل کرکے اسے اغواء کرنا تھا ۔۔۔۔ کورا اور ہارلین نے مغوی کارلوس کو کار کے زریعے مقررہ مقام یعنی زیر تعمیر ہاؤسنگ ایریا تک پہنچانا تھا ۔۔۔ جبکہ کورا ثانی اور ہانیہ کو وہاں پہلے ہی بھیج دیا گیا ۔
صبح 6 بجے کا وقت تھا جب ستی اور ہیزل ڈریم کیفے میں داخل ہوئیں۔۔۔خود کو کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے پاس کسی نوعیت کا کوئی ہتھیار نہیں رکھا تھا ۔۔۔ ہیزل نے ستی کو اپنے ریفرنس پر ایک نئی “گاہک” کے طور پر متعارف کروانا تھا ، اس لیے ستی نے اپنا حلیہ اور فیشن کسی اپر-کلاس فیملی کی بگڑی ہوئی لڑکی جیسا بنا رکھا تھا ۔۔۔ جینز کے ساتھ knot والی شرٹ ، شوخ میک اپ، ٹوئسٹ بیک ہیرسٹائل اور سَن گلاسز ۔۔۔۔ دیکھنے پر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہے۔۔۔۔انٹرنس پر تعینات گارڈز سمیت یہاں کے سبھی ورکرز کیونکہ ہیزل کو جانتے تھے اس لیے انہیں داخلے پر کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔۔۔۔ لابی مین اکثر میزیں خالی تھیں جبکہ چند میزوں پر لوگ ناشتہ کرنے یا کافی پینے میں مصروف تھے ۔۔۔ ہیزل ستی کو اپنے ساتھ لے کر سیدھا کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
” ویلکم ہیزل۔۔۔ آج صبح صبح ہی۔۔؟” کاؤنٹر پر تعینات شخص نے اس سے کہا۔
” ہاں مارٹن آج میں سکائی لارک کے ساتھ آئی ہوں۔۔” ہیزل نے کہا تو مارٹن چونک سا اٹھا ۔۔۔ سکائی لارک وہاں مروج ایک کوڈ تھا جس کا مطلب “نیا گاہک” تھا۔
” اوہ اچھا ۔۔۔ باس ابھی مصروف ہیں ، کسی نئی پارٹی کے ساتھ میٹنگ ہے آج ان کی ، نصف گھنٹے تک فری ہوں گے۔۔” مارٹن نے کہا۔
” تو ٹھیک ہے ہم اتنی دیر لابی میں ہی ویٹ کر لیتی ہیں۔۔۔باس فری ہوں تو انہیں ہماری آمد کی اطلاع کردینا۔” ہیزل نے کہا ۔ اور وہ دونوں ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گئیں۔
کچھ ہی دیر میں ایک ملازم جو ویٹر کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا ان کے ٹیبل تک پہنچا ۔۔۔
” بلیک کافی۔۔۔” ہیزل نے مختصر آرڈر دیا اور وہ اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا ۔
کچھ ہی دیر میں ان دونوں کو کافی سرو کی جا چکی تھی ۔۔۔
بیس منٹ بعد ویٹر واپس آیا اور دھیمی آواز میں بولا ۔۔۔ ” آپ کو مارٹن سر بلا رہے ہیں۔”
تب تک وہ دونوں کافی بھی ختم کر چکی تھیں۔۔۔
وہ دونوں اٹھیں اور پھر سے کاؤنٹر کی طرف بڑھیں ۔
” کیا درکار ہے اور کتنی مقدار میں۔۔۔؟” مارٹن نے پوچھا۔
” حیش، تین سو گرام۔۔۔۔” ہیزل نے دھیمی آواز میں کہا۔
مارٹن نے انٹرکام کا رسیور اٹھا کر بٹن دبایا اور اس پر ” تین پیکٹ چاکلیٹ۔۔۔” کے الفاظ بولے ۔۔ اور دوسری طرف سے جواب سننے کے بعد رسیور رکھ دیا۔
” باس 5 منٹ میں آفس میں ملیں گے ۔۔۔” مارٹن نے کہا۔
کچھ ہی دیر میں ایک مسلح گارڈ کی نگرانی میں ان دونوں کو کارلوس کے آفس پہنچا دیا گیا۔۔۔ کارلوس تیس بتیس سال کا ،مظبوط کسرتی جسم کا مالک صحت مند شخص تھا ، اس کا آفس کافی خوبصورت اور آرام دہ طرز کا تھا ۔۔۔ ہیزل نے ستی کا تعارف ایک پوش علاقے میں مقیم ، کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے طور پر کروایا ،
کارلوس نے ستی کو ایک نئی گاہک کی طرح ڈیل کرتے ہوئے اسے یقین دلایا کہ اسے کوئی بھی ڈرگ کسی بھی مقدار میں پوری رازداری کے ساتھ فراہم کی جاسکتی ہے۔۔۔ بات چیت مکمل ہوجانے کے بعد کارلوس نے آفس کی عقبی دیوار میں موجود دروازے کو ، ٹیبل پر موجود ایک بٹن دبا کر انلاک کیا ۔۔۔ اور ان دونوں کو اپنے ساتھ آنے کو کہا۔۔۔کارلوس کا ذاتی سوئٹ واقعی انتہائی خوبصورت اور لگژری تھا ، جدید طرز کا یہ سوئٹ انتہائی مہنگے فرنیچر، قیمتی قالین ، عمدہ لائٹنگ سمیت بےشمار سہولیات سے لیس تھا۔۔۔ اندر داخل ہو کر کارلوس نے دروازے کو لاک کیا ۔۔۔ اور ہیزل سے کچھ معمول کی گفتگو کرتا ہوا دیوار پر نصب ایک الماری کی طرف بڑھا، اس نے الماری کھولی اور اندر سے کچھ نکالنے لگا ۔۔۔ اس وقت اس کی پشت ان دونوں کی طرف تھی ۔۔۔۔ یہی لمحہ تھا جب ستی نے چپکے سے اپنے لباس سے ایک بھرا ہوا انجیکشن برآمد کیا ، اس کی کیپ اتاری اور بجلی کی سی تیزی سے اسے کارلوس کی گردن میں گھونپ دیا ۔۔۔۔ بےاختیار کارلوس کی چیخ نکل گئی ، وہ تیزی سے پیچھے کو مڑا ۔۔۔ اس نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھا اور وہیں دھنس چکے انجیکشن کو کھینچ کر نکالا ۔۔۔ لیکن اس کا جسم بری طرح سے لرزنے لگا اور آن کی آن میں وہ زمین بوس ہوچکا تھا ۔۔۔ اسکے بیہوش ہوتے ہی پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ان دونوں نے اسے بازوؤں سے پکڑا اور محض چند سیکنڈ میں ہی گھسیٹ کر عقبی کھڑکی کے پاس پہنچا دیا ۔۔۔ یہ کھڑکی زیادہ زیادہ بلندی پر نہ تھی۔۔۔ اسے کھڑکی کے پاس لٹانے کے بعد ہیزل تیزی سے کمرے کی اس دیوار کی طرف بڑھی جہاں بیس کے قریب بٹنوں پر مشتمل ایک جدید سوئچ بورڈ نصب تھا۔۔۔ جبکہ ستی اپنی جیبوں سے کچھ Kibbles (کتوں کی ڈبہ بند خوراک جو گولیوں یا چھوٹے چھوٹے بسکٹسں کی شکل میں ہوتی ہے ) نکالنے لگی ۔۔۔ اتنے میں ہیزل نے سوئچ بورڈ پر مطلوبہ بٹن تلاش کرنے کے بعد اسے پریس کردیا ۔۔۔ ہلکی سی کلک کی آواز کے ساتھ وہ سلائیڈنگ کھڑکی انلاک ہوگئی ۔۔۔ ستی نے کھڑکی کو معمولی سا کھولا ، بس اتنا ہی کہ جس سے وہ ہاتھ باہر نکال سکے ۔۔۔ پھر اس نے وہ سارے کِبلز جو دو تین مٹھی کے برابر تھے کھڑکی سے لان میں پھینک دیے اور کھڑکی فوراً بند کردی ۔۔۔ حسبِ توقع کبلز کی خوشبو ملتے ہی لان کے ایک طرف اپنے چھوٹے چھوٹے چوبی گھروں میں بیٹھے بلڈ ہاونڈز بھاگتے ہوئے آئے اور کبلز پے حملہ آور ہوگئے ۔۔۔
” تربیت یافتہ کتے ہیں ، کسی ایسی ویسی چیز کو تو منہ بھی نہ لگائیں ، لیکن میں نے دو تین مرتبہ کارلوس کو کھڑکی سے انہیں کبلز ڈالتے دیکھا تھا ۔۔۔ رہی بات ان کی قوتِ شامہ کی تو ان کا مالک بھی یہیں کھڑکی کے پاس پڑا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مالک کی بو سونگھ سکتے ہیں اور بغیر مشکوک ہوئے کبلز کھانے پہنچ گئے لہذاٰ ہمارا پلان کامیاب ہورہا ہے۔۔۔۔” ہیزل نے ستی سے کہا ۔۔۔ اسی وقت انہوں نے دیکھا کہ چاروں کتے یکے بعد دیگر زمین پر ڈھیر ہوتے گئے اور ساکت ہو گئے ۔۔۔ کتوں کے بےسدھ ہوجانے کے بعد ہیزل کھڑکی کو مکمل کھولنے لگی جبکہ ستی نے موبائل نکال کر کورا کو All ok کا میسج کیا اور احتیاطاً ایک مس کال بھی دے دی ۔۔۔۔ ہیزل پھر سے سوئچ بورڈ کی طرف بڑھی اور اب کی بار اس نے لان کے دروازے کو انلاک کرنے والا بٹن پریس کردیا۔۔۔۔۔ستی نے اپنے لباس سے کچھ پرنٹ شدہ پیپرز نکالے اور انہیں کمرہ میں اوپر کی طرف اس طرح اچھال دیا کہ وہ پورے کمرے میں بکھر جائیں۔۔۔ ۔ پھر ان دونوں نے مل کر بیہوش کارلوس کو اٹھا کر کھڑکی کے راستے لان میں پھینک دیا ۔۔۔اور پھر خود بھی لان میں کود گئیں۔۔۔وہاں ایک مرتبہ پھر انہوں نے کارلوس کو بازوؤں سے پکڑا اور گھاس پر گھسیٹتے ہوئے دروازے تک لے گئیں۔
کورا اور ہارلین وہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر کار سمیت تیار حالت میں موجود تھیں ، اس کار کا انتظام ہارلین نے ہی کر کے دیا تھا ۔۔۔ ستی کا میسج موصول ہوتے ہی کورا نے کار سٹارٹ کی اور بمشکل ایک منٹ میں کار اس ذیلی راستے پر پہنچ چکی تھی جس پر لان کا عقبی دروازہ کھلتا تھا ، دروازے پر نظر پڑتے ہی کورا نے کار دیوار کے نزدیک کر لی اور اسے بتدریج آہستہ کرتے ہوئے ٹھیک دروازے کے ساتھ جوڑ کر یوں روک دیا کہ جیسے کار کسی خرابی کا شکار ہوچکی ہو ۔۔۔ اور یہی وقت تھا کہ جب دروازہ تھوڑا سا کھل گیا ۔۔۔ وہاں موجود ستی اور ہیزل نے دروازے کی سمت موجود کار کے دروازے سے بیہوش کارلوس کو کار کے اندر منتقل کیا ، بیک سیٹ پر بیٹھی ہارلین نے فی الفور بیہوش کارلوس کو ایک کپڑے سے ڈھک دیا ۔۔۔۔ جس کے بعد ہیزل نے دروازہ برابر کردیا۔۔۔۔ اور چند لمحوں بعد وہ چاروں اس کار میں ، بیہوش کارلوس سمیت شہر کی چھوٹی ، سڑکوں ، غیر معروف اور کچے راستوں پر محوِ سفر تھیں !!!
” افففف ستی جب تک تمہارا All ok کا میسج موصول نہ ہوگیا میرا تو سانس ہی اٹکا رہا جیسے۔۔۔” کورا نے کار ڈرائیو کرتے کہا۔
” ویسے ستی ، مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہ آسکا کہ میٹل ڈیٹیکٹرز، سرنج کو کیوں نہ ڈیٹیکٹ کرسکے ۔۔۔۔” ہیزل نے کہا ۔
” پلاسٹک سے بنی سرنج نیڈلز کو متعارف ہوئے دس سال ہوچکے ہیں۔۔۔” ستی نے کہا۔
” حیرت کی بات ہے اس لان میں کارلوس نے کوئی مسلح افراد تعینات نہ کررکھے تھے ۔۔۔” ہارلین نے کہا ۔
” کیونکہ اس کی ضرورت نہ تھی ۔۔۔ ایک تو انتہائی بلند دیواریں ۔۔۔ پھر الارم سے لیس ، برقی رو سے بھری خاردار تاریں جنہیں کوئی چیز چھو بھی جائے تو الارم بجا جاتا ہے ۔۔۔ پھر لان میں چار عدد تربیت یافتہ خونخوار کتے ۔۔۔کھڑکی بلٹ پروف جسے صرف اندر سے ہی کھولا جاسکتا ہے ۔۔۔ مجھے بس اس سارے سسٹم کے اندر ایک کمزوری درکار تھی جو مجھے مل گئی۔۔۔” ستی نے کہا .
” کیسی کمزوری۔۔۔؟؟ کورا نے پوچھا۔
کمزوری یہ کہ دوسری منزل سے لان کی جانب کوئی کھڑکی نہیں کھلتی ۔۔۔اگر وہاں دوسری منزل سے کوئی کھڑکی کھلتی ہوتی تو دوسری منزل پر تعینات بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افراد میں سے کوئی بھی ہمیں دیکھ بھی سکتا تھا اور وہیں شوٹ بھی کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بھلے ہی کارلوس نے لان میں کیمرے نصب کر رکھے تھے تاہم ان کیمروں کی سکرین بھی کارلوس کے ہی کمرے میں نصب ہے۔۔۔” ستی نے کہا۔
پونے گھنٹے تک سفر کے بعد کار جھاڑیوں ، درختوں اور کھاڑ جھنکار سے بھرے اس علاقے تک پہنچ چکی تھی کہ جو اس زیر تعمیر ہاؤسنگ سکیم کے عقب میں واقع تھا ۔۔۔ کار کے روکتے ہی انہیں عقبی سمت تھوڑے ہی فاصلے پر ایک نصف تعمیر شدہ مکان سے ایسے چمک محسوس ہوئی کہ جیسے شیشے میں دھوپ کے منعکس ہونے سے پیدا ہوتی ہے ۔۔۔ وہ چاروں سمجھ گئیں کہ کورا ثانی اور ہانیہ کی طرف سے انہیں سگنل دیا جارہا ہے ۔۔۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ چاروں بیہوش کارلوس سمیت اس نیم تعمیر مکان میں پہنچ چکی تھیں۔۔۔۔
” سامنے کی سمت سے آنے میں مسئلہ یہ تھا کہ میں روڈ کی طرف سے آتے ہوئے ہمیں یا ہماری کار کو کوئی بھی دیکھ سکتا تھا اور پھر کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ آخر ہم اس زیر تعمیر مقام پے کیوں آئی ہیں۔۔۔۔” ستی نے ان سب کو آگاہ کیا۔
” اگر انہوں نے تو کار کی بنیاد کی ہمارا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو ۔۔۔؟ ہانیہ نے کہا ۔
” پہلی بات تو یہ کہ اس کار کا رنگ اور ماڈل ملک میں سب سے زیادہ زیر استعمال کاروں میں سے ایک ہے۔۔۔ اس شہر میں ایسی ہزاروں کاریں ہوں گی ۔۔۔ دوسری بات یہ کہ نمبر پلیٹ پر ہم نے اس طرح کیچڑ مل دیا تھا کہ جیسے کسی کیچڑ والے راستے سے گزرتے ہوئے کسی اور گاڑی کی چھینٹوں سے وہ کیچڑ گاڑی پے آ لگا۔۔۔تیسرا یہ کہ ہم نے کار کو یہاں پہنچنے سے قبل کم از کم بیس مختلف چھوٹے بڑے راستوں اور ذیلی سڑکوں پر گھماتے پھراتے ڈرائیور کیا ۔۔۔ اور آخری بات یہ کہ گینگ کا دوسرا اہم ترین شخص یعنی کارلوس ہمارے قبضے میں ہے ۔۔۔ اور وہ لوگ ہمارا پیچھا کرکے اس کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیں گے ۔۔۔” ستی نے کہا۔
” ہم اغواکاروں سے رابطہ کیسے کریں گے ۔۔۔؟” کورا ثانی نے کہا۔
” کارلوس کا موبائل ہم وہیں پھینک آئی تھیں ۔۔۔ اسی پر رابطہ کیا جائے گا۔۔۔ انکرپٹڈ آواز میں۔۔۔اس مقصد کے لیے ایک نیا سم کارڈ استعمال کیا جائے گا جو کسی کے نام پر نہیں۔” ہیزل نے کہا۔
” اگر کارلوس کو ہوش آگیا تو وہ ہمیں یا ہم میں سے کسی کو دیکھ ، سن لے گا ۔۔۔ کیا اس سے ہمارے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہوجانے کے امکان ہے ؟”ہانیہ نے کہا۔
” مجھے اور ہیزل کو تو وہ پہلے ہی دیکھ چکا اب مزید کیا مسئلہ بنے گا ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی ہم اسے ہوش میں نہیں آنے دیں گے ، بس ایک دن کی بات ہے۔۔۔انجیکشن کا اثر سات گھنٹے رہے گا۔ اس سے کچھ دیر قبل میں دوبارہ انجیکشن لگا دوں گی۔” ستی نے کہا۔
” لیکن ستی ایک دن مسلسل بیہوشی کے دوران پانی اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے کارلوس ڈی ہائیڈریشن یا بلڈ پریشر کے مسائل کا شکار ہوسکتا ہے ۔۔۔ اور اسے ہم نے صحیح سلامت حالت میں واپس کرنا ہے .” ہیزل نے کہا۔
” یہ سب میرے ذہن میں تھا اس لیے گزشتہ رات جب میں نے بیہوشی کے انجیکشن کے لیے دوبارہ ہاسپٹل کا چکر لگایا تو ایک چھوٹی ڈرپ بھی ساتھ لیتی آئی جو خوراک و پانی کی کمی اور کمزوری کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔۔۔ بیہوشی کے عالم میں کارلوس کو وہ ڈرپ لگا دی جائے گی ۔” ستی نے کہا۔
” ستی ۔۔۔ مکاریوس کی واپسی اب ظاہر ہے آئندہ کل متوقع ہے ۔۔۔ لیکن کارلوس کی گمشدگی کا علم تو اب تک گینگ کو ہو ہی چکا ہوگا ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مکاریوس کی غیر موجودگی میں کارلوس کے قریبی ساتھی غیض و غضب کے عالم میں میرے گھر پے حملہ کردیں ۔۔۔” کورا نے تشویش کے عالم میں کہا ۔
جس پر ستی نے ایک بلند قہقہہ لگایا ۔۔۔۔
” ڈونٹ وری ڈئیر۔۔۔ میں نے اس کا بھی ‘پکا بندوبست’ کررکھا ہے ۔۔۔ تمہارے گھر کے بالکل سامنے جو ہارڈوئیر سٹور ہے ناں جس کا مالک ایک ریٹائرڈ آرمی میجر ہے۔۔۔” ستی نے کہا۔
” ہاں بالکل۔۔۔ تو ؟” کورا نے کہا۔
” اسے میں نے کل رات ہاسپٹل جاتے وقت ایک بےنام سم کارڈ سے ، انکرپٹڈ آواز میں دھمکی آمیز کال کی تھی کہ میرا تعلق مکاریوس گینگ سے ہے اور وہ کل تک ایک ملین کا انتظام کرلے۔۔۔جسے اس سے جلد وصول کرلیا جائے گا ۔۔۔ اس بھتے کی کال کے ساتھ میں نے یہ بھی کہا کہ اس کے سٹور کی حدود ایک خفیہ مقام پر ریموٹ کنٹرول بم نصب کیا جاچکا ہے اگر تین دن کے اندر اندر اس نے رقم کا انتظام نہ کیا تو بم کو بلاسٹ کردیا جائے گا ۔۔۔ اور مزید یہ کہا کہ وہ لیکویڈ ایکسپلوسو بن ہے جسے آلات کی مدد سے نہیں ڈیٹیکٹ کیا جاسکتا ۔۔۔۔یہ سب کہنے کے بعد میں نے میں نے سم کو توڑ کر ایک ندی میں بہا دیا ۔۔۔” ستی نے کہا ۔
یہ سن کر سبھی ہکا بکا رہ گئے ۔۔۔۔
” تو اب ۔۔۔؟؟” کورا نے حیرت سے لبریز لہجے میں کہا۔
” تو اب ڈئیر کزن۔۔۔ اگلے 24 گھنٹے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت پولیس، اینٹی-ٹیررسٹ سکواڈ اور بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار تمہارے گھر سے چند فٹ کے فاصلے پر موجود رہیں گے۔۔۔اور ظاہر ہے ان کی موجودگی میں کوئی گینگسٹرز تمہارے گھر پے حملے کی ہمت نہیں کرسکتے ۔۔۔” ستی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
” ستی ۔۔۔۔ تم اپنے آپ کو ڈاکٹر کیوں شو کرتی ہو ؟” ہانیہ نے جیسے اپنی سانسوں پر قابو پاتے کہا۔
” کیونکہ میں ہوں۔۔۔۔” ستی نے کہا۔
” گرلز ۔۔۔ اس ستی کی چھان بین کرواؤ میں پورے وثوق سے کہہ رہی ہوں کہ بالآخر یہ بھی کوئی گینگسٹر ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ بلکہ کوئی مافیا باس نکلے گی۔۔۔” ہانیہ نے کہا ۔ اور کمرے میں سب کا قہقہہ بلند ہوا۔