ڈاکٹر اظہر ابرار
۱۴؍ مئی ۱۹۷۹ کو اچل پور میں پیدا ہوئے۔ اردو میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایس کے پوروال کالج کامٹی میں لکچرر کے عہدے پر فائز ہیں۔ افسانے اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے علاوہ انھوں نے تنقیدی مضامین بھی تحریر کئے ہیں۔ ان کی نگارشات اردو کے معروف رسائل مثلاً ماہنامہ ایوانِ اردو، اردو دنیا، شگوفہ، کتاب نما، تحریر نو وغیرہ میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی دو کتابیں دوسرا ٹکٹ (محمد اسد اللہ کے منتخب انشائیے)
اور، گلدستہ شائع ہو چکی ہیں۔
کار ڈرائیونگ
ڈاکٹر اظہر ابرار
انسانی خواہشات کا سلسلہ بڑا عجیب ہے، ایک خواہش پوری ہوتے ہی دوسری فوراً سر اٹھا لیتی ہے۔ مرزا غالبؔ نے اس خیال کو کیا خوب شعری جامہ پہنایا کہ ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے‘‘ ایسی ہی ایک تمنا ہمارے دل کے سرد خانے میں نجانے کب سے پڑی تھی شاید اس وقت سے جب سے ہم بالغ ہوئے اور وہ خواہش تھی ڈرائیونگ سیکھنے کی جسے اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد اب ہماری شریک حیات نے جلا بخشی۔ ہم تو اپنی موٹر سائیکل ہی میں خوش تھے، مگر بیگم صاحبہ تہیہ کر چکی تھیں کہ ہمیں ڈرائیونگ سکھا کر ہی دم لیں گی۔ یوں تو بیگم کی سوچ بھی صحیح تھی کیونکہ موٹر سائیکل اور کار کا فرق اگر معلوم کرنا ہو تو آپ سگنل پر تھوڑی دیر رک کر اپنے آس پاس کا مشاہدہ کریں۔ کار میں بیٹھے افراد کی نظر یں آپ کو یہ فرق بآسانی سمجھا دیں گی۔ بہر حال ڈرائیونگ سیکھنے کا مرحلہ ہمارے لیے کسی پہاڑ کو سر کرنے کی مانند تھا۔ مگر ہمیں اس میدان کارزار میں قدم رکھنا ہی پڑا۔
اس رات ہم میں اور نیند کے درمیان میٹر ہی نہیں کلومیٹر کا فاصلہ تھا کبھی کبھار یکبارگی جھپکی لگ بھی جاتی تو عجیب و غریب خواب پریشان کرتے، ان کے خوفناک سائے منڈلانے لگتے۔ فجر کے وقت الارم کا بجنا کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہ تھا، مارے خوف کے ہم نے رضائی میں اپنا سر یوں چھپا لیا جیسے شتر مرغ خطرہ بھانپ کر ریت کا سہارا لیتا ہے۔ کچھ دیر بعد ہمیں اٹھایا گیا اور ناشتہ کروا کر اس طرح تیار کیا گیا جیسے ہم کوئی سپاہی ہوں اور سرحد پر معرکہ آرائی کے لیے ہمیں بھیجا جا رہا ہے۔ ہمارے بیگ میں رو مال اور چشمے کے ہمراہ ایک پانی کی بوتل بھی بڑے اہتمام سے رکھی گئی۔ ہم نے جوں ہی ہتھیلیوں سے اپنی پیشانی کو چھوا تو محسوس ہوا گویا ہمارا سارا خون منجمد ہو گیا، جسم سرد پڑ گیا، زبان دانتوں میں پھنس گئی اور ہم اشاروں کنایوں میں باتیں کرنے لگے۔ ہم نے اپنے بوجھل قدم گھر سے باہر نکالے تو دیکھا استاد (ڈرائیور) مع کار حاضر تھے۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی سیٹ بیلٹ باندھ کر اسٹیرنگ ہمارے ہاتھوں میں تھما دی گئی ہم لرز اٹھے اور دل میں اپنے رہبر کو دہائی دی ’ارے استاد کیوں جان لینے پر تلا ہے۔‘ اس نے ہمیں سب سے پہلے ان تمام کل پرزوں کے فنکشنس سمجھا دئیے۔ یہاں تک کہ ہارن بجا کر بھی بتا دیا، ہم دیکھتے رہے اور اثبات میں سر لگاتار ہلتا رہا۔ ایک اہم بات ہمیں سمجھائی گئی کہ کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے ائیر بریک ضرور نیچے کر دیا کریں اور اس بریک کو ایمرجنسی کے وقت ہی اوپر کریں۔ بے چینی کے عالم میں ہم پسینہ پوچھنا تو درکنار پانی پینا بھی بھول گئے۔ یہ فور وھیلر گاڑیاں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں یہاں ہاتھوں سے کم اور پیروں سے زیادہ مشقت لی جاتی ہے۔ دو پیر اور کام تین بھلا بتائیے کہ کس طرح انسان ایک ساتھ کلچ بھی دبائے، ایکسلیٹر بھی دے اور ساتھ ہی بریک بھی لگائے۔ کئی بار تو ہم گھبرا گئے بیک وقت اتنا کام ہم نے زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ ہم سوچنے لگے یہ اب ہم سے نہ ہو گا۔ کار میں ہم بیک سیٹ پر یا ڈرائیور کی بغل اکثر بیٹھا کرتے، تب ہمیں باہر کی دنیا بڑی رنگین معلوم ہوا کرتی تھی۔
ہم نے کار اسٹارٹ کرنے کے بعد سب سے پہلے کلچ دبایا
پھر گئیر میں گاڑی ڈالی اور کم ایکسلیٹر دیا، اسپیڈ بڑھ رہی تھی جس سے کار تیزی سے چلنے لگی۔ ڈرائیور نے اس بات کا اطمینان دلا رکھا تھا کہ اس کی جانب بھی ایک اور بریک ہے لہٰذا ہم مطمئن ہو گئے۔ بڑی ہمت کے ساتھ ہم نے کار دوسرے گیئر میں ڈالی اور مزید رفتار بڑھائی اس وقت یقین جانیے ہمارا دل زور سے دھڑکا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا گویا ہم بے قابو ہوئے جا رہے ہیں۔ پیروں میں اچانک چونٹیاں بھرنے لگیں دماغ سن پڑ گیا اور اچانک سامنے اسکولی بچے آ گئے جو غالباً سڑک پار کر رہے تھے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں اور ایک دم سارے فنکشنس بھول گئے، کار بہکنے لگی مگر ڈرائیور نے اس وقت فوراً ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے رفتار کم کر دی اور بریک لگا دیے۔
سڑک پر ابھی تک جو نظارے رنگین معلوم ہو رہے تھے وہ گویا اب ہم پر ہنستے ہوئے دکھائی دیے۔ بعد ازاں ڈرائیور نے ہماری توجہ کار کے شیشے پر مبذول کرائی اور سمجھایا کہ کس طرح پیچھے کی سمت سے آنے والی گاڑیاں ان میں صاف نظر آتی ہیں۔ پھر کار اسٹارٹ کرنے کے بعد پہلے گیئر سے مشق جاری ہوئی اور دوسرا گیئر بدلا گیا لیکن جب گاڑی تیسرے گیئر میں آئی تو اس وقت اور بھی زیادہ تیز ہو گئی ہم تھوڑا سنبھل کر بیٹھ گئے۔ اب پہلی بار سے کچھ بہتر کرنے کی ٹھان لی، ابھی رفتار تیز ہوئی ہی تھی کہ دیکھا ایک مصیبت مخالف سمت سے ہماری جانب ہاتھ میں لاٹھی تھامے آ رہی ہے۔ وہ ایک ضعیف العمر بڑے میاں تھے جو سڑک کو اپنی ملکیت سمجھ کر آڑے ترچھے ہو کر چل رہے تھے۔ ہم نے فوراً ہارن بجانا شروع کیا اور بجاتے ہی چلے گئے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے شاید ضعیفی نے ان کی سماعت اور مزاج دونوں کو متاثر کر رکھا تھا۔ ان کی ڈھٹائی جیسے ہمارے صبر کا امتحان لینے پر تلی ہوئی تھی۔ ڈرائیور نے کہا ’’مت ڈرو ہمت سے کام لو یہ تو ایک چھوٹی مصیبت ہے ابھی تمھیں بہت بڑی بڑی مصیبتوں کو پار کرنا ہے‘‘ ۔ ایسی سچویشن میں سب سے پہلے کار کو چھوٹے گیئر میں ڈالنا چاہیے پھر اسے نیوٹرل کرنا چاہیے مگر یاد رکھو کہ کبھی بھی بڑے گیئر میں ہر گز بریک نہ لگایا جائے جس سے کار کے گھومنے یا پلٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہم نے ہدایت پر عمل کیا اور کار رک گئی۔
پھر سے ہم نے اپنی مشق جاری رکھی پہلے گیئر سے دوسرا، تیسرا اور چوتھا گیئر بدلتے چلے گئے۔ ہم سے پچھلے وقتوں میں جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اب ان کا ازالہ بتدریج ہوتا جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ لگاتار پندرہ روز تک جاری رہا آخر وہ دن بھی آیا کہ جب ہم نے کار کے اعصاب پر پوری طرح سے کمانڈ حاصل کر لی۔ اس بار ہمارا ڈرائیور بیک سیٹ پر بیٹھا باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو وہیں ہم بھی فرنٹ سیٹ سے قدرتی مناظر کو دیکھ کر سرشار ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں جانب موجود درخت یوں لگ رہے تھے جیسے وہ صف بستہ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ اس وقت ہماری کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی اور ہم جیسے ہوا میں اڑ رہے تھے۔
ہم کار پارک کر کے جوں ہی گھر میں داخل ہوئے اور نہایت تمکنت کے ساتھ اہل خانہ کو اور بالخصوص ہماری شریک حیات کو یہ خوش خبری سنائی کہ بالآخر ہم نے کار سیکھ ہی لی! انسان میں لگن ہونی چاہیے جس طرح فرسٹ گیئر میں کار پہلے دھیرے دھیرے ہی چلتی ہے اور پھر فورتھ اور ٹاپ گیئر تک آتے آتے ہوا سے مقابلہ کرتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح زندگی کی گاڑی بھی روز مرہ کی سڑک پر ابتدا میں بھلے ہی آہستہ خرامی سے چلے مگر اس کے باوجود ایک نہ ایک دن وہ اپنی رفتار پا ہی لیتی ہے۔