السلام علیکم!‘‘ میں نے مسلسل بجتے ہوئے فون کال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’آپ رفیعہ میڈم ہیں ناں؟‘‘ دوسری جانب کوئی خاتون تھی۔
’’ہاں! میں بول رہی ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میڈم! میں بہت پریشان ہوں، عذاب کی زندگی گزار رہی ہوں۔ کسی نے مجھے آپ کا نمبر دیا اور کہا کہ آپ مصیبت زدہ خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ میں نے بہت امید کے ساتھ آپ کو کال کیا ہے۔ آپ میری مدد کریں گی ناں؟‘‘ اس کی آواز میں اُمید اور نا امیدی کا ملا جلا عنصر موجود تھا۔
’’مصیبت زدہ لوگوں کی مدد تو اللہ کرتا ہے۔ ہم حقیر بندے صرف ذریعہ بنتے ہیں۔ تم اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ تمہاری مصیبت ضرور دور کرے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلّی دی۔
’’اللہ نے ہی تو آپ کا نمبر مجھ تک پہنچایا ہے۔ شاید وہ چاہتا ہے کہ میرا آپ سے رابطہ ہو اور مجھے آپ سے مدد ملے۔‘‘
’’ماشاء اللہ! تم تو کافی سمجھ دار لگتی ہو، نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
’’شکیبہ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی فون منقطع ہو گیا۔
میں سمجھ گئی کہ اچانک اس کا شوہر آ دھمکا ہو گا یا پھر کچھ تو ایسا ہوا ہو گا جس کی وجہ سے اس نے فون منقطع کر دیا تھا۔ ان حالات میں ہم متاثرہ خواتین کو احتیاطاً دوبارہ فون نہیں کرتے۔ یہ سوچ کر کہ کہیں ہمارا کال ان کے لئے مزید پریشانیوں کا سبب نہ بن جائے۔ مناسب موقع ملنے پر وہ خود ہم سے دوبارہ رابطہ کرتی ہیں۔ حسب توقع دوسرے دن شکیبہ کا فون آ ہی گیا۔
’’میڈم! کل آپ سے بات نہ ہو سکی۔ میرے شوہر آ گئے تھے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں آپ کو سب کچھ جلدی جلدی بتا دوں گی۔‘‘ اس کی آواز میں خوف تھا۔ میں نے اپنے کانوں میں ایئر فون ٹھونسا اور اپنی انگلیوں کو کی بورڈ پر رکھ دیا، تاکہ شکیبہ کی تفصیلات ٹائپ کر سکوں۔
’’میڈم! آپ کو پتہ ہے میں 24 گھنٹے سرویلنس میں ہوں۔ میرے شوہر نے دو کمرے کے گھر میں چار سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں۔ مرکزی دروازہ، راہداری، باورچی خانہ اور ہمارا بیڈروم۔ میں ایک عورت ہوں اور سی سی ٹی وی کیمرہ ہر چیز کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پرائیویٹ جگہ میں بھی۔ یہ میرے لئے بہت ذلّت آمیز ہے۔‘‘ اس کے لہجے سے اس کی تکلیف کا اندازہ ہو رہا تھا۔
’’یہ تو ذاتی جگہ کی سنگین خلاف ورزی ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میرے لہجہ میں غصہ در آیا تھا۔ ’’وجہ؟ ایسی تو کوئی وجہ نہیں جس کے لئے کیمرے لگانے کی ضرورت ہو۔ اس کیمرے کی وجہ سے میری زندگی جہنم بن کر رہ گئی ہے۔ میرا کھانا، پکانا، کسی سے فون پر بات کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اس وقت میں بیت الخلاء میں آ کر آپ سے بات کر رہی ہوں، جہاں کیمرہ نہیں ہے۔ وہ تو میری سانسوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہوا کا رنگ ہوتا تو شاید گن بھی لیتے کہ ایک منٹ میں کتنی بار سانس لے رہی ہوں۔ نہ گھر میں کسی کو آنے کی اجازت ہے، نہ میں کہیں باہر جا سکتی ہوں۔ ہر دم مجھ پر کیمرے کا پہرہ رہتا ہے۔ بیڈ روم تو خلوت کی جگہ ہوتی ہے، جہاں ہم اطمینان سے فرصت کے کچھ پل اپنے آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں، لیکن اس شخص نے اس کو بھی نہیں بخشا۔‘‘ وہ بلا رکے بولی جا رہی تھی، جیسے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ دینا چاہتی ہو۔
’’تم نے منع نہیں کیا؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’بہت بار منع کیا، ہر طریقے سے سمجھایا، لیکن آزاد، میرے شوہر مانتے ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت شوہر انہیں میری حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کا پورا حق ہے۔ اسی بات کو لے کر ہمارے درمیان ہر روز جھگڑا ہوتا ہے، اور زبردست تنازعہ چل رہا ہے۔‘‘ اس نے آگاہ کیا۔
’’کرتے کیا ہیں؟‘‘ مجھے تشویش ہوئی۔
’’اولا کیب کے ڈرائیور ہیں۔‘‘
شکیبہ کے اس انکشاف نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس کا تعلق اگر امیر گھرانے سے نہیں تو مڈل کلاس گھرانے سے تو ہو گا ہی۔ شوہر کسی بیرونی ملک میں ملازمت کرتا ہو گا، کیوں کہ عصر حاضر میں بیرونی ممالک میں رہنے والے شوہروں نے درون خانہ کیمرے نصب کروانے کا ٹرینڈ بنا لیا ہے، تاکہ گھروں سے کوسوں دور رہتے ہوئے بھی وہ گھروں کے اندرونی حالات سے باخبر رہیں، لیکن بیڈ روم میں کیمرہ لگانے کے بارے میں یہ پہلا کیس تھا جو میرے پاس آیا تھا۔ ایک ڈرائیور کی محدود آمدنی جس میں گھر کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے ہوں، ایسے میں گھر کے اندر چار چار کیمرے نصب کرنا معمولی بات تو نہ تھی۔ اس نے اپنے اس عمل سے ثابت کر دیا تھا کہ وہ پدرانہ نظام کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کیمرہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اول شوہر کو اپنی بیوی پر ذرہ برابر اعتبار نہیں۔ دوسرے اسے اپنی بیوی کی پل پل کی جاسوسی کرنی ہے۔ تیسرے پل پل کے کاموں کا حساب بھی لینا ہے۔
’’تمہارے والدین؟‘‘ میں سپورٹ سسٹم کے بارے میں جاننا چاہ رہی تھی۔
’’والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، بابا کسی کمپنی میں سیکورٹی گارڈ ہیں، صبح 10 بجے جاتے ہیں تو رات دس بجے لوٹتے ہیں، گھر میں دو جوان بہنیں رہتی ہیں، جن کی شادی ہونی ہے۔‘‘ اس نے تفصیل بتائی۔
’’اس سے پہلے کہ تمہارا فون منقطع ہو جائے، اپنے بابا کا نمبر مجھے دے دو۔ غنیمت ہے کہ تمہارے شوہر نے فون کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی۔‘‘ میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا۔
’’اس میں بھی ان کا اپنا مفاد پوشیدہ ہے، اپنے رابطہ کے لئے رکھا ہے۔ باہر سے گھر واپس لوٹتے ہی فون کی تلاشی لینا ان کا معمول ہے۔ اس لئے میں ہر تھوڑی دیر بعد سب کچھ ڈیلیٹ کرتی رہتی ہوں۔‘‘ شکیبہ نے وضاحت کی، اور فون منقطع ہو گیا۔
میرا اگلا قدم شکیبہ کے والد سے ملاقات کرنا تھا، اور وہ میرے سامنے موجود تھے۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا نحیف جھکا جھکا سا بدن، بنجر زمین پر اگے پودوں کی طرح پچکے ہوئے گالوں پر موجود ڈاڑھی کے بال، کھوئی کھوئی سی آنکھیں جن میں درد تھا، پچھتاوا تھا، مایوسی تھی، تجربہ تھا اور تلاش بھی تھی؛ شاید سکون کی یا اس پریشانی کے حل کی جو انہیں مل نہیں پا رہا تھا۔
’’شکیبہ کو آزاد نے جس طرح کیمرہ کی قید میں رکھا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘‘ مجھے معلوم تھا کہ ان سے مجھے کچھ حقائق کا پتہ ضرور چلے گا۔
’’وجوہات تو ہیں، اہمیت دیں گے تو اہم لگیں گے، ورنہ غیر اہم۔ خیر، میں بتائے دیتا ہوں، آپ سن کر فیصلہ کیجیے گا۔‘‘ ان کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔
’’لاک ڈاؤن کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کا فقدان تھا۔ کسی فلاحی تنظیم کی جانب سے ضرورت مندوں میں راشن کے تھیلے تقسیم ہو رہے تھے۔ ایک نوجوان لڑکا شکیبہ کے گھر بھی راشن پہچانے آیا۔ تھیلا اتنا وزنی تھا کہ شکیبہ اٹھا نہیں پا رہی تھی، اور آزاد نہا رہے تھے، مجبوری میں شکیبہ نے اس لڑکے کو تھیلا اندر رکھنے کا کہہ کر خود اپنے کمرے میں چلی گئی تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ آزاد کو غصہ اس لیے آیا کہ اس لڑکے کو اندر آنے ہی کیوں دیا۔ دوسری مرتبہ باتوں باتوں میں شکیبہ کی پڑوسن سے لڑائی ہو گئی۔ شام کو آزاد گھر آئے تو پڑوسن نے شکیبہ کی لڑائی کو مرچ مصالحہ کے ساتھ پیش کیا، جس پر آزاد چراغ پا ہو گئے اور پڑوسن سے بات کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے آٹھ اور نو سالہ بیٹوں کی تربیت کا بہت خیال ہے، بیوی پر بھروسہ نہیں، اس لئے 24 گھنٹے وہ اپنے بچوں کی نگرانی خود کرنا چاہتے ہیں ؛یہی وہ وجوہات ہیں جس کے لئے گھر میں کیمرے لگوائے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے سارے حقائق پیش کر دئیے، جو بالکل ہی غیر اہم تھے۔
’’آپ نے اس سلسلہ میں کسی سے مدد لینے کی کوشش کی؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’لی تو نہیں! شکیبہ سے کہا ضرور تھا کہ پولیس میں شکایت درج کرواؤں گا۔ وہ خوف زدہ ہو گئی۔ اسے ڈر تھا کہ اس بات پر آزاد کہیں اسے طلاق نہ دے دے۔ بچے باپ کی تحویل میں نہ چلے جائیں، اور وہ بچوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اسے اپنی چھوٹی بہنوں کی بھی فکر ہے۔ کہتی ہے پولیس کی مدد لینے سے بد نامی ہو گی تو بہنوں سے شادی کون کرے گا؟ میڈم کچھ بھی کیجیے مگر میری بیٹی کو اس قید و بند کی زندگی سے نکالیے، ورنہ وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے گی۔‘‘ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ میں نے ان سے شکیبہ کے شوہر آزاد کا رابطہ نمبر لے لیا، اور دلاسہ دیا کہ ان شاء اللہ ہم شکیبہ کے مسئلے کا کچھ نہ کچھ حل نکالنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ چار دن بعد آزاد اپنی بیوی اور دونوں بیٹوں کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا۔ گورا چٹا، پستہ قد، چہرے پر چھوٹی سی ڈاڑھی، کرتا پائجامہ میں ملبوس، سر پر ٹوپی۔ اس کے حلیہ سے کسی مولوی کا گمان ہو رہا تھا۔ شکیبہ برقع اور نقاب پہنے ہوئے تھی۔ بچے بھی صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’’آج کل گھروں کے اندر کیمرہ لگانے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ایسے لوگ جو گھروں کے اندر کیمرہ لگاتے ہیں انہیں اس سے متعلق قانونی معلومات بھی ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ قانونی گرفت سے محفوظ رہ سکیں۔ ہمیں تمہارے خسر کے ذریعہ پتہ چلا کہ تم نے بھی گھر کے اندر کیمرے لگا رکھے ہیں، تو سوچا تم کو بھی اس ضمن میں جانکاری فراہم کر دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ تم نے ہماری دعوت قبول کی۔‘‘
’’کیمرہ میں نے کسی اور کے لئے نہیں، صرف اپنے بیوی بچوں کی نگرانی کے لئے لگایا ہے، اور اتنا حق تو شوہر کو ہے ناں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
’’تم کو پتہ ہے یہ ایک ’’نایاب اور سنگین‘‘ جرم ہے۔ ایک عورت اپنے سب سے زیادہ نجی کمرہ یعنی کہ بیڈ روم میں مسلسل نگرانی میں کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘
’’اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ جیسے رہنا ہے ویسے رہے۔ شوہر سے کس بات کا پردہ؟‘‘ اس کا لہجہ تلخ تھا۔
’’بے شک، ہندوستان میں نجی جگہ پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنا قانونی ہے اور اس کے لیے کسی خاص لائسنس کی ضرورت نہیں ہے، تاہم، تعزیرات ہند کی دفعہ 354 کے مطابق یہ ایک مجرمانہ حرکت اور قابل تعزیر جرم ہے۔ اس طرح کا جرم کسی کو بھی پہلے جرم کے جرمانے کے ساتھ 1-3 سال تک جیل میں ڈال سکتا ہے، اور بعد میں ہونے والے جرائم کے لیے سات سال تک کی قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نجی جگہوں جیسے بیت الخلاء، باتھ روم، سونے کے کمرے وغیرہ میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے کی صورت میں قانون میں ممنوعہ دفعات ہیں۔‘‘
’’اچ…چھا۔‘‘ اس نے رکتے رکتے کہا۔ اس کی آنکھیں تعجب سے پھیل گئی تھیں۔
’’تمہارا نام آزاد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنی من مانی کر کے دوسروں کی آزادی چھین لو۔‘‘
’’شکیبہ کا مطلب جانتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر کو ہلایا۔
’’شکیبہ کا مطلب ’صبر کرنے والی‘، وہ تمہاری زیادتی کو برداشت کر رہی ہے۔ صبر سے سہہ رہی ہے، لیکن وہ اگر چاہے تو تم کو اپنی پرائیویسی پر حملے کے لیے مقدمہ دائر کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔ اس نے جیب سے رو مال نکالا اور پیشانی پر آئے پسینے کی بوندوں کو رو مال میں جذب کرنے لگا۔
’’شکیبہ! تم میری بات توجہ سے سنو! تم کو کسی بھی رشتے میں راز داری کا حق حاصل ہے، بشمول تمہارے شریک حیات، ساتھی، اور خاندان کے، کسی بھی رشتے میں تم کو اپنی زندگی کے کسی بھی حصے کو خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی ہو یا کتنا ہی اہم۔‘‘
’’سمجھ گئ میڈم!‘‘ شکیبہ کے چہرے پر اطمینان جھلک رہا تھا۔
’’کوئی سوال؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس جانکاری کے بعد آزاد کی تو زبان ہی گنگ ہو گئی تھی۔ اس نے دوبارہ نفی میں سر کو ہلایا۔
’’ٹھیک ہے! اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ خدا حافظ!‘‘ جواب میں خدا حافظ کہتے ہوئے وہ لوگ تیزی سے باہر نکل گئے۔
تین دن بعد شکیبہ کا فون آیا ’’میڈم! آپ کی زبان میں جادو ہے، آزاد نے مرکزی دروازہ کو چھوڑ کر باقی سارے کیمرے نکال دیئے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے سرشار تھی۔
’’بہت مبارک شکیبہ! یہ میری زبان کا جادو نہیں، قانون کا جادو ہے، جس نے تمہارے شوہر کو گھر کے اندر لگائے گئے کیمرے نکالنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے ہم تمام خواتین کو یہ جادو سیکھنا چاہئے۔ ہے ناں؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔
’’ہاں میڈم! آپ سچ کہہ رہی ہیں، بالکل سیکھنا چاہیے۔‘‘
’’چلو اب سکون سے رہو اور شکرانے کی نماز ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مسئلے کو حل کر دیا ہے۔‘‘
’’جی میڈم، خدا حافظ!‘‘
فون رکھنے کے بعد میں سوچنے لگی، ایسی خواتین جو غربت، جہالت اور مردانہ تسلط کے تحت زندگی گزار رہی ہیں، ان کے لئے راز داری اب بھی ایک خواب ہے جس کی تعبیر نہیں ہوئی۔
سوالات
(1) کیا حفاظتی اقدامات کے طور پر خواتین کی پرائیویسی کو نظر انداز کر کے درون خانہ کیمرے نصب کرنا ضروری ہے؟
(2) پدر شاہی نظام کو ختم کرنے میں مؤثر کردار کون ادا کر سکتا ہے؟ اور کیسے؟
(3) شدید صورت حال میں ضرورت پڑنے کے باوجود بد نامی کے ڈر سے پولیس کی مدد نہ لینا کس حد تک درست ہے؟
(4) کیا خواتین کو ان کے حقوق سے متعلق مختلف قوانین کی جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو کون انہیں یہ جانکاری فراہم کرے گا؟ کیسے؟ کب؟ کہاں؟
٭٭٭