میں پاکستان کیوں جارہا ہوں؟ جہاز میں بیٹھتے ہی یہ سوال بار بار میرے دماغ میں بج رہا تھا۔میں پچھلے اٹھارہ سال سے یو۔کے میں مکین ہوں اور وہیں میری ملازمت اور چھوٹا سا کاروبار بھی ہے۔ شادی بھی وہیں کر رکھی ہے اور تین بچوں کے ساتھ آسودہ حال زندگی بسر کرتا ہوں اور پچھلے اٹھارہ برس میں ایک بار بھی میرے دل میں واپس لوٹ جانے کا خیال نہیں آیا۔والدین بچپن میں وفات پاچکے تھے۔ چچا، ماموں ، خالہ،پھوپھی کوئی دور کا رشتہ دار بھی ہوتا تو میں یتیم خانے میں کیوں پلتا۔ سو میں کس کے لیے پاکستان لوٹ کر آتا۔اٹھارہ سال خوب محنت کی پہلے ملازمت حاصل کی،پھر شادی رچائی اور بیوی کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور کھول دیا۔جہاں سے اچھی خاصی معقول آمدنی ہاتھ آجاتی ہے اور پھر بیرونی ممالک میں تگ ودو اس قدر زیادہ ہے کہ کبھی بھی میرے دل میں پاکستان کا خیال تک نہیں آیا۔واپسی کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔میرا جہاز اڑنے کے لیے تیار تھا۔ ائیرہوسٹس اپنے شیریں لہجے میں رخصت کی اناؤنسمنٹ کر رہی تھی اور پاکستان کے لیے سفر کی ہدایات جاری کر رہی تھی اور میرے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ پاکستان جانے کا مقصد ہی کیا ہے؟۔ یہ نہیں کہ مجھے چھٹیاں تھیں۔ یا گھر سے فراغت تھی۔ دفتر سے چھٹی بھی بڑی ہی مشکل سے ملی تھی اور ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد گھر آکر جب میں نے اپنی بیوی کو پاکستان جانے کے بارے میں بتایا تو اسے بہت شاک گزرا،جس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میں پاکستان جارہا تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا اور میری کا پندرہ سالہ ساتھ تھا اور ان پندرہ سالوں میں پہلی بار میں نے پاکستان جانے کی بات کی ہے۔ میری نے مجھے روکا تو نہیں مگر یہ ضرور پوچھا، ”Why? ” اور مزید یہ کہا، ”And why all of the sudden?” تو میرے پاس اس کے ان سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ کیونکہ جب میں خود سے بھی کئی بار پوچھنے پر لاجواب رہ گیا تھا تو اسے کیسے مطمئن کرتا۔
سفر کے دوران معلوم نہیں کب میری آنکھ لگ گئی چند گھنٹے سویا ہوں گا۔ذہن مطمئن ہوگیا تھا۔اس لیے نہیں کہ نیند سے آرام مل گیا تھا بلکہ اس لیے کہ چند گھنٹوں کے لیے ذہن نے سوچنا جو بند کر دیا تھا۔۔ جہاز رن وے پر ایک جھٹکے سے اترا اور دوڑنے لگا۔میں نے اپنا ہینڈ بیگ سنبھالا اور مسافروں کی معیت میں قطار بنائے ائیرپورٹ پر جہاز سے اترنے لگا۔اٹھارہ سال پہلے اسی ائیر پورٹ سے میں روانہ ہوا تھا۔مگر ان عشروں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔کچھ بھی پہچانا نہیں جا رہا تھا۔کسٹم کے عملے نے ضروری چیکنگ کی اور میں ائیر پورٹ کی لاؤنج تک پہنچا۔سب مسافروں کو کوئی نہ کوئی لینے آیا ہوا تھا۔سب ایک دوسرے سے گلے مل رہیتھے۔ سالوں بعد بچھڑے لوگ ملے تھے۔جن کو کوئی لینے نہ آیا تھا وہ بھی ٹیکسی کی تلاش میں تھے۔اور ایک میں تھا جو اب یہ سوچ رہا تھا کہ اب میں کہاں جاؤں گا۔ میرا کوئی ذاتی گھر تو تھا نہیں۔نہ ہی کوئی رشتے دار۔نہ دوست اور نہ ہی کوئی جان پہچان والا۔ میں کہاں جاتا اور کس کے پاس جاتا۔ کافی دیر لاؤنج میں بیٹھا انھی خیالات میں غرق تھا کہ خیال آیا کہ مجھے یتیم خانے جانا چاہیے۔جہاں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا تھا اور جوانی کا آغاز بھی ادھر ہی ہوا تھا۔وہ یتیم خانہ ہی میرے لیے مائی باپ اور میرا گھراور گھرانہ تھا۔ٹیکسی والے سے بولا، ” مجھے مرکزی یتیم خانے لے چلو۔” کونسا صاحب!! جو مزار قائد کے عقب میں ہے۔۔۔۔ پرانا والا؟؟ ” ڈرائیور بولا،” ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔وہی والا” میں ترنت سے ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔چالیس منٹ بعد میں یتیم خانے کے گیٹ پر تھا۔ شہر میں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ سڑکیں،عمارتیں، پلازے سب ہی نئے تھے مگر نہیں بدلا تو یتیم خانہ۔وہی خستہ حال گیٹ،پلستر ٹوٹی دیواریں،چھوٹا سا تاریک صحن اور مہتمم کا پرانا چھوٹا سا دفتر۔۔۔۔”السلام علیکم” مہتم نے مجھے دیکھتے ہی بوکھلا کر سلام کر ڈالا۔” جی کیسے آنا ہوا؟” میرا نام آفتاب ہے۔ آج سے اٹھارہ برس پہلے میں یہیں سے یو۔کے چلا گیا تھا” مہتم انہماک سے مجھے دیکھے جارہا تھا۔ ” بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر”۔۔۔ اٹھارہ سال پہلے تو یہاں شیخ فرید انچارج ہوا کرتے تھے۔ ” میں تو پچھلے پانچ سال سے یہاں ہوں۔” میں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ ” جی جی شیخ فرید صاحب بہت اچھی طرح سب کچھ دیکھ رہے تھے۔” اس دوران مہتمم صاحب نے کمپیوٹر پر اٹھارہ سال پہلے کا میرا ڈیٹا بھی نکال لیا تھا۔مجھیوہ سب معلومات پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی میں رخصت ہونے لگا،تو مہتمم نے مجھے روکا اور بولا ” آفتاب صاحب آپ کا یونیورسٹی بیگ ریکارڈ کے مطابق ہمارے پاس آپ کی امانت ہے،وہ لیتے جائیں۔۔۔۔۔”، ” یونیورسٹی بیگ۔۔۔۔۔” یونیورسٹی کا نام سنتے ہی میرا دل دھک سے رہ گیا،میں چشم زدن میں اٹھارہ سال پہلے یونیورسٹی کی زندگی میں چلا گیا۔بی۔ ایس۔سی کرنے کے بعد ایم۔ایس۔سی میتھس میں داخلہ لیا۔میں اور دردانہ ایک ساتھ اسٹڈی کیا کرتے تھے۔اس کی ٹرگنو میٹری کافی کمزور تھی۔میں نے ہی اسے ساری ٹرگنومیٹری سکھائی تھی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں ہی اپنا دل ہار کر محبت کے نصابوں میں الجھ گئے تھے۔مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی سے رخصت ہونے سے ایک دن پہلے کیلکولیٹر میں دردانہ کو اپنا محبت نامہ دیا تھا کہ وہ گھر جاکر کھول کر پڑھ لے گی اور تاکید کردی تھی کہ اگر تمھارے دل میں بھی میرے لیے نرم گوشہ ہے اور میرے ساتھ جیون کے سفر میں قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی ہو تو اسی کیلکولیٹر میں اپنا جواب لکھ کر آخری دن (کل) مجھے دے دینا۔دوسرے دن دردانہ سے میری ملاقات ہوئی۔مگر اس کے ہاتھ میں کوئی کیلکولیٹر نہیں تھا۔اس کا رویہ بھی نارمل سا تھا۔میرے تن بدن میں ناکامی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور اس سے ملے بغیر بڑے طیش سے یتیم خانے لوٹ آیا تھا۔ اگرچہ دردانہ نے مجھ سے کوئی قول وقرار تو نہیں کیے تھے،مگر میں اتنا سادہ لوح بھی نہ تھا کہ آنکھوں سے اتر کر اس کے دل کا حال نہ جان سکتا۔میں نے تو اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب ُبن رکھے تھے اور ان خوابوں کا شیش محل آج ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا تھا۔
اور پھر اس واقعے کے چند روز بعد ہی میں یو۔ کے میں تھا۔” آفتاب صاحب!! آپ کا بیگ۔” مہتم نے میرا بیگ میرے حوالے کیا۔ میں ایک بار پھر یو۔ کے کی جانب عازم سفر تھا۔ ہوائی جہاز میں اپنے آوارہ ذہن اور منتشر خیالات کو بہلانے کے لیے میں نے اپنا بیگ کھولا کہ یاد رفتہ کو تازہ کیا جاسکے۔ اوپر ایم۔ایس۔سی کی پرانی کتابیں پڑی تھیں۔، ساتھ ہی میرا رجسٹر جس میں، میں لیکچر نوٹ کیا کرتا تھا۔پاس ہی میرا پرانا رومال بھی پڑا تھا جو سالگرہ پر دردا نہ نے مجھے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس رومال کو میں ہر وقت پاس رکھتا تھا۔میرا فاؤنٹین پین جس کی روشنائی خشک ہوچکی تھی۔نیچے کہیں کتابوں کے آخر میں مجھے کچھ کالا سا پلاسٹک نما باکس نظر آیا۔نکال کر دیکھا تو وہی کیلکولیٹر تھا جو میں نے دردانہ کو دیا تھا۔ مگریہ میرے بیگ میں کیسے آیا؟ میں نے سوچا۔کیلکولیٹر کو کھولا تو ایک چٹھی میری گود میں گری۔کھول کر دیکھا اور پڑھنے لگا۔
” پیارے آفتاب!!
تم نے محبت کے جس اقرار کا بیان کیا ہے وہ ہی محبت میرے دل میں بھی پچھلے دو سال سے شعلے بھڑکا رہی ہے۔میں نے بھی تمھارے سنگ جیون گزرانے کے جو سپنے دیکھے ہیں آج ان کے پورے ہونے کا دن آگیا ہے۔اقرار کرتے ہوئے شرم اور جھجک محسوس ہو رہی تھی اس لیے کیلکو لیٹر تمھارے بیگ میں ڈال رہی ہوں۔خط پڑھتے ہی میرے گھر آجانا میرے والدین تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔
صرف تمھاری دردانہ”
میرے آنسو میرا چہرہ دھو رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...