ہر طرف گھوم کر ہم نے پتھر کے ان بتوں کا جائزہ لیا۔ باقی سب ساتھی تو انہیں قریب پہنچ کر دیکھتے رہے، مگر میں صرف ایک ہی بات سوچتا رہا۔ بتوں کی گردنوں کے قریب کی چٹانیں جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھیں۔ بار بار سوچتا تھا کہ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ خاص طاقت سوبیا ان بتوں کی گردنوں کے نیچے دفن ہے! اگر ہاں توپھر زہرہ کے دیو یقیناً ان بتوں کی گردنیں ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا لیتے ہوں گے۔ ان کے نزدیک یہ سر ایک قسم کا ڈھکنا یا ڈاٹ تھے جو سوبیا کے مونہہ پر لگی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کے لئے تو خیر ان بتوں کا سر پکڑ کر اٹھانا بہت آسان ہوتا ہو گا، لیکن ہمارے لئے تقریباً نا ممکن تھا۔ کئی ٹن وزنی چار بتوں کے سروں کو اٹھانا ہمارے بس کا کام نہیں تھا۔
ایک طرف بیٹھ کر میں یہی سوچتا رہا کہ کس طریقے سے بتوں کے یہ سر ہٹائے جائیں۔ اس عرصے میں جان دوسروں کے ساتھ ادھر ادھر سوبیا کے ذخیرے کو تلاش کرتا رہا۔ مگر وہ ذخیرہ شاید اس کو کہیں بھی نہ ملا تھا اور ملتا بھی کیسے؟ جہاں سوبیا موجود تھی، وہ جگہ تو میں نے تلاش کر لی تھی۔ اپنی دریافت کا حال سنانے کے لئے میں جان کو آواز دینے ہی والا تھا کہ اچانک جیک کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔
“فیروز یہاں آؤ، جلدی۔”
میں دوڑتا ہوا اس طرف پہنچا جہاں جیک اور جان حیرت سے ایک مقام کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھی جب اس طرف دیکھا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میرے سامنے ایک عجیب قسم کا غار تھا اور اس غار کے چاروں طرف ایک جنگلا سا ہوا تھا۔ غار کے برابر ہی کچھ نرالی قسم کی مشینیں لگی ہوئی تھیں اور ان مشینوں میں ریلوے پلیٹ فارم پر سگنل گرانے کے ہینڈل جیسے کچھ اسٹینڈ سے لگے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ سب ان زہروی لوگوں کا ہی بنایا ہوا تھا۔ میرے لئے چوں کہ وہ چیزیں نئی تھیں اس لئے میں ان کا صحیح نام بھی نہیں لے سکتا۔ یوں سمجھئے کہ وہ مشینیں اس قسم کی تھیں جو ہم میں سے کسی نے بھی دنیا کے کسی بھی حصے پر نہیں دیکھی تھیں! غار کے قریب جا کر اس کے اندر جھانکنے سے معلوم ہوا کہ غار کا مونہہ پلاسٹک جیسی دھات سے ڈھکا ہوا ہے اور اس کی تہہ میں خون کے رنگ جیسی کسی دھات کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں اور اس دھات میں سے ہلکی اودی روشنی خارج ہو رہی ہے!
تو یہ تھی وہ سوبیا دھات! عطون یعنی زہرہ کے رہنے والے اسی دھات کو حاصل کرنے کے لئے ہماری دنیا میں آتے تھے۔ سوبیا کے لئے مشینیں انہوں نے لگائی تھیں اور چوں کہ وہ مشینیں ہمارے لئے نئی تھیں لہذا بغیر جانے بوجھے ہم کسی بھی مشین کو چھیڑتے ہوئے گھبرا رہے تھے۔ خدا جانے کیا واقعہ پیش آ جائے؟ شام ہونے والی تھی اور اب ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں پتھر کے وہ چار بت بہت خوفناک لگ رہے تھے، جان نے بہت دیر کے سوچ بچار کے بعد مشینوں کو دور سے جانچتے ہوئے کہا۔ “یہ مشینیں ہمارے لئے نئی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ فی الحال یہاں اس چٹان کے نیچے رات بسر کی جائے اور پھر صبح مشینوں کو غور سے دیکھ کر یہ معلوم کیا جائے کہ ہم سوبیا دھات کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایٹمی طاقت کے بجائے یہ نئی طاقت دریافت کر لیں تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا اور ہمارا نام بھی ہو جائے گا ہم اربوں روپے کے مالک ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب میری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔”
“آپ کا خیال بالکل درست ہے ہم رات کو اسی مقام پر سو جاتے ہیں۔”
اتنا کہہ کر جیک چٹان کے نیچے کی جگہ کو صاف کرنے لگا۔ ملاحوں نے بھی اس کی دیکھا دیکھی جگہ کو صاف کیا اور پھر طے یہ پایا کہ جہاز میں سے بستر وغیرہ نکال کر لے آیا جائے۔ مگر جان اس تجویز کا مخالف تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اس طرح وقت بھی ضائع ہو گا اور ہم سب پھر الگ ہو جائیں گے، ایسی جگہ یہ ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ساتھ ہی رہیں۔
مجبوراً اسی جگہ ہم نے اپنی کمر ٹکائی۔ تھکن اتنی سوار تھی کہ آنکھیں خود بخود بند ہوئی جاتی تھیں۔ ملاحوں اور کبڑے نے تو لیٹتے ہی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ رات کا اندھیرا اب آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیلنے لگا تھا۔ میں چٹان سے کمر لگائے لگاتار ان پتھر کے بتوں کو دیکھے جا رہا تھا جو رات کی سیاہی میں اور بھیانک دکھائی دے رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اب کیا ہو گا۔ ہم نکلے کس کام سے تھے اور پھنس کہاں گئے؟ سوبیا دھات کے بارے میں سوچ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی تو اس لئے ہوئی کہ اتنی قیمتی دھات دریافت کر لی جائے گی اور افسوس یوں کہ زہروی باشندے کے منع کرنے کے باوجود بھی ہم اس عجیب دھات کے ذخیرے تک آ گئے تھے۔ شاید کسی خطرے کی وجہ سے اس نے ہمیں سوبیا کے قریب جانے سے منع کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تک تو وہاں کچھ زیادہ خطرہ نہیں تھا مگر سوال یہ تھا کہ اس جزیرے سے نکلنے کے بعد جب ہم اس جزیرے میں پہنچیں گے جہاں وہ خوفناک مکھی موجود ہے تو پھر کیا ہو گا؟ جس خوفناک جانور کا مقابلہ زہرہ کے رہنے والے دیو نہ کر سکے، کیا ہم کر لیں گے؟ ایسا ہی کچھ سوچتے سوچتے میری بھی آنکھ لگ گئی!
اندازاً بتا سکتا ہوں کہ شاید اس وقت رات کے بارہ بجے ہوں گے میری آنکھ نہ جانے کیوں کھل گئی شاید میری کمر میں کوئی کنکر چبھ رہا تھا، یا پھر خدا نے مجھے اپنی حفاظت کرنے کے لئے جگا دیا ہو گا۔ آپ کو میری وہ پرانی عادت یاد ہو گی جس کے بارے میں میں پیچھے لکھ آیا ہوں۔ یعنی جاگنے کے بعد بھی آنکھیں بند رکھنی اور پھر آہستہ آہستہ کر کے کھولنی۔ بس ایسا ہی میں نے اس وقت بھی کیا۔ آنکھیں آہستہ سے کھول کر میں نے دیکھا کہ کوئی دھیرے دھیرے جان کی طرف جا رہا ہے۔ فوراً ہی آنکھیں پوری طرح کھول کر میں نے اچھی طرح دیکھا تو معلوم ہوا کہ کبڑا ہے! وہ جان کے پاس جا کر خاموش کھڑا ہو گیا اور پھر ہاتھ کا اشارہ کر کے کسی کو اپنی طرف بلایا۔ اب کے میں نے دیکھا کہ ایک ملاح آپستہ سے اٹھ کر بلی جیسے بے آواز قدم رکھتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔ اب دراصل عمل کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بغیر ہلے جلے آہستہ سے اپنا پستول ہاتھ میں لے لیا اور انتظار کرنے لگا کہ کبڑا اب کیا کرتا ہے؟ میرا خیال تھا کہ اس کی کمر میں بندھے ہوئے ٹپکے میں یقیناً کوئی دھاردار چھری ہو گی جس سے وہ جان کو ختم کرنا چاہتا ہو گا۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ وہ ملاح کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے اور جان کو سوتا ہوا پا کر ملاح کے ساتھ سوبیا دھات کے ذخیرے کی سمت میں جانے لگا۔!
اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی۔ کبڑے کا ارادہ صاف ظاہر تھا۔ وہ ہماری لا علمی میں اس قیمتی خزانے کو حاصل کرنا چاہتا تھا جو ہم نے حال ہی میں دریافت کیا تھا۔ بجائے اس کے کہ میں ان دونوں کو اس حرکت سے باز رکھتا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ دراصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کبڑا کیا کرتا ہے؟ چٹانوں کی آڑ لیتا اور ان کی نظروں سے بچتا ہوا میں جلد ہی اس جگہ پہنچ گیا جہاں وہ دونوں کھڑے تھے اور جہاں وہ نرالی قسم کی مشینیں تھیں۔ مگر پھر یہ دیکھ کر حیرت کی وجہ سے میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی کہ اب ان مشینوں سے کچھ ہی فاصلے پر پتھر کا بنا ہوا ایک لمبا تڑنگا بت کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ذہن پر بہت زور ڈالا اور یہ سوچنے کی بہت کوشش کی کہ کیا شام سے پہلے وہ بت اس جگہ موجود تھا؟ مگر اس وقت میرا ذہن اتنا بے کار ہو چکا تھا کہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔ میں یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ شاید وہ بت وہاں پہلے ہی سے موجود ہو گا اور جلدی میں ہم لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑی ہو گی۔ تھوڑا آگے بڑھ کر میں نے چاند کی خاصی تیز روشنی میں اس بت کو غور سے دیکھا۔ اونچائی میں وہ بت کم از کم ساٹھ فٹ اونچا تھا۔ اس کی بناوٹ ایسی تھی کہ بڑا ہیبت ناک نظر آتا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں سب کچھ تھے، میں اس کے مقابلے میں بالکل چیونٹی نظر آتا تھا۔ ڈر یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ بت مجھ پر گر پڑتا تو میں یقیناً سرمہ بن جاتا۔!
میری طرح شاید کبڑا بھی یہ سوچ کر حیرت زدہ تھا کہ وہ بت وہاں کس طرح آ گیا۔ مگر پھر وہ بھی یہ سمجھ کر کہ غالباً اس کی نظر کا دھوکا ہے، ملاح کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے لگا۔ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے رہ کر اس کی حرکتیں دیکھتا رہوں اور پھر موقع ملنے پر اس کا مقابلہ کروں! کبڑا آہستہ آہستہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا ان مشینوں کے قریب پہنچا جہاں بہت زیادہ گیئر لگے ہوئے تھے۔ ان گیئرز کے برابر ہی وہ غار تھا جیس میں دہکتی ہوئی سوبیا تھی۔ کبڑے نے پہلے تو غار کے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر ان گیئرز کے قریب پہنچا۔
کبڑے کی بیوقوفی کا یہ سے بڑا ثبوت تھا۔ اگر کسی سمجھ دار شخص کو دہکتا ہوا انگارہ اٹھانا ہوتا ہے تو وہ اسے کسی چیز سے پکڑ کر اٹھاتا ہے مگر کبڑے کو یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ دھات کس قسم کی ہے اور اگر اس نے اسے حاصل بھی کر لیا تو اسے لے کر کس طرح جائے گا؟ سچ ہے عقل مند وہی ہے جو آنے والے برے وقت کے بارے میں پہلے ہی سے سوچ لے! انسان کتنا لالچی ہے! اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے خواہ مخواہ خطرے میں کود پڑتا ہے اور ایسے موقعوں پر اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ کبڑے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے پہلے تو گیئرز کو چھو کر دیکھا اور پھر بغیر جانے بوجھے آہستہ سے ایک گیئر کھینچ لیا۔ کٹ کی آواز آئی میرا خیال تھا کہ فوراً ہی کچھ نہ کچھ ہو گا۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ کبڑا شاید اس سے مطمئن ہو گیا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر دوسرا گیئر کھینچا۔ اس بار بھی کوئی خاص واقعہ نہ ہوا، البتہ ایک ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی۔
اس گڑگڑاہٹ کو سن کر میں نے چاروں طرف غور سے دیکھا۔ یہ ہلکی سی آواز دراصل کسی نظر نہ آنے والے خطرے کا پیش خیمہ تھی! اپنا سانس روکے ہوئے میں حیرت سے اس پتھر کے لمبے بت کو دیکھے جا رہا تھا۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سوبیا دھات کا یہ عجیب محافظ یقیناً اپنا فرض ادا کرے گا۔ اتنی دیر میں کبڑا تیسرے گیئر کا ہینڈل بھی کھینچ چکا تھا۔ اچانک ایک زوردار کڑاکا ہوا اور پھر وہ پورا علاقہ ایک عجیب سی روشنی میں نہا گیا اور اس روشنی میں یکایک میری نظر پتھر کے اس بت پر پڑی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ خوف کے مارے میری گھگی بندھ گئی ایسا لگا جیسے میرا سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہے۔ ہاتھ پیروں میں جان نہ رہی اور میں نے جلدی سے چٹان کا سہارا لے لیا۔ ملاح اور کبڑا، سہمے ہوئے اس بت کو دیکھ رہے تھے اور۔۔۔۔۔! اور وہ پتھر کا بت اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے ہل رہا تھا! اس میں اچانک زندگی پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے پہلا قدم بڑھایا۔ اب اس کا ایک ایک حصہ بالکل انسانوں کی طرح کام کر رہا تھا! چال میں لڑکھڑاہٹ ضرور تھی مگر مونہہ اوپر اٹھائے ہوئے بڑے خوف ناک انداز میں وہ لگاتار آگے بڑھ رہا تھا۔
میں نے بچپن میں محلے کے ایک بوڑھے سے دیوپری کی کہانیاں سنی تھیں۔ تب میں سن سن کر سہمتا تھا، اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ میں خود بھی اسی قسم کی کہانیوں کا کردار بن جاؤں گا! میں نے جلدی سے پلٹ کر کبڑے کو دیکھا۔ دہشت کے باعث وہ جس جگہ کھڑا تھا وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ ملاح نے نہ جانے کیسے خود میں ہمت پیدا کر لی کہ زمین سے ایک موٹا سا پتھر اٹھا کر اس نے پتھر کے اس جیتے جاگتے دیو پر پھینک دیا اور وہ پتھر اس بت میں اس طرح سما گیا جیسے تالاب میں کوئی چھوٹا سا کنکر ڈوب جاتا ہے! مگر اس حرکت کا اثر بہت غلط ہوا، پتھر کا وہ خوف ناک بت اب ملاح کی طرف متوجہ ہو گیا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے ملاح کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا اور پھر جو ہونا چاہئے تھا وہ ہوا۔ غریب ملاح کا کچومر نکل گیا۔ کچھ دیر تک تو وہ اس بت کی مٹھی میں لٹکا ہوا بے بسی سے اپنی ٹانگیں ہلاتا رہا اور اس کے بعد اس کا بھی وہی انجام ہوا جو اس کے پہلے دو ساتھیوں کا ہو چکا تھا۔
یہ حالت دیکھ کر کبڑے نے بڑی خوف ناک چیخیں ماریں اور پھر بری طرح سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ مگر بھاگتے بھاگتے بھی اس کے ٹھوکر لگی اور وہ مونہہ کے بل زمین پر گر گیا۔ پتھر کے جان دار بت نے اسے بے بس پا کر جلدی سے جھک کر اٹھا لیا اور پھر اپنی مٹھی میں دبا کر۔ ۔ ۔ ۔ اف خدا! آگے لکھتے ہوئے بھی میرا کلیجہ مونہہ کو آتا ہے!۔۔۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کبڑے نے کیسی سہمی ہوئی چیخیں ماریں، کس بری طرح وہ چلایا اور مدد کے لئے کس کس انداز سے اس نے آوازیں دیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی مونہہ چھپا لیا تھا۔ اس لئے اس کے عبرت ناک انجام کو نہیں دیکھ سکا۔ ابھی وہ بت کبڑے کو اپنے ہاتھ میں مسلنے میں مصروف ہی تھا کہ میں کسی قسم کی آواز پیدا کئے بغیر تیزی سے جان کی طرف بھاگا۔
ایسا لگتا تھا کہ جان خود بھی وہ زبردست کڑاکا سن کر اور اس عجیب سی روشنی کو دیکھ کر جاگ چکا تھا اور میری ہی طرف بھاگا ہوا چلا آ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے جیک اور چوتھا ملاح تھا۔ میں انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ میرے رک جانے کی وجہ دراصل کچھ اور تھی کیوں کہ ایک حیرت انگیز اور عجیب بات میرے دیکھنے میں یہ آئی کہ پتھر کے وہ چاروں بت اب آہستہ آہستہ ان تینوں کے پیچھے آ رہے تھے۔ ان بتوں سے گزرتی ہوئی میری نظر پھر ان چٹانوں کی طرف گئی جہاں یہ بت گڑے ہوئے تھے مگر آپ میری حیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ چٹانیں اب بالکل خالی تھیں۔ البتہ دو اور بت دوسری چٹانوں میں سے اس طرح اوپر نکل رہے تھے جس طرح کوئی شخص پانی میں سے آہستہ آہستہ ابھرتا ہے۔
فوراً ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس وقت ہم سخت خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ کوئی انسان ہوتا تو اس سے دو دو ہاتھ بھی کر لیتے مگر پتھر کے ان دیوؤں سے مقابلہ کرنے کا خیال بھی مشکل تھا۔ میرے پیچھے صرف ایک بت مصری ممیوں کی طرح لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا اور میرے بالکل سامنے سے ایک نہ دو پورے چھ پتھروں کے دیو ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے ہوئے چلے آ رہے تھے! جان نے بھی پیچھے مڑ کا انہیں دیکھ لیا تھا اور وہ خود بھی خوف زدہ دکھائی دیتا تھا۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں اور کدھر بھاگیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری حماقت تھی کہ زہروی باشندوں کے منع کرنے کے باوجود بھی ہم خواہ مخواہ ان چٹانوں تک آ گئے تھے۔ اب سوائے خدا کے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا!
ہمارے تیز دوڑنے کے باوجود بھی وہ بت ہم سے بہت قریب تھے، اسی طرح سینہ تانے اور بغیر نیچے دیکھے وہ ہماری طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ یکایک مجھے جان کی آواز سنائی دی۔
“سب لوگ جتنی تیزی سے ہو سکے اپنے جہاز کی طرف بھاگیں۔”
یہ الفاظ سنتے ہی میں اپنے پیچھے آنے والے بت کو دھوکا دے کر کنی کاٹ گیا اور دائیں طرف مڑ کر پوری قوت سے جہاز کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ ہی دوسرے لوگ بھی بھاگے۔ جان کتنی عزیز چیز ہوتی ہے! ہم اسے بچانے کے لئے اتنی تیزی سے بھاگ رہے تھے کہ زندگی میں شاید کبھی نہ دوڑے ہوں گے۔ راستے میں ٹھوکریں بھی لگیں۔ گر بھی پڑے مگر پھر اٹھ کر بھاگنے لگے۔ ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اچانک پھر ویسا ہی زوردار کڑاکا ہوا۔ پورا جزیرہ اس عجیب سی روشنی میں نہا گیا۔ اور سب سے زیادہ یہ روشنی ان ساتوں پتھر کے بتوں پر پڑی۔ بھاگتے بھاگتے میں نے پیچھے مڑ کا دیکھا تو بڑا اچنبھا ہوا کیونکہ روشنی پڑتے ہی یکایک بت اپنی جگہ پر رک گئے اور انہوں نے ہمارا تعاقب کرنا بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ الٹے قدموں سوبیا دھات کے ذخیرے کی طرف جانے لگے۔ ہم چاروں طرف سے انہیں واپس جاتے دیکھتے رہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بت اپنی اپنی جگہوں پر جا کر پتھر کی چٹانوں میں اس طرح دھنس گئے جیسے وہ چٹانیں نہ ہوں مٹی کے تودے ہوں!
اور جب وہ اپنی جگہوں پر جم گئے تو اچانک مجھے پورا جزیرہ ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ چونکہ میں دلی کے ہوٹل میں کام کرتے وقت ہزاروں بار لفٹ میں اوپر سے نیچے آ چکا تھا اس لئے فوراً ہی مجھے ایسا لگا جیسے یہ جزیرہ بھی لفٹ بن گیا ہے اور دھیرے دھیرے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ شاید جان نے بھی یہ بات نوٹ کر لی کیونکہ پھر وہ فوراً ہی چیخا۔
“جلدی اپنے جہاز کی طرف بھاگو۔ جزیرہ غرق ہو رہا ہے۔”
یہ سنتے ہی جیسے ہمارے جسم بجلی بن گئے۔ ایک بار پھر پوری رفتار سے ہم نے اپنے جہاز کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ جہاز تک پہنچتے پہنچتے میں نے دیکھا کہ پانی اب آہستہ آہستہ جزیرے کی زمین پر آنے لگا تھا۔ اور یہ اس بات کی نشانی تھی کہ جزیرہ اب کچھ ہی دیر بعد پانی میں غرق ہو جانے والا ہے۔ پانی بڑی تیزی کے ساتھ اوپر آ رہا تھا اور پھر آخر ایک وقت ایسا آ گیا جب کہ ہم آدھے آدھے دھڑ تک پانی میں ڈوب گئے اور جب ہم نے دیکھا کہ اب سوائے تیرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے تو ہم تیرنے لگے جہاز بھی پانی کے زور سے اب آہستہ آہستہ سیدھا ہو رہا تھا۔ ہم تیرتے ہوئے اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے اور پھر جلد ہی پورا جزیرہ پانی میں غرق ہو گیا۔ اتنی دیر میں ہم نے جہاز کے کناروں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اس لئے ہم بھی ڈوبنے سے بچ گئے۔ ورنہ جزیرے کے ڈوبنے سے اچانک پانی میں ایک زبردست بھنور پیدا ہونے لگا تھا، اگر ہم پانی ہی میں تیر رہے ہوتے تو کبھی کے اس بھنور میں پھنس گئے ہوتے۔ پھنس تو خیر اب بھی گئے تھے مگر اتنے بڑے جہاز کی موجودگی نے ہمیں بچا لیا حالاں کہ جہاز بھی بھنور میں پھنسا ہوا ڈگمگا رہا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...