(Last Updated On: )
سراقہ امن کی تحریر لے کر گھر پلٹ آیا اعادہ پھر سفر کا رحمت عالم نے فرمایا ستارے ہم سفر تھے رات کو اور دن کو سورج تھا منازل میں لقف تھا مدلجہ تھا اور مرحج تھا حداید اور اذاخر اور رابغ راہ میں آئے مقامات جدا جد بھی اقامت گاہ میں آئے ابھی یہ قافلہ دامانِ منزل تک نہ تھا پہنچا گرفتاری کی خاطر اور اک انبوہ آپہنچا یہ ستر آدمی تھے دشت ہی گھربار تھا ان کا جواں ہمت بریدہ اسلمی سردار تھا ان کا اسی انعام کا لالچ انہیں بھی کھینچ لایا تھا یہ فتنہ راستے میں اہل مکہ نے اٹھایا تھا مگر اسلام کی دولت لکھی تھی ان کی قسمت میں بریدہ آ گیا آتے ہی دامانِ نبوت میں شرف پایا جو اس نطقِ خدا سے ہم کلامی کا تہیہ کر لیا سب نے محمدؐکی غلامی کا بتوں کو چھوڑ کر دنیائے باطل سے جدا ہو کر چلے یثرت کی جانب ہمرکاب مصطفٰی ہو کر محبت میں بریدہ نے اتارا اپنا عمامہ اسے نیزے میں باندھا اور یہ جھنڈا اس طرح تھاما کہ اسلامی پھریرا آج لہرایا فضاؤں میں معا اللہ اکبر کی صدا گونجی ہواؤں میں یہ جھنڈا امن و راحت کی بشارت دیتا جاتا تھا طلوع صبح وحدت کی شہادت دیتا جاتا تھا کہ عدل و بذل کا مختار امن و صلح کا حامی مجسم رحمت عالم محمد مصطفٰی ؐنامی وہ ابر لطف جس سے ہر گل گلزار خنداں ہے انیس بے کساں ہے درد مند درد منداں ہے جہاں کو از سر نو نور سے معمور کرنے کو دلوں سے کفر کا رنگ کدورت دور کرنے کو وہ جس کا اک اشارہ روح مردہ کو جلاتا ہے وہی تشریف لاتا ہے وہی تشریف لاتا ہے