عبید صاحب اس گھر کو بیچ وہ شہر بھی چھوڑکر چلے گئے تھے توقیر ماموں اور سبحان کے بے حد اصرار پہ وہ لوگ کراچی شفٹ ہو گئے تھے سبحان آج ہاسپٹل جاتے ہوئے سائرہ کو عبید صاحب کے گھر چھوڑ گیا تھا کیونکہ نوشین بیگم کی طبعیت بہت خراب تھی شادی کے بعد گڑیا نوشین بیگم کو پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی اور اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی نوشین بیگم ہے کیونکہ بہت کم عرصے میں ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی ماں کی حالت کو دیکھ کر اسے بہت افسوس ہوا تھا اور دوسری طرف اسے انعم پہ شدید غصہ بھی آیا تھا کیونکہ ماں کی اس حالت کی ذمہ دار وہی تھی سائرہ نے خود کچن میں جا کہ کھانا بنایا تھا کھانا کھانے کے بعد اب دونوں ماں بیٹی باتیں کر رہے تھے گڑیا نوشین بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی جب نوشین بیگم نے پوچھا ” گڑیا میری پیاری بیٹی تم خوش تو ہو نا؟ ” “خوش نہیں امی میں بہت زیادہ خوش ہوں سچ میں آپ اور بابا نے میرے لیے جو فیصلہ کیا ہے وہ بہترین ہے ماموں ، مامی ،میرب اور سبحان سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں” پرجوش انداز میں بولتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی “آپ کو پتہ ہے ابھی چند دن پہلے میرا رزلٹ آیا ہے میں نے تو آگے پڑھنے کی بات بھی نہیں کی کہ کہی کوئی ناراض نا ہو جائے لیکن سبحان نے خود میرا داخلہ ایک بہت اچھے کالج میں کروایا پھر پھر جب میں توقیر ماموں اورمامی سے آگے پڑھنے کی اجازت لینے گئی تو وہ دونوں تو باقاعدہ ناراض ہو گئے مجھ سے انہوں نے مجھ سے کہا کہ “سائرہ بیٹا آپ نے سوچا بھی کیسے کہ ہم آپ کو آگے پڑھنے سے روکیں گے بلکہ اگر آپ آگے پڑھنا چاہتی ہیں تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات ہمارے لیے اور کوئی نہیں ” بولتے بولتے اس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسوں آگئے پھر یک دم وہ خاموش ہوگئی چند لمحے خاموشی سے گزرے تھے جب اس نے پھر سے بولنا شروع کیا “امی میں سوچتی ہوں انعم آپی بہت بد قسمت تھی کہ انہوں نے سبحان جیسے انسان کو ٹھکرایا غلط راہ کا انتخاب کر کہ اپنے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی ذلیل و رسوا کر دیا” ماں کے افسردہ چہرے پر نظر پڑتے ہی اس نے بات بدل دی تھی “اور آپ پریشان نا ہو میں بلکل ٹھیک اور بہت خوش ہوں وہاں” سائرہ نے مسکراتے ہوئے کہا سائرہ کے چہرے کو دیکھتے نوشین بیگم نے انعم کے لیے بھی انعم کی تھی “یا اللہ میری انعم جہاں بھی ہے اس خوش رکھ میرے مالک میری بیٹی کی حفاظت فرما “۔
حماد ابھی ابھی گھر آیا تھا آج اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ جلد از جلد انعم کو طلاق دینا ہے کیونکہ اس کے گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھی اگر ایسے میں کسی کو انعم اور حماد کی شادی کا پتا چلتا توگھر میں طوفان آجاتا اور حماد اور منہا کا رشتہ بھی ٹوٹ سکتا تھا اس لیے وہ اب جلد از جلد انعم سے جان چھڑانا چاہتا تھا ” میں فریش ہونے جا رہا ہوں فورا کھانا تیار کرو” انعم کو حکم دیتا وہ باتھ روم میں گھس گیا تھا انعم چپ چاپ اٹھ گئی تھی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اچانک اسکی نظر آئینے پہ گئی شدید حیرت کے ساتھ وہ آئینے کی طرف آئی تھی اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ میں ہی ہوں اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھو کر یقین کرنا چاہا چہرے پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے پھر اس نے اپنے بالوں کو چھوا جو بہت زیادہ گندے ہو چکے تھے اور اب بال کم نظر آرہے تھے اور جھاڑیاں زیادہ اسے یاد آیا تھا کہ کیسے نوشین بیگم پیار سے اس کے بالوں میں تیل لگاتی تھی “کتنی بے وقوف ہو تم انعم بابا نے کتنا سمجھایا تھا لیکن تم ، تم نے کیا کر دیا اپنی زندگی تو برباد کر ہی دی ساتھ میں اپنے ماں باپ کی عزت کا بھی جنازہ نکال دیا” خود سے کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ابھی وہ رونے میں مصروف تھی کہ پیچھے سے حماد کی آواز آئی ” تم ابھی تک یہی کھڑی ہو کب سے کہا ہے میں نے تمہیں کہ کھانا تیار کرو میرے لیے اور یہ آنسو بہانے کا ڈرامہ اب بند کر دو سمجھ آئی فورا میرے لیے کھانا لے کر آؤ ” وہ دھاڑا تھا انعم بھی ڈر کر کچن کی طرف بھاگ گئی تھی آج اسے اپنے ماں باپ اپنی بہن اور بھائی سب بہت یاد آرہے تھے اپنے اور احسن کے لڑائی جھگڑے سب سوچتے ہوئے وہ ماضی میں گم ہو چکی تھی ہوش میں تو تب آئی جب غلطی سے چمچ کی جگہ گرم آئل میں آپنا ہاتھ رکھ دیا ہاتھ جلتے ہی وہ چیخ اٹھی تھی حماد بھی فورا باہر آیا تھا “کیا ہوا ہے چیخ کیوں رہی ہو؟” حماد غصے سے دھاڑا تھا “وہ، وہ میرا ہاتھ جل گیا ہے” انعم نے اپنا ہاتھ دکھاتے ہوئے کانپتے ہوئے لہجے میں بتایا ” تو ہاتھ ہی جل گیا نا کون سی قیامت آگئی ہے اب اتنی بھی نازک نہیں ہو مجھے سب پتا ہے یہ سارے ڈرامے بس کام سے جان چھڑانے کے لیے کر رہی ہو اب یہ ڈرامہ بند کرو اور فورا میرے لیے کھانا لے کر آؤ” غصے سے بولتا وہ کمرے میں چلا گیا جبکہ انعم آنسو بہاتی وہی کھڑی رہی اسے اس وقت شدد سے اپنا بھائی احسن، گڑیا اور اپنی امی یاد آئے تھے اسے وہ دن یاد آیا تھا جب ناشتہ بناتے ہوئے ہوئےاس کا ہاتھ جل گیا تھا کیسے سب اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھے تھے لاکھ لڑائی جھگڑوں کے باوجود احسن اس سے کتنا پیار کرتا تھا لیکن انعم نے ان پیار کرنے کرنےوالوں کی قدر نا کی اس نے خود اپنے لیے اس دلدل کا انتخاب کیا تھا ۔
“میں اب سونے جا رہا ہوں ڈسٹرب نا کرنا” کھانے کے بعد حماد بیزاری سے بولتا وہاں سے چلا گیا انعم نے بھی برتن سمیٹنے شروع کر دئیے کہ اچانک اس کی نظر میز پر پڑے موبائل پر گئی جو کہ حماد کا تھا اپنے موبائل کو تو وہ کب کا توڑ کر پھینک چکی تھی کہ کہی کوئی نمبر ٹریس کر کہ مجھ تک نا پہنچ جائے انعم سے برداشت نہیں ہوا اسے اپنے گھروالوں کی بہت یاد آرہی تھی بے تحاشہ کوشش کے باوجود بھی وہ خود کو نا روک پائی موبائل اٹھا کہ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی امی کا نمبر ملایا ۔
نوشین بیگم کی طبیعت بہت خراب تھی احسن اور عبید صاحب کی آج بہت ضروری میٹنگ تھی اس لیے وہ دونوں آفس جا چکے تھے جبکہ نوشین بیگم کچن میں کام کرنے میں مصروف تھی جب اچانک ان کو کھانسی کا دورہ پڑا آج کل یہی ہو رہا تھا ایک دفعہ جب ان کو کھانسی لگتی پھر رکنے کا نام نا لیتی اچانک ان کے موبائل پر کال آنے لگی کھانستے کھانستے انہوں نے موبائل کو کان سے لگایا۔ ٹرن ٹرن بیل جا رہی تھی انعم کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ہیلو! ہیلو! دوسری طرف سے کھانستے ہوئے کہا گیا تھا بہت ہمت کر کے انعم نے ہیلو کہا ” انعم میری بیٹی میری جان تم کہاں ہو میری بیٹی؟ کیسی ہو؟ اور، اور خوش تو ہو؟ نا میری بیٹی کچھ تو بولو” آخر ماں تو ماں ہوتی ہے ماں وہ ہستی ہے جس کی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی ماں کی وہی آواز وہی محبت سے بھرا لہجہ انعم کا دل چاہا کہ اس وقت اس کی ماں اس کے سامنے ہو اور وہ ماں کے پیروں میں گھڑ گھڑا کر معافی مانگی “امی میں ” ابھی انعم نے صرف اتنا ہی بولا تھا کہ پیچھے سے حماد کی شدید غصیلی آواز آئی تھی ” کس سے بات کر رہی ہو ہاں کون ہے؟ میری غیر حاضری میں تم دوسرے مردوں سے گپیں لگاتی ہو میں یہ کیسے بھول گیا کہ جو لڑکی اپنےاس ماں باپ کی کی عزت کو خاک میں ملا کر گھر سے بھاگ سکتی ہے جن ماں باپ نے ساری زندگی اسے پالا پوسا اپنی جان سے بڑھ کر اسے پیار کیا اپنی اولادکے سکون کے لیے اپنی نیندیں حرام کی وہ لڑکی مجھ سے کیا وفاداری کرے گی تم میرے ساتھ بھاگ کر آئی ہو اب کیا کسی اور کے ساتھ بھاگنے کا ارادہ ہے ” وہ الفاظ نہیں تھے وہ تیر تھے جو سیدھاانعم کے دل میں سینے میں پیوست ہو رہے تھے ” میں بدکردار ہوں بد چلن ہو ٹھیک ہے مان لیا اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا حماد ہمدانی تم ایک انتہائی گھٹیا شخص ہو تم جیسے لوگ مرد کے نام پر دھبہ ہوتے ہیں ہاں سچ کہا تم نے میں نے اپنے ماں باپ کی عزت کو خاک میں ملا دیا اور میں اس کی سزا بھی بھگت رہی ہوں تمہاری شکل میں مجھے اب پتہ چلا ہے کہ تم کتنے گھٹیا شخص ہو تم جیسے انسان کے لیے میں گھر سے بھاگ گئی تف ہے مجھ پہ” اتنے دنوں کی اذیت کے بعد آج انعم غصے سے پھٹ پڑی تھی ” کوئی بات نہیں اب مجھے مزید برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں حماد ہمدانی پورے حوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں” حماد تو کہی دنوں سے موقع کی تلاش میں تھا اور آج اسے وہ موقع مل گیا تھا انعم پتھر کی ہو چکی تھی وہ کسی بت کی طرح کھڑی تھی حماد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھرسے نکالا تھا ” اب نکلو یہاں سے بدکردار عورت” یہ اس انسان کے آخری الفاظ تھے جس کے لیے انعم اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی (بےشک برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے)-
گھر سے نکلنے کے بعد اب انعم کا دل کانپ رہا تھا وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اب میں کہاں جاؤں گی بہت سوچنے کے بعد وہ اپنے ہی گھر کی طرف چل پڑی تھی اس گھر کی طرف جہاں سے آخری دفعہ نکلتے ہوئے اس نے پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا تھا پیدل چل کر اس کے پیر شل ہو گئے تھے مگر آخر کار وہ اپنے محلے میں پہنچ گئی تھی اپنے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے جیسے ہی دروازہ بجایا اندر سے ایک چھبیس ستائس سالہ لڑکا باہر نکلا اور پوچھا “جی آپ کون؟ اور کس سے ملنا ہے؟” انعم نے شدید حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا ” مجھے میرے بابا سے ملنا ہے عبید صاحب سے وہ یہی رہتے ہیں نا؟ انعم نے پوچھا ” جی پہلے رہتے تھے لیکن اب نہیں وہ یہ محلہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اب کہاں ہیں اسکا مجھے نہیں پتا ” اس نوجوان نے جواب دیا ” ارے لڑکی تم، تم کیا کر رہی ہو یہاں ارے واصف یہ دیکھو یہ تو وہی عبید صاحب کی بیٹی ہے نا جو شادی کے دن گھر سے بھاگ گئی تھی” انعم کے قریب سے گزرتے ہوئے ان دو آدمیوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا انعم ان کو جانتی تھی انعم کے گھر کے بلکل ساتھ والا گھر انہی کا تھا اس لیے انعم نے پوچھا ” چاچا میرے بابا کدھر ہے پلیز اگر آپ کو کچھ پتا ہے تو مجھے بتا دے” انعم نے التجا کی ” اے لڑکی! شرم نہیں آتی تمہیں اب بھی یہاں آتے ہوئے تمہیں تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے” ان بڑے میاں نے غصیلی آواز میں کہا ” ہاں بھئی پتا نہیں کس کے ساتھ منہ کالا کر کرکے آ گئی گھر سے بھاگتے ہوئے تو باپ کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور اب آئی ہے اپنے باپ کا پتا لگانے نہیں ہے وہ یہاں پہ تم جیسی بدکردار بیٹی کی وجہ سے وہ لوگ یہ شہر ہی چھوڑ کر چلے گئے” وہ دوسرا آدمی اتنے زور سے بول رہا تھا کہ آس پاس کے گھروں میں سے بھی لوگ باہر نکل آئے تھے اوراب وہی کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے ” ہاں اور اب تم بھی نکلو یہاں سے یہ شریفوں کا محلہ ہے تم جیسی لڑکی کی وجہ سے ہماری بیٹوں پربھی برا اثرر پڑے گا ” ایک آنٹی بولی تھی ” ہاں بہن سہی کہہ رہی ہو نکالو اس کو یہاں سے ” باقی سب نے بھی ان کے ہاں میں ہاں ملائی تھی اور انعم کو وہاں سے بھی دھکے مار کر نکال دیا تھا اب اسکے پاس ایک ہی جگہ بچی تھی اور وہ تھا دارلان۔
آج اس دارلامان میں آئے اس کا پانچواں دن تھا وہ بلکل گم سم رہتی تھی ہر وقت اپنے ماں باپ کو یاد کرتی “احسن مجھے یاد کرتا ہوگا؟” “نہیں نہیں وہ مجھے کیوں یاد کرے گا وہ تو اب مجھ سے نفرت کرتا ہو گا اور میں نفرت کے ہی لائق ہوں مجھ جیسی لڑکیاں نفرت کے لائق ہی ہوتی ہے جو نا محرموں سے باتیں کرتی ہیں اپنے رب کی نافرمانی کرتی ہیں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہیں” وہ ہر وقت یہی سب سوچتی رہتی اس کے برعکس گڑیا اپنے ماں باپ کی بات مان کر بہت خوش تھی اب وہ کالج جاتی تھی جہاں سبحان نے خود اسکا داخلہ کروایا تھا جبکہ موبائل پہ انعم کی آواز سننے کے بعد اب نوشین بیگم مطمئن تھی انکو لگ رہا تھا کہ انعم اپنے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے اور انعم نے اس ذلت ورسوائی کا انتخاب اپنے لیے خود کیا تھا۔
جو لڑکیاں ایسا قدم اٹھاتی ہیں ان کو عزت کبھی نہیں ملتی اپنی ساری زندگی کی قیمت پر بھی نہیں ایسے لوگوں کو ساری زندگی ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بیٹیاں والدین کا بھرم ہوتی ہیں اپنی حفاظت خود کرنا سیکھے : ”فحاشی“ اور بے حیائی کا فتنہ ہے،
جو ”روشن خیالی“ کے نام سے پروان چڑھایا جارہاہے۔
غیر محرم سے چیٹ کرنا غیر محرم سے دوستی کرنا غیر محرم کے لیے بناو سنگھار کرنا یہ سب کام بے حیائی کے کام ہیں آپ کی تنہائی میں ایک ذات ہر وقت آپ کے ساتھ ہے پلیز اپنے والدین کی عزت کا خیال رکھیں۔
قرآن کریم میں جا بجا”فحاشی“ کی مذمت اور اسے شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے۔
الله تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:ۚ
سورة النحل 90
ترجمعہ: اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے.
دوسری جگہ فرمایاۚ
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔ (البقرة:268)
نا محرم سے دوستیاں کرنا اور والدین کی آنکھو میں دھول جھونکنے سے پرہیز کریں آپ کو ملے گا وہی جو آپ کی قسمت میں ہو گا
ختم شدہ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...