(اکبر حمیدی)
تیری لگن میں تجھ سے بھی آگے نکل گئے
تیرے مسافروں کو ٹھہرنا نہ آسکا
اکبرحمیدی سے میری ملاقات اور تعلق کی نوعیت تھوڑی پیچیدہ ہے۔ یہ پیچیدگی میری اپنی پیداکردہ ہے۔ میں اکبرحمیدی کے بنائے ہوئے یادکھائے ہوئے سیدھے رستے پر چلتاہوں پھر اس رستے کو، سیدھے سادے رستے کو الجھا کربھول بھلیّاں سی بنالیتاہوں یوں میرے لئے اچھی بھلی بامعنی منزلیں بھی بے معنی ہوجاتی ہیں۔ اکبرحمیدی کی تقلید کا سلسلہ پتہ نہیں کہاں سے شروع ہواتھا۔ فی الوقت جو سرا ہاتھ آرہاہے اس کے مطابق اکبر حمیدی کے ہاں پہلی بیٹی پےدا ہو چکی تھی اور مےرے ہاں بھی پہلی بےٹی پےدا ہو چکی تھی۔پھر اکبر حمےدی کے ہاں اےک بےٹا پیداہوا جس کا نام انہوں نے شعیب رکھا۔ چنانچہ میں بھی جلد ہی ایک بیٹے کا باپ بن گیااور اس کانام شعیب رکھ دیا۔ پھر اگلے برس ایک اور بیٹا ہوااس کا نام عثمان رکھ دیا اسی دوران اکبر حمیدی کے ہاں ایک بیٹاہوگیاجسے وہ پیارسے ٹیپوکہتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھ لیاہوتاتو ہمارا کوئی جھگڑانہ تھالیکن جب انہوں نے ٹیپو نام رکھ لیا تو مجھے بھی رواں ہوناپڑا۔چنانچہ میرے ہاں تیسرا بیٹا پیداہوا جسے ہم سب پیارسے ٹیپو کہتے ہیں۔ چونکہ میں رواں ہوچکاتھا اس لئے بریکیں لگنے تک ایک اور بیٹی پیداہوگئی۔ اب اکبر حمیدی ایک بیٹی اور دوبیٹوں کے باپ ہیں اور میں دوبیٹیوں اور تین بیٹوںکا باپ ہوں۔اکبر حمیدی نے ایک عرصہ تک اپنے آبائی علاقے میں رہ کر چھوٹی موٹی نوکری کی۔ میں نے بھی انیس سال اپنے آبائی علاقے میں مزدوری کرکے گزاردیئے۔ پھر اکبر حمیدی درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوکر اسلام آباد جیسے صحت افزا مقام پر چلے گئے تو میں بھی درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوکر اسلام آباد سے بھی ساٹھ سترمیل آگے ایبٹ آباد جیسے صحت افزامقام پر پہنچ گیااور صحت افزا مقام کے حوالے سے جب وہاں بھی چین نہ آیاتو یورپ کے ایک ملک جرمنی میں پہنچ گیا۔
یہ نجی زندگی سے چند مثالیں تھیں ادبی زندگی کی طرف دیکھتاہوں تو وہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ اکبر حمیدی نے غزلیں کہیں۔۔ میں نے بھی غزلیں کہنا شروع کردیں۔اکبر حمیدی نے منہ کاذائقہ بدلنے کے لئے چند نظمیں کہیں تو میں بھی نظم نگاری کی طرف مائل ہوگیا۔ اکبرحمیدی نے انشائیہ نگاری شروع کی تو میں نے بھی دھیمی رفتار سے سہی،ا نشائےے لکھنے شروع کردیئے۔ اکبرحمیدی نے غلطی سے ایک دوافسانے لکھ لئے ۔میں نے جوابی کاروائی کے طورپر افسانوں کا ایک مجموعہ چھپوالیا اور دوسرا مجموعہ ترتیب دے رہاہوں۔ اکبر حمیدی نے اپنے چند بزرگوں کے خاکے لکھے تو میں نے بھی اپنے بزرگوں کے خاکے لکھنے شروع کردیئے۔ یہ خاکے کیاتھے قبیلہ قریش اور جاٹوں کے درمیان جنگ کااعلان تھا۔ اکبر حمیدی نے اپنے بعض عزیزوں کی چند خوبیاں بیان کیں، میں نے اپنے عزیزوں میں ان سے دس گنازیادہ کمالات دکھادیئے۔ اکبرحمیدی نے اپنے بعض عزیزوں کی چندخامیاں بڑے سلیقے سے بیان کیں، میں نے اپنے بعض عزیزوں میں اس سے زیادہ سلیقے کے ساتھ ہزار کیڑے ڈال دیئے۔ آخراکبرحمیدی کو ہارماننا پڑی انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کے خاکے لکھنے بندکردیئے، ویسے اب سوچتاہوں کہ قبیلہ قریش اور جاٹوں کی جنگ توشاید جاٹ ہی جیت گئے ہیں کیونکہ میرااپنا ننہال جاٹ باجوہ خاندان ہے اور اپنے عزیزوں کے دس خاکوں میں سے چارخاکے تو خود میں نے جاٹوں کے لکھ دیئے ہیں۔
۔۔۔۔اس قبائلی جنگ اوراس کے نتیجہ سے قطع نظراکبر حمیدی اور میں تقریباً تمام اصناف ادب میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اس کے باوجود ہماری دوستی نہ صرف قائم ہے بلکہ بے حد مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔”انجمن ستائش باہمی“ کے اس دور میں مجھ سے بارہازیادتیاں ہوئی ہیں۔ مثلاً ”اوراق “میں اکبر حمیدی کا خصوصی گوشہ شائع ہواتو مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ اس کے مندرجات کے حوالے سے میں مدیر ”اوراق“ کو سچے دل سے ایک توصیفی خط لکھنا چاہتاتھالیکن پھر خیال آیاکہ یارلوگ کہیں گے دونوں دوست ہیں اس لئے تعریف کی جارہی ہے۔ چنانچہ میں نے اکبرحمیدی کواپنے تاثرات سے آگاہ کردیالیکن”اوراق“ میں چپ ہورہا۔مختلف جرائد میں ان کی تخلیقات چھپتی ہیں تو ان کے بارے میں انہیں جرائد ہی میں۔۔ میں نے اپنے تاثرات کااظہاربھی کیاہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بہت سے مواقع پر حجاب مانع رہا۔
ایک رسالہ میں اکبرحمیدی کی ایک خوبصورت غزل چھپی۔ (تب)پشاور سے چھپنے والے اس رسالے کی خوبی یہ رہی ہے کہ اس میں جتنے صفحات ادبی تخلیقات کے لئے ہوتے ہیں لگ بھگ اتنے صفحات قارئین کے خطوط کے لئے وقف ہوتے ہیں۔ اکبر حمیدی کی غزل چھپنے کے بعد رسالہ مذکورکااگلاشمارہ آیاتو مدیران کی تعریف سے لبریز خطوط میں سے کسی میں بھی اکبرحمیدی کی اس غزل کے بارے میں کسی رائے کا اظہارنہیں کیاگیاتھا۔۔ میں ایبٹ آباد سے اسلام آباد گیاتو اکبرحمیدی کی اس غزل کی تعریف کی اور خاص طورپریہ شعر دہرایا:
علم نے یوں نہ کیا تھا مرے دل کو پتھر
کوئی سچ کہتا تو میں مان لیا کرتا تھا
۔۔۔۔اکبرحمیدی کہنے لگے یار! اس رسالے میںتولگتاہے کسی کو بھی غزل پسند نہیں آئی۔ تب میں نے انہیں کہاکہ خاص طورپر اس رسالے کے قارئین کی رائے سے کبھی اثر نہیں لیں، بلکہ اس کے قارئین کی اکثریت جس غزل کو زیادہ پسند کرے اس پر احتیاطاً نظر ثانی کرلیاکریں۔۔ بحیثیت، شاعر مجھے اکبر حمیدی کی غزلیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ ایک خاص زاویۂ نگاہ سے بات کروں تو عبید اللہ علیم، صابر ظفر اور اکبر حمیدی میں سے عبیداللہ علیم کی شاعریconfidence overکاشکارہوچکی ہے۔ صابر ظفر جذبہ اور تخیل کی اہمیت کو فراموش کرکے عروضی تجربات کی شاعری کرنے لگے ہیں جبکہ اکبر حمیدی کے ہاں جذبہ، تخیل اور عروضی مہارت کے امتزاج سے شاعری جنم لیتی ہے اوراکبرحمیدی اپنی سادگی اور انکساری کے باعث مسلسل خوب سے خوب تر کی طرف گامزن ہیں۔
۔۔۔۔بحیثیت انشائیہ نگاراکبرحمیدی نے انشائیہ کے مزاج کوپوری طرح سے سمجھاہے۔ ان کے انشائےے، انشائیہ کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہونے کے باوجود مروّجہ انشائیہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔انشائیہ اور مزاحیہ کے فرق کو واضح کرنے کے لئے اور کچھ منہ کاذائقہ بدلنے کے لئے انہوں نے مزاحیہ ریڈیوکالم بھی لکھے۔ ان کے خاکوں کی اپنی ایک شان ہے۔ مولوی عبدالحق سے محمد طفیل تک خاکہ نگاری کاایک دوررہا۔ پھر یہ صنف ادیب نماصحافیوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ انہوں نے شخصیت کی خاک اڑانے کو ہی خاکہ نگاری سمجھ لیااور کشتوں کے پشتے لگادیئے۔ خاکہ نگاری کی ایسی آلودہ فضا میں اکبرحمیدی کے خاکے سرسبز پیڑوں کی طرح ادبی آلودگی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کردکھایاہے کہ خاکہ نگاری نہ تو شخصیت کی خاک اڑانے کانام ہے اور نہ شخصیت پر خاک ڈالنے کا۔۔ بلکہ یہ توپل صراط پر سے گزرنے کاعمل ہے جبکہ ادیب نماصحافیوں کے خاکے سرکس کے رسوں پر چلنے کا منظر دکھاتے ہیں۔ شاعر، انشائیہ نگار، خاکہ نگار، مزاح نگار۔۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اکبر حمیدی نے تنقید کاخانہ بھی خالی نہیں رہنے دیا۔ حال ہی میں ان کے تنقیدی مضامین کامجموعہ ”مضامین غیب“ چھپ کرآیاہے۔ یہ کتاب ابھی مجھ تک نہیں پہنچی تاہم مروّجہ تبصرہ نگاری کے مطابق میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ علم غیب سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب اس کتاب کوہاتھوں ہاتھ لیں گے۔اکبرحمیدی طبعاً ایک سیدھے سادے، سچے، کھرے اور صاف گودیہاتی ہیں۔ انہیں ہیراپھیری اور چالاکی نہیں آتی تھی۔ کھلی دوستی اور کھلی دشمنی۔ لیکن شہر کے بعض دوستوں اور مہربانوں کی مکاریوں اور ہیراپھیریوں کاشکار ہوتے ہوتے آخر انہیں بھی تھوڑی بہت ہیراپھیری اور چالاکی کرناآگئی ہے۔۔ میں سمجھتاہوں کسی مکّار کی مکّاری کا مقابلہ کرنے کے لئے تھوڑی بہت دھوکہ دہی اور مکّاری سے کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ سواکبرحمیدی نے اگر کہیں تھوڑی بہت چالاکی سے کام لیاہے تو صرف مکارلوگوں کے سامنے۔ اپنے دوستوں کے لئے تو وہ ہمیشہ سے سیدھے،سچے اور صاف اکبرحمیدی ہیں ۔
ایک دفعہ اکبرحمیدی مجھ سے کہا:
یارحیدرقریشی !ادب کوتمہارے شرسے کیسے محفوظ رکھاجاسکتاہے؟۔۔
میں نے کہا آپ لکھنا چھوڑدیں، میں بھی لکھنا چھوڑدوں گا۔ صرف اسی صورت میں ہی ادب کو میرے شر سے محفوظ رکھاجاسکتاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میں نے ادب کی مختلف اصناف میں اکبر حمیدی سے اتنا اثر لیاہے کہ اب باقاعدہ طورپران کے ”متاثرین“ میں شمارکیاجاناچاہتاہوں۔
٭٭٭