(Last Updated On: )
کچہری سے باہر نکلتے ہی ببن خان نے رکشہ کو آواز دی۔ اے بھائی پکا قلعہ تک چلنا ہے ۔ میں قاسم آباد جا رہا ہوں۔آپ کوئی دوسرا رکشہ دیکھ لیں ۔ رکشے والے کی آواز سن کر ببن خان نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا: میاں پیٹ بھرے کے نخرے ہیں ۔ آئی روزی کو لات مارتے ہو۔ تب ہی تو سارا دن سڑکو ں پرمارے مارے پھرتے ہو ۔ چلو ببن خان پکا قلعہ کون سا دور ہے ۔ پیدل ہی چل پڑو۔ ببن خان نے قدم آگے بڑھائے ۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ان کی سانس اکھڑنے لگی تو ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ معاً انھیں یاد آیا کہ یہی تو وہ جگہ ہے جہاں آج سے سینتیس(۳۷) سال پہلے وہ اور رفیق ایک دوسرے کے دوست تھے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا اور کھانا پینا۔ غرض کہ دونوں کی دوستی مثالی تھی ۔ ایک دن سنیما دیکھ کر دونوں باہر نکلے۔۔۔ ببن خان نے کہا : آج موسم خوش گوار ہے چلو جام شورو چلتے ہیں ۔ دریا کی سیر کریں گے اور پلا مچھلی کھائیں گے ۔ رفیق خان نے کہا تھا ۔ ببن میاں صبح سے اپنے دلارے کبوتر بھوکے ہیں ۔ پہلے ان کی دیکھ بھال ضروری ہے ۔ پھرکبھی جام شورو چلیں گے۔
رفیق خان آج کیسی بات کی تم نے ۔ میاں کبوتروں کا پالنا ہر اک کے بس کی بات نہیں ہے تم بڑے سنگ دل آدمی ہو۔ جانوروں کو بھول بیٹھے ہو ۔ مجھے کچھ دنوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ تم میں کچھ تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔ میری باتوں کو ان سنا کر دیتے ہو ۔ تمھیں بتاؤ کہ تمھیں کبوتروں سے محبت کس نے سکھلائی۔
ببن خان دوستی کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہمارے شوق پر انگلی اٹھاؤ۔ تمھاری اور ہماری دوستی کی بنیاد یہی شوق ہے ۔ اب زیادہ چودھری مت بنو۔ ہمارے خاندان والوں کا نام تو برسوں سے اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ میرے دادا اختر خان کی کبوتری پورے ہندوستان میں مشہور تھی۔ دادا میاں کے صرف آگرے میں شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں تھی ۔ رفیق خان ۔۔۔ دیکھو من کی بات زبان پر آ گئی ہے ۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم کچھ بدل گئے ہو۔
ارے میاں ۔۔۔ ہمارے خاندان والوں کا میل میلاپ تو زمانہ قدیم سے ہی درباروں سے رہا ہے ۔ ہمارے جدامجد شاہی پیغامات کے لیے نامہ بروں کے سلسلے میں خاصے مشہور ہیں ۔ شہزادہ سلیم نے نور جہاں کے ہاتھوں میں جو کبوتر دیے تھے وہ اس خانہ زاد کے جد کے پالے ہوئے تھے عجب زمانہ آ گیا ہے کہ اب تم ہمارے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں ہی نیچا دکھا رہے ہو۔ رفیق خان یہ مت بھولو میرا تعلق اس خاندان سے ہے جس کے دروازے پر ہمیشہ ہاتھی جھولتے تھے ۔ فن کبوتر بازی میں آج بھی ببن خان جیساکوئی نہیں ہے۔
اچھا۔ تو ہم گھسیارے ہیں ۔ تمھاری نظر کرم کے محتاج۔ ارے ببن میاں للوا صحیح کہتا تھا کہ رفیق خان ببن خان دوستی کی آڑ میں تمھیں تباہ کر رہا ہے ۔ آج تم نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ سنو ببن خان۔ اگر تمھیں اپنے فن پر اتنا ہی نام ہے تو چلو مقابلہ کرلیتے ہیں ۔ تمھارے دو ہزار ہمارے پانچ ہزار ۔ اگر تم ہمیں شکست دے دو ۔ تو ہم مانیں گے کہ تم استاد ببن خان ہو اور اگر ہم جیت گئے تو تم ہمیں استاد مان لینا ۔ رفیق خان … ہمیں تمھارا چیلنج منظور ہے۔ شرط پانچ ہزار ہو گی۔ مقابلہ کے لیے دو شرطیں ہیں نمبر۱۔ اڑان نمبر۲۔ اٹاری پر کبوتر اتارنا۔ اٹاری پر آیا ہوا کبوتر واپس نہیں ہو گا۔۔۔ پنچوں کا فیصلہ حتمی ہو گا۔
ببن خان ہم تمھارا چیلنج قبول کرتے ہیں۔
رفیق خان ۔ ہم تمھارا چیلنج قبول کرتے ہیں۔
مقابلہ اگلی اتوار کو صبح سات بجے شروع ہو گا۔
نہیں ببن خان ۔ مقابلہ فجر کی اذا ن سے شروع ہو گا۔
لاؤمردوں کی طرح ہاتھ ملاؤ۔
میاں ہم یوسف زئی پٹھان ہیں قول کے سچے اور پکے ۔ ببن خان نے کہا۔
اور ہم شیخ قریشی ہیں۔ مونچھوں والے ۔ رفیق خان نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔ اور پھر ببن خان کو یاد آیا ۔۔۔ رفیق خان نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ببن خان۔ مردمی میدان میں دیکھی جاتی ہے ۔ چوڑیاں نہ پہنادوں تو میرا نام رفیق خان نہیں۔
ابے دو ٹکے کے قصائی تیری مونچھوں پر خاک نہ ڈال دوں تو ببن خان نہ کہیو۔
اور آج سینتیس (۳۷) سال کے بعد اسی درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ببن خان کو یوں محسوس ہوا کہ رفیق خان گردن جھکائے کھڑا ہے اور وہ فاتحانہ انداز سے گردن اکڑائے کہہ رہا ہے۔ یوسف زئی پٹھان سے کون ٹکر لے سکتا ہے۔
ارے ببن خان۔ آگے چلو تم تو اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر نہ جانے کیا بک رہے ہو۔ چلو جلدی چلو، ببن خان نے دوبارہ قدم آگے بڑھائے۔۔۔ گاڑی کھاتہ کے چوک پر پہنچ کر وہ پھر ر ک گیا۔
ببن خان ۔ وہ فوارہ کہاں گیا۔ جہاں رات گئے تم اپنے شاگردوں کے ہمراہ آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں رفیق خان ٹانگے میں بیٹھ کر آیا تھا۔ مقابلہ سے ایک دن پہلے کی بات تھی ۔ رفیق خان کے حواری لمبے، بالے ، چھکو، سکو سب تانگے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آگے آگے ڈھول اور شہنائی والے چل رہے تھے ۔ رفیق خان گلے میں گلاب کے ہار پہنے ۔ سرپر پگڑی باندھے ۔ شیروانی میں ملبوس ، اس سے کہہ رہے تھے ۔ کل پتہ چلے گا ببن خان۔ ۔۔ تمھاری ندی میں کتنا پانی ہے۔ دیکھو ہم درگاہ وہاب صاحب پر چادر چڑھانے جا رہے ہیں ۔ کل صبح مقابلے کا وقت اذان فجر ہے۔ چلو بھئی چلو اور یوں ڈھول اور شہنائی کی آواز کے ساتھ رفیق خان کا تانگہ آگے بڑھ گیا تھا ۔
استاد ببن خان ۔ رفیق خان کے دماغ میں بھس بھر گیا ہے ۔ آپ نے اس کا حوصلہ دیکھا کیسے للکار رہا ہے۔ استاد۔ دشمن کو جواب دینا ضروری ہے۔ چل بے بالے بھاگ کر ہار لا استاد کے لیے اور شکورے تو ڈھول شہنائی والوں کو پکڑ کر لا۔ اور مجو میاں تم بہترین تانگا لے کر آؤ۔ اینٹ کا جواب پتھر ہے ۔ اور پھر ببن خان گاڑی کھاتے کے چوک میں کھڑا کھڑا سینتیس(۳۷) برس پیچھے کی طرف لوٹ گیا۔
ببن خان کا جلوس گاڑی کھاتے سے شروع ہوا اور وہاب صاحب کی درگاہ پر چادر چڑھا کر قلعہ چوک میں پہنچ گیا۔ قلعہ چوک پر تانگوں کی بھرمار دیکھ کر پورے قلعے میں مقابلے کا چرچا ہو گیا تھا۔
ببن خان تم پھر کہا ں رک گئے ۔ آگے بڑھو قلعے پہنچو اور دوستوں کو نوید مسرت سناؤ۔ ببن خان نے بغل میں دبائی ہوئی فائل کو مضبوطی سے ایک ہاتھ میں پکڑ لیا اور قدم آگے بڑھانے لگے اور ینٹ ہوٹل کے چوراہے پر جیسے ہی ببن خان پہنچے ان کا شاگر د اچھے میاں مل گیا۔
استاد: سلطان ہوٹل میں ایک کپ چائے پی لیں۔
اچھا چلو تمھارا دل رکھ لیتے ہیں۔ ببن نے کہا۔
استاد آج کل جمعہ بازار میں آپ نظر نہیں آئے۔ کیا بات ہے کبوتر بازی چھوڑ دی ہے ۔ نہیں میاں۔ کبوتر بازی تو ہمار خاندانی مشغلہ ہے۔ بس کچھ کورٹوں کے معاملات ہیں ان کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
استاد۔ آپ اور کورٹوں میں ۔ خیر تو ہے۔
اچھے میاں۔ شریف آدمی کورٹوں کے ذریعے ہی انصاف مانگتا ہے۔
تمھارے پیدائش کے وقتوں کا معاملہ ہے ۔ آج جا کر کہیں انصاف ملا ہے۔
استاد ببن میاں۔ یوں کہیے کہ سینتیس (۳۷) سال بعد آپ کو انصاف ملا ہے۔
اچھے میاں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ سینتیس برسوں بعد دلی مراد پائی ہے۔ لوگ باگ تو یہ دن دیکھے بنا ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔
اچھے میاں ۔ تم سناؤ آج کل کیا کر رہے ہو۔
استاد۔ سارا دن جوتے بناتا ہوں اور پھر جو وقت ملتاہے اس میں کبوتروں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔
استاد۔ ایک بات تو بتلایے ۔ سینتیس سال پہلے کیا ہوا تھا۔
اچھے میاں۔ رفیق خا ن کو پیسے کی گرمی نے بے حال کر دیا تھا ۔ ایک دن ہمیں مقابلے کا چیلنج دے دیا ۔۔۔ مقابلے کے دن ، صبح صادق کے وقت مقابلہ شروع ہوا جیسے ہی فجر کی اذان ہوئی۔ پنچوں کی موجودگی میں کبوتروں کو اڑان کے لیے چھوڑا گیا ۔ ہمارے کبوتر پورا دن اڑان کرتے رہے اور بالآخر اپنے اپنے کا بکوں میں چلے آئے۔ پنچوں کے فیصلے کے مطابق مقابلہ برابر رہا ۔۔۔ اور یوں تین چار بار مقابلے ہوئے۔ ہم نے اور رفیق خان نے خو ب زور لگایا۔ ہر حربہ اور گر آزمایا مگر ناکام رہے۔
ایک دن میں کارخانے میں تھا ۔ میرا بڑا لمڈا بازار سے سودا لے کر آ رہا تھا۔ رفیق خان کے رشتے دار عبدل قریشی نے ہمارے لمڈے پر آواز کسی۔ ہمارے لمڈے کا جسم بھی کسرتی اور بھرپور تھا ۔ اس نے بھی آواز کا ترت جواب دیا ۔ بات چخ چخ سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ عبدل قریشی نے لمڈے پر چاقو سے وار کیا اور پیٹ پھاڑ دیا۔ ہمارا لمڈا دم توڑ گیا۔ قتل کا یہ کیس دس سال تک چلتا رہا۔ قریشیوں کا ایکا مشہور ہے سو سب چھوٹ گئے ۔ رفیق خان ان کی سرپرستی کر رہے تھے ۔ اس کام میں ہمارا کارخانہ برباد ہو گیا ۔ رہی سہی کسر رفیق خان نے پوری کر دی پولیس سے مل کر ہمیں سٹہ چلانے کے جرم میں اندر کردیا۔ چار سال ناحق جیل کاٹی ۔ گھر والی ہمارے جیل جانے سے صدمہ کھا گئی اور یوںوہ بے چاری بھی چل بسی۔ جیل سے آنے کے بعد ہم نے اپنا مکان اونے پونے فروخت کر دیا ۔ ایک بار پھر وکیلوں کے مشورے سے مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔ ہر دو جانب سے نت نئے مقدمے بننے لگے دن رات کچہریوں کی نذر ہو نے لگے۔ ہم نے ایک جگہ پر ’’ کھوکھا‘ ‘ رکھ پتنگوں کا کاروبار شروع کر دیا ۔ جو کچھ کماتے مقدموں پر خرچ کرتے رہے۔
استاد۔ آپ کے ساتھ خاصی ناانصافی ہوئی ہے۔
اچھے میاں۔ سب قسمت کے کھیل ہیں۔ برسوں ازالہ حیثیت عرفی کامقدمہ چلا ۔ ڈگری ملی ۔ پھر ڈگری کے بعد Executionکا مقدمہ چلتا رہا اور آج سینتیس سال کے بعد مجھے قرقی کا پروانہ مللا ہے ۔ اب دیکھتا ہوں کہ رفیق خان کیا کرے گا۔
استاد۔ رفیق خان تو میں نے کافی عرصہ سے نہیں دیکھا ہے ۔
اچھے میاں۔ رفیق خان کو تو میں نے بھی بہت عرصے سے نہیں دیکھا ہے ۔ مگر وہ بدمعاش ہے یہیں کہیں ۔ ویسے اچھے میاں۔ رفیق خان جوانی میں بھی بلا کا شطرنج کا کھلاڑی تھا ۔بڑے بڑے شاطروں کو مات دے جاتا تھا ۔ بڑا ہی عقل مند اور چالا ک تھا۔
زندگی میں پہلی بار ہم نے قانونی شکل میں’’ شکست‘‘ دی ہے اور آج قلعہ والوں کو پتہ چلے گا کہ اس کے مکان کی ’’ قرقی‘‘ ببن خان نے کرا دی ہے …
اور ہاں… اب بیلف کے ذریعے سے جب اسے زبردستی بے دخل کیا جائے گا اور مجھے قبضہ ملے گا تو سب کو پتہ چلے گا کہ ببن خان تمام عمر مصائب اور مشکلات برداشت کرنے کے باوجود کتنا ثابت قدم رہا ۔ یوسف زئی پٹھانوں سے ٹکر لینا آسان تو نہیں۔
استاد چلیں سلطان ہوٹل میں بیٹھے کافی دیر ہو گئی ہے ۔ مجھے ذرا ضروری کام سے جانا ہے ہاں بھئی اچھے میاں تم چلو۔ ہم بھی چل کر قلعہ چوک پر لوگوں کو اپنی فتح مندی کا احوال بتلائیں۔ ویسے اچھے میاں۔ رفیق خان تک بات پہنچانے کے لیے کون سا آدمی مناسب رہے گا۔
استاد آپ پنھوں پنواری کی دکان پر کسی کو بھی بات بتلا دینا۔ سارے قلعے میں یہ بات خود بخود پھیل جائے گی ۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔
ہاں بھئی تم چلو۔ ہم بھی قلعہ چوک کی طرف قدم بڑھاتے ہیں… ببن خان نے اپنے قدم آگے بڑھانے شروع کیے ۔ راستہ میں وہ سوچ رہا تھا کہ آج میرا لمڈا نادر اور میری بیوی خورشید دونوں جنت میں خوش ہوں گے کہ میں نے بالآخر رفیق خان کو سبق سکھلا دیا ہے … ببن خان اپنی دھن میں مست پنھوں پنواری کی دکان پر پہنچے۔ پنھوں پنواری نے کہا : استاد پان کھلائیے گا … ہاں بھی ظہور زعفرانی قوام ۔ ذرا سا ڈبل کرکے۔
ارے میاں پنھوں۔ رفیق خان یہاں آتے ہیں…
استاد ببن ۔ آپ کے حریف کو دیکھے تو چھے ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے ۔ پنھوں میاں۔ ہم نے آج ان کے مکان کی قرقی حاصل کر لی ہے کورٹ سے استاد کون سے مکان کی ۔ ارے بھئی وہی ادھوری بلڈنگ والا مکان اور کون سا۔
استاد کیسی باتیں کرتی ہو … وہ مکان تو رفیق نے سال بھر پہلے ہی مسجد کمیٹی کو دے دیا ہے ۔ آپ اچھے مسلمان ہیں ۔ مسجد کا بھی خیال نہیں ہے۔
پنھوں ۔ میں نے تیس سال محنت کی بعد قرقی حاصل کی ہے ۔
استاد ببن تم تو نرے گاؤدی ہو یہ اس قرقی کی کیا اہمیت ہے۔
رفیق خان آپ کو پھر مات دے گیا ہے ۔
_______________