بلند بلند مکانوں کے بالا خانوں کا عالم دیکھ کر آسمان زمین کا عالم تہ و بالا تھا۔ نئے نئے طور کے مکان منقش۔ عالی شانوں پر سنہری کلسیوں کے چمکنے سے عجب اجالا۔ صاحب علم و ہنر، نیک افعال و نیک کردار اور لوگ اچھے اچھے آرام چین سے اس بستی میں بستے تھے۔
وہ پہ پاؤتی نگری مشہور تھی اور راجا گوپی چند دانش و بخشش میں یکتا، نیک افعال، خجستہ خصال، مہر سے معمور، حلم و حیا سے مشہور، صورت و سیرت میں خوب، خَلق طالب وہ مطلوب۔ دوست اس کے لطف سے شاد اور دشمن قہر سے برباد، جا بجا اس کی دھاک۔
غرض وہاں کا راجا، راجا اندر کی طرح راج کرتا تھا اور اس کے محل میں عورتیں ہر ذات کی تھیں، لیکن سب سے بہتر اور برتر، پاکیزہ طینت و آراستہ بہ زیب و زینت شرم و آداب سے اور علم و ہنر سے، مالا مال خوبیوں سے۔ اس کی ساری خلقت خوش حال، سامان عیش و نشاط، ملک سراپا انبساط، شکل و شمائل بری سراپا غرور سے، بھری عیش ونشاط کے طَور سے، آگاہ شکل میں مانند ماہ گلبن چمن شادمانی، گل گلزار جوانی، ابرو کمان تیر اس کی ہر ایک مژگان ناز کے۔ اس میں تمام آئین نپٹ، حسین و نازنین اس کی رانی تھی اور ایک مادھو نام برہمن، خوبصورت و خوش سیرت اس کا بڑا مصاحب تھا۔
چنانچہ راجا کی مہربانی و نوازش اس پر حد سے زیادہ تھی اور وہ نہایت فہیم و عاقل اور علم موسیقی میں کامل تھا۔ شکل اس کی دیکھ انسان و پری دیوانے ہو جاتے تھے۔ غرض زبان کبیشور اور مولف کی اس کی تعریف میں قاصر ہے۔ ابیات:
یاد میں اس کی کون سا دل جو مثل جرس نالاں نہیں
چشم نظارہ کس کی یہاں اب آئینہ ساں حیران نہیں
ایک نگہ اس ماہ جبیں کو دیکھا ہے جس نے، اس کا تو
دیدہ ہے گریاں، سینہ ہے بریاں ہوش نہیں اوسان نہیں
کاکل مشکیں رشک سنبل، عارض گلگوں غیرت گل
قد کو نسبت سرو سے دوں پر اس میں تو یہ شان نہیں
دست نگاریں دیکھ کے ڈوبا پنجۂ مرجاں دریا میں
ساعد کی حرکات سے اس کی شاخ گل میں جان نہیں
چشم خمار میں دیکھ کے اس گل کی باغ جہاں میں اے یارو!
حیرت ہے اک عالم کو، کچھ نرگس ہی حیران نہیں
حاصل یہ کہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور بین کی صدا کو سن کر رنڈیاں تمام شہر کی ایسی محو ہو گئیں تھیں کہ مطلق آپ میں نہ تھیں اس سبب سے سارے شہر کے لوگ تنگ ہو کر ایک دن فریاد کو راجا کے پاس آئے اور کہنے لگے: “سنیے مہاراج! راجن کے راجا! تم نے سب طرح سے رعیت کو نوازا اور تم سے سب طرح سے راضی ہیں لیکن مادھو کے گُنوں سے اب رہ نہیں سکتی اور شہر کو چھوڑے جاتی ہے”۔
تب راجا نے ان سبھوں سے کہا کہ “مادھو کی تقصیر ایسی کیا ہے جو غصے ہو اس پر، شہر کو چھوڑاتے ہو؟”
تب ہاتھ جوڑ کر سب نے ماجرا جوں کا توں عرض کیا اور بولے “انصاف کرو فریاد کو پہنچو! نہیں تو ہم یہاں نہ رہیں گے۔ کیا آپ نے سنا نہیں اگلے لوگ کہہ گئے ہیں جو بھائی، بھتیجا، بھانجا خوبصورت ہو تو رنڈیاں اس سے بھی باز نہیں آتیں اور اگر اپنے تئیں بچا بھی رکھتی ہیں پر جب وہ نظر آتا ہے، بے اختیار مزے میں آجاتی ہیں”۔
یہ سن راجا کے جی میں یہ آئی کہ گو بھلے ہوں یا برے لیکن رسم یہ ہے کہ ایک کے واسطے بہتوں کو خفا نہیں کرتے۔ پھر امتحان کے لیے پتیاں کنول کے پھولوں کی بچھوا کر کتنی ایک رنڈیوں کو اچھی اچھی باریک ململوں کی ساڑیاں پہنا اُن پر بٹھلایا اور برہمن کو بلوا راجا نے نیچی نظریں کر کہا: “جتنے گن تجھ میں ہیں سو میرے آگے ظاہر کر”۔
مادھو یہ بات سن راجا کی، سوچا کہ کسی دشمن نے چغلی کھائی لیکن نیک آدمی اور بے مان کو جو کوئی دکھ بھی دے تو بھی وہ کسی کو سخت نہیں کہتا جیسے خواص گنے کا کہ خوبی اپنی سے دست بردار نہیں ہوتا گو کہ اس کی پور سے پور جدا کریں۔ ویسے ہی بد سرشت اپنی بدی سے باز نہیں آتا۔ مثلاً سانپ اگر اچھی ذات کا ہو، وقت پر اپنے زہر ہی اگلتا ہے۔ اور عدول حکمی راجا کی، تواضع نہ کرنی برہمن کی اور جدا سلانا عورت کا بدون ہتھیار کے مارنا ہے۔ یہ سمجھ کر مادھو بین کاندھے پر لے اور ساتوں سر ملا گانے لگے۔
بس اتنے میں یہ سماں اور عالم اس کا دیکھتے ہی ہر ایک عورت کی ویسی ہی حالت ہوئی اور کنول کی پتیاں ہر ایک کے بدن سے چپک گئیاں۔ راجا نے یہ حال جو دیکھا نہایت متعجب ہوا۔ الحق کہ راگ سکھیوں کے سکھ کا سامان ہے اور دکھیوں کے دکھ کا درماں۔ کامنیوں کے موہنے کو موہنی منتر ہے اور خوشی کی بنیاد و عیش کی جتنی حالتیں ہیں ان کا بڑھانے والا ہے اور کام دیو کا پیشکار۔ اسی واسطے اسے پنڈت پانچواں بید کہتے ہیں۔
پھر راجا اس کے گن اور روپ کو دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ “افزائش حسن و کمال کی، موجب وبال کا ہوتی ہے چنانچہ سیتا کو خوبصورتی نے زہر دکھایا اور راون کو غرور پیش آیا”۔
پھر غمگین ہو ایک بیڑا تین پان کا دے کر کہا: “اب رخصت ہو اور اس شہر سے جا کہ یہ راج اور شورش خلق کی ہم میں تم میں جدائی کا سبب ہوئی”۔
یہ سوچ کر مادھو نے کہا کہ “جب ماں دیوے زہر اور راجا کرے قہر تو پناہ کس کی؟”
لیکن از بس کہ عاقل و دانا تھا۔ اس کے مزاج پر ہرگز اس بات کا ملال نہ ہوا اور یوں شہر کو چھوڑا جوں پان کا اگال۔