کھائے پیے پیٹ اٹھو تو صبح اتنی بے نور نہیں لگتی۔ جبکہ اس بات کی امید بھی ہو کہ اس دن کے آغاز کے بعد بھوکا نہیں سونا پڑے گا۔ اس نے بھوکے سونے اور اٹھنے کا تجربہ کیا تھا۔ ایک دن نہیں کئی دنوں تک سو وہ اس سکون اور اطمینان کو محسوس کرسکتی تھی۔ اندر ایک سکون والی کیفیت تھی۔ وہ کھڑکی کھولے دیر تک طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھتی رہی تھی۔ لندن میں بہت کم دن سورج والے ہوتے تھے مگر گرمیوں میں کافی پرفیکٹ سمر ٹائم ہوتا تھا۔ رات نو بجے تک سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ جبکہ سردیوں میں دن کے تین بجے ہی اندھیرا ہوجاتا تھا۔ یہ دن بہار کے تھے اور سمر کے آغاز کے اسے یہ موسم بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اس نے آئینے میں خود کو بغور دیکھا تھا۔ برش کرتے ہاتھ رک گئے تھے۔ وہ کافی لین ہوگئی تھی۔ جب دبئی میں تھی تو دعوتیں اڑا اڑا کر اور ریسٹورینٹس کے کھانے کھا کھا کر اچھی خاصی صحت بن گئی تھی۔ لندن آنے کے بعد تو وہ پیٹ بھر کر کھانا تک بھول گئی تھی۔ تبھی کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے‘ جو بھگتے وہی جانے۔ وہ اتنے دنوں میں پہلی بار مسکرائی تھی۔ جیب میں کچھ پائونڈز کا ہونا بھی کافی اطمینان دے رہا تھا۔
’’میں نے بھوک کے احساس کو کبھی نہیں جھیلا تھا۔ اب پتا چلا یہ احساس اندر کتنا مارتا ہے اور اس سے زیادہ اس بات کا احساس کہ دوسروں کے رزق کا سبب کیسے اور کس طرح بنے گا۔ مجھے خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھلانے کی فکر تھی۔‘‘ وہ نمرہ کے ساتھ چلتی ہوئی بولی تھی۔ نمرہ مسکرا دی تھی۔
’’چلو شکر ہے تمہیں یہ چھوٹی سی جاب ہی ملی مجھے بہت فکر ہو رہی تھی ارے ہاں یاد آیا تم مسٹر حیات سے ملی تھیں۔ انہوں نے کیا کہا؟‘‘
’’کچھ نہیں‘ وہ کافی بڑے بندے ہیں اور اس وقت مجھے بڑی جاب کی نہیں چھوٹی جاب کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ وہ طنز سے بولی تھی۔ نمرہ کچھ سمجھی نہیں تھی۔
’کیا مطلب؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’اور میں نے تمہیں بتایا نہیں بے چارے واش روم میں گر گئے تھے۔ اچھی خاصی ناک زخمی ہوگئی۔‘‘
’’اوہ‘ کافی گرے ہوئے آدمی معلوم ہوتے ہیں اینی وے میں چلتی ہوں اگر کوئی صبح کی جاب کا بندوبست ہو سکے تو پلیز انفارم کردینا۔ میں صرف دو گھنٹوں کی جاب پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’لیکن تم تو اسٹوڈنٹ ہو نا۔ پارٹ ٹائم ہی جاب کرسکتی ہو۔‘‘ نمرہ نے جتایا تھا۔
’’تم بھول رہی ہو۔ میں اپنی تعلیم ختم کرچکی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔ فی الحال میرے پیسے لوٹانے کی کوشش مت کرنا۔ تمہیں اور بھی کئی ضرورتیں ہوں گی۔‘‘ نمرہ نے خیال کر کے بولا تھا۔ وہ سر ہلا کر ٹیوب کی طرف بڑھ گئی تھی۔
خواب بننے کی عمر نہیں ہوتی۔ مگر اس نے اس عمر میں بھی خواب نہیں بنے تھے۔ جب اسے خواب بونے تھے۔ جب موسم بھی تھا اور زمین بھی زرخیز تھی۔
’’کوئی کوئی آنکھیں خواب بننے کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔
’’جانے کیوں تم کو دیکھ کر لگتا ہے تم کیکٹس کا پھول ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوش نما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ کوئی گمنام سماعتوں میں گونجا تھا۔ وہ چلتے چلتے کسی سے بے طرح ٹکرا گئی تھی۔ سوچتے ہوئے چلنا اور چلتے ہوئے سوچنا۔ کبھی کبھی واقعی خطرناک ہوسکتا تھا اس نے سنبھلتے ہوئے سوچا تھا۔ سر اٹھا کر دیکھا اسے گرنے سے بچانے کی سعی کرتا ہوا کوئی اسے تھامے کھڑا تھا۔ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
’’ریان حق…!‘‘ اس نے اپنی نظروں کے سامنے کھڑے شخص کو باقاعدہ پکارا تھا۔
’’ایلیاہ میر کیا عادت ہے کبھی تو سوچنے کے علاوہ بھی کوئی کام کیاکرو۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولا تھا
’’اوہ آئی ایم سوری مجھے دھیان نہیں رہا۔‘‘
’’کبھی اپنے دھیان سے باہر آکر بھی دیکھا کریں۔ اس جہاں سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔‘‘
’’اوہ آپ کے پروگرام میں کسی کی پروا کرنا بھی ہے؟‘‘ وہ طنز کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکا تھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’میرے ساتھ چلو۔‘‘ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا تھا۔ وہ دوسری بار چونکی۔
’’کہاں… کیوں۔‘‘ وہ بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔ وہ بجائے اسے مطلع کرنے کے اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی میں بٹھا کر ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا۔ وہ اس کی ہمت پر حیران رہ گئی تھی۔ جس طرح وہ بد ستور اس کی کلائی تھامے ہوئے تھا اس پر وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی اس لمس سے کوئی خاص احساس ہوا تھا۔ کچھ خاص تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ جو ویٹر کو مینو آرڈر کر رہا تھا اس کی سمت دیکھنے لگا۔ پھر احساس ہوا تھا کہ اس کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھ میں ہے تبھی اس کی کلائی کو بہت آہستگی سے چھوڑ دیا تھا۔ ’’ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ وہ ایسی مراعات کی عادی نہیں تھی۔ تبھی بولی تھی۔
’’تم سے ضروری بات کرنا تھی۔ اگر تمہیں برا لگ رہا ہو تو اس کھانے کا بل پے کرسکتی ہو۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’اوہ‘ اب یہ مت سمجھنا کہ میں تمہاری غربت کا مذاق اڑا رہا ہوں۔ یا تم پر کوئی چوٹ کر رہا ہوں۔ میں مذاق کر رہا تھا۔ میرے پروگرام میں مذاق کرنا شامل ہے۔‘‘ وہ اسے جتاتے ہوئے بولا تھا۔
’’تم نے کبھی کیکٹس کا پھول دیکھا ہے؟‘‘ وہ بولا تو وہ بری طرح چونکی تھی۔ مگر وہ بہت رسانیت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’تمہیں دیکھ کر جانے کیوں اس کیکٹس کے پھول کا دھیان آجاتا ہے۔ جو بے پناہ مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی جینے کے لیے مائل دکھائی دیتا ہے اور اپنے اندر ایک بے خوفی رکھتا ہے۔ میں نے کل اپنے گارڈن میں ایک کیکٹس کا پھول دیکھا تھا۔ مجھے اس کی خوب صورتی دیکھ کر جانے کیوں تمہارا خیال آگیا۔ تم اس پھول کی طرح بے فکر ہو‘ نڈر ہو اور حوصلہ مند بھی۔ تم تمام حقائق سے لڑ کر بھی کہنے کا ہنر جانتی ہو اور …!‘‘ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ چونکا۔ شاید وہ بہت زیادہ کہہ رہا تھا۔ وہ رک گیا تھا ویٹر کھانا سرو کر گیا تھا۔ اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر ایلیاہ میر نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ ریان حق نے بغور اس چہرے کو دیکھا تھا جانے کیوں وہ اسے کچھ اداس لگی تھی۔
’’تمہیں اچھا نہیں لگا جو میں نے کیا یا جس طریقے سے کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ ’’میں صرف تمہاری ہمت کو سراہا رہا تھا اور…!‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں ایسے ہی لفظ کسی اور نے بھی کہے تھے مگر ان لفظوں میں زیادہ کچھ واضح نہیں تھا۔ مجھے حیرت ہے دو لوگ ایک ہی طرح کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ نظریں نیچی کیے بولی تھی۔
’’کون… کس نے کہا تھا ایسا؟‘‘ وہ چونکا تھا۔
’’میرے فیانسی نے۔‘‘ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی تھی۔
’’اوہ۔‘‘ وہ اپنا پورا دھیان اس پر سے ہٹا گیا تھا۔ ’’سو کب شادی کر رہی ہیں آپ؟ ساری تگ و دو اسی لیے ہے۔‘‘ وہ اس کی اسٹرگل کے لیے بات کر رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ پرسکون انداز میں بولی تھی۔ ’’وہ میری زندگی سے کب کا خارج ہوچکا ہے اور یہ چیپٹر میں نے خود کلوز کیا تھا۔ یہ انگیجمنٹ میں نے خود ختم کی تھی۔‘‘
’’کیوں…!‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے اسے دیکھا تھا۔
’’میں اس پر بات کرنا مناسب خیال نہیں کرتی۔ مگر اتنا بتا سکتی ہوں کہ یہ تمام اسٹرگل میری فیملی کے لیے ہے۔ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے جو اب میری ذمہ داری ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ وہ کہتے ہوئے اسے کھانے پر مائل کرنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے صرف سوپ لیا تھا۔
’’سو مجھے صحیح لگا کہ آپ بہادر ہیں۔ یہ آپ کی بہادری کا تیسرا ثبوت ملا اب تک۔ شواہد کافی گہرے ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’تیسرا ثبوت۔‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’پہلا میرے آفس میں گھس کر‘ دوسرا مسٹر حیات کو پیٹ کر اور تیسرا اس گروہ سے نمٹتے ہوئے اور… آہ سوری یہ تو چوتھا ثبوت بن گیا۔‘‘ وہ اسے مسکرانے پر اکساتے ہوئے بولا تھا۔ شاید وہ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانا چاہتا تھا۔ وہ مسکرا دی تھی۔ وہ بغور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔ پھر آہستگی سے بولا۔
’’میں دیکھنا چاہتا تھا اگر کوئی پھول مسکرائے تو کیسا لگ سکتا ہے۔میں نے کسی کیکٹس کے پھول کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ایلیاہ میر اپنے لب بھینج گئی تھی اور سوپ پینے لگی تھی۔
’’تمہاری ریسٹورنٹ کی جاب کیسی جا رہی ہے؟‘‘ وہ مدعا پر آتا ہوا بولا تھا۔
’’ٹھیک‘ مگر میں نے نمرہ سے ایک اور جاب ڈھونڈنے کے لیے بھی کہہ دیا ہے۔ میں صبح میں فارغ ہوتی ہوں تو اس وقت بھی اویل کرسکتی ہوں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں بولی تھی۔
’’تو ٹھیک ہے پھر آپ صبح ہی جاب جوائن کرسکتی ہیں۔‘‘ اس نے اچانک کہا۔
’’صبح… کیسے‘ میرے پاس ابھی صبح کے لیے کوئی جاب نہیں ہے۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولی تھی۔
’’میرے گھر میں ہائوس کیپر کی جاب کرو گی؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ وہ چونکی تھی۔
اتنے مشکل حالات کے بعد اب برا وقت جیسے اپنے پر سمیٹ رہا تھا۔ اسے تعرض سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اور انکار کر کے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔ اسی شام وہ سامان پیک کر کے ایسٹ لندن سے Belgravia آگئی تھی جو لندن کا ہی ایک امیر ترین رہائشی علاقہ تھا۔
اس نے شاید ویسا گھر اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وکٹوریہ جو دیگر امور سنبھالنے پر مامور تھی نے اسے پورا گھر دکھایا تھا اور پھر اسے اس کی جاب سمجھائی تھی۔ ریان حق نے اسے نہیں بتایا تھا کہ وہ اسے کتنا پے کرنے والا ہے۔ مگر اسے امید تھی کہ اس سے اتنا مل سکے گا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے ایک معقول رقم گھر بھجوا سکے۔ اس شام ندا ماسو سے بات ہوئی تھی۔
’’مجھے سن کر خوشی ہوئی تم نے ایک اچھی جاب حاصل کرلی ہے۔ انتھک محبت کرنے والوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے۔ مگر ایلیاہ تم اس طرح خود کو اگنور مت کرو۔‘‘
’’میں کہاں خود کو اگنور کر رہی ہوں ماسو۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ ’’آج کل تو خوب پیٹ بھر کر کھانے لگی ہوں۔ یہاں کھانااور رہائش فری ہے۔ سو پہلے کی طرح دو لڑکیوں کے ساتھ ایک روم بھی شیئر نہیں کرنا پڑتا اور میں جو جی چاہتا ہے کھاتی ہوں۔ ان فیکٹ یہاں آکر تو میرا ویٹ بھی ایک دو پائونڈ بڑھ گیا ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’میرا مطلب وہ نہیں ایلیاہ تمنا ڈاکٹر بننے جا رہی ہے اور جامی بھی اپنا تعلیمی سفر کامیابی سے کر رہے ہیں میں بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں موجود ہوں۔ تم اپنے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں؟
اب تو حمزہ سے سلسلہ ختم ہوئے بھی کئی سال ہو گئے۔ بیٹا تم اپنی زندگی کی راہ تلاش کرنے میں عار مت جانو۔ اچھی زندگی جینے کا حق ہے تم خواب دیکھنے سے ہچکچائو مت۔‘‘
’’ماسو جانے دیں نا بقول حمزہ کے میں کیکٹس کا پھول ہوں۔ شاید اسے میرے ارد گرد زیادہ ہی کانٹے دکھائی دیتے تھے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’ویسے فی الحال میں اپنا سوچنا نہیں چاہتی سب کی تعلیم مکمل ہوجائے۔ اپنے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو سوچوں گی۔‘‘ وہ بولی تھیایلیاہ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں تم سب کے خواب پورے کرتے کرتے خود خواب نہ بن جائو۔ اپنے خوابوں کو خواہشوں کو اس طرح غیر اہم مت جانو۔ جامی‘ ثناء اور تمنا کے لیے ہم بھی ہیں نا۔‘‘
’’اوکے ماسو مگر فی الحال زندگی کچھ کٹھن ہے اس دور سے باہر آنے دو پھر دیکھیں گے۔ میں چاہتی ہوں کل کو کوئی مجھے الزام نہ دے یوں بھی اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ اس کے پیچھے کھٹکا ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ریان حق کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر شاید مروت سے مسکرایا تھا۔ کیا وہ اس کے اور ماسو کے درمیان ہونے والی گفتگو سن چکا تھا؟
’’کیسی جا رہی ہے جاب اچھا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے سر ہلایا تھا۔
’’تم دادی اماں سے ملی ہو۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آتیں۔ تمہیں ان سے ملنے خود ان کے کمرے میں جانا پڑے گا۔‘‘ ریان حق نے کہا تھا۔
’’ہاں جانتی ہوں مجھے وکٹوریہ نے پہلے ہی دن ان سے ملوادیا تھا۔ دادی سے مل کر بہت اچھا لگا۔ ان کا ادبی ذوق عمدہ ہے۔ ان کے لیے بکس پڑھنا اچھا لگا مجھے۔‘‘ وہ مطلع کرتی ہوئی بولی۔ تو وہ مسکرادیا تھا۔
’’اوہ‘ تو تم ان کے لیے بک ریڈنگ بھی کر رہی ہو۔ دادی اماں کو کتابوں سے عشق ہے۔‘‘
’’صرف آپ اور دادی اماں ہی اس گھر میں رہتے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ہاں فی الحال ٹینا کچھ دنوں کے لیے جرمنی گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’ٹینا؟‘‘ اس نے زیر لب دہرایا تھا۔
’’میری جرمن گرل فرینڈ۔‘‘ اس نے مختصر بتایا تھا۔ ایلیاہ میر کو جانے کیوں سن کر اپنے اندر سکوت پھیلتا لگا تھا۔
’’ممی‘ ڈیڈی کی ڈیتھ کے بعد بہت عرصہ صرف میں اور دادی اماں اس گھر میں رہے پھر ٹینا میری زندگی میں آگئی۔ اس کے آنے سے ایک تبدیلی آئی کہ گھر کا سکوت کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے میوزک کا شوق ہے۔ اس کا ایک بینڈ ہے جس کی وہ لید واکلسٹ ہے۔ کئی gigs کرچکی ہے وہ۔ ان فیکٹ کئی ایک gigs تو میں بھی اٹینڈ کر چکا ہوں۔ وہ ماڈلنگ بھی کرنا چاہتی ہے اور فلموں میں کام بھی۔ میں چاہوں تو یہ ممکن ہے۔ مگر میں اس میں اس کی مدد کرنا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں وہ صرف میوزک تک محدود رہے۔ ٹینا ایک سیلف میڈ لڑکی ہے۔ وہ بھی اپنے بل بوتے اور اپنی صلاحیتوں کے سہارے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ آئی ہوپ تمہیں اس گھر کے تیسرے فرد سے مل کر بھی اچھا لگے گا۔‘‘ وہ مسکرا دیا تھا۔ وہ رسماً مسکرا دی تھی۔
خواب دیکھنا شاید اتنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ خوابوں خیالوں کی دنیائوں سے واقف نہیں تھی یہ سفر یقیناً مہنگابھی پڑ سکتا تھا سو اس نے خواب نہ دیکھنے اور خواب جزیرے پر نہ جانے کا قصد کیا تھا اور کام میں مصروف ہوگئی تھی۔
شام میں جب گارڈن میں تھی تو کیکٹس کے پھولوں پر نگاہ پڑی تھی۔ وہ بے ساختہ ان کے قریب آگئی اور پھولوں کو چھو کر دیکھنے لگی تھی تبھی کیکٹس کے کانٹوں نے اس کے ہاتھ کو زخمی کیا تھا۔
’’آہ۔‘‘ اس کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔ جانے ریان حق کہاں سے اس کے پیچھے آن رکا تھا۔ اس کے ہاتھ کو تھاما تھا اور دبا کر خون نکال کر اپنے رومال سے صاف کرنے لگا تھا۔
’’ممی کہتی تھیں اگر کچھ چبھ جائے تو باقی کا رکا ہوا بلڈ دبا کر نکال دینے سے سپٹک نہیں ہوتا۔ آئو میں تمھارے ہاتھ میں بینڈیج کروا دوں۔‘‘ وہ بولا تھا۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ کھینچنا چاہا تھا۔ مگر وہ اس پر مائل دکھائی نہیں دیا تھا۔ اسے اندر لے گیا تھا اور اینٹی سیپٹک سے اس کے زخم صاف کر کے ان پر چھوٹی چھوٹی پٹیاں لگانے لگا تھا۔
’’آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کے منہ کھولا تھا۔
’’شش…!‘‘ ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی تھی۔ کچھ تھا اندر دل بہت تیزی سے دھڑکا تھا۔ اس شخص کے قریب بیٹھنے سے بات کرنے سے اندر کوئی لگن لگنے لگی تھی۔ کچھ عجیب محسوس ہونے لگا تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیا یہ خواہشوں کا انبار تھا جو اس کے اندر لگتا جا رہا تھا یا کوئی اور احساس تھا۔ یہ صرف دل کا دھڑکنا تھا یا پھر… کچھ اور…؟ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’محبت! محبت ہوئی ہے تمہیں؟‘‘ یک دم پوچھنے لگا تھا۔ یہ اچانک محبت کی بات کیوں آغاز ہوئی تھی؟ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
محبت بھی کیکٹس جیسی ہوتی ہے‘ کتنے بھی خار کیوں نہ لگے ہوں‘ ذہن یہ جانتا ہی کیوں نہ ہو مگر پھر بھی‘ محبت کے قریب جانے کو دل چاہتا ہے‘ اسے چھونے کو دل چاہتا ہے‘ یقین کرنے کو دل کرتا ہے‘ محبت شاید اتنی ہی عجیب ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر کو اس کی سمت دیکھنا محال لگا تھا‘ وہ اپنی نظریں پھیر گئی تھی‘ ساتھ ہی گردن کا رخ بھی‘ ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ اپنی سمت موڑا تھا۔
’’تم یقین کرو یا نہ کرو۔ مگر مجھے جانے کیوں لگتا ہے کہ تم محبت جیسی ہو‘ انوکھی‘ پُرکشش‘ پُر یقین‘ نڈر‘ بہادر اور بھرپور خالص‘ مجھے حیرت ہے محبت سے کبھی تمہارا ساتھ کیسے نہیں پڑا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ایلیاہ میر! تم اتنی خوف زدہ کیوں ہو؟ میں نے محبت کو نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے وہ خوف زدہ نہیں ہوتی ہوگی اور اگر ہوتی ہوگی تو شاید تمہارے جیسی دکھتی ہوگی‘ ان آنکھوں میں کچھ تو ہے شاید کوئی راز؟ تم ان رازوں سے ایک ایک کرکے پردہ اٹھائو گی تو میری مشکل آسان ہوجائے گی یا پھر تم ایسا کرکے میری مشکل اور بڑھا دو گی؟‘‘ بہت مدہم لہجے میں وہ کہہ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کے لیے وہاں رکنا محال ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی نظروں کی تپش سے جلنے لگا تھا۔ وہ ایسا کیسے ہوگیا تھا؟ اچانک سے اس کے قریب کیوں آرہا تھا؟ اس کا اندر‘ اس کا دل‘ سارا وجود بدل رہا تھا‘ یہ تغیر کیسے رونما ہوا تھا؟
ریان حق نے ایک پل میں ساری دنیا کو اپنے سنگ کیسے باندھ لیا تھا؟ وہ ناقابل حصول تھا‘ ناقابل رسائی تھا۔ وہ کیوں اس سے بندھ رہی تھی؟ کیوں اس کے دیکھنے سے دل کے زمانے اس کے ساتھ بندھ رہے تھے؟ وہ یک دم گھبرا کر اٹھی تھی۔ ریان حق نے ہاتھ تھام لیا تھا‘ وہ پلٹ کر دیکھنے لگی تھی۔
وہ اس کی سمت بغور دیکھ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کی جان مشکل میں گھرنے لگی تھی۔
’’میں حیران ہوں‘ میں بہت حیران تھا‘ جب تم سے پہلی بار ملا تھا میں ایسی کسی لڑکی سے پہلے کبھی نہیں ملا‘ مجھے قبول کرلینے دو کہ میں نے زندگی میں تمہاری جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔ تم دوسروں سے الگ ہو‘ کچھ عجیب ہو‘ نہیں جانتا میں کیوں سوچ رہا ہوں مگر تم سے ملنے کے بعد کئی بار تمہیں سوچا‘ تم بہت انوکھی لگیں۔ مجھے کبھی محبت نہیں ہوئی‘ اس کے لیے وقت نہیں شاید محبت اتنی ہی انوکھی ہوتی ہے؟ مگر…‘‘ وہ رکا تھا۔ ’’میں نہیں جانتا کیا ہے مگر تم اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہو‘ بالکل محبت کی طرح۔ تم اس دنیا کی نہیں لگتیں‘ میں الجھن میں ہوں‘ فی الحال سمجھ نہیں پارہا یا پھر تمہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پارہا‘ مجھے پوری عقل کو شامل کرنے دو پھر کسی نتیجے پر پہنچوں گا شاید یا پھر تمہیں سمجھنے کے لیے عقل و خرد کو ایک طرف رکھنا ہوگا؟‘‘ اسے سوالیہ نظروں سے تکتا وہ کچھ الجھا ہوا دکھائی دیا تھا اور الجھ تو وہ بھی گئی تھی۔ وہ ہاتھ چھڑا کر وہاں سے نکل گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...