برسات کے یہی دن تھے ۔کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے اسی طرح نہا رہے تھے ۔ساگوان کے اس اسپرنگوں والے پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے ذرا دھر کو سرکا دیا گیا تھا ، ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔
کھڑکی کے باہر پپل کے پتّے رات کے دودھیا لے اندھیرے میں جھمکوں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اور نہا رہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی تھی۔
شام کے قریب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی تمام خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد جب وہ بالکنی میں ذرا تفریح کی خاطر آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو غالباً ساتھ والے رسیّوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے درخت کے نیچے کھڑی تھی،کھانس کھنکار کر اپنی طرف متوجہ کیا تھا اور آخر ہاتھ کے اشارے سے اسے اوپر بلا لیا تھا۔
وہ کئی دنوں سے شدید قسم کی تنہائی محسوس کررہا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی قریب قریب تمام کرسچین چھوکریاں جو پہلے سَستے داموں مِل جاتی تھیں۔ عورتوں کی اگزالری فورس میں بھرتی ہوگئی تھیں۔ ان میں سے بعض نے فورٹ کے علاقے میں ڈانسنگ اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔۔۔۔۔۔رندھیر بہت اداس ہوگیا تھا ۔اس کی اداسی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کرسچین چھوکر یاں نایاب ہوگئی تھیں، دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ رندھیر جو فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذّب، تعلیم یافتہ ،صحت مند اور خوبصورت تھا، صرف اس لیے اس پر فورٹ کے اکثر قحبہ خانوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے کہ اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔
جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج ہوٹل کے گردو نواح کی کئی کرسچین لڑکیوں سے جسمانی ملاقات کرچکا تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسی ملاقات کے آداب سے وہ ان کرسچین لونڈوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقفیت رکھتا ہے جن سے یہ لڑکیاں فیشن کے طور پر رومانس لڑاتی ہیںاوربعد میں کسی چغد سے شادی کرلیتی ہیں۔
رندھیر نے محض دل ہی دل میں ہیزل سے اس کی تازہ تازہ پیدا شدہ رعونت کا بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تھا۔ ہیزل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اورہر روز صبح کو وردی پہن کر اور اپنے کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویے پر جما کر باہر نکلتی تھی اور اس انداز سے چلتی تھی گویا فٹ پاتھ پر تمام جانے والے اس کے قدموں کے آگے ٹاٹ کی طرح بچھتے چلے جائیں گے۔
رندھیر نے سوچا تھا کہ آخر وہ کیوں ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا راغب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام قابل نمائش چیزوں کی اچھی طرح نمائش کرتی ہیں۔ کسی قسم کی جھجک محسوس کئے بغیر اپنے ایّام کی بے ترتیبی کا ذکر کردیتی ہیں۔ اپنے پرانے معاشقوں کا حال سُناتی ہیں۔ جب ڈانس کی دُھن سنتی ہیں تو ٹانگیں تھر کانا شروع کردیتی ہیں۔۔۔۔۔۔یہ سب ٹھیک ہے لیکن کوئی عورت بھی ان تمام خوبیوں کی حامل ہو سکتی ہے۔
رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بلایا تو اسے ہرگز ہرگز یقین نہیں تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ سلا سکے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جب اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ خیال کیا تھا، کہین ایسا نہ ہو ،بیچاری کو نمونیہ ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا کہ ’’یہ کپڑے اتار دو ،سردی لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی کیونکہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے مگر بعد میں جب رندھیرنے اسے اپنی سفید دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا کاشٹا کھولا جس کا میل بھیگنے کے باعث اور زیادہ اُبھر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔کاشٹا کھول کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے سفید دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی پھنسی پھنسی چولی اتار نے کی کوشش شروع کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی ۔یہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے مگر میلے گڑھے میں جذب سی ہو گئی تھی۔
دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گرہ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بارش کے پانی سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک کر ہار گئی تو اس نے مرہٹی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب تھا ۔’’میں کیا کروں، نہیں کھلتی۔۔۔۔۔۔‘‘
رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گرہ کھولنے لگا ۔تھک ہار کر اس نے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک سرا پکڑا، دوسرے ہاتھ میں دوسرا اورزور سے کھینچا ۔گرہ ایک دم پھسلی ،رندھیر کے ہاتھ زور میں ادھر ادھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں نمودار ہوئیں۔ رندھیر نے ایک لحظے کے لیے خیال کیا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹی کو چابکدست کمہار کی طرح دو پیالوں کی شکل دے دی ہے۔
اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدراہٹ، وہی جاذبیت ،وہی طراوت ، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمہار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ تازہ کچّے برتنوں میں ہوتی ہے۔
مٹمیلے رنگ کی ان جوان چھاتیوں میںجو بالکل بے داغ تھیں، ایک عجیب قسم کی چمک محلول تھی، سیاہی مائل گندمی رنگ کے نیچے دھندلی روشنی کی ایک تہہ سی تھی جس نے یہ عجیب و غریب چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہونے کے باوجود چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پرچھاتیوں کے یہ اُبھار دئیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی کے اندر جل رہے ہوں۔
برسات کے یہی دن تھے ۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے کپکپارہے تھے ۔ اس گھاٹن لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی سے شرابور ہوچکے تھے ،ایک غلیظ ڈھیری کی شکل میں فرش پر پڑے تھے اور وہ رندھیر سے چمٹی ہوئی تھی۔ اس کے ننگے اور میلے بدن کی گرمی رندھیرکے جسم مین وہ کیفیت پیدا کررہی تھی جو سخت سردیوں میں نائیوں کے غلیظ مگر گرم حمام میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔
ساری رات وہ رندھیر کے ساتھ چمٹی رہی۔ دونوں گویا ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ انھوں نے بمشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی کیونکہ جو کچھ انھیں کہنا سننا تھا، سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہو تا رہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری رات اس کی چھاتیوں پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور وہ موٹے موٹے مسام جوان کے ارد گرد ایک کالے دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس ہوائی لمس سے جاگ اُٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے سارے جسم میں ایسا ارتعاش پیدا ہوجاتا کہ رندھیر خود بھی ایک لحظے کے لیے کپکپا اُٹھتا۔
ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں مرتبہ تعارف ہو چکا تھا۔ وہ اس کی لذت سے اچھی طرح آشنا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم اور سخت سینوں کے ساتھ اپنا سینہ ملا کر وہ ایسی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل الھڑتھیں اور اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ تمام باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کو نہیں سُنانا چاہئیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی رشتہ قائم کرچکا تھا جو ساری مشقت خود کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں مگر یہ گھاٹن لڑکی جو املی کے درخت کے نیچے بھیگی ہوئی کھڑی تھی اور جس کو اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا، بہت ہی مختلف تھی۔
ساری رات رندھیر کو اس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بُو آتی رہی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو اور بدبو تھی ، وہ تمام رات پیتا رہا تھا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے ،اس کے بالوں سے ،اس کے پیٹ سے، ہر جگہ سے یہ بُو جو بدبو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے ہر سانس میں موجود تھی۔ تمام رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی زیادہ قریب نہ ہوتی، اگر اس کے ننگے بدن سے یہ بُو نہ اُڑتی۔۔۔۔۔۔یہ بُو جو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رنگ گئی تھی، اس کے تمام پرانے اور نئے خیالوں میں رچ گئی تھی۔
اس بوُ نے اس لڑکی کو اور رندھیر کو ایک رات کے لیے آپس میں حل کرد یا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر داخل ہو گئے تھے ،عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے جہاں پہنچ کر وہ ایک خالص انسانی لذّت میں تبدیل ہوگئے تھے ،ایسی لذّت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی، جو مائل پرواز کے باوجود ساکن اور جامد تھی۔۔۔۔۔۔وہ دونوں ایک ایسا پنچھی بن گئے تھے جو آسمان کی نیلا ہٹوں میں اڑتا اڑتا متحرک دکھائی دیتا ہے۔
بُو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے ہر مسام سے باہر نکلی تھی، رندھیر اچھی طرح سمجھتا تھا حالانکہ وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ جس طرح بعض اوقات مٹّی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی باس پیدا ہو تی ہے، لیکن نہیں، وہ بُو کچھ اور ہی قسم کی تھی۔ اس میں لونڈر اور عطر کا مصنوعی پن نہیں تھا۔ وہ بالکل اصلی تھی ۔۔۔۔۔۔عورت اور مرد کے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اور ازلی۔
رندھیر کو پسینے کی بُو سے سخت نفرت تھی۔ وہ نہانے کے بعد عام طور پر اپنی بغلوں وغیرہ میںخوشبو دار پوڈر لگا تا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے پسینے کی بُو دب جائے لیکن حیرت ہے کہ اس نے کئی بار ،ہاں کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گِھن نہ آئی بلکہ اسے عجیب طرح کی لذّت محسوس ہوئی۔ اس کی بغلوں کے نرم نرم بال پسینے کے باعث گیلے ہورہے تھے۔ ان سے بھی وہی بُو نکلی جو غایت ورجہ قابل فہم ہونے کے باوجود ناقابل فہم تھی۔ رندھیر کو ایسا لگا تھا کہ وہ اس بُو کو جانتا ہے، پہچانتا ہے، اس کا مطلب بھی سمجھتا ہے لیکن کسی اورکو یہ مطلب سمجھا نہیں سکتا۔
برسات کے یہی دن تھے ۔۔۔۔۔۔اسی کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تھا تو پیپل کے پتے لرز لرز کر نہا رہے تھے ، ہوا میں سر سراہٹیں اور پھڑ پھڑاہٹیںگھلی ہوئی تھیں۔ اندھیرا تھا مگر اس میں دبی ہوئی دھندلی سی روشنی بھی سموئی ہوئی تھی جیسے بارش کے قطروں کے ساتھ لگ کرتا روں کی تھوڑی تھوڑی روشنی اتر آئی ہے۔۔۔۔۔۔برسات کے یہی دن تھے جب رندھیر کے اسی کمرے میں ساگوان کا صرف ایک پلنگ ہوتا تھا مگر اب اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بھی پڑا تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔ دن یہی برسات کے تھے ،موسم بھی بالکل ایسا ہی تھا، بارش کے قطروں کے ساتھ تاروں کی تھوڑی تھوڑی روشنی اُتر رہی تھی مگر فضامیں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔
دوسرا پلنگ خالی تھا ۔اس پلنگ پر جس پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے لرزتے ہوئے پتّوں پر بارش کے قطروں کارقص دیکھ رہا تھا ، ایک گوری چٹّی لڑکی اپنے سَتر کو ننگے جسم سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے غالباً سو گئی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی لال ریشمی شلوار اور دوسرے پلنگ پر پڑی تھی۔ اس کے گہرے سُرخ ازاربند کا ایک پھند نانیچے لٹک رہا تھا۔ اس پلنگ پر اس کے دوسرے اُترے ہوئے کپڑے بھی پڑے تھے۔ اس کی سنہرے پھولوں والی قمیص ،انگیا ، جانگیا اور دوپٹہ۔۔۔۔۔۔سب کا رنگ سُرخ تھا، بے حد سُرخ، یہ سب کپڑے حنا کے عطر کی تیز خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔
لڑکی کے سیاہ بالوں میں مقیش کے ذرّے گرد کی طرح جمے ہوئے تھے۔ چہرے پر غازے ، سُرخی اور مقیش کے ان ذرّات نے مل جُل کر ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کردیا تھا، بے جان سا ، اُڑا اُڑا اور اس کے گورے سینے پر انگیا کے کچّے رنگ نے جا بجا لال لال دھبّے ڈال دیے تھے۔
چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں جس میں تھوڑی تھوڑی نیلا ہٹ بھی ہوتی ہے۔ بغلوں کے بال منڈے ہوئے تھے جس کے باعث وہاں سُرمئی غبار سا پیدا ہوگیا تھا۔ رندھیر کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ کر سوچ چکا تھا ۔
کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اسے لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہے، کتابوں اور چینی کے برتنوں کی طرح کیونکہ جس طرح کتابوں پر داب کے نشان ہوتے ہیں اور چینی کے برتنوں پر ہلتے جلنے سے خراشیں آجاتی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس لڑکی کے بدن پر کئی جگہ ایسے نشان تھے۔
جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چُست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں تو پیٹھ پر اور سامنے سینے کے نرم نرم گوشت پر جھرّیاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے اردگرد کس کر بندھے ازار بند کا نشان ۔۔۔۔۔۔وزنی اور نوکیلے جڑائو نکلیس سے اس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پیدا ہوگئی تھیں جیسے ناخنوں سے بڑے زور کے ساتھ کھجایا گیا ہو۔ برسات کے وہی دن تھے۔ پیپل کی نرم نرم کومل پتیوں پر بارش کے قطرے گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہو رہی تھی جیسی کہ رندھیر اس روز تمام رات سنتا رہا۔ موسم بہت خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن اس میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو گھلی ہوئی تھی۔
رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اس گوری چٹی لڑکی کے کچّے دودھ ایسے سفید سینے پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔ اس کی انگلیوں نے اس گورے گورے جسم میں کئی ارتعاش دوڑتے ہوئے محسوس کیے۔ اس نرم نرم جسم کے کئی گوشوں میں اسے سمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی پتہ چلا۔ جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہر مسام نے اس لڑکی کے چھیڑے ہوئے تاروں کی آواز سُنی۔۔۔۔۔۔لیکن وہ پکار کہاں تھی، وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے جسم کی بُو میں سونگھی تھی، وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچّے کے رونے سے کہیں زیادہ قابل فہم تھی، وہ پکار جو صوتی حدود سے نکل کر بے آواز ہوگئی تھی۔
رندھیر سلاخوں والی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بہت قریب پیپل کے پتّے لرز رہے تھے مگر وہ ان کی لرزشوں کے اس پار دُور بہت دُور دیکھنے کی کوشش کررہا تھا، جہان اسے مٹمیلے بادلوں میں ایک عجیب قسم کی دُھندلی روشنی گھلی ہوئی دکھائی دیتی تھی، جیسے اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اسے نظر آئی تھی، ایسی روشنی جو راز کی بات کی طرح چھپی ہوئی مگر ظاہر تھی۔
رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چٹّی لڑکی جس کا جسم دودھ اور گھی ملے آٹے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی۔ اس کے سوئے ہوئے جسم سے حنا کے عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ جو اب تھکی تھکی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور حالتِ نزع کو پہنچی ہوئی خوشبو بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ اس میں کچھ کھٹاس سی تھی، ایک عجیب قسم کی کھٹاس جو بدہضمی کی ڈکاروں میں ہوتی ہے، اداس ، بے رنگ ، بے کیف۔
رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جس طرح پھٹے ہوئے دودھ میں سفید سفید بے جان پھٹکیاں بے رنگ پانی میں ساکن ہوتی ہیں، اسی طرح لڑکی کی نسوانیت اس کے وجود میں ٹھہری ہوئی تھی، سفید سفید دھبّوں کی صورت میں۔ اصل میں رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بُو بسی ہوئی تھی جواس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بغیر کسی بیرونی کوشش کے باہر نکلی تھی۔ وہ بُو جو حنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دور رس تھی، جس میں سونگھے جانے کا اضطراب نہیں تھا، جو خود بخود ناک کے رستے داخل ہو کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ گئی تھی۔
رندھیر نے آخری کوشش کرتے ہوئے اس لڑکی کے دودھیالے جسم پر ہاتھ پھیرا مگر اسے کوئی کپکپاہٹ محسوس نہ ہوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو فرسٹ کلاس مجسریٹ کی لڑکی تھی، جس نے بی اے تک تعلیم پائی تھی اور جو اپنے کالج میں سینکڑوں لڑکوں کے دل کی دھڑکن تھی، رندھیر کی نبض تیز نہ کرسکی۔۔۔۔۔۔وہ حنا کی مرتی ہوئی خوشبو میں اس بُو کی جستجو کرتا رہا جو برسات کے انہی دنوں میں جب کھڑکی کے باہر پیپل کے پتّے بارش میں نہا رہے تھے، اسے گھاٹن لڑکی کے میلے جسم سے آئی تھی۔
٭٭٭
تجزیہ
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’بُو‘‘ ۱۹۴۵ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ جس کے مدیراحمد ندیم قاسمی تھے میں شائع ہوا تھا۔ افسانہ چھپتے ہی ہفتہ وار ’’خیام‘‘ نے بُو کے خلاف آواز اُٹھائی ملاحظہ فرمائیں۔
’’گندگی پھیلانے والے ان ادیبوں کو حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔‘‘
روزانہ پربھات لاہور نے مطالبہ ہی کر ڈالا۔
’’سعادت حسن منٹو اور پریس مالکوں کو فوری گرفتار کیا جائے ، کیونکہ یہ اخلاقی گندگی پھیلا رہے ہیں۔‘‘
’’اَخّوت‘‘لاہورنے تو یہاں تک لکھ دیا۔
’’ادب لطیف کو ادب کشیف کہا جائے۔۔۔۔۔۔کوک شاستر انہ خیالات رکھنے والے سعادت حسن منٹو اور پریس مالکوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔۔۔۔۔۔‘‘
اس اخباری واویلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر پر چھاپہ پڑا رسالے کی کاپیاں۔۔۔۔۔۔جتنی دفتر میںموجود تھیںسب ضبط کرلیں گئیںاور سرکار نے زیر دفعہ ۲۹۲ برکت علی مالک پریس، مدیر احمد ندیم قاسمی اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر مقدمہ دائیر کردیا۔ منٹو اُن دنوں بمبئی میں تھے۔ ۲ مئی ۱۹۴۵ءکو استاد منٹو احمد ندیم قاسمی مدیر کوعدالت کی طرف سے بری کردیا گیا۔
ایسی باتیں پڑھ کر رشک آتا ہے اُس دور پر۔ ادب زندگی سے کس قدر جڑا ہوا تھا۔کس قدر قریب تھا اچھا ادب برا ادب انسانی زندگی پہ اثر انداز ہوتا تھا۔ کس قدر غور سے پڑھا جاتا تھا اُس دور کے ادیبوں کے لوگ افسانے پڑھتے تھے اور چرچا بھی کرتے تھے۔ اخبارات افسانوں پر اپنے تاثرات شائع کرتے تھے مدیران اخبارات کس قدر حسّاس تھے اور کس قدر ذمہ دار بھی ،فحش لڑیچر چھپنے پر اس کا نوٹس لیتے تھے جس کی وجہ سے حکو مت ملزمین پر مقدمات دائیر کردیتی تھی۔ اگر دور حاضر کا اُس دور سے موازنہ کیا جائے تو آج کے لوگ بے حس ہو گئے۔ آپ کچھ بھی لکھتے رہیے۔کوئی کچھ نہیں کہتا۔
کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتا ہو یا ابھی نیتا،کسی پہ بھی اُنگلی اُٹھالیں کرپشن کا کارواں، رواں دواں رہتا ہے۔ فحش نگاری سے مذہبی منافرت پھیلانا کہیں بدتر کام ہے۔ آئے دن لوگ خاص طور پر نیتا لوگ مذہبی منافرت سے لبریز بیان دیتے ہیں اور لکھتے ہیں ۔مقدمہ تو دور کی بات، حکومت اُنہیں پوچھتی تک نہیں کہ وہ ایسا کیوں بولتے ہیں۔کیوں لکھتے ہیں بات زیادہ طول پکڑ جائے تو نیتا معافی مانگ لیتا ہے۔ اُن کی معافی پر سرکار مہر لگائی دیتی ہے۔ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
’’بُو‘‘ منٹو کے منتخب افسانوں میں سے ایک ہے۔ منٹو کا شاید پہلا افسانہ ہے کہ جس میں صرف دو مکالمے ہیں۔ نمبر ایک تو یہ کہ رندھیر ، گھاٹن لڑکی سے کہتا ہے۔
’’یہ کپڑے اتاردو، سردی لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔‘‘دوسرا گھاٹن لڑکی جب چولی کی گانٹھ نہیں کھول پاتی تو کہتی ہے۔
’’میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟ کھلتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘
باقی سارا افسانہ استاد کا بیان کردہ ہے۔ یعنی راوی استاد خود ہیں۔ یہ افسانہ جنسی نفسیات پر مشتمل ہے۔ آدمی جس چیز کا عادی ہو جائے اُس کا غلام ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو عام بات ہے کہ کسی کو کوئی لَت پڑ جائے تو آسانی سے نہیں چھٹتی ۔ جیسے نشے کی لَت، عورت بازی اور جوئے کی لت وغیرہ وغیرہ جو آدمی کی عادت میں شامل ہو جاتی ہیں۔ موپاساں کا ایک افسانہ اسی نفسیات پر مبنی ہے۔ سیکس کا سیدھا تعلق دماغ سے ہے۔ یہ افسانہ اس موضوع پہ ہے۔ ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ دونوں بہت اَلّھڑ ہیں۔ دونوں پہلی رات کے بارے میں لوگوں سے بہت سی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں سہاگ رات کی عجیب و غریب تصویر کھینچ جاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اُن کو اتنی لذت ملے گی کہ فرشتے اُتر کر اُن کو لوریاں دیں گے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے ماہ غسل کے لئے لڑکا ایک بہترین ہوٹل میں کمرہ بک کرواتا ہے۔ سجے ہوئے کمرے میں دونوں ہم بستر ہو جاتے ہیں اور لپٹ جاتے ہیں ، دلہن کہتی ہے۔
’’کیا یہی ہماری پہلی رات تھی جس کے لئے ہم دونوں نے اتنے شیریں خواب دیکھے تھے؟۔۔۔‘‘
دولہا کو یہ بات کھا جاتی ہے وہ سوچتا ہے کہ اُس میں کچھ کمی رہ گئی اور یہ سیدھا اُس کی مردانگی پر حملہ ہے۔ غصّے اور جھنجھلاہٹ میں اس بات کا اُس پر اس قدر اثر ہوتا ہے کہ اُس کی مردانگی ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ حجرہ عروسی سے نکل کر اپنی ناکام زندگی کسی دریا کے سپرد کرنے نکل جاتا ہے۔ راستے میں دولہا کو ایک ویشیا ملتی ہے۔ جو گاہک کی تلاش میں ہے وہ اُسے اشارہ کرتی ہے لڑکا غصّہ میں محض عورت ذات سے انتقام لینے کی غرض سے تیار ہو جاتا ہے۔ ویشیا اُسے اپنے گھر لے جاتی ہے ویشیا کے غلیظ گھر میں دولہا وہ کام کرنے میں انتہائی کامیاب رہتا ہے جو ہوٹل کے بہترین کمرے میں ٹھیک سے نہ کرسکا تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر وہ بھاگا ہوٹل جاتا ہے ۔اب اُس کی بیوی کو وہ شیریں خواب دیکھنے کی خواہش نہیں رہتی۔ جس کا اُسے گِلہ تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جاتا ہے۔
میرے خیال میں موپاساں کے اسی افسانے سے استاد منٹو کو تحریک ملی وہ اس نفسیاتی نقطہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے افسانہ ’’بُو‘‘ تخلیق کر ڈالا۔ آئیے استاد کے افسانہ ’’بُو‘‘ کا جائیزہ لیں کہ انہوں نے اس جنسی نفسیات کو اپنے افسانے میں کیسے ڈھالا۔۔۔۔۔؟ رندھیر اس افسانے کا بڑا کردار ہے جو طبیعتاً عیّاش ہے وہ عیسا ئی لڑکیوں کا شیدائی ہے۔ بمبئی کی عیسا ئی لڑکیاں یا تو اگزالری فورس میں بھرتی ہوگئیں یا کچھ نے ڈانسنگ اسکول کھول لیئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو سخت اکیلا محسوس کررہا تھا۔ اُسے بارش سے بچنے کے لئے املی کے درخت کے نیچے کھڑی ایک گھاٹن لڑکی نظر آتی ہے۔ جو رسّیوں کے کارخانے میں کام کرتی ہے۔ رندھیر اُسے اپنے چوبارے میں بلاتا ہے ۔ لڑکی بلا حیل وحجت چلی آتی ہے رندھیر ، بھیگی ہوئی لڑکی کو کپڑے اتارنے کے لئے کہتا ہے ،اور اُسے سفید دھوتی پہننے کے لئے دے دیتا ہے۔ لڑکی سے چولی کی گانٹھ نہیں کھلتی ۔رندھیر گانٹھ کھول کر اُس کے صحت مند پستانوں پر ہاتھ پھیرتا ہے اور بے قابو ہو جاتا ہے۔ پستانوں کی تعریف میں استاد منٹو نے قاری کو انگیخت کیا ہے۔ رندھیر کے چھیڑنے پر وہ اُس سے چمٹ جاتی ہے۔ رندھیر کو ساری رات لڑکے کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہتی ہے اس بو کو جو بیک وقت خوشبو اور بدبو تھی۔ وہ تمام رات پیتا رہا۔ گھاٹن کی بغلوں کو چومتا رہا استاد گھاٹن کی بُو پر مزید زور دے کر لکھتے ہیں کہ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو ایک رات میں آپس میں حل کردیا تھا۔ باقی جملے بھی قاری کے جذبات کو بھڑکانے والے ہیں۔ مثلاً:
’’رندھیر کے ہاتھ ساری رات اُس کی چھاتیوں پر ہوائی لمس کی طرح پھرتے رہے۔۔۔۔‘‘
’’چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے مسام کے اِردگرد ایک کالے دائیرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے ۔ہوائی لمس سے جاگ اُٹھے وغیرہ۔‘‘
اور یہ کہ ایک دوسرے کے اندر داخل ہوگئے، عمیق ترین گہرائیوں میں غرق ہوگئے۔ یہاں پہونچ کر وہ ایک خاص انسانی لذّت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اگر یہ شہوت انگیز جملے(اِن کے علاوہ اور بھی بہت ہیں۔) افسانے میںشامل نہ ہوئے تو افسانے کی خوبصورتی میں ہر گز کمی نہ آتی۔ موضوع اور افسانے کا حسن دونوںبرقرار ہی رہتے۔
رندھیر خود نفاست پسند تھا۔ بغلوں میں پسینے کی بو سے بچنے کے لئے پائوڈر لگاتا اور کوئی دوا بھی استعمال کرتا تھا، تا کہ پسینے کی بو د بی رہے۔ گھاٹن لڑکی کی بغلوں کی بُو سے اُسے نفرت نہیں ہوتی بلکہ وہ بغلوں کو چومتا رہتا ہے ۔افسانے کے دوسرے حصّے میں۔ کچّے دودھ کی طرح سفید پستانوں والی اُس کی دلہن گوری چٹّی لڑکی اپنے ستر کو ننگے جسم سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے دوسرے پلنگ پر سوئی پڑی ہے۔ اُس کی بغلیں منڈی ہوئی ہیں اور عطرِ حنا کی خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی ہے ۔دلہن ایسی ہے جیسے ابھی ابھی بند صندوق سے نکالی گئی ہو۔ دلہن بی اے پاس ہے ۔جس پر کالج کے سینکڑوں لڑکے مرتے تھے ۔رندھیر کے دماغ میں گھاٹن لڑکی کی بُوسمائی ہوئی تھی۔ رندھیر نے انتہائی کوشش کی مگر وہ سہاگ رات منانے کے لئے جسمانی طور پر کامیاب نہ ہوسکا۔ دلہن کا جسم اور خوشبو رندھیر کی نبضیں تیز نہ کرسکے۔ رندھیر دلہن میں گھاٹن کی بُو تلاش کرتا رہا ۔بہر حال منٹونے ظاہر کیا ہے کہ رندھیر عارضی طور پر نامرد ہو گیا تھا۔
دراصل افسانہ دوطرح سے تخلیق ہوتا ہے ایک تو یہ کہا ہمارے ساتھ کوئی واقعہ گذرے کوئی سچائی ہمارے سامنے ہو اُس سچائی کو ہم اپنے اسلوب سے افسانے کا لباس پہنا دیں، کچھ کمی و بیشی کرکے، وہ افسانہ زندگی کے عین قریب ہوگا اور قابل یقین بھی۔ دوسری طرح افسانہ بنایا جاتا ہے۔ جو محض ہماری تصّوراتی مشقّت ہوتی ہے۔ مثلاً ہم نے ٹھان لیا کہ ہمیں بے وفائی پر افسانہ تخلیق کرنا ہے۔ پہلے ہم طے کریں گے کہ بے وفائی محبوبہ کی ہو۔ دوست کی ہو یا کسی دوسرے رشتے کی ۔ہم زیادہ تر محبوبہ کی محبوب سے بے وفائی کا ہی موضوع لیتے ہیں۔ خاتون افسانہ نگار مردوں کی بے وفائی کی طرف راغب ہوتی ہے۔ بہر حال ہم واقعہ کھڑا کریں گے اُس کی کڑیاں ملائیں گے واقعہ کے مطابق کردار کھڑے کریں گے۔ اس قسم کے افسانوں میں مشقت(ذہنی) زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارا فوکس ساری توجہ ہمارے موضوع یعنی بے وفائی پر رہتی ہے اور کہیں کہیں کمزوری رہ جاتی ہے۔ چاہے کتنا بھی دھیان دیں۔ہم اختتام تک افسانے کے تھیم کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں استاد نے بو کی تخلیق دوسری طرح ہی کی ہوگی۔ اُستاد نے ایک ہی نظریہ ایک جنسی نفسیاتی نقطہ پیش کرنا تھا۔ آغاز سے وہ ایک تھیم لے کر چلے تھے کہ آدمی جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے اُس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ خاص طور پر جنسی معاملہ میں۔ استاد کی فکر پر یہی بات سوار رہی کہ رندھیر کے دماغ میں گھاٹن کی بو رچ بس گئی تھی۔ وہ اُسی کو پسند کرتا تھا۔ وہ بُو ہی اس کے لئے جنسی اشتعال کی وجہ بنتی تھی۔ چلیئے ہم مان لیتے ہیں۔ مگر تھوڑی سی جنسی نفسیات تو ہم بھی جانتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ رندھیر گھاٹن کی بو کا غلام تھا۔ مگر جناب وہ گھاٹن کی بُو کا شاید غلام تبھی ہو سکتا ہے جب وہ بار بار گھاٹن سے جنسی ملاقات کرچکا ہو ۔مثال کے طور پر ایک آدمی پہلی بار شراب پیتا ہے کیا وہ ایک بار شراب پینے سے شراب کا عادی ہو جا ئے گا؟شراب کا عادی وہ دس بیس بار پینے سے ہی ہوگا ۔ایک بار پینے سے عادی نہیں ہوسکتا۔ جب وہ عادی ہوجائے گا تو شراب کے بغیر زندگی اس کے لئے سزا لگنے لگے گی۔ نشہ کوئی بھی لے لیجئے صرف ایک بار میں انسان کی عادت نہیں بنتا۔ نشے کے علاوہ آپ کسی بھی طرح کی عادت پہ غور کرلیں۔ فطری طور پر انسان عادی اسی چیز کا ہوتا ہے جسے بار بار استعمال کرے۔ کسی کو بے حد تیکھی مرچ کھانے کی عادت ہو کم مرچ والے کھانے اُس کو پھیکے ہی لگیں گے۔ کیا کوئی آدمی ایک بار تیکھی مرچ کھانے کے بعد ہی اُس کا عادی ہو جاتا ہے؟ایسا میرا سوچنا ہے کہ ایک بار میں کوئی عمل آدمی کی عادت نہیں بن جاتا ۔بُو میں استاد منٹو نے رندھیر کو گھاٹن سے ایک بار جنسی ملاقات کے سلسلہ میں ملایا ہے اور ایک ہی بار میں وہ گھاٹن کی بو کا عادی ہو گیا ۔ گھاٹن کی بُو ہے تو رندھیر مرد ہے بُو نہیں تو وہ مرد ہی نہیں۔ یہ بات ایک طرح ممکن ہو بھی سکتی ہے کہ اگر رندھیر ایک کنوارہ لڑکا ہوتا ٹین ایج اُس نے کبھی عورت کا مزہ نہ چکھا ہوتا۔ اُس کی خواہشات میں ہی عورت کا احساس ہوتا۔ وہ پہلی بار گھاٹن سے جنسی فعل کرتا۔ پہلی بار میں وہ اُس پہ مرمٹتا۔ وہ اُس کے خوابوں میں بس جاتی۔ تب اُس کی بُو کو وہ اپنی زندگی کا حصّہ مان لیتا وہ سوچتا۔ بُو ہے تو عورت کی لذّت ہے بُو نہیں تو عورت نہیں اُس حالت میں رندھیر کے حواس پر بُو چھا سکتی تھی۔ کیونکہ عورت کی شناخت اُس کے لئے بُو بن جاتی۔ مگر یہاں تو رندھیر عیّاش ترین آدمی ہے بقول اُستاد کہ وہ عورتوں کا رسیا تھا یعنی پلے بوائے تھا۔
آئیے اِس کے دوسرے پہلو پہ بھی غور کریں۔ رندھیر جیسا کہ اُستاد نے دکھایا ہے کہ وہ انتہائی نفاست پسند تھا۔ اُس کو پسینے کی بو سے سخت نفرت تھی وہ نہانے کے بعد اپنی بغلوں میں پائوڈر لگاتا تھا اور کوئی ایسی دوائی بھی استعمال کرتا تھا جس سے پسینے کی بدبو دب جائے۔ اس بات پہ مجھے اپنا ایک قریبی دوست یاد آگیا جو طبیعتاً بہت عیّاش واقع ہوا تھا۔ ایک دن اُس نے اپنی بیتی رات کی سچائی مجھے بتائی۔ کہ رات فلاں بندہ ایک انتہائی خوبصورت عورت میرے پاس لایا۔ میں عورت کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔چانس بھی اچھا تھا رات گھر پہ کوئی نہ تھا۔ میں عورت کو بیڈ روم میں لے گیا۔ کیا خوبصورت جسم تھا اُس کاا، بیان سے باہر ہے ، چاہتے ہوئے بھی میں اُس عورت سے جنسی فعل نہ کرسکا اور بیرنگ ہی بیڈ روم سے واپس آگیا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ عورت بلا کی حسین تھی جب اُس نے کپڑے اُتارے اُس کی بغلوں اور جانگھوں سے بدبو کے بھبھوکے نکلے جو ناقابل برداشت تھے۔ میرا موڈ خراب ہو گیا کوشش کے باوجود میں تیار نہ ہوسکا۔یہ بالکل سچا واقعہ ہے۔ دراصل میرا وہ دوست جیسا کہ اُستاد منٹو نے رندھیر کے بارے میں بیان کیا ہے، انتہائی نفاست پسند واقع ہوا تھا۔ دھول مٹّی گندگی سے اُسے چڑ تھی۔ وہ نہانے کے بعد بغلوں میں پائوڈر لگاتا تھا۔ خوشبو کا رسیا تھا جیسا کہ ’بُو‘ کا کردار رندھیر ہے۔ سوایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے جس پہ غور کیا جاسکتا ہے اگر رندھیر نفاست پسند تھا تو گندی گھاٹن لڑکی کو کمرے سے نکال باہر کرتا۔ یا پھر میرے دوست کی طرح وہ جنسی فعل کے لئے تیار ہی نہ ہو پاتا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایسی حالت میں ایسا بھی ممکن تھا۔ کیونکہ استاد نے رندھیر کو انتہائی نفاست پسند دکھایا ہے اور خود ہی لکھا ہے۔
حیرت ہے کہ رندھیر نے کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما۔ اسے بالکل گھن نہیں آئی۔ آپ اندازہ لگا ئیں کہ کارخانے میں کام کرنے والی گھاٹن لڑکی جو جھونپڑ پٹی میںہی رہتی ہوگی جو شاید ہفتہ میں ایک بار ہی نہاتی ہوگی۔
استاد نے موسم بارش کا اور سرد دکھایا ہے۔ بمبئی میں برسات شاید مئی کے پہلے ہفتہ میں شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بہتر تھا کہ رندھیر کو نفاست پسند دکھا کر ایک انپڑھ جاہل اور بوالہوس نوجوان دکھایا ہوتا اس بات کو شدّت سے ابھارا ہوتا کہ اُسے عورت کی سخت طلب تھی۔ ایسے آدمی کے لئے اپنی آگ بجھانے تک مطلب ہوتا ہے۔ وہ گندگی اور بدبو کی پرواہ نہیں کرتا ۔بہر حال استاد نے ’بُو‘ کی نفسیات کو بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے افسانہ لازوال اس لئے بھی بن گیا کہ اس کی اشاعت پہ فوری مقدمہ درج ہوگیا اور ’بُو‘ کی زبردست پبلسٹی ہوگئی ۔ بس منٹو کا بُو دنیا کے دس بہترین افسانوں میں شامل کردیا گیا۔ کسی نے لکھ دیا باقی مضمون نقاد حضرات پچھلے چھپے ہوئے معاملات کو دیکھ کر لکھ لیتے ہیں لکیر کے فقیر اسی کو کہتے ہیں۔ کوئی افسانے کی پرتوں کو کھول کر بھی دیکھتا ہے کہ یہ کیا تھا اور کیوں تھا۔
آئیے اب بُو کے کرداروں کی بات کریں ۔افسانہ تین کرداروں پہ کھڑا ہے۔ رندھیر ،گھاٹن لڑکی اور رندھیر کی نئی نویلی دلہن، جو محض ناکام سہاگ رات کے بعد آرام کی نیند سوتی ہوئی ہی دکھائی دیتی ہے۔ رندھیر بس رندھیر ہے۔ جو شاید تنہا ایک چوبارے میں رہتا ہے اُس کے آگے پیچھے کوئی نہیں وہ کیا کرتا ہے اُس کا سٹیٹس Statusکیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہاں استاد نے اتنا ضرور بتا دیا کہ فوجی گوروں کے مقابلہ میں رندھیر مہذّب، تعلیم یافتہ ، صحت مند اور خوبصورت تھا۔ ہندوستانی ہونے کے ناطے اُس پر قحبہ خانوں کے دروازے بند تھے۔ بس وہ چوبارے میں ہی رہتا ہے اُسی چوبارے میں اُس نے گھاٹن لڑکی کے ساتھ رات گذاری جو انتہائی کامیاب کوشش رہی۔ اُسی کمرے میں رندھیر نے اپنی سہاگ رات گذاری۔ اُس چوبارے کے ساتھ کنبہ کے باقی افراد رہائش پذیر تھے یا نہیں۔ کھانا رندھیر کہاں کھاتا تھا۔۔۔۔؟ کیا اُس کی گھریلو دنیا محض یہی ایک کمرہ تھی۔۔۔۔۔۔؟
رندھیر کی دلہن ۱۹۴۵ء میں بی ۔اے پاس تھی۔ جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی لڑکی تھی۔ جو اتنی حسین تھی کہ کالج کے سینکڑوں لڑکے اُس پر مرتے تھے۔ استاد ۔۔۔۔۔۔! مجسٹریٹ کیا احمق تھا۔ جس نے اپنی اتنی پڑھی لکھی اور انتہائی خوبصورت لڑکی رندھیر کو سونپ دی۔ جس کے آگے پیچھے کچھ نہیں تھا نہ اُس کا کوئی فیملی بیگ گرائونڈ تھا۔ نہ تو بہت بڑا بزنس مین تھا۔ نہ بڑا آفیسر تھا۔ بس استاد نے یوں موڈ میں آکر رشتہ جوڑ دیا۔ وہ خالق جو ٹھہرے، رندھیر کی شناخت استاد نے صرف یہ دی ہے کہ وہ اچھا پَلے بوائے تھا۔ لڑکیوں سے خاص طور پر عیسائی لڑکیوں سے جنسی ملاقاتیں کرتا تھا۔ افسانہ تخلیق کرتے ہوئے استاد بس بُو کا جنسی فلسفہ پیش کرنے میں محورہے یا پھر گھاٹن لڑکی کے صحت مند پستانون کی شان میں جذبات بھڑکانے والے جملے سجاتے رہے۔ کرداروں کا تعارف مکمل نہ دے سکے۔ اب گھاٹن لڑکی کی تکرار پورے افسانے میں ہے حالانکہ وہ رندھیر کے برابرکا کردار ہے۔ آپ اگر اُس کے آگے پیچھے کچھ نہیں دے رہے۔ کم سے کم اُس کو کوئی نام تو دے دیں بسنتی ، کانتا، چُٹکی، سلونی کچھ بھی۔ تا کہ اُس کا ذکر اُس کے نام سے ہو قاری سمجھ سکے۔ اُس کا افسانے میں ۱۵ بار ذکر ہے ہر بار گھاٹن لڑکی ہی لکھا ہے۔ ایسی کیا وجہ تھی کہ استاد اُس کو نام نہیں دے سکے افسانے کی یہ کون سی تکنیک ہے کہ مین کرداروں کو نام نہ دیا جائے شاید استاد نے اُس بے چاری کو انسان نہیں سمجھا۔بار بار گھاٹن لڑکی لکھنا افسانے کی خوبصورتی نہیں سمجھا جاتا۔
مجھے تو یہ افسانہ کم ڈرامہ زیادہ لگا جس کے محض دوسین بنائے گئے ۔ایک گھاٹن لڑکی کے ساتھ کامیاب رات گذارنا۔ دوسرا سین ناکام رات، ننگی اور بے خود سوئی ہوئی دلہن اورنامرد رندھیر ،تکنیکی لحاظ سے یہ افسانہ ہی ہے۔ ڈرامے کا شائبہ تک نہیں۔ دو تو مکالمے ہیں۔ مائیو بھی نہیں کہہ سکتے مانا یہ ڈرامہ نہیں، میری بات پر غور کرلیں۔ مان لیجئے استاد منٹو اس ڈرامے کے ڈائیریکٹر تھے اور وہ ’’بو‘‘ کے کرداروں کو حکم دیتے رہے۔ مثلاً گھاٹن لڑکی کو حکم ملا کہ بارش میں املی کے درخت کے نیچے کھڑی ہو جائو۔ ایک اجنبی نوجوان جو عیّاش طبع ہے تمہیں اشارہ کرے گا اشارہ پاتے ہی تم اُس کے چوبارے میں جہاں وہ تنہا رہتا ہے، چلی جانا بغیر سوچے سمجھے۔ شاید وہ بھی اکیلی ہی ہوگی رندھیر کی طرح اُس کے بھی آگے پیچھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ اُس نے رات کہاں گذاری اور کیوں؟ اُسے سخت آرڈر تھا کہ لڑکا تمہیں کپڑے اتارنے کو بولے گا تم کوئی حجت کیئے بغیر کپڑے اُتار کر اُس سے چمٹ جانا ہے اور ساری رات چمٹے رہنا ہے۔
دوسرے سین میں سرخ و سپید جسم کی مالک انتہائی حسین لڑکی جو رندھیر کی دلہن ہے۔ رندھیر سہاگ رات منانے میں سخت ناکام رہا ہے۔ لڑکی کو حکم تھا کہ وہ شوہر کی نامردی، جو ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے کہ قبول کرے اور عورت کی فطرت کے خلاف ، بے فکری کی نیند سو جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی لڑکی کے ساتھ اس سے بڑھ کر ٹریجڈی ہوسکتی ہے کہ اُس پرسہاگ رات کو راز کھلے کہ اُس کا پتی نامرد ہے۔ لڑکی گریجویٹ ہے۔ کالج گرل تھی ۔سینکٹروں لڑکوں کی پسندیدہ تھی اوپر سے مجسٹریٹ کی بیٹی یہ اشارے بتاتے ہیں کہ لڑکی بہت بولڈ تھی۔ اگر وہ بولڈ تھی تو وہ آرام سے لڑکے کی نامردی قبول نہیں کرے گی، وہ ہنگامہ کرے گی ،رندھیر کا مونہہ نوچ لے گی اور کہے گی کہ حرامی جب تجھے معلوم تھا کہ تو عورت کے قابل نہیں تو تو نے شادی کیوں کی۔۔۔۔۔۔؟ذرا غور کیجئے کہ یہ حادثہ کسی لڑکی کی زندگی کے لئے نارمل بات نہیں کہ اُس کا شوہر نامرد ہے۔ وہ اگر بزدل بھی ہے ۔انتہائی شریف لڑکی ہے۔ تو بھی عورت کی فطرت کے مطابق وہ بے فکری کی نیند سو تی نہیں رہے گی۔ اپنے مقدر پہ آنسو بہاتی رہے گی کیونکہ عورت کاماں بننا اُس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ رندھیر کی دلہن کو اتنے بڑے المیے کے بعد استاد نے بے فکری کی گہری نیند سلادیا۔ ہمیں ایک جنسی فلسفے کا سبق دینا تھاکہ جو مرد کسی بُو کا عادی ہو جاتا ہے وہ اسی بو سے چارج ہوتا ہے۔ خوشبو اُس کے لئے رحمت نہیں زحمت بن جاتی ہے۔ یہ سبق انہوں نے ہمیں کامیابی سے دیا ۔
باقی دیگر اور باتیں بھی ہیں جو کھٹکتی ہیں۔ پیپل کے پتوں کا باربار ذکر ہے۔ پتّے نہا رہے تھے ۔پتّے تھرتھرارہے تھے۔ پتّے کپکپا رہے تھے ۔پتے لرز لرز کر نہا رہے تھے۔ پیپل کے پتوں کا استاد نے با ر بار بلاوجہ کیوں ذکر کیا۔۔۔۔۔۔؟ کیا پیپل کے پتّے یہاں کوئی علامت کے طور پر استعمال کئے ہیں استاد نے ؟۔۔۔۔علامت ،تجرید اور تمثیل سے ہمیں کوفت ہوتی ہے ہم انہیں سمجھنے کے لئے ذہنی مشقت نہیں کرسکتے اگر پیل کے پتوں کا ذکر محض ہمیں بہلانے کی غرض سے کیا ہے تو بہتر۔ زمان و مکان کی بات کریں وہ یہ کہ گھاٹن کے ساتھ کامیاب رات رندھیر برسات کے موسم میں مناتا ہے ۔اسی طرح کا موسم اُس کی ناکام سہاگ رات کا ہے۔ کیا شادی اسی موسم میں ہوئی یا پھر ایک سال بعد ہوئی وہ بھی برسات میں۔ رندھیر گھاٹن لڑکی کو کہتا ہے کہ کپڑے اتاردو، سردی لگ جائے گی۔ برسات بمبئی میں شاید اپریل کے آخری دنوں یا مئی کے پہلے دنوں میں آتی ہے۔وہاں سردی نہیں ہوتی۔
’’بُو‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ استاد منٹو نے مرد کی ایک نفسیات پیش کرنے کی آڑ میں بلاوجہ افسانے کو ہاٹ بنادیا۔ عورت کے پستانوں پہ تو استاد مست ہو جاتے تھے۔ ایسے ایسے جملے استعمال کرتے خواہ مخواہ جی پھسلتا تھا۔
افسانہ ’بُو‘ تخلیق ہوئے تقریباً ستر سال ہو گئے۔ فحاشی کے حوالے سے اگر دور حاضر سے استاد کے زمانہ کا مقابلہ کریں تو بلاشبہ ہمارے دور میں فحاشی بڑھی ہے۔ انٹرنیٹ ،یو ٹیوب، ٹی۔وی اور فلموں میں کیا کچھ ہونے لگا ہے یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں۔ دور حاضر کو ہم فحاشی کا دور کہہ سکتے ہیں ۔فحاشی کے اس دور میں بھی اردو ادب پاکیزہ ہے۔ آج کل کوئی استاد منٹو کی طرح ننگے جملے استعمال کرتا ہے ؟استاد اُس وقت ایسے فحش جملے، فحش کہہ لیں یا جنسی جذبات بھڑکانے والے کہہ لیں۔ لکھتے تھے جب نوجوان طبقہ کوک شاستر اپنے بڑوں سے چھپ کر چوری چوری دیکھتا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو استاد نے زندگی کی گہرائیوں کو قریب سے دیکھا ، پرکھا اور برتا۔ وہ ادب برائے زندگی کے حامی رہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہے اُس کی قدروں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ عوام میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ سب سے الگ تھلگ تھے، ہٹ کر تھے۔جو بات کوئی نہیں کرتا تھا وہ بلا جھجک کہہ دیتے تھے۔ اپنی اس بے باکی، بولڈ پن کی وجہ سے انہوں نے بہت تکلیفیں اُٹھائیں۔ اخلاق اور شرافت کے ٹھیکیداروں نے اُنہیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ عدالتوں نے اُنہیں سزائیں دیں۔ کوئی تو بات تھی نا، قانون ایسے ہی تو کسی کو سزا نہیں دیتا ۔افسانہ تخلیق کرکے اُن کو انداز ہ ہو جاتا تھا کہ اس تخلیق پہ ہنگامہ ہوگا اُن کو انجام بھگتنا پڑے گا، اس کے باوجود استاد قلم سے سمجھوتہ نہیں کر پاتے تھے۔ بہر حال ’’بُو‘‘ ایک بہترین افسانہ ہے جس میں مرد کی ایک جنسی نفسیات کا اعادہ کیا گیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے۔
٭٭٭