علیشہ لیپ ٹاپ پہ معاذ کا گانا لگا کر بیٹھی تھی۔
وہ اردگرد سے بےگانا صوفے پہ بیٹھ کر پاٶں ٹیبل پہ رکھے ہوۓ تھی۔
کیا کر رہی ہو عالی؟؟؟؟
زارا دھپ کر کے اسکے پاس بیٹھی۔
میں نہ براٸیڈل شو دیکھ رہی ہوں۔
علیشہ ناراض سی بولی۔
أَسْتَغْفِرُ اللّٰه مطلب یہ معاذ چوہدری براٸیڈل شو بھی۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ جملہ مکمل کرتی علیشہ نے فوراً اسکا منہ بند کیا۔
کبھی تو سوچ سمجھ کر کچھ بولا کرو۔
ہاں تو تم نے خود ہی تو کہا۔
تم بات ہی مت کرو مجھ سے۔۔۔
علیشہ اس سے ناراض ہو گٸ۔
اچھا نہ سوری۔۔۔
ویسے ایک بات تو بتاٶ مجھے تم جو معاذ چوہدری کے پیچھے پاگل تھی اس سے ملنے کے لیے تم مرنے والی ہو گٸ تھی تو اب کیا ہوا تم نے تو اس سے بات بھی نہیں کی نہ ہی کوٸ آٹو گراف وغیرہ لیا نہ کوٸ سیلفی۔۔۔
تم سچ میں عقل سے فارغ ہو کیا زاروو۔۔
مجھے اپنی بے عزتی نہیں پسند۔۔۔
ہاں تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی وہ ہمارے گھر مہمان آۓ ہوۓ ہیں اور ادا کے دوست ہیں تو میں ان کی فین والی حرکتیں نہیں کر سکتی۔ اور ان سے فری ہو کر میں نے ماں سے جوتے نہیں کھانے۔ اور پھر جب وہ آۓ تبھی مجھ سے اتنا بڑا کارنامہ ہو گیا تو میں بھول گٸ اور پھر تم بھی تو اس سے چڑتی ہو تو اگر میں آٹو گراف لیتی تو تم میرا مذاق اڑاتی۔۔۔
کیاا میں اور تمہارا مذاق اڑاتی عالی تمہیں ایسا لگا کہ میں۔ زارا اسکی بات سن کر اچھل پڑی۔
ہاں تو اتنی تو تم براٸیاں کرتی ہو اسکی۔۔
یار وہ پہلے کی بات تھی تم دیکھو وہ ہمارے گھر میں آۓ اور بالکل فیملی ممبرز کی طرح ہی رہ رہے ہیں اور پھر آج میری ہیلپ بھی کی۔
جی بالکل میں نے ہیلپ کی اور کسی نے مجھے تھینکس کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ وہ اسے شرمندہ کرنا چاہ رہا تھا مگر زارا ڈھیٹ تھی اس پہ اثر نہیں ہوا۔ اور چلو علشہ میں تمہیں آج آٹو گراف دے دیتا ہوں۔
ہیںںں کیا سچی مچی۔۔۔
بالکل۔۔
میں ابھی اپنا فیورٹ بیگ لاتی ہوں اس پہ دینا۔ وہ بھاگتی ہوٸ اوپر چلی گٸ۔
جی تو مس زارا زرک میرا بیسٹ فرینڈ ہے اور میں اسکے ساتھ یہاں آتا جاتا رہا ہوں۔ اسلیے فیملی ممبر کی طرح ہوں۔
انفیکٹ لاسٹ ٹاٸم میں دو ہفتے رہ کر گیا ہوں اور دوبارہ بھی آنا تھا مگر میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔
تب تمہارے ادا میرے پاس پورے مہینے رہے تھے۔ تمہارے بابا اماں چچا چچی بھی آتے رہے تھے۔
بس دونوں کو ہی نہیں پتا کہ معاذ چوہدری تمہارے ادا کا فرینڈ ہے۔
وہ ساری بات کلٸیر کر رہا تھا اور زارا منہ کھولے اسے سن رہی تھی۔
یعنی کہ زارا راٹھور جو خود کو اتنا بڑا پھنے خاں سمجھتی تھی وہ اتنی بڑی بات سے لاعلم تھی۔
اور لاعلم تو وہ اور بھی باتوں سے تھی جو وقت آنے پہ کھلنی تھیں۔
*-*-*-*–*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
مہندی کی رات آٸ
مہندی کی رات
مہندی کی رات آٸ
مہندی کی رات
زرک کی مہندی تھی اور وہ چاروں لڈی ڈال رہے تھے۔
داٶد کو بہت مشکل سے انہوں نے ایگری کیا تھا۔
زارا علیشہ یہ معاذ چوہدری ہے نہ۔ انکی کزنز نے انکو گھیرا ہوا تھا۔
ہاں ہے تو۔
زارا بے نیازی سے بولی۔
یار ہمارے اسکے ساتھ ہیلو ہاۓ کروا دو نہ پلیز۔۔۔۔
تمہارے پاس اپنا منہ ہے نہ اس سے ہیلو ہاۓ کر سکتی ہو نہ تو جاٶ خود کر لو۔۔۔
زارا وہاں سے چلی گٸ۔
توبہ کتنا ایٹیٹیوڈ دکھا رہی ہے جیسے معاذ چوہدری اسکی ملکیت ہو۔
زارا۔۔۔۔ معاذ نے اسے آواز دے کے روکا۔
جی…
کچھ بات کرنی ہے اگر تمہارے پاس ٹاٸم ہو تو۔۔۔
مممم فنکشن کے بعد۔۔۔
نہیں ابھی بات کرنی ہے.
اوکے چلیں۔
وہ لہنگا سنبھالتے اسکے ساتھ چلنے لگی۔
آرام سے۔۔۔ وہ گرنے لگی تھی کہ معاذ نے فوراً کہا۔
جی میں ٹھیک ہوں.
ویسے جب انسان کو عادت نہ ہو تو ایسی چیزیں کیری بھی نہ کرے۔
معاذ نے صاف اسکا مذاق اڑایا تھا۔
آپ نے طعنے مارنے ہیں تو میں جاٶں۔۔ وہ ناراض ہو گٸ۔
اچھا بیٹھو پھر بتاتا ہوں۔
پھر معاذ نے اسے جو بتایا اس سے اسکی آنکھیں کھل گٸیں۔
گھر والوں نے جتنی باتیں اس سے چھپاٸ تھیں وہ سب سے مکمل باٸیکاٹ کرنے والی تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا نے کمرے میں آکر زرک کی شادی کا کارڈ دیکھا تھا۔ مغلیہ دور کے شاہی خطوں کے جیسا کارڈ اس نے کھولا تو اسے پڑھ کر اسکی آنکھیں نکل آٸی تھیں۔
آخر ان دونوں نے کارڈ دیکھنے کی زحمت کیوں نہ کی تھی۔
خیر کارڈ رکھ کر وہ وہ باہر آ گٸ۔
غاٸب دماغی سے سارا فنکشن اٹینڈ کرتی رہی۔
رسم کے لیے جب علیشہ کے بعد وہ زرک کے پاس بیٹھی تو زرک نے اسکی غاٸب دماغی محسوس کرتے ہوۓ اس سے ایکسیوز کیا۔
سوری زری جانتا ہوں مجھے تمہیں بتانا چاہیے تھا. مگر پھر تم عالی کو بتا دیتی اسلیے نہیں بتایا اور یہ پلان بھی معاذ کا تھا پلیز بات کو سمجھو۔
ادا آپ سب نے اتنی بڑی بات چھپاٸ مجھ سے۔ کیا میں اس گھر کی فرد نہیں ہوں۔
اسکی آنکھیں بھر آٸ تھیں۔
ام سوری زری پلیز سوری۔
بات ان دنوں کی دو سال سے طے تھی۔
ہم نے سوچا وقت آنے پہ بتا دیں گے۔
اور وہ وقت اب آیا کیا اور مجھے بتایا بھی کسی اور نے۔
زری میں نے معاذ کو تمہیں بتانے کو کہا تھا۔
جو بھی ہے ادا مجھے ہمیشہ یہ دکھ رہے گا۔
وہ اٹھ گٸ تھی وہاں سے۔
فنکشن کے بعد وہ علیشہ کو چھت پہ لے گٸ تھی۔
ارے زارووو کدھر جا رہے ہیں ہم۔۔؟؟؟
تم ادھر رکو میں آتی ہوں۔
پورا چھت تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
زارووو کہاں جا رہی مم مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
زارووو۔۔۔۔
تبھی پورا چھت روشن ہوا تھا۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گٸ۔
یی یہ سب۔۔۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اسکے شہر میں کچھ دن ٹھہر کر دیکھتےہیں
وہ شعر پڑھ کر مڑا تھا۔
آآ آپ۔۔۔
جی میں نے ہی آپکو بلوایا تھا۔
مم مگر کس لیے۔
بتایا تو ہے۔۔۔
کب؟؟؟
ابھی…
اسکا اشارہ شعر کی طرف تھا۔
وہ اب اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔
بات تو دو سال سے طے ہے مگر آج بھی تمہاری مرضی ضروری ہے۔ اگر تم نہ کر دو گی تو کارڈ نہیں بانٹے جاٸیں گے۔
اور اگر۔۔۔
اگر۔۔۔۔ عالی نے بات کاٹی۔۔۔
وہ خاموش ہوا تھا۔
پھر کنگن نکالے تھے جیب سے۔ مجھ سے شادی کرو گی علیشہ۔۔۔
اور علیشہ کی نظروں میں تو زمین آسمان گھوم گۓ تھے۔
وہ حیران کھڑی تھی۔
ان کی بات دو سال سے طے تھی اور اسے آج پتا چلا تھا۔
میں نے کہا نہ زبردستی نہیں ہے مرضی تمہاری ہو گی۔
جو تم کہو جیسا تم چاہو۔۔۔
علیشہ خاموش کھڑی تھی۔
وہ مایوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ پیچھے کرتا ۔۔۔
سنا ہے اسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
علیشہ نے مسکراتے ہوۓ ہاتھ بڑھایا تھا۔
وہ نہال ہوا تھا۔ اس نے محبت سے اسے کنگن پہنایا تھا۔
پھولوں کی برسات ہوٸ تھی۔ اور ساتھ ہی ساری لاٸٹس بھی آن ہوٸ تھیں۔
گھر کے سبھی لوگ موجود تھے وہاں۔
انہیں مبارکباد دے رہے تھے۔
علیشہ شرم سے سرخ پڑ گٸ تھی۔
عالی ام سو ہیپی فار یو۔۔۔ زارا کا ڈر ختم ہوا تو وہ بھی ہلکی پھلکی ہو گٸ۔
وہ عالی کے لیے بہت خوش تھی۔ تمہیں پتا ہے میں نے گھر والوں سے باٸیکاٹ کیا ہوا تھا مگر اب میں بہت خوش ہوں۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
بارات والے دن علیشہ شرماٸ شرماٸ سی پھرتی رہی تھی۔زارا نے اسے خوب زچ کر رکھا تھا۔
خاص طور پر وہ اسکے شعر سنانے پہ اسے خوب ہی تنگ کر رہی تھی۔
زرک کے ولیمے پہ علیشہ کے نکاح کے کارڈز بانٹے گۓ تھے۔
دو دن بعد علیشہ کی نکاح تھا۔
بھرجاٸ آپ کو پتا ہے ادا نے ہم سے اپنا پورا کمرہ صاف کروایا اور سجوایا بھی۔
اور نیگ بھی کم دیا ہم نے کہا جتنا آپکو بھرجاٸ سے پیار ہے اتنے روپے دیں تو سو روپے نکال کر دے دیے۔
دیکھ لیں ادا آپ سے کتنی کم محبت کرتے ہیں۔
اور پتا ہے بھرجاٸ عالی کو نہ۔۔۔۔
زارا اب دونوں کا ہی دماغ کھا رہی تھی۔
جبکہ زرک ندا کو اشارے کر رہا تھا کہ یہ دماغ سے فارغ ہے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
حماد سے پوچھتا ہوں زارون اب تک آیا یا نہیں۔۔۔
معاذ نے حماد کو کال کی تھی۔
نہیں سر زارون تو اب تک نہیں آیا ہے۔
اوہ اچھا چلو میں اسے کال کر لیتا ہوں۔
وہ زارون کو کال کر رہا تھا۔
کمرے میں زارا کا فون بج رہا تھا اور وہ نیچے بیٹھی پٹر پٹر کر رہی تھی۔
اس نے میسج چھوڑ دیا کہ وہ اسے کال کرے۔
دو گھنٹے بعد زارا کمرے میں آٸ فون چیک کیا تو معاذ کی کال تھی۔
اوہ نو میں کیسے بھول گٸ کہ میں نے معاذ سے ایک ہفتے کی ہی چھٹی لی تھی اب کیا کروں۔
اس نے فوراً واٸس چینجر آن کر کے اسے کال کی۔
ہیلو جی سر آپ نے کال کی تھی۔
سوری سر میں ذرا مصروف تھا۔
جی جی سر میں پرسوں پہنچ جاٶں گا۔
اچھا جب آپ آٸیں گے تب آٶں۔
جی ٹھیک ہے سر۔
افففف بچ گٸ۔
وہ کال کٹ کر کے پیچھے مڑی تو سامنے ہی علیشہ دروازے میں بازو باندھے کھڑی تھی۔
کیا تھا یہ سب۔۔۔؟؟؟؟
کیا اپنے باس کو کال کر رہی تھی۔
اور تمہارا باس معاذ چوہدری ہے۔۔
ہاں۔۔۔ وہ نظریں جھکاتے ہوۓ بولی۔
اور تم نے مجھے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔
سوری عالی مجھے لگا کہ شاید تم ملنے کی ضد کرو اور اگر تم ایسا کرتی تو آج ہم دونوں ہی پھنسے ہوتے دیکھو وہ ادا کا فرینڈ نکلا۔
جو بھی تھا زارووو تم سے یہ امید نہیں تھی تم نے اتنی بڑی بات چھپاٸ مجھ سے۔
سوری۔۔
اسے پتا ہے کہ تم اسکی باڈی گارڈ ہو؟؟؟
نہیں۔۔۔
تو پھر بات کیسے کی؟؟؟
واٸس چینجر سے۔
اور جب اسکے ساتھ ہوتی ہو تب۔۔۔
کم آن یار پہلی بات کہ ماسک ہوتا ہے دوسری بات ہمیں ٹریننگ ملتی ہے آواز بدلنے کی۔
اور اگر پتا چل گیا تو؟؟؟
تم نہیں بتاٶ گی تو نہیں پتا چلے گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*