آئی تو وہ بڑی ٹارزن بن کر تھی ۔۔۔۔
مگر بلند و بالا اندھیرے میں میں ڈوبی بوسیدہ بنگلے کی عمارت کے قریب پہنچ کر ایک لمحے کو اسے اپنے “شوقِ ایڈنچر” پر پچھتاوا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
مگر عین اسی وقت جب وہ پچھتاوے میں گھری تھی ۔۔۔۔ داود نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑکی سے اندر جانے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ جو اس نے ابھی ابھی توڑی تھی ۔۔۔۔
“یہ ہیں نا ساتھ میرے”
مطمئین سی ہو کر وہ اس کا سہارا لے کے کھڑکی کے دوسری طرف کود گئی تھی ۔۔۔۔
داود نے بھی فوراً ہی چھلانگ لگائی تھی ۔۔۔۔
خولہ کے ہاتھ میں ٹارچ تھا جبکہ داود نے موبائل کا ٹارچ کھول رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔
جہاں وہ اترے تھے وہاں دیواریں جالوں سے جبکہ زمین مٹی کی دبیز تہ سے چھپی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
“واو نہ ؟”
دانت نکوستی وہ اس کے پیچھے قدم بڑھا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
“مٹی اور جالے دیکھ کر ہی خوش ہونا تھا تو وہ تم اسٹور روم میں بھی دیکھ سکتی تھیں” ۔۔۔۔۔
وہ جلدی سونے کا عادی تھا ۔۔۔۔ رات کے ڈیڑھ بجے اس پاگل کے ساتھ پاگل پنتی کرتے ہوئے وہ اُباسی لیتا ہوا چڑچڑایا تھا ۔۔۔۔۔
“اس اسٹور روم میں میری ایک ٹانگ آ جائے وہی بہت ہے ۔۔۔ کتنے بورنگ ہیں آپ ۔۔۔۔ اگر یہاں کوئی جن بھوت نظر نہیں بھی آتے تو بھی یہ سب کتنا خوابناک سا لگ رہا ہے نہ” ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی روشنی اندھیرے میں بھی واضح تھی ۔۔۔۔۔
“تمہیں جن بھوت اٹریکٹ کرتے ہیں ۔۔ تنہیں اندیرے مٹی اور جالے اٹریکٹ کرتے ہیں ۔۔۔ اب سمجھ آیا تمہیں میں کیوں نہیں اٹریکٹ کرتا ! میں شہزادوں سا ۔۔۔ میری باتیں پھولوں سی ۔۔۔۔ میری آنکھیں جگنو سی ۔۔۔ میرے آس پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“بو ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ”
ناگواری سے اپنی بات بیچ میں روکتا وہ اگلے ہی پل کچھ ٹھٹھک کے اسے ٹوک بیٹھا تھا ۔۔۔
“خولہ ایسی جگہ پر یوں نہیں ہنستے”
“کیوں نہیں ہنستے ؟ میں تو ہنسوں گی”
“ہاہاہا”
مسنوعی قہقے لگاتی وہ آگے بڑھتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔
“یہ خاتون!!”
جھنجھلا کر وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا تھا جب خولہ کی دل خراش چیخ پر دیوانہ وار وہ اس حصے کی طرف بھاگا تھا جہاں وہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
“خولہ !!!! خولہ ؟؟؟؟ خولہ کہاں ہو یار” ؟
مسلسل آوازیں لگاتے داود کو اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس کی آواز میں نمی گھل گئی ہے ۔۔۔۔۔ ویران اندھیر بنگلے میں اس کی پکاروں کے سوا صرف اس کے اپنے قدموں کی آواز تھی ۔۔۔۔
مستقل خاموشی نے اسے وہشت زدہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
“خولہ ابھی اور اسی وقت تم میرے سامنے نہ آئیں تو میں اکیلے ہی یہاں سے چلا جائونگا ۔۔۔۔۔۔”
یکدم ہی رک کر اس نے خولہ کا نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اور اگلے ہی پل وہ غیض و غضب کا شکار اس کے سر پر تھا ۔۔۔۔ عین اس کے چہرے پر لائٹ مارتا وہ کچھ دیر تک جبڑے کسے اسے گھورتا رہا پھر خولہ کا باو تھام کر ایک جھٹکے سے اسے اس ٹیبل کے نیچے سے نکالا تھا جو کافی پرانی لگ رہی تھی مگر کافی اونچی تھی ۔۔۔ جس کے باعث وہ اس کے نیچے چھپ سکی تھی ۔۔۔۔۔
خاموشی سے وہ اس کا بازو چھوڑ کر واپسی کے راستے پر چل پڑا تھا ۔۔۔۔
اس کے تاثرات پر شرمندہ ہوتی خولہ اپنا مزاق انجوائے بھی نہیں کر سکی تھی ۔۔۔۔ بمشکل اس کے ساتھ ساتھ جلنے کی کوشش میں ہلکان وہ بالاخر اس کے سامنے آتی اسے رکنے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔۔۔
اچٹتی سی نظر اس کے چہرے پر ڈالتا وہ دائیں ہوا تھا ۔۔۔
خولہ بھی دائیں ہو گئی ۔۔۔
وہ بائیں ہوا ۔۔۔
خولہ بھی بائیں ہو گئی ۔۔
“کیا مسئلہ ہے ؟”
“آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟ ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہے ہیں ؟ ایک چھوٹا سا مزاق تھا ۔۔۔۔”
“چھوٹا سا مزق”؟
داود نے آنکھیں پھیلائیں ۔۔۔۔
“یہ میری اڑی ہوئی شکل دیکھو” اس نے لائٹ اپنے چہرے پہ ماری
“اور بتائو کیا وہ واقعی “چھوٹا سا مزاق” تھا ؟”
انگلیاں چٹخاتی وہ کچھ پر سکون ہوئی تھی ۔۔۔۔ داود نارم ہو گیا تھا ۔۔۔ ورنہ کچھ لمحہ پہلے وہ اس کے جو تاثرات دیکھ چکی تھی ۔۔۔ اسے اس اجڑے بنگلے سے زیادہ اس سے ڈر محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔
“اب کیا سوچ رہی ہو ؟ چلو ! یا اور بھی کوئی “ایڈونچر” کرنا ہے ؟”
کرنا تو تھا لیکن چھوڑیے ۔۔۔آپ ڈر گئے ہیں” !
مسکراہٹ دبا کر کہتی وہ اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔۔
“ہاں ڈر گیا تھا ۔۔۔ کہیں تمہیں کچھ نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تو ہو ہی پاگل میں بھی “اتنا بڑا مرد” ہو کے تمہارے ساتھ مل کر پاگلوں والی حرکتیں کر رہا ہوں”
بے ساختہ سی مسکراہٹ خولہ کے لبوں پر بکھری تھی ۔۔۔
وہ دونوں اس ٹوٹی کھڑکی تک پہنچے ہی تھے کہ کچھ گھسیٹے جانے کی آواز پر ٹھٹھک کے مڑے تھے ۔۔۔ پہلے آواز کی سمت دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو ۔۔۔۔
“چلیے” ۔۔۔ خوفزدہ سی خولہ اس کا بازو تھام۔ کے آگے بڑھی تھی جب بہت سے بچوں کے ایک ساتھ ہنسنے کی مدھم سی آواز ابھری تھی ۔۔۔۔
اب دونوں ہی کی سٹی گم ہوئی تھی ۔۔۔ گرتے پڑتے وہ دونو کھڑکی سے باہر کودے تھے ۔۔۔۔۔
اندھا دھند وہ دونوں کیچڑ اور کچرے سے بھری تنگ گلیوں سے بے پروہ بس بھاگتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔ بھاگتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ بھاگتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ اپنی گلی میں پہنچ کر دونوں ہی جھک کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھے گہری گہری سانسیں لینے لگے تھے ۔۔۔۔ سانسیں زرا قابو میں آئیں تو دل پر ہاتھ رکھ کے خولہ نے داود کو دیکھا اور کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے داود نے خولہ کو اور اگلے ہی پل ان کے حلق سے فلک شگاف قہقے بلند ہوئے تھے ۔۔۔
اب وہ دونو ایک دوسرے کو ہنسنے سے منح بھی کر رہے تھے اور ہنسنے سے بعض بھی نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔۔
“بس کر دو خولہ”!
داود پہلے سنبھلا تھا ۔۔۔۔
“ورنہ محلے والے خوفزدہ ہو جائینگے کہ شائد کوئی جن اور جنی کی جوڑی باہر گھوم رہی ہے”
“آپ کو جن کہیں گے تو کچھ غلط نہیں کہیں گے ۔۔۔ ویسے آپ پر “دیو” زیادہ سوٹ کرے گا” ۔۔۔
اس کے قد پر چوٹ کرتی وہ بولی تھی ۔۔۔۔
“ہاہ! ! کاش میں ہوتا جن ۔۔۔ جس پر چاہتا قبضہ کر لیتا” ۔۔۔۔ وہ معنٰی خیزی سے بولا تھا ۔۔۔ اور خولہ نے ہمیشہ کی طرح ان سنا کر دیا تھا ۔۔۔۔
گھر تک کا راستہ دونوں ہی نے بے دھیانی میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کاٹا تھا ۔۔۔۔
آج ہونے والے واقعے کے بارے میں ہی سوچتی خولہ داود سے اس بارے میں باتیں کرنا چاہتی تھی مگر داود کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔۔۔۔
کمرے کا کا دروازہ بند کر کے وہ آپس میں اپنے ہاتھ مسلتا نیچے لگے اہنے بستر پر لینے لگا تھا کہ نظریں خولہ کے چہرے پر اٹک گئیں ۔۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ خولہ نے سوتے ہوئے رخ اس کی طرف رکھا تھا ۔۔۔ ورنہ وہ چہرہ دوسری طرف موڑ کے ہی سوتی تھی ۔۔
بظاہر تو یہ بڑی معمولی بات تھی مگر کوئی داود سے پوچھتا
یہ معمولی بات اس کے لیئے کتنی خاص تھی ۔۔۔ جو اس کی ایک ایک جنبش میں کوئی جزبہ’کوئی اشارہ تلاشتہ رہتا تھا ۔۔۔
جزبات میں بہتا وہ بے ساختہ اس کی پیشانی چوم گیا تھا ۔۔۔ اور اگلے ہی پل جھینپ کر پورا کمبل میں گھس کر کروٹ بدل گیا ۔۔۔۔
آہستگی سے کروٹ بدل کر خولہ نے بھی کروٹ بدل کر اپنا چہرہ بھی لیحاف میں چھپا لیا تھا ۔۔۔۔ یہ الگ بات ہے لیحاف کے اندر اس کا چہرہ سرخ ٹماٹر ہو رہا تھا ۔۔۔ کچی پکی نیند میں وہ بغیر آنکھیں کھولے پیارا سا مسکرائی تھی
********
وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی وہ لمس خواب تھا یا حقیقت ۔۔۔۔ پھر بھی وہ داود سے کترا رہی تھی ۔۔۔۔۔
خود داود بھی اس سے نظریں چراتا پھر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس وقت جب خولہ نے ناشتے کی ٹرے اس کے سامنے رکھی تو دونوں کی نظریں چار ہوگئیں ۔۔۔۔
“کچھ لوگوں گے پاس سر چھپانے کو چھت نہیں ہے اور کچھ لوگ ایسی بڑی بڑی عمارتیں کھنڈر بننے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔ ”
ماحول کچھ نارمل کرنے کو وہ روانی میں بولی تھی ۔۔۔۔۔
“ہاں بلکل” بنا اس کی بات سمجھے وہ غائب دماغی سے اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگا ۔۔۔۔۔۔
اس “چول” کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور “جھیپتا جھانپتا” ہی وہ کام کے لیئے نکل گیا ۔۔۔۔
*******
“نہیں نہیں سومیہ باجی میں نہیں آ پائونگی ۔۔۔۔”
خوش اخلاقی سے معزرت کرتی وہ سخت کوفت کا شکار ہو رہی تھی ۔۔۔۔
“میری اور اجیہ کی بھی شادی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر تمہاری طرح ہم مئکے کو بھول نہیں گئے ۔۔۔۔”
(اور مجھے لگتا ہے پارٹیوں کے علاوہ آپ دونوں کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ آپ لوگوں کا سسرال بھی ہے) ۔۔۔۔۔۔
وہ سوچ کے رہ گئی ۔۔۔۔ عمارہ بیگم سے پتہ چلتا رہتا تھا کہ دونوں ہی ہر وقت سسرال میں ڈیرا ڈالے رہتی تھیں ۔۔۔۔
اجیہ کا سسرال نیا تھا سو وہ لوگ “نئے نئے” کا صبر کر رہے تھے ۔۔۔
مگر سومیہ کے سسرال سے شکائتیں آتی رہتی تھیں ۔۔۔۔
“تم آ رہی ہو اور بس آ رہی ہو ۔۔۔۔ میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی ۔۔۔۔ گاڑی بھجوائوں گی میں آٹھ بجے تک ۔۔۔ داود بھائی کو بھی ضرور لانا ۔۔۔۔”
قطیعت سے کہ کر وہ کال کاٹ چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔
“اب یہ نئی مصیبت ۔۔۔۔ نہیں جانا مطلب نہیں جانا ۔۔۔ کوئی زبردستی ہے ۔۔۔ گاڑی بھجوا دوں گی ۔۔ ہنہ ۔۔ ”
وه سومیہ کے سسرال والوں کے سامنے ہمیشہ احاس کمتری کا شکار ہو جاتی تھی ۔۔۔ اب تو احساس اور بھی جڑ پکڑ چکا تھا ۔۔۔۔
نہ جانے کا فیصلہ کرتی وہ گھر کے روز مرہ کے کام کاج میں لگ گئی تھی ۔۔۔ لیکن پونے سات بجے اس کا دل بے ایمان ہونے لگا ۔۔۔۔
بری کے تو سارے سوٹ وغیرہ
داود واپس کروا چکا تھا .. کى ان پر “ارباز کى چھاپ” تھى ۔۔۔۔ سو جہیز کا سب سے خوبصورت لباس نکالتی وہ اس “جائوں نہ جائوں” کی کشمش سے باہر نکل چکی تھی ۔۔۔۔۔
“میری شادی میں جو بھی ہوا سب کے سامنے تھا ۔۔۔۔ کب تک چھپوں گی ؟”
“چلی جاتی ہوں”
داود کو کال کی ۔۔۔
اس کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا ۔۔۔
اسے میسج کے زریعے اپنے جانے کا بتا کر وہ اسے واپس آنے تک اپنے دوست (جس کی دکان نزدیک ہی تھی) کی دکان پر انتظار کرنے کا کہ کر مطمئین ہو گئی تھی ۔۔۔
********
پارٹی اس کی توقح کے مطابق بور تھی اور اب اسے اپنے یہاں آنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔۔۔
عمارہ بیگم مدعو تھیں لیکن کنور (خوله کا بھائی) کے بخار کے باعث آنے سے رہ گئی تھیں ۔۔۔۔
وہ بیزار سی سفید چمڑی اور گولڈن بالوں والی دو آنٹیوں کو ایک دوسرے کے گال سے گال مس کرتا دیکھ رہی تھی جب سومیہ کی نند پریشان سی اس کے قریب چلی آئی تھیں ۔۔۔
“خولہ ؟
“جی”
وہ ان کے انداز پر پریشان ہو گئی ۔۔۔۔
“وہ ویٹر داود ہے ؟ تمہارا شوہر” ؟
چونک کر اس نے اپنی نظریں ان کی نظروں کے تعاقب میں گھمائی تھیں ۔۔۔
سومیہ وہاں سب کو بتاتی پھر رہی ہے ۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اور بھی جانے کیا کیا کہ رہی تھیں مگر سن ہوتے اعصاب اور سفید پڑتے چہرے کے ساتھ وہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔۔ جو ویٹر کی مخصوص یونیفارم میں بھی وہاں موجود بہت سے لوگوں سے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ بلکہ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ مگر !
خود کو گھسیٹتی وہ سومیہ کی نند کو نظر انداز کرتی داود کی طرف بڑھتی چلی گئی تھی ۔۔۔ اس کا سر جھکتا چلا گیا تھا اور آنکھیں بھیگتی گئی تھیں ۔۔۔
ہر کوئی اسے خود کو گھورتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔
“داود!”
جانی پہچانی سی پکار پر وہ جو ٹیبل پر پلیٹیں لگا ریا تھا چونک کے پلٹا تھا ۔۔۔
صرف ایک لمحے کو اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔۔ اس کے حال پر غور کرتا وہ بھی صورت حال سمجھ چکا تھا ۔۔۔ ایک اچٹتی نظر لوگوں پر ڈال کے وہ لب بھینچ گیا تھا ۔۔۔ بہت سے لوگ اسے اپنی طرف متوجہ محسوس ہوئے تھے ۔۔۔
“ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلیں ۔۔۔ اس سے پہلے کے میں کوئی تماشہ لگا دوں”
ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولتی وہ داود کو فکر مند کر گئی تھی ۔۔۔۔۔
“خولہ میں یہاں” ۔۔۔۔۔
“میں خود کشی کر بیٹھوں گی یا قتل کر دونگی کسی کا !”
اس کی بات کاٹتی وہ بھینچی آواز میں چیخی تھی ۔۔۔۔۔
کچھ لمحے وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر حیرت کی جگہ ہمدردی نے لے لی ۔۔۔۔
“آئو” اس کی حالت دیکھتے ہوئے اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلاتا وہ اسے سہارا دینا چاہتا تھا مگر جھٹکے سے اس کا بازو ہٹاتی وہ ہال کے دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔۔ کچھ دیر خالی سا دل لیئے کھڑا وہ بھی مرے مرے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔
********
موٹر سائکل پر اس سے قدرے فاصلے پر بیٹھی خولہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے ۔۔۔ کتنے ہی آنسو گال پر لڑھکنے سے پہلے ہی ہوائوں کے ساتھ اڑتے چلے گئے تھے ۔۔۔۔
گھر قریب آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔
گندی سندی بدبو دار گلی کو خولہ نے نفرت سے دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس کے بائک کھڑی کرنے سے پہلے ہی وہ آناً فاناً دراوزہ کھول کے اندر چلی گئی تھی ۔۔۔ جھکے کندھوں کے ساتھ جب وہ اندر داخل ہوا تو خولہ کچھ دن پہلے ہی لائے گئے سدا بہار پھولوں کے گملے اٹھا اٹھا کے زمین پر پوری قوت سے مار رہی تھی ۔۔۔۔
“خولہ” ۔۔۔۔
نام اس کے لبوں پر پھڑ پھڑا کر رہ گیا۔ ۔۔۔ جب اس نے خولہ کی آنکھوں میں اپنے لیئے شدید ناگواری دیکھی تھی ۔۔۔۔
“کیوں شادی کی تھی آپ نے مجھ سے ؟
آخر کیوں؟
لوگ تب بھی باتیں بناتے ۔۔۔۔ لوگ اب بھی باتیں بنا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ نہ کرتے مجھ سے شادی تو میں اب تک سنبھل بھی چکی ہوتی ۔۔۔۔ کم سے کم امی میرے پاس کوئی پناہ ہی ہوتی ۔۔۔ امی میری ڈھال بن جاتیں ۔۔۔۔ کسی کی سامنے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی ۔۔۔ لیکن اب مجھے منہ پر باتیں سننی پڑتی ہیں ۔۔۔۔ آگے بھی پتہ نہیں کتنی سننی پڑیں گی ۔۔۔ مجھے بتائیں ۔۔۔ مجھے بتائیں کہ جب آپ کی کوئی اوقات نہیں تھی تو کیوں کی مجھ سے شادی ؟ کیوں میرے روز روز شرمندہ ہونے کا سامان کر دیا ۔۔۔۔ کیوں میرے احاسِ کمتری کو بڑھانے کا سامان کر دیا ۔۔۔۔۔ مجھے اس وقت کتنی نفرت سی ہو رہی ہے آپ سے میں بتا نہیں سکتی آپ کو ۔۔۔ آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ساری غصے کی آگ بجھ گئی تھی ۔۔۔۔ دل و ذہن کا سارا غبار دھل گیا تھا جب بھڑکتے چیختے اس نے داود کے گال پر آنسو لڑھکتا دیکھا تھا ۔۔۔۔ دوسری آنکھ سے آنسو نکلنے سے پہلے ہی وہ آنکھیں مسل چکا تھا ۔۔۔۔ آہستگی سے سر ہلاتا وہ خاموشی سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔ جبکہ بھاڑ سا کھلا دروازہ بند ہونے کی کریہہ آواز پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی ۔۔۔
“داود”
بلکل داود ہی کی طرح اس کے بھی ہونٹوں پر نام پھڑپھڑایا تھا ۔۔۔۔
“یہ رو بھی سکتے ہیں؟
میں نے انہیں رلا دیا ہے ۔۔۔۔؟”
بے یقین سی وہ اکڑوں ہو کے زمین پہ بیٹھ گئی ۔۔۔۔ کافی دیر تک جب دماغ میں کچھ نہیں آیا تو صحن کا بکھراوا سمیٹنے لگی ۔۔۔۔
“ابھی آ جائیں گے تو میں ان سے معافی مانگ لوں گی ۔۔۔ وہ معاف کر دیں گے ۔۔۔ میری طرح نہیں ہیں وہ !”
خود کو مطمئین کرتے اس کی آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں ۔۔۔۔۔
….