بابا برما کے محاذ پر آپ کتنا عرصہ لڑے تھے؟ بیٹا۔ صرف تین ماہ۔ مزاحمت کی تھی مگر کمزور سی۔ کیوں؟ ۔۔ بزدل قوم لڑ نہیں سکتی ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے بزدل نہیں ہوتے گھنے جنگل جسم کو مضبوط بناتے ہیں روح نہیں۔ مضبوط جسم میں روح بیدار ہو ضروری تو نہیں۔ بابا۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ بیٹا۔ یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ جنگل۔ بزدل مضبوط جسم اور بے کار روح بے کار روح کیا ہوتی ہے؟ جسے انسانیت سے کوئی سرو کار نہ ہو۔ انسانیت کیا ہوتی ہے؟ انسانیت۔ امن ہے، قرار ہے، آرام ہے، محبت ہے، قانون ہے انصاف ہے۔
بابا۔ انگریزوں کے ساتھ رہ کر آپ بھی انگریز ہو گئے ہیں آپ تک سر پر ہیٹ پہنے ہوئے ہیں۔ ہاں، بیٹے یہ ہیٹ کسی کوHATEنہیں کرتا، نفرت نہیں سکھاتا ، یہ عزت نفس کی نشانی ہے۔ بابا سنو! انگریز، توسیع پسندانہ ذہن کا مالک تھا اس نے سازش سے دنیا فتح کی۔
اچھا؟ اور بے روح غلام بنتے رہے میرے بیٹے تمہاری روح بیدار نہیں ہے سودو زیاں سے تمہیں آگاہی نہیں ہے گلشن کے محافظ تنکے تنکے پر نظر رکھتے ہیں۔ تم کئی دنوں سے سوال و جواب بہت کرنے لگے ہو۔ بابا بیکار مباش کچھ کیا کر ۔بیٹا۔ بیکاری باتوں سے کاٹنے والے بھی بزدل ہوتے ہیں۔ تم میں بھی صلاحیتیں کم ہو رہی ہیں۔ تمہارا داد ا یہ بوڑھا ۔ برٹش آرمی کا نامی گرامی صوبیدار تھا انگریز بھی تعریف کیا کرتا تھا۔ حکم پر جان دینے والے کا نام جلال الدین ہے۔
بابا۔ حکم تو غلام مانتے ہیں۔ ؟؟؟
ہاں تم کہہ سکتے ہو۔ اپنے والد محترم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو جس نے ساری عمر کلر کی کی۔
بابا۔ آپ کون سی باتیں لے بیٹھے ہیں۔ طبیعت بور ہونے لگتی ہے۔ سنو بیٹا۔ برما کے محاذ پر ایک لڑکی کو دیکھا تھا آج تک اس کی شکل نہیں بھولی ہے۔
کیوں؟ وہ لڑکی انگریزوں کے خلاف جنگ لڑتی تھی اور ہزاروں لوگ انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کر رہے تھے پھر اس لڑکی کا کیا ہوا۔ اسے گولی مار دی گئی۔ غداروں کا یہی انجام ہوتا ہے سنو اس لڑکی کو گولی انگریزوں نے انہیں برمی نے ماری تھی۔
بابا ۔۔۔ بے چاری لڑکی
بیٹا۔۔ عظیم وطن پرست لڑکی تھی وہ ۔
کاش میری نسل میں بھی کوئی ایسی لڑکی ہوتی۔ ہاں۔ وطن کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ بیٹا۔ اپنے بوڑھے دادا کی خواہش کا احترام کرو وطن پرست بنو۔ اچھا اورسپاہی یہی چاہتا ہے۔نہیں، ہر گز نہیں خالی پیٹ وطن سے محبت نہیں کی جا سکتی اور تہی دست کے کیا خواب نہیں ہوتے۔ کاش تم برما دیکھ سکتے۔ دھوپ، سختیاں، ہولناک فضا، قدم قدم پر موت۔ نا آسودہ اور حکم۔
وہ سب کچھ۔ ان کوارٹروں میں نہیں ہے یہاں قدرے آرام ہے۔ سکون ۔۔ محبت ہے۔
پراگندہ خیالی سے دنیاسنواری نہیں جا سکتی مردوں کو سوچنے کی آزادی ہے مر د اس فکر سے آزادہیں۔ زندہ بنو۔ زندہ۔ مردوں کی طرح سے زندگی کس نے گزاری ہے۔ بابا۔ کل ہی کی بات ہے۔ جانے کون کہہ رہا تھا کہ زندگی غلام بن کر نہیں گزاری جا سکتی ۔ حقوق کو چھین لینا چاہئے۔
گھی جب سیدھی انگلی سے نہ نکلے، تو ٹیڑھی۔ ہاں ہاں۔ نو جوان ہو اور اپنی بوڑھے دادا زندگی گزارنے کا گر بتلا رہے ہو۔ عامر! مجھے تم سے محبت ہے۔ میں چاہتاہوں کہ تم مردوں کی طرح سے زندگی گزارو لیکن تمہاری باتیں سن کر میرا دل نہ جانے کیوں ہو ل جاتا ہے۔ نہ جانے کیوں۔ میری باتیں تمہیں بور کرتی ہیں اور وہ کون ہے جو تمہیں یہ راہیں بتلا رہا ہے کہ چھینو ۔ مارو۔ جھپٹو۔
بیٹا۔ مجھ سے زیادہ دنیا میں کوئی تمہاری ہمدرد نہیں ہے۔ تم میرے کمال دین کی نشانی ہو۔ تمہاری ماں اور میں نے تمہیں بڑ ے جتن کر کے پالا ہے۔ لیکن تمہاری باتیں۔ میرے دل میںکچھ وسوسے پیدا کرنے لگتی ہیں۔
بیٹا۔ ایک بات بتلائو۔ تم راتوں کو باہر کیا کرتے ہو۔ دیر سے گھر کیوں آتے ہو؟
بابا۔ دوستوں کی فکری نشستوں میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے یوں دیر ہو جاتی ہے۔ کیا تم سب مل کر کوئی ادارہ قائم کر رہے ہو؟ ہاں۔ ہم ایک کمپنی بنا رہے ہیں جو بے روزگاروں کے دکھوں کا مداوا کریگی۔ سرمایہ کہاں سے آئیگا؟
سرمایہ ہمارے ہمدردوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔ سب کا ٹھیک ٹھاک ہو رہے ہیں۔ اچھا ۔ سرمایہ ہے تمہارے پاس؟ میرے پاس نہیں۔ مگر کمپنی کے پاس بہت ہے۔ اس کمپنی میں تمہاری حیثیت ہم سب دوست ہیں اور ہم سب کا ایک رہبر ، رہنما ہے۔ ہمارا ہمدرد ، غم گسار تمہارا رہبر کیا کہتا ہے؟ وہ ہمیں گھنٹوں حقائق سے آگاہ کرتے ہیں کمپنی کی غرض و غایت اور نظم و ضبط کی تعلیم دیتے ہیں۔ مثلاً کیسے نظم و ضبط کی۔۔۔ تمام رشتوں کو بھول کر صرف رہبر کی بات کی جائیگی۔ وہ تمہارا مجھ سے بڑا ہمدرد ہے؟ ہاں۔۔۔ دادا حضور۔۔۔ ہاں۔۔۔بیٹا۔۔ اگر حکم عدولی کر بیٹھو تو۔۔۔
تو۔۔۔تو۔۔۔۔ دادا۔۔۔۔ سزا ہے۔ ناقابل معافی۔۔ ایک حقیر سی گولی۔ منچلوں کی باتیں مت کرو۔ میں تمہارا دادا ہوں۔ میر ی بات مانو۔ یہ سب باتیں چھوڑو۔ کل سے میں اور تم مل کر کوئی کاروبار کرتے ہیں ۔ دادا۔ سپاہی اور کاروبار۔ آپ چند دن اور انتظار فرمائیں۔ بس پھر۔ بیٹا میری بات مانو۔ دادا۔ اب کچھ مت کہنا ۔ آپ اپنا سوچئے۔مجھے اپنی زندگی گزارنے کے گر یاد ہیں۔ ہاں ۔ مجھے تمہاری آنکھ کی چمک، دھمک بوٹ داراور انداز لا پرواہی بہت کچھ بتا رہا ہے۔ دادا۔ غلط قیاس آرائی نہ کریں۔ غلط قیاس آرائی۔ میری آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ امر بیل درخت کو کیسے جکڑتی ہے ہر بھرے درخت کو ہی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں انسانیت کو تہہ و بالا نہیں کیا ہے۔ دوسروں کو ملک فتح کرنے میں مدد دی ہے۔
ہاں نظم و ضبط کا یہی تقاضا تھا مگر کیا تم بھی فتح کے خواہش مند ہو۔ہاں۔ میں بھی زندگی کی تلخیوں کو فتح کرنا چاہتا ہوں عیش و عشرت کے لئے ہی یہ کارخانہ بنا دیا گیا ہے۔ میرے بچے۔ عقل مند دنیا کو محبت سے فتح کرتے ہیں عیش و عشرت کے متلاشی ہی نفرت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ذاتی مفاد کیلئے انسانیت کو تباہ کرنے والا اخلاق سے عاری کبھی فتح مند نہیں ہوتے۔ وقتی خوشی ضرور حاصل کرتے ہیںاورساری عمر پچھتاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کا پچھتاوا ہے سرکاری کوارٹر میں زندگی بتانا کتنا عالی شان تصور ہے۔
سپاہی نظم و ضبط سے زندگی گزار لیتا ہے اس کی ہر بات سوچی سمجھی ہوتی ہے پچھتاوا میرے قریب سے نہیں گزرتا ہے۔ ہاں دادا۔ تم خوش قسمت ہو، میں نے روکھی سوکھی کھا کر بہت زندگی گزاری۔ اب ہم سے یہ مزید نہیں ہوگا۔ صبر و شکر مردوں کی شان ہے اور انسانیت کے پر وردہ جرائم سے پر ہیز کرتے ہیں۔ دادا۔ آپ مجھے مجرم کہہ رہے ہیں؟ ڈکیتی قتل ، اغوا، تاوان سب کے سب نو جوان جرم کر رہے ہیں۔ مگر دادا میرا نام ان میںشامل نہیں ہے۔ ہاں میاں۔ میں نے دنیا کی بڑی بڑی جنگیں لڑی ہیں میرا کون سا نام آگیا ہے سپاہی کا کام ہی لڑنا ہے۔ اور جب نوجوانوں کی بات ہے تو تم بھی نو جوان ہو ۔ اور ۔ جوانی باعث الزام ہوتی ہے۔ دادا۔ اس سے پہلے کہ عامر کچھ کہتا زور سے دروازہ پٹنے کی آواز آئی۔ عامر لپک کر باہر بھاگا تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے بر آمد ہوا عامر باہر جانے سے پہلے میری بات سنو۔ تم جو کچھ بھی لے کر جا رہے ہو۔ یہ کھلونے ان بوڑھے ہاتھوں میں بارہا آئے ہیں۔ میں نے قبل از وقت تمہارا نوحہ تمہارے سامنے پڑھ دیا ہے۔
دادا بیکار باتیں مت کریں۔ میں ابھی آتا ہوں۔ عامر باہر مت جائو گولیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ بارود کی بو میرے نتھنوں میں در آئی ہے۔ آگ اور خون کا کھیل مت کھیلو۔عامر جلال دین کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی باہر جا چکا تھا۔ جلا ل دین نے ایک سرد آہ بھری اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا نہ جانے کیوں میرے سیدھے کاندھے پر وزن محسوس ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭