ڈاکٹر بلند اقبال(کینڈا)
دین محمدنے پیٹی کھولی اور مال پر نظر ڈالی ۔۔
بھیڑوں اور دنبوں کی سوکھی ہو ئی رنگ دار کھالیں تہہ در تہہ ایک دوسرے پر قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ہر ایک کھال اپنے زخم خوردہ ماضی سے بے نیاز ، ایک دوسرے سے بنا بدن ہی جڑی ،درد کے رشتے بانٹ رہی تھی اور چپکے چپکے آپس میں مل کر اپنے اور انسانوں کے درمیان اِس بھیانک رشتے پرقدرت سے شِکوہ کررہی تھی۔دین محمد نے ایک اُچٹتی سی نظر تمام کھالوں پر ڈالی اور پھر نہ جانے کس خیال سے سب سے اوپر رکھی کھال پیٹی سے نکال کر اُس کو قریب پڑے لکڑی کے تختے پر بچھا دیا ’’اُونہہ ۔۔اس قدر چھوٹی کھال ۔۔آج کل لگتا ہے سالوں کو بڑی بھیڑیں بھی دستیاب نہیں ۔۔دیکھو تو ،لگتا ہے کوئی میمنا ہی ذبح کردیا ۔۔اب اس سے کیا خاک جیکٹ بنے گی ۔۔ہاں شاید سر کی ٹوپی بن جائے‘‘۔دین محمدخود سے بڑبڑایا ،’’خیر مجھے کیا ۔۔کارخانے والوں کے دھندے وہ ہی جانے ۔۔سالامیں نے کوئی ٹھیکہ لیاہے ۔۔ جیسا مال آئے گا ویسا ہی سپلائی کرونگا نا‘‘،یہ کہہ کردین محمد نے لکڑی کے تختے سے کھال اُٹھاکر پیٹی کے اوپر ہی پٹخ دی، اچانک اُسے لگا جیسے ایک تیز چھبتی ہوئی بو اُس کھال سے نکل کر اُس کے نتھنوں کے راستے مغز کی نچلی تہہ کو چیرتی چلی گئی ۔ لمحے بھر کے لیے تو جیسے وہ اپنے سارے ہوش ہی کھو بیٹھا ،اُسے لگا جیسے ایک ننھا مُنا ر یشم کے گو لے جیسا بھیڑکا بچہ اُس کی گود میں پڑا درد سے کراہ رہا ہے ۔۔اور پھر کچھ ہی دیر میں اُس کے حواس بہتر ہوتے چلے گئے۔ چند دنوں میں دین محمد کو لگا جیسے وہ بو نہ صرف اُس کی ناک میں بُر ی طرح سے بس گئی ہے بلکہ اُس کے چاروں طرف پھیل سی گئی ہے ۔۔۔ دوکان کے ہر ایک کونے سے دیواروں اور چھتوں کے کوارڑوں تک ، کھڑکیوں اور دروازو ں سے گلیوں اور محلوں تک ، کھانے اور پانی سے دوستوں اور رشتے داروں تک ۔۔سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے بس یہی بواُس کو متلائے رکھتی تھی ۔
دین محمد پچھلے پچیس سالوں سے چمڑے کی جیکٹس اور جوتوں کے کارخانوں کو سوکھی ہوئی رنگ دار کھالوں کی سپلائی کا دھندہ کررہا تھا ۔ وہ قریب و جواد کے ذبح خانوں سے ہر ہفتے تازہ کٹی ہوئی دنبوں اور بھیڑوں کی کھالوں کو پیٹیوں میں اُٹھاتا ، اپنے ٹوٹے پھوٹے ٹرک پر لاد تا اور اڑھائی تین میل کے فاصلے پرشیر زمان رنگ ریز کی دوکان پر پھینک آتا ۔۔شیر زمان رنگ ریز پچھلے کسی زمانے میں روپٹوں اورقمیص شلواروں کو کچے پکے رنگوں سے رنگا کرتا تھا مگر پھر جب اُس نے کپڑوں کے ساتھ ساتھ چمڑے رنگنے کا دھندہ بھی شروع کردیا تو اُس کے کپڑے رنگوانے والے گاہک ایک ایک کرکے غائب ہوگئے ، کم وبیش ہر ایک گاہک نے رنگے ہوئے کپڑوں میں مرے ہوئے جانوروں کی بو کی شکایت کی تھی حالانکہ اُس نے گاہکوں کو کتنا ہی جتایا تھا کہ کپڑے رنگنے کے برتن اور کھالیں رنگنے کی کڑھایوں میں زمین آسماں کا فرق ہے مگر شک کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا ،وہ تو محض ایک معمولی رنگ ریز تھا۔ اور پھر کچھ عرصے میں خود شیر زمان کو بھی صرف چمڑے رنگنے میں ہی مزا آنے لگا ۔ وہ پہلے پہل کھالوں کو کئی گھنٹوں تک نمک ملے گرم پانی میں خوب ہی اُبالتا ، پھراُنہیں دیر تک کافور کی دھونی دیتا اور پھر مچھلی کے تیل کے ڈبے میں ڈبکی دے کر لکڑی کیِ سل پربچھا دیتا اور ڈنڈوں سے خوب ہی پیٹتا اور پھر اُنہیں رنگنے کے لیے کڑاہی میں چھوڑدیتا ،اُس کو پورا یقین تھا کہ اس ساری ورزش کے بعد چمڑے سے مرے جانور کی بوایسے ہی نکل جاتی ہے جیسے قصاب کی چھری پھرنے سے جانور کی روح ۔۔
آخرکار تھک ہار کر دین محمد نے حکیموں، طبیبوں کے مطب خانوں سے لے کر پیروں فقیروں کے آشیانوں تک کے چکر لگانے شروع کر دیے مگر اُس کی مایوسی میں اُس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب اُسے وہاں بھی علاج کے بجائے اِسی بو سے سابقہ پڑنے لگا۔ تھک ہار کر ایک شام وہ شیر زمان کی دوکان پرپہنچا ، اُسے خیال آیا کہ ہو نہ ہو اُس کی اِس حالت کا ذمہ دار شیر زمان ہی ہے ۔اُسے یقین ہوچلا تھا کہ شیر زمان کے گاہکوں کا کہنا بجا تھا۔۔ وہ کھالوں کو اچھی طرح دھوتا ہی نہ ہوگا اسی لیے تواُن کے کپڑوں سے بھی مرے ہوئے جانور وں کی بو آتی تھی۔
اور پھراِس سے قبل کہ وہ غصے میں شیر زماں کی دوکان کا دروازہ زور زور سے بجاتا اُسے لگا جیسے بند دوکان کے اندر کوئی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہے ۔دین محمد نے اپنے سارے غصے کو ایک ہی سانس میں اپنے سینے میں گھو نٹ دیا اور دھیمے سے دروازے کا ایک پٹ سرکا کر دوکان کے اندر جھانکا ۔۔اُسے لگا جیسے دوکان کے باہر کی روشنی دروازے کی کھلتی دراڑ سے یکا یک نکل کر دوکان کواندر سے روشن کرگئی اور شیر زمان کے روتے ہوئے سایے کو زمین سے کھینچ کر چھت تک لگاگئی ۔دین محمد نے حیرت و استعجاب سے روتے ہوئے شیر زمان کو دیکھا جو دوکان کے ایک کونے میں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ سر دیے بلک بلک کر رو رہا تھا ’’ابے سالے تجھے کیا ہوگیا ، کیوں بلک بلک کر رو رہا ہے ، تیرے بیوی نہ بچے ، سگے نہ سو تیلے ۔۔مری ہوئی بھیڑوں کی سڑی ہوئی کھالوں کی بو سے میرے نتھنے پھٹے جارہے ہیں اور تو ہے کہ بچوں کی طرح یہاں بلک رہا ہے ،‘‘دین محمد نے شیر زماں کوِچمکار کر کہا ۔
شیر زمان نے اپنی روتی ہوئی ڈ بڈباتی آنکھو ں سے دین محمد کو دیکھا اور کہا ’’ پگلے جب بو بہت تیز ہو تو وہ آنکھ کا آنسو بن جاتی ہے ۔تو نے تو صرف پیٹی کی ایک کھال سونگھی تھی ،میں نے تو اُس کی ساری ہی کھالیں رنگیں تھیں۔۔۔جس شہر میں لوگ بھیڑوں کے ریشم جیسے بچوں کی کھالوں کی ٹوپیاں اور جیکٹس فیشن کے طورپر پہنتے ہوں وہاں آنکھوں میں آنسو اور ناکوں میں مرے ہوئے بچوں کی بو ہی بستی ہے ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔