تقریباً بیس برس بعد جب وہ دہلی کے اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر اُترا تو اُسے سب کچھ نیا نیا سا لگا۔ پہلے تو یہ سب کچھ نہیں تھا۔ تمام پروازیں پالم ہوائی اڈّے سے پرواز کرتی تھیں۔ چھوٹا سا ہوائی اڈّہ تھا، لوگ اندر تک چھوڑنے آیا جایا کرتے تھے، کوئی پابندی نہیں تھی۔ اب ہوائی اڈّہ بھی بڑا ہے اور سیکوریٹی بھی سخت ہے۔ وہ جانتا تھا کہ دہشت گردوں کے خوف نے سب سختی کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ وہ سوچنے لگا آدمی نے آدمی کی زندگی کو کیوں اتنا تنگ کر دیا ہے۔ کیوں ہر آدمی خوف کی زندگی گزار رہا ہے۔ ایئر پورٹ سے باہر نکل کر وہ ٹیکسی میں سوار ہوا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کے پوتا پوتی تھے۔ ٹیکسی چوڑی چوڑی سڑکوں پر تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی، اُسے برسوں پہلے کی سڑکیں یاد تھیں۔ وہ اپنے اندر ملک کی اس قدر ترقی دیکھ کر خوشی محسوس کر رہا تھا اور دل کے کسی گوشے میں ملک چھوڑنے کا افسوس بھی پیدا ہونے لگا تھا۔ اُسے اپنی مٹّی اور ہوا کی خوشبو سانسوں میں اڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے اندر ایک بچپن کی سی ہُوک اٹھنے لگی تھی وہ بہت جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ٹیکسی شیر شاہ سوری مارگ پر آ گئی تھی، اُسے آگرہ جانا تھا، آگرہ جہاں اس کا بچپن گزرا تھا، جہاں وہ جوان ہوا تھا، جہاں اس نے محبت کی تھی اور جہاں سے ایک دن وہ رخصت ہوا تھا۔ بچّے بڑی دلچسپی سے باہر کا نظارہ دیکھنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے دادا سے انڈیا کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ اور اس کی بیوی بولنے کی خواہش کے باوجود بھی کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔ راستے کی طوالت گراں گزر رہی تھی۔ عائشہ کہ جس نے زندگی کے چالیس برس کا سفر اس کے ساتھ گزار دیا تھا، نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا:
’’میرا تو دل گھبرا رہا ہے، اتنے برسوں کے بعد سب کو دیکھوں گی‘‘
’’گھبرانے کی کیا بات ہے، اتنی مدّت میں سب ہی کچھ تو بدل گیا ہو گا۔‘‘ وہ عائشہ کو ہمت تو دے رہا تھا لیکن وہ خود اپنے اندر گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا۔
’’ہاں بدل تو گیا ہی ہو گا، ہم بھی تو جب یہاں سے گئے تھے تو فاطمہ اور ظفر چھوٹے چھوٹے تھے۔ آج ان کے بچّوں کو لے کر آ رہے ہیں۔‘‘
عائشہ گزشتہ دنوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے بھی سب یاد آنے لگے۔ ’’بھائی جان اور بھابی جان تو بوڑھے ہو گئے ہوں گے۔ جب میرے ہی بال سفید ہو گئے۔ بچّے تو پہچانیں گے بھی نہیں۔ خدا جانے کون ہو گا، کون نہیں ہو گا۔ ہمارا بن باس تو رام چندر جی کے بن باس سے بھی لمبا ہو گیا۔ سنا ہے تمہارے بھائی صاحب تو بہت بڑے industrialist ہو گئے ہیں۔ وہ تو پہچانیں گے بھی نہیں۔‘‘
’’وہ تو اسی وقت کم پہچاننے لگے تھے جب ہم یہاں تھے وہ تو سب کچھ بھابی کی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہیں کے کانوں سے سنتے تھے۔ سنا ہے ان کے بچّے امریکہ میں ہیں۔ جن بچّوں کے لئے انہوں نے سب کچھ چھوڑا، آج وہی انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ عائشہ بھی بھائی بہنوں کو یاد کر کے جذباتی ہونے لگی۔
’’دولت بھی عجیب چیز ہے، اپنوں کو اپنوں سے دور کر دیتی ہے۔‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہا:
’’تم تو سب جانتی ہو ہم سب بھائی بہن ایک ہی آنگن میں ماں باپ کے سائے میں کس قدر خوش حال زندگی گزارتے تھے۔ پھر سب بڑے ہو گئے، سب کے گھر بس گئے۔ ماں باپ گزر گئے۔ رشتوں میں فاصلے پیدا ہوتے چلے گئے جو بھائی بہن ایک دوسرے کے دُکھ سکھ کے شریک تھے، انھیں ایک دوسرے کی باتیں بُری لگنے لگیں۔‘‘
عائشہ کا درد اس کی زبان پر آنے لگا:
’’گھر تو ماں باپ سے ہوتا ہے۔ ان کے بعد تو اینٹ پتھّر کی دیواریں رہ جاتی ہیں۔ میرے ماں باپ تو مجبور تھے، اس لئے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ بیٹے اور بہو کی بُری بات بھی انھیں اچھّی لگتی تھی۔‘‘
بھائی کے رویے کو دیکھ کر عائشہ بھی اس کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ملک چھوڑنے کو تیار ہو گئی تھی۔ چار بہنوں کے بیچ اکلوتا ہونے کے سبب سب کی محبت نے اُسے بچپن ہی سے احساس برتری دلا دیا تھا اور پھر ایک دن اتنا بڑا ہو گیا کہ ماں باپ بھی سعادت مند اولاد کی طرح اس کا حکم ماننے لگے۔ بھائی پر جان نچھاور کرنے والی بہنوں کا گھر کے معاملات میں دخل دینا اسے گراں گزرنے لگا۔ اور ایک دن یوں بھی ہوا کہ اس کی عالی شان کوٹھی کے دروازے بہنوں کے لئے بند ہو گئے۔ راکھی کے دھاگے ٹوٹ گئے۔ مجبور ماں باپ اُف بھی نہ کر سکے۔ عائشہ کو سب کچھ یاد تھا۔ ماں باپ کی مجبور آنکھیں اور بھائی بھاوج کا حاکمانہ رویہ …… وہ ٹوٹتے رشتوں کے درد کی تکلیف ہی کو تو برداشت نہیں کر سکی تھی اور اس نے بھی چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ساتھ ہجرت کرنے کا فیصلہ لے لیا تھا۔
وہ سچ بولنے کی سزا پا رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ دنیا سچ بولنے والوں کے لئے نہیں ہے۔ یہاں وہی کامیاب ہے جس میں بُرائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنے کی طاقت ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت نہیں تھی اسی لئے وہ اپنے بھائی بہنوں اور متعلقین میں ناپسندیدہ شخصیت تھا۔ ایک بار جب اس نے ایک بزرگ سے اپنے تئیں نفرتوں کا سبب جاننے کی کوشش کی تو جواب ملا:
’’تمہارے اندر برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن برائی کو برائی نہ کہنا بزدلی ہے۔‘‘ وہ بیتابانہ انداز میں کہتا
’’برائی معاشرے کا حصہ بن چکی ہے، تمہیں زندہ رہنا ہے تو مصلحتاً خاموش رہنا ہو گا ورنہ رسول اکرمﷺ کی طرح ہجرت کرنی پڑے گی۔‘‘
بزرگ کی اس بات سے اسے سب کچھ یاد آ گیا تھا۔ رسول اللہﷺ کو ہجرت کے لئے مجبور کرنے والے بھی تو ان کے عزیز تھے۔ انہوں نے بھی تو اپنے عزیزوں کی بے رُخی کو دیکھ کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سب ہی نے تو انہیں چھوڑ دیا۔ وہ سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا ہو گیا تھا، اس کی وہ بہنیں جنھیں انگلی پکڑ کر اُس نے چلنا سکھایا اُسے حقارت سے دیکھنے لگی تھیں۔ رشتوں کی گھٹن اور تنہائی کے کرب ہی نے اُسے ہجرت کے لئے مجبور کیا تھا۔
۔۔گھر جیسے جیسے قریب آ رہا تھا اس کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سب کا رویّہ کیسا ہو گا۔ بیس برس تک وہ سب سے بے تعلق رہا تھا۔ بیس برس پہلے کی نفرتیں اس کے دل سے محو ہو چکی تھیں۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں وہ سب کو دیکھنا چاہتا تھا۔ عائشہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:
’’اب تم کچھ بھی کسی سے نہیں بولنا، خاموش رہنا۔ پُرانی باتوں کو دُہرانے سے تکلیف ہی ہو گی۔‘‘
اور اُس نے ایسا ہی کیا۔
اُس کے آنے کی خبر پا کر اس کے بھائی، بہن اور عزیز و اقارب اتنی جلد یکجا ہو گئے جیسے کسی کی موت پر فوراً بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ بہت دیر تک ایک جذباتی ماحول رہا۔ بیس برس کے آنسو آنکھوں سے بہے اور جب خشک ہوئے تو پھر وہی طنز کے نشتر بن کر وار کرنے لگے۔ وہ سب کچھ سنتا رہا، بالکل خاموش رہا، اس بار وہ خاموش رہنے کی قوّت ساتھ لے کر آیا تھا۔ اس کی مستقل خاموشی دیکھ کر اس کے پوتے نے اس سے کہا
’’دادا جی آپ کچھ جواب کیوں نہیں دیتے، بولتے کیوں نہیں؟‘‘
’’نہیں بیٹا کامیابی بولنے میں نہیں خاموش رہنے میں ہے۔ ہمیں اس معاشرے میں اگر رہنا ہے تو زبان اور کانوں کو بند کر کے رکھنا ہو گا۔‘‘
اس کی یہ بات سُن کر سب چپ ہو گئے۔ اس نے عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’عائشہ کل بچّوں کو تاج محل دکھانے لے چلیں گے کہ ہندوستان میں وہی ایک محبت کی نشانی باقی ہے۔‘‘
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...