گلزار(ممبئی)
یہ دوسری بار ہے کہ میں ایوب خاور کے مجموعے کے لیے پیش لفظ لکھ رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ پیش پیش ہیں اور میں پیروی کررہا ہوں۔
اُس مجموعے اور اِس مجموعے کے درمیان قریب پانچ سال کا وقفہ ہے۔ یہ بلند قامت شخص چلتا بھی ہے تو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہے۔ ادب کے صفحوں پر بھی وہ ایسے ہی قدم اُٹھاتا ہے۔ ایک ذاتی خیال ہے میرا کہ تخلیق میں وقفے ضروری ہوتے ہیں۔ کہیں رُک کر سانس لینا اور پھر چلنے لگنا، کہیں سیدھی راہ چھوڑ کر،کوئی موڑ مڑجانا، یا اچانک کوئی پگڈنڈی سر اُٹھا کر دیکھے تو کچھ دیر اُس کے ساتھ چل دینا۔ وہ کسی شاہراہ سے جاکر نہ ملے تو خود ہی کوئی نئی راہ نکال لینالیکن وقفے ضروری ہوتے ہیں،خود بینی کے لیے،ورنہ تخلیق کار، خصوصاً شاعر،خود کو دُہرانے لگتا ہے اور اکثر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاعر اُسی راہ سے واپس لوٹ رہا ہے جس راہ سے آگے جارہا تھا۔
لیکن زندگی تومسلسل واقع ہوتی رہتی ہے ۔ وہ تو وقفہ نہیں لیتی۔ رُکتی نہیں، اور تخلیق کار، اگر ایوب خاور جیسا حساس شاعر ہو تو وہ کیسے رُک جائے۔ اُس کی اُپج تو سانس بھی نہیں لیتی۔ زندگی مسلسل اُس کے اندر اُبلتی رہتی ہے اور وہ اُس کی بھاپ کو روک نہیں پاتا۔ اب وہ نئی نئی راہیں تلاش کرتا ہے اور نئے نئے شعبے اختیار کرلیتا ہے۔ اِسی پانچ سالہ وقفے کے دوران ایوب خاور اپنے منظر ناموں میں پہلے سے زیادہ چمک اُٹھے۔ فلموں میں اُن کے نغمے بھی سنائی دیے اور ٹیلی وِژن پر اُن کی موجودگی پہلے سے کہیں زیادہ نکھر آئی۔
پانچ سال بعد،وہ ایک بار پھر اُس شاہراہ پہ بھی نظر آرہے ہیں جس کا نتیجہ اُن کا تازہ ترین مجموعۂ کلام ہے۔
پچھلے مجموعے میں کہاتھا۔
ساری دنیا میں ایک تم سے ہی
اب ملاقات نہیں ہو پاتی
اب فرماتے ہیں۔
اگر ہم مل نہیں سکتے، یہ دِل اب کھِل نہیں سکتے
تو پھر تکیے کو منہ پر رکھ کے رونا کیا ضروری ہے
پہلے کہا تھا۔
دل کی رگ رگ نچوڑ لیتا ہے
عشق میں یہ بڑی مصیبت ہے
اب فرماتے ہیں۔
عشق تو خیر کہاں کا تھا ، مگر جانِ جہاں
نوکِ مژگاں میں مہ و سال پرونے پڑے ہیں
اِک وحشتِ بے نام نہیں چھوڑتی دل کو
اِک ہجر ہے اور ریت کا اُڑتا ہوا دریا
پہلے ایک تنہائی کا احساس تنگ کرتا تھا۔
پلکیں اوڑھ کے سو جائے گا ہر منظر
اور اکیلا چاند فلک پر جاگے گا
اب تنہا ہیں مگر حوصلہ ہے۔
بجھا سکے تو بجھا دے کہ میری عادت ہے
دِیا جلا کے ہمیشہ ہوا میں رکھتا ہوں
میں نے پڑھااورآگے بڑھ گیا۔ حسبِ معمول!
رات بچھالی دشت میں چاند، سرھانا کر لیا
خواب کی چادر اُوڑھ لی ہجر ازالہ کر لیا
خاورِخستہ جاں نے بھی دیکھ! گزارا کر لیا!
اس مجموعے میں سیریل اور ڈراموں کے منظر نامے بھی نظر آتے ہیں۔ڈراما’’دُھند‘‘ کے لیے لکھی گئی ایک نظم سنئے۔
برف گنگناتی ہے
رات چلنے لگتی ہے
گہری نیند کا جنگل،اک ذرا سی آہٹ سے
سرسرانے لگتا ہے
دل کی ٹمٹماہٹ میں خوف کھوئے جانے کا
کسمسانے لگتا ہے
برف گنگناتی ہے
رات جلنے لگتی ہے
ڈراما چٹان کے لیے نظم ہے۔
’’زندگی وہ دھارا ہے
جس کی تیز لہروں میں
آدمی کو بہنا ہے۔‘‘
ایک ادا جو اُن کی تب بھی بہت بھلی لگتی تھی۔ وہ اب بھی اُتنی ہی اچھی لگتی ہے۔ نظموں میں کتھک کی چال چلتے ہوئے لمبے لمبے مصرعے،اور معنی کہیں چھوٹتے نہیں۔ گھنگھروؤں کی طرح قلم سے لپٹے رہتے ہیں۔
’’میں نے دیکھا، اُس کی آنکھوں میں کئی صدیوں کا گہرا
زرد سورج تھا کہ جس کا عکسِ وارفتہ مری نظموں کی
سطروں اور ادھوری خواہشوں کی شام سے لپٹا
پڑا تھا اور کمرا دونوں سمتوں سے مقفّل تھا!‘‘
ایک چھوٹا سا حوالہ اپنے لیے پیش کردوں۔ پانچ سال پہلے میں ایوب کو کم سمجھ پایا تھا۔ پانچ سال بعد اب اور بھی کم سمجھ پاتا ہوں ،اِس لیے کہ وہ پہلے سے بہت وسیع ہوگئے ہیں۔ بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ بڑے شاعر ہیں۔ ایوب کا کہنا ہے۔
تم کہتے ہو
نظم لکھو
اور اپنی اس اک بات کو خاور
مصرعوں میں زنجیر کرو
میں کہتا ہوں
درد میں لپٹی
سوگ میں ڈوبی
روگ کی روگی اس اِک بات کے کتنے معنی نکلیں گے
کیا تم نے یہ سوچا ہے؟