ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
یہ رئیس فروغ مرحوم کا شعر ہے۔ رئیس فروغ مرحوم بزم ادب کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بانیوں میں تھے۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس ادارہ کے لوگوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے اور فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی شمع روشن رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دی۔ سہ ماہی ’’صدف‘‘ کا معیار بلند کرنے اور بزم کی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے میں ان کا اہم حصہ ہے۔ جن لوگوں نے ان ادبی محافل اور مشاعروں میں شرکت کی ہے ان کے دلوں میں آج بھی مرحوم کی یاد تازہ ہے۔ سچ پوچھئے تو ہم پر رئیس فروغؔ کا یہ قرض تھا جو اس خصوصی شمارہ کی صورت میں ادا کیا جا رہا ہے۔ آج اگرچہ وہ ہماری بزم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کا نام جریدہ ’’صدف‘‘ میں روشن ہے۔
ہمارے معاشرہ میں اقدار بدلنے کا عمل جاری ہے۔ کچھ روایات دم توڑ رہی ہیں اور کچھ جنم لے رہی ہیں۔ رئیس فروغؔ اسی معاشرہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایک حساس انسان کا کرب پایا جاتا ہے۔ ان کا اپنا ایک لہجہ اور آہنگ تھا۔ انہوں نے غزل، نظم، بچوں کی نظمیں، تراجم اور مضامین غرض کئی اصناف سخن میں کام کیا اور سب میں اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ وہ اردو غزل اور نظم کے زندہ رہنے والے شاعر ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ان کی پندرہ سال کی وابستگی اس ادارے کیلئے باعثِ فخر ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...