لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
اس شعر کا تعلق خاص رئیس فروغؔ مرحوم کی شخصیت سے ہے، وہ بچوں اور بڑوں سب کے محبوب شاعر تھیا ور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک شریف النفس انسان تھے، ان کی شخصیت انکسار اور خلوص کا چلتا پھرتا پیکر تھی جو ہر دل کو موہ لیتی تھی۔ آج ان کا مسکراتا ہوا چہرہ گرچہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے لیکن وہ شعر و ادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کا کلام ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ ایسی ہی تابندہ شخصیتوں کے بارے میں سیماب اکبر آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل مرا مزار نہ پوچھ
اور سچ تو یہ ہے کہ رئیس فروغ بزم وفا کے چراغ تھے۔ جس نے محفل شعر و سخن کو اپنی حیات کے آخری لمحات تک روشن رکھا۔ رئیس فروغؔ سے میری پہلی ملاقات بزم ادب کے پی ٹی کی ایک ادبی محفل میں ہوئی جس میں وہ بڑے انہماک سے اپنے مخصوص لہجہ میں لہک لہک کر اپنا کلام سنا رہے تھے۔ ان کے لب و لہجہ اور طرز کلام نے دل کو موہ لیا تھا۔ جلسہ کے اختتام پر جناب سید یوسف حسینی نے جو اُس وقت بزم کے معتمد تھے مرحوم سے میری تفصیلی ملاقات کرائی اور بزم ادب کے ناطے ہم پھر ایک دوسرے سے بے حد قریب ہو گئے۔ رئیس فروغؔ بے حد سادہ مزاج اور رقیق القلب انسان تھے۔ انہیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں پر کبھی غرور نہیں رہا۔ وہ ہر شخص سے والہانہ ملتے اور دکھ سکھ میں سب کے شریک رہتے تھے۔ دفتر میں اکثر وہ اپنے دوستوں اور مداحوں کے درمیان گھرے رہتے تھے اور کوئی نہ کوئی موضوع زیر بحث رہتا، لوگ بڑی سنجیدگی سے ان کی باتیں سنتے اور ان کے طرز تکلم اور بذلہ سنجی سے لطف اندوز ہوتے۔ ابتداء میں وہ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سے منسلک رہے بعد ازاں ان کی ادبی و علمی صلاحیتوں کی بناء پر جناب اقبال قریشی نے جو اس وقت ویلفئیر اینڈ پبلک ریلیشنز افسر تھے اپنے شعبہ میں منتقل کروا لیا۔ چنانچہ یہاں رئیس فروغؔ کو ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بہتر مواقع ملے اور وہ بڑی دلچسپی اور مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ انہوں نے بزمِ ادب کی سرگرمیوں میں دل کھول کر حصہ لیا اور باقاعدہ ادبی و علمی اجلاس اور مشاعروں کا انعقاد کراکے یہاں کے ادبی حلقے کو وسیع کیا اور ان کا ذوق نکھارا۔ ان کی محفلیں اور مشاعرے یادگار ہیں اور رسالہ صدف کے مدیر کی حیثیت سے انہوں نے اہم ادبی خدمات انجام دیں جس پر اس وقت کے چئیرمین جناب اظہار علی عباسی مرحوم نے حسنِ کارکردگی پر انہیں انعامات سے بھی نوازا تھا۔
رئیس فروغؔ کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جن کی شاعری اپنے رنگ و آہنگ کے لحاظ سے منفرد ہوا کرتی ہے انہوں نے جن شعری پیکروں کا استعمال کیا ہے وہ ان کے افکار کو پر تاثیر بنانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے گیتوں، نظموں اور لوریوں میں روایتی علامات اور موضوعات کے پس منظر میں معصومیت، صداقت اور بانکپن کے بڑے حسین مرقعے ملتے ہیں۔ بچوں کے لئے ان کی پہلی تخلیق ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے سحر آگیں گیت اور لوریوں سے نمایاں ہے جس میں بھولے بھالے معصوم بچوں کو نرم لہجہ میں مشفقانہ اشعار سناتے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کتاب کے ابواب حمد، نعت، دعا، وطن، بستی، گاؤں، ندیا، بادل، رم جھم، بچپن، پہیلی، سسرال، گڑیا، مانجھی، ہاری، خواب، کھلونے، حب الوطنی، دوستی، محنتی لوگ اور یتیم بچہ میں بچپن کی آرزوئیں بڑی معصومیت اور رعنائی کے ساتھ سامنے آتی ہیں، جو بچوں کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کا کام کرتی ہیں اور ساتھ ہی سن رسیدہ انسانوں کو بھی بچپن کی یاد دلاتی ہیں۔ مختلف موضوعات پر ذیل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
دل جو جب مل گئی علم کی روشنی زندگی ہو گئی روشنی روشنی
جہاں اجلے بول برستے ہیں جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
دربار نبیؐ سبحان اللہ
خوشبو بنیں ہوائیں بادل بنے بچھونے اک شہر میں کتابیں اک شہر میں کھلونے
ہو گی مرے ہنر سے تعمیر اس وطن کی جاگے گی میرے فن سے تقدیر اس وطن کی
ہم ہی تو گھروں کی زینت ہیں بستی کے گھروں سے کہہ دینا
سب رنگ ہمارے دم سے ہیں تتلی کے پروں سے کہہ دینا
رئیس فروغؔ کے کلام میں سچائی کی خوشبو اور محبت کی مٹھاس پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ذہن کے دریچوں کو محبت کے رشتوں کے لئے وا کیا ہے اور اپنی علامتی شاعری سے قومی، معاشرتی اور فکری موضوعات کے مفہوم کو بڑی وسعت دی ہے جو ان کی آخری تصنیف ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کے ذیل کے اشعار سے مترشح ہے:
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
یہ عظیم بحر جو مرے شہر کے ساتھ ہے
میری ذات ہے
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
اتنا سچا ایسا جھوٹا اور ملے گا کون تجھے
تو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں
رات بہ ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈراپھر مجھے نیند آ گئی
ہند سے سندھ تک مزار مرے
میں نے مایا کہاں کہاں دابی
دوپہر میں و ہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغؔ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اُتر جائے گا
سوتے ہیں سب مراد کا سورج لیے ہوئے
راتوں کو اب یہ شہر دعا مانگتا نہیں
ایک عجیب فراق سے ایک عجیب وصال تک
اپنے خیال میں چلا پھر مجھے نیند آ گئی
رئیس فروغؔ فرماتے ہیں
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انہیں علم و ادب شعر و سخن سے اتنا گہرا عشق تھا کہ اپنی صحت کی پروا بھی نہ کرتے تھے اور ریڈیو، ٹی وی، بچوں کی انجمن ان کے پروگراموں اور دوستوں کی ادبی محفلوں کے لئے اپنی حیات کے شب و روز اور مہ و سال نذر کر دئیے۔
ان کے صاحبزادے جناب طارق نے مجھے بتایا تھا کہ انتقال کی رات وہ تقریباً ۱۲ بجے تک مطالعہ میں مصروف رہے اور پھر بستر پر آرام کی غرض سے گئے۔ ۵ اگست ۸۲ء مرحوم کی حیات کی آخری شب تھی جس میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مرحوم کو اپنے شعری مجموعے کی اشاعت کی بے انتہا فکر تھی چنانچہ مرحوم نے کتاب کی طباعت وغیرہ کے جملہ انتظامات اپنی زندگی ہی میں مکمل کر لیے تھے افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور یہ کام اُن کے رفیقانِ با وفا جناب شمیم نوید اور جناب وزیری پانی پتی نے سر انجام دے کر مرحوم کی روح کو شاد کیا۔ خدا رئیس فروغؔ کے دوستوں کو بھی شاد و آباد رکھے اور مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ میں اپنے تاثرات کا اختتام مرحوم کے اس شعر پر کرتا ہوں:
دستِ دعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا
ہر شب ہمیں چمکتے ہوئے خواب دیکھنا
٭٭٭